انسان قرآن کے آئینہ میں (قسط اول)
ندرت کار
پہلی صفت … کمزوری
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
﴿وَخُلِقَ الإِنسـٰنُ ضَعيفًا ٢٨ ﴾… سورة النساء "انسان کمزور پیدا کیا گیاہے”
نیز ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
﴿فَليَنظُرِ الإِنسـٰنُ مِمَّ خُلِقَ ٥ خُلِقَ مِن ماءٍ دافِقٍ ٦ يَخرُجُ مِن بَينِ الصُّلبِ وَالتَّرائِبِ ٧ إِنَّهُ عَلىٰ رَجعِهِ لَقادِرٌ ٨ يَومَ تُبلَى السَّرائِرُ ٩ فَما لَهُ مِن قُوَّةٍوَلا ناصِرٍ ١٠ ﴾… سورة الطارق
"انسان دیکھے کہ کس چیز سے پیدا کیا گیا؟ اُچھلتے پانی سے پیدا کیا گیا جو پشت اور سینوں کے درمیان سے نکلتا ہے، بے شک وہ اسے دوبارہ پیدا کرسکتا ہے، جس دن راز کھولے جائیں گے، اس دن اس کا کوئی زور اور کوئی مددگار نہ ہوگا”
بے شک انسان اتنا کمزور ہے کہ اپنے نفع و نقصان اور موت و حیات اور دوبارہ زندہ ہونے کا مالک نہیں۔ اور اگر اللہ کی رحمت نہ ہوتی تو اپنے اردگرد خوفناک قوتوں اور زبردست خطرات یعنی جانوروں، زہریلے کیڑوں مکوڑوں اور ان مخلوقات کے ساتھ جنہیں اللہ ہی جانتا ہے وہ اس روئے زمین پر زندہ نہ رہ سکتا…یقینا یہ انسان جو مخلوط ‘منی’ سے پیدا ہوا ہے، اتنا کمزور ہے کہ اگر اس کے بدن میں کانٹا چبھ جائے یا ذرا سا زخم ہوجائے تو رات بھر سو نہیں سکتا۔ اگر اس پراللہ کا کوئی ہلکا سا عذاب بھی نازل ہوجائے تو اسے سکون و قرار اور جمع خاطر نصیب نہ ہو… یہ جسمانی حیثیت میں بھی سب سے کمزور ہے۔ اگر جراثیم جو آنکھ سے دکھائی نہیں دیتے، اس پر غالب آجائیں تو اس کی طاقت برباد کردیں اور اگر مکھی اس سے کوئی چیز چھین لے تو واپس نہ لے سکے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
﴿وَإِن يَسلُبهُمُ الذُّبابُ شَيـًٔا لا يَستَنقِذوهُ مِنهُ ۚ ضَعُفَ الطّالِبُ وَالمَطلوبُ ٧٣﴾… سورة الحج
"اور اگر ان سے مکھی کوئی چیز چھین لے تو اس سے چھڑا (نکال) نہ سکیں، طالب (انسان) اورمطلوب (مکھی) دونوں کمزور ہیں ”
کسی شاعر نے کہا ہے*
نسی الطين ساعة أنه طين حقير
فصال تيهًا و عربدا
و کُسی الخزَّ جسمُه فتباهي
وحوی المال کيسُه فتمرَّدا
أنت مثلي يهِش وجهک للنعمی
وفي حالة المصيبة يکمَد
"خاک نے جب فراموش کردیا کہ وہ حقیر خاک ہے تو شرارت اور تکبر کرنے لگی” …”اور اس کے بدن کو ریشم پہنایا گیا تو فخر کرنے لگی اور اس کی جیب میں مال آگیا تو سرکش ہونے لگی”…”تو مجھ جیسی ہے جس کے چہرے کونعمت شاداں کردیتی ہے اور مصیبت کی حالت میں جھونپڑا ہوجاتا ہے”
دوسری صفت … ناامید، خوشی، فخر اور اِسراف
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں
﴿وَلَئِن أَذَقنَا الإِنسـٰنَ مِنّا رَحمَةً ثُمَّ نَزَعنـٰها مِنهُ إِنَّهُ لَيَـٔوسٌ كَفورٌ ٩ وَلَئِن أَذَقنـٰهُ نَعماءَ بَعدَ ضَرّاءَ مَسَّتهُ لَيَقولَنَّ ذَهَبَ السَّيِّـٔاتُ عَنّى ۚ إِنَّهُ لَفَرِحٌ فَخورٌ ١٠ ﴾… سورة هود
"جب ہم انسان کو اپنی کوئی رحمت چکھاتے ہیں پھر اس سے چھین لیتے ہیں تو وہ نااُمید، ناشکرا ہوجاتاہے اور جب ہم اسے پریشانی کے بعد نعمت چکھاتے ہیں تو وہ ضرور کہتا ہے کہ میری پریشانیوں دور ہوگئیں اور اِترانے اور فخر کرنے لگتا ہے” … اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَإِذا مَسَّ الإِنسـٰنَ الضُّرُّ دَعانا لِجَنبِهِ أَو قاعِدًا أَو قائِمًا فَلَمّا كَشَفنا عَنهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَن لَم يَدعُنا إِلىٰ ضُرٍّ مَسَّهُ ۚ كَذٰلِكَ زُيِّنَ لِلمُسرِفينَ ما كانوا يَعمَلونَ ١٢ ﴾… سورة يونس
"اور جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو لیٹے، بیٹھے اور کھڑے (ہر حالت میں ) ہم کو پکارتا ہے اور جب ہم اس کی تکلیف دور کردیتے ہیں تو ایسے گزر جاتا ہے جیسے ہمیں کسی تکلیف میں پکارا ہی نہ ہو، ایسے ہی اِسراف پسندوں کے عمل ان کے لئے خوشنما بنا دیئے جاتے ہیں ” … اور اِرشاد ہے:
﴿وَإِذا مَسَّهُ الشَّرُّ كانَ يَـٔوسًا ٨٣ ﴾… سورة الاسراء
"اور جب اسے پریشانی ہو تو مایوس ہوجاتا ہے” … اور فرمایا:
﴿وَإِذا أَذَقنَا النّاسَ رَحمَةً فَرِحوا بِها ۖ وَإِن تُصِبهُم سَيِّئَةٌ بِما قَدَّمَت أَيديهِم إِذا هُم يَقنَطونَ ٣٦ ﴾… سورة الروم
"اور ہم انسان کو اپنی کوئی رحمت چکھاتے ہیں تو اس کی وجہ سے اِترانے لگتا ہے اور اگر اپنے کرتوت کی وجہ سے اسے ذرا سی تکلیف پہنچتی ہے تو یکایک نااُمید ہوجاتا ہے”
اللہ تعالیٰ کا یہ بھی ارشاد ہے:
﴿وَإِذا مَسَّ النّاسَ ضُرٌّ دَعَوا رَبَّهُم مُنيبينَ إِلَيهِ ثُمَّ إِذا أَذاقَهُم مِنهُ رَحمَةً إِذا فَريقٌ مِنهُم بِرَبِّهِم يُشرِكونَ ٣٣ ﴾… سورة الروم
"اور جب انسانوں کو کوئی تکلیف ہوتی ہے تو اللہ کی طرف توجہ دے کر پکارتے ہیں اورجب وہ انہیں کوئی رحمت چکھا دیتا ہے تویکایک ان کا ایک گروہ اپنے ربّ کے ساتھ شرک کرنے لگتا ہے”
اکثر اوقات انسان پل بھر میں نااُمید ہوجاتا ہے اور محض نعمت کے چھن جانے سے اللہ تعالیٰ کی ناشکری کرتا ہے اور آسائش کی حالت میں اِتراتا ہے۔ کسی مشکل کو برداشت نہیں کر پاتا۔ نہ کسی تکلیف پر صبر کرتا ہے اور نہ اس کے دور ہونے کی اُمید رکھتا ہے۔ جب اللہ اسے نعمت دیتا ہے تو————— اس کے زوال کے بارے میں نہیں سوچتا اور مغرور بن کر اکڑتا ہے۔ ایسے لوگ بہت کم ہیں جنہوں نے اپنے نفس کی تربیت صبر اور نیک اَعمال پر کی ہے اور مشکلات کو برداشت کیا اور اللہ کی عطا کی ہوئی نعمت کا شکریہ ادا کیا ہے۔
انسان کی عام صفت جیسا کہ بیان کیا گیا ہے: تکلیف پر ناامید، نعمتوں کی ناشکری اور راحت اور آرام ملنے پر خوش ہونا، تکبرکرنا، شرارت و اِسراف اور ہر چیز میں حدود سے تجاوز کرنا ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اپنے نفس کی تربیت ایسے کریں کہ نہ بہت خوش ہوں نہ بے حد نااُمید۔اللہ کا فرمان ہے:
﴿ما أَصابَ مِن مُصيبَةٍ فِى الأَرضِ وَلا فى أَنفُسِكُم إِلّا فى كِتـٰبٍ مِن قَبلِ أَن نَبرَأَها ۚ إِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسيرٌ ٢٢ لِكَيلا تَأسَوا عَلىٰ ما فاتَكُم وَلا تَفرَحوا بِما ءاتىٰكُم ۗ وَاللَّهُ لا يُحِبُّ كُلَّ مُختالٍ فَخورٍ ٢٣ ﴾… سورة الحديد
"جو بھی مصیبت زمین یا تمہارے اوپر سے آتی ہے وہ زمین کے پیدا ہونے سے پہلے ایک کتاب میں محفوظ ہے بے شک یہ اللہ پر آسان ہے تاکہ تم سے جو چیز چھن جائے اس پر افسوس نہ کرو اور جو (چیز) تمہیں دے اس پر اتراؤ نہیں اور اللہ خود پسند مغرور کو قطعا ً پسند نہیں فرماتے”
تیسری صفت … ظلم و ناشکری (3)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿إِنَّ الإِنسـٰنَ لَظَلومٌ كَفّارٌ ٣٤ ﴾… سورة ابراهيم "بے شک انسان بڑا ظالم ناشکرا ہے”
اور فرمایا:
﴿إِنَّ الإِنسـٰنَ لَكَفورٌ مُبينٌ ١٥ ﴾… سورة الزخرف "بے شک انسان کھلم کھلا ناشکرا ہے”
اور اس کا ارشاد ہے:
﴿قُتِلَ الإِنسـٰنُ ما أَكفَرَهُ ١٧﴾… سورة عبس "انسان ہلاک ہو وہ کتنا ناشکرا ہے”
لہٰذا کفر اور ظلم انسان کی پائیدار صفت ہے اور جب تک اللہ تعالیٰ اسے ہدایت کی توفیق نہیں دیتا وہ اللہ کی نعمتوں کی ناشکری اور وہ اس وقت تک اپنے اور دوسروں پر ظلم کرتا رہتا ہے جب تک اپنے نفس کو اسلام کے اَحکامات اور محاسن پر درست نہ کرلے۔
انسان جب خود کو مالدار اور طاقتور دیکھتا ہے تو دوسروں پر ظلم و زیادتی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ظلم کرنا اس کی پائیدار صفت بتائی گئی ہے اور اسی لئے نماز میں اللہ تعالیٰ سے یہ دعاکی جاتی ہے:
«اَللّٰهُمَّ إنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِيْ ظُلْمًا کَثِيْرًا، وَلاَيَغْفِرُ الذُّنُوْبَ إلاَّ أنْتَ فَاغْفِرْ لِيْ مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِکَ وَارْحَمْنِیْ إنَّکَ أنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ» (صحيح بخارى1/115)
"اے اللہ! میں نے اپنے اوپر بہت ظلم کیا اور گناہوں کو آپ ہی بخشتے ہیں، آپ اپنی طرف سے مجھے بخش دیں اور مجھ پر رحم کریں آپ غفور رحیم ہیں "
اور زیادہ تر لوگ اپنے ربّ کے نافرمان اور اس کے دین سے بیزار ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَإِن تُطِع أَكثَرَ مَن فِى الأَرضِ يُضِلّوكَ عَن سَبيلِ اللَّهِ ۚ إِن يَتَّبِعونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِن هُم إِلّا يَخرُصونَ ١١٦ ﴾… سورة الانعام
"اور اگر آپ روئے زمین کے زیادہ تر لوگوں کے پیچھے چلیں گے تو وہ آپ کو اللہ کے راستے سے دور کردیں گے، وہ تو اندازے ہی کے پیچھے چلتے اور قیاس آرائی کرتے ہیں "
فرمانِ الٰہی ہے: ﴿وَما أَكثَرُ النّاسِ وَلَو حَرَصتَ بِمُؤمِنينَ ١٠٣ ﴾… سورة يوسف
"اور زیادہ تر لوگ آپ چاہیں تو بھی موٴمن نہیں ہوں گے”
صحیح موٴمنوں کی تعداد کافروں کی نسبت سیاہ بیل کے بدن پر سفید بال کی طرح ہے اور یہ بات حدیث میں وارد ہے۔ اور یہ بھی کہ جہنم کا لشکر ہر ہزار میں نو سوننانوے ہوگا۔ ہم اللہ سے سچائی اور ہدایت پر ثابت قدم رہنے کی دعاکرتےہیں .
چوتھی صفت … لڑائی اور تکرار
اللہ کا ارشاد ہے: ﴿خَلَقَ الإِنسـٰنَ مِن نُطفَةٍ فَإِذا هُوَ خَصيمٌ مُبينٌ ٤ ﴾… سورة النحل
"انسان نطفے سے پیدا کیا گیا، پھر یکایک جھگڑالو بن بیٹھا”
اور اس کا ارشاد ہے: ﴿وَكانَ الإِنسـٰنُ أَكثَرَ شَىءٍ جَدَلًا ٥٤ ﴾… سورة الكهف
"اور انسان سب سے بڑھ کر جھگڑالو ہے”
بے شک یہ حقیرنطفے سے پیدا کی گئی مخلوق اپنی فطرت کوبدل لیتی ہے اور جھگڑالو بن جاتی ہے۔ اپنے اس ربّ سے جھگڑتی ہے جس نے اسے عدم سے وجود بخشا۔ اس میں جان پیدا کی اور اس کے کان، آنکھ اور دل بنائے، وہ بلاوجہ اللہ کے وجودِ الوہیت کے بارے میں جھگڑتا ہے۔ یہ ہے کون کہ علم و ہدایت اور روشن کتاب سے ہدایت حاصل نہ کرے اور اللہ کے بارے میں جھگڑے۔
انسان! جیسا کہ علیم و خبیر نے بیان کیاہے، سب سے زیادہ جھگڑالو ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سی مخلوقات پیدا کی ہیں اور وہ سب اس سے کم جھگڑالو ہیں اوریہ بڑی باعث ِشرم بات ہے۔اس لئے انسان کو اپنے غرور و تکبر سے باز آنا چاہئے… اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو سمجھانے کے لئے مثالیں بیان کیں، لیکن وہ سچائی کے ظاہر ہوجانے کے باوجود اس کے بارے میں جھگڑتے ہیں۔ اگر انسان اس بدترین اَخلاقی بیماری کا علاج نہ کرے اور شفا بخش دوا سے اس کا اِزالہ نہ کرے تو یہ کتنی بری بیماری ہے!!
لڑائی اور جھگڑا منافقوں کی خصوصیت ہے۔ وہ اپنے جھگڑوں میں بدزبانیاں کرتے ہیں اور حدیث میں انکی یہ صفت آئی ہے کہ «إذا خاصم فجر» "جب جھگڑتا ہے تو بدزبانی کرتا ہے” لیکن مسلمان کیلئے تو یہ ضروری ہے کہ مخالفوں سے بحث و تکرار بھی کرے تو اچھائی کے ساتھ اور لہجہ مناسب رہے، اِرشاد ہے :
﴿ادعُ إِلىٰ سَبيلِ رَبِّكَ بِالحِكمَةِ وَالمَوعِظَةِ الحَسَنَةِ ۖ وَجـٰدِلهُم بِالَّتى هِىَ أَحسَنُ…١٢٥ ﴾… سورة النحل
"اپنے رب کی طرف حکمت اور بہتر نصیحت کے ذریعہ دعوت دو اور ایسے انداز سے جھگڑو جو بہترین ہو”
تبصرے بند ہیں۔