آئن سٹائن: تعارف اور حالات زندگی (قسط چہارم)
ادریس آزاد
گریوٹیشنل ویو کی دریافت نے انسانوں کو ابھی اور کوئی فائدہ پہنچایا یا نہیں، لیکن ایک فائدہ ضرور پہنچایا ہے اور وہ یہ کہ پوری دنیا کے انسان جدید فزکس کی طرف نہ صرف متوجہ ہوگئے ہیں بلکہ مزید جاننے کے شوق میں ازخود تحقیق میں بھی مصروف نظرآرہے ہیں۔
اس سے یہ ہوگا کہ والدین اور اساتذہ کی دلچسپی، بچوں کو جدید فزکس بلکہ تمام فزکس کی طرف مائل کرنے کا سبب بنے گی۔ طلبہ ازخود اپنے لیے اس نان اپلائیڈ ڈسپلن کو پہلی بار پسند کرنا شروع کرینگے اور کائنات کے متعلق قدرے بڑے پیمانے پر حقیقی غوروفکرشروع ہوگا۔
جدید فزکس میں بے پناہ کشش ہے۔ انسان روز اوّل سے اپنے بارے میں جاننا چاہتاہے اور اپنے بارے میں جاننے کے لیے وہ ضروری سمجھتاہے کہ کائنات کے بارے میں جانے۔
قبل ازیں کائنات کے بارے میں انسان کے پاس جس قدر بھی علم تھا وہ اب تقریباً تمام کا تمام ہی نظر ثانی کے مقام پر کھڑا ہے۔ سٹی یونیورسٹی کے ایک امریکی پروفیسر نے ایک انٹرویو میں کہا،
’’جدید فزکس کی دنیا کہاں سے کہاں جاپہنچی ہے اور ہم ابھی تک ڈیڑھ سوسال پرانا نصاب پڑھا رہے ہیں‘‘۔
اس بیان پر مجھے بے ساختہ مسکرانا پڑا۔
’’تو کیا امریکی طلبہ کے لیے بھی کائنات کا نیا سٹرکچر بالکل نیا ہے؟‘‘
میرے بیٹے اسد کے ایک کلائنٹ ہیں جو امریکہ کی کسی یونیورسٹی میں سوشیالوجی کے سینئر پروفیسر ہیں، پی ایچ ڈی ہے اور اچھے خاصے قابل انسان ہیں۔
اسد (میرے بیٹے) نے ان کے ساتھ گریویٹیشنل ویو والے دن جب سکائپ پر گپ شپ کی اور اُنہیں سمجھایا کہ گریوٹیشنل ویو اصل میں ’’ہے کیا چیز‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اورمیں کھُلے سپیکرز پر سن رہاتھا وہ مارے حیرت کے دیوانہ ہوئے جاتے تھے اور بار بار کہتے جاتے تھے۔
’’عجیب بات ہے، تم پاکستان میں بیٹھ کر مجھے گریویٹیشنل ویو کی ماہیت سمجھا رہے ہو!!!‘‘۔
اس میں فی الحقیقت حیرت کی کوئی بات نہیں۔ وہ سوشیالوجی کے پروفیسر ہیں سائنس کے نہیں۔ سو ضروری نہیں کہ محض امریکن ہونے کے ناطے انہیں گریوٹیشنل ویو کا پتہ ہوتا۔
لیکن یہ بات اپنی جگہ دلچسپی کا باعث ہے کہ کائنات کی ساخت کا جدید علم سب انسانوں کے پاس برابر برابر پہنچ رہا ہے۔
وہ ایک پاکستانی سٹودینٹ ہو یا امریکی۔ انٹرنیٹ اور دیگر میڈیا نے جس میں خاص طور پرٹی وی اور ہالی وُوڈ کی سائی فائی فلموں کے علاوہ ویڈگیمز کا بہت اہم کردار ہے، کائنات کی نئی ساخت کو دنیا کے ہرانسان کے سامنے یوں رکھ دیا کہ اب جو چاہے اس سے ازخود مستفیض ہولے۔
چند دن قبل شوذب کے ساتھ میرے گھر ایک نوجوان میسم علی آیا۔ بچے کی عمر اٹھارہ سال سے زیادہ نہیں۔ میسم نے جب ٹائم اور سپیس پر بولنا شروع کیا تو میں انگشت بدنداں اُسے دیکھتا چلا گیا، دیکھتا چلا گیا۔
وہ نہ صرف بہت کچھ جانتا تھا بلکہ ان گنت مفروضے تھے جو وہ پیش کررہا تھا اور جو سب کے سب لاجیکل اور قابل ِ عمل تھے۔
آدھی رات تک اسے مسلسل سننے کے بعد میں نے میسم سے پوچھا، ’’یہ سب علم تم نے کہاں سے حاصل کیا؟‘‘ تو اس نے مختصر جواب دیا، ’’ویڈیو گیمز اور ہالی وُڈ کی موویز سے‘‘۔ اس کی اِس بات پر میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔
مسئلہ یہ ہے کہ دنیا بھر کے سکولوں میں نصاب ہمیشہ بہت دیر سے بدلا کرتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں اسّی کی دہائی میں کمپیوٹر ہرچھوٹے بڑے شہر میں آچکا تھا۔
پرائیویٹ اکیڈمیاں ہوا کرتے تھی، ’’کمپیوٹر سیکھیے!‘‘ طرز کی بہت سادہ اکیڈمیاں۔ اس جنریشن نے تب سے کمپیوٹر سیکھنا شروع کردیا تھا۔
پچانوے میں جب پہلی ونڈو آئی تو اس وقت کمپیوٹر دفاترمیں بھی استعمال ہونا شروع ہوگئے تھے۔ لیکن تب تک بھی کمپیوٹر ابھی ایک مضمون کے طور پر ہمارے سکول کے نصاب کا حصہ نہیں بنا تھا۔
ہم نے جب پاکستان میں کمپیوٹر کو نائنیتھ کے نصاب کا حصہ بنایا تب تک بہت دیر ہوچکی تھی اور ہماری کئی نسلیں یا تو کمپیوٹر کی تعلیم کے بغیر پاس آؤٹ کرگئی تھیں یا پھر انہوں نے اپنے طور پر خود کمپیوٹر سیکھ لیا تھا۔ اس بات سے میں یہ ثابت کرنا چاہتاہوں کہ جب کوئی نئی دریافت یا ایجاد وقوع پذیر ہوتی ہے تو دنیابھر کے سکولوں میں وہ فوری طور پر نصاب کا حصہ نہیں بن پاتی۔
چاہے ملک امریکہ ہی کیوں نہ ہو۔ اور پھر آئن سٹائن کی فزکس تو چیز ہی ایسی ہے کہ ہر ذہن اس کو آسانی سے نہ سمجھ سکتاہے نہ ہضم کرسکتاہے۔ مثلاً سپیشل تھیوری میں جب ٹائم ڈائلیشن کا سلسلہ شروع ہوتاہے تو پیراڈاکسز کا ایک جہان کھُل جاتاہے۔
اور یہ بات تقریباً سب ہی جانتے ہیں کہ ہر ذہن معمّے یعنی پزلز Puzzles حل کرنے والا نہیں ہوتا۔ اس لیے آئن سٹائن کی فزکس خود بخود ایک مشکل مضمون بن جاتی ہے جو کم ازکم کسی رٹا مار کر بڑی ہونے والی جنریشن کے بس کا تو ہرگز کام نہیں ہوسکتی۔
اس پر مستزاد مادہ پرست دور کا اپلائڈ ایجوکیشنز کی طرف بڑھا ہوا رجحان ہے۔ میتھ تک کو اپلائیڈ کرکے الگ سے پڑھایا جاتاہے۔ اپلائیڈ ایجوکیشن کیا ہے؟ اگر ہم اس کی تعریف پر جائینگے جو کتابوں میں لکھی ہے تو ہم دھوکا کھاجائینگے۔
اپلائیڈ ایجوکیشن اپنی کُنہ میں یہ ہے کہ ’’ایسی تعلیم جس سے ہم سرمایہ دارانہ نظام کو بہتر سے بہترطورپر سَرو کرسکیں‘‘۔ یا ’’ایسی تعلیم جس سے ہم روزگار کماسکیں‘‘۔
اگرچہ یہ کتابی تعریف نہیں ہے لیکن حقیقت یہی ہے۔ نان اپلائیڈ ایجوکیشن کیا ہے؟
’’ایسی تعلیم جس سے ہم کچھ نہ کما سکیں‘‘۔
جیسے فلسفہ پڑھنے سے بندہ کچھ بھی نہیں کما سکتا۔ نہ خود امیر آدمی بن سکتاہے اور نہ ہی اپنی قوم کو امیربنا سکتاہے۔ چنانچہ فلسفہ نان اپلائیڈ ایجوکیشن ہے۔ اسی طرح فزکس کا بھی یہی حال ہے۔ جدید فزکس کا تھیوریٹکل حصہ نان اپلائیڈ سمجھا جاتاہے۔
کوئی کتنے پیسے کمالیگا؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر اسے یہ پتہ چل بھی جائے کہ کائنات کس طرح بنی ہے؟
ہاں البتہ اگر آپ ’’جیو فزکس‘‘ پڑھتے ہیں تو آپ کو تیل نکالنے یا ڈھونڈنے والی کمپنیاں اچھی جاب دے سکتی ہیں۔ جیسے ہماری قائدِ اعظم یونیورسٹی کا ، جیو فزکس کا ہر طالب علم ’’او جی ڈی سی ایل‘‘ (ٓئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کارپوریشن لمٹڈ) میں جانا چاہتاہے، جہاں تنخواہیں بہت زیادہ ہیں۔
چنانچہ ایک تو جدید فزکس کا زیادہ تر حصہ نان اپلائڈ اور اِس لیے مالی فائدہ نہ دینے والا مضمون ہے، دوسرے جدید فزکس بہت تیزی کے ساتھ جدید سے جدید ہوتی جارہی ہے اور امریکہ سمیت ابھی دنیا کے کسی ملک میں اتنی ہمّت نہیں کہ نصاب میں اسے اُن تمام دعوں کے ساتھ جگہ دے سکے جو نیوٹن کی بعض اہم ترین تعریفوں کو رد کردیتے ہیں۔
مثلاً یہی گریوٹی کو ہی لے لیں۔ نیوٹن کی گریوٹی، کہ ’’چیزیں ایک دوسرے کو اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ یا ستارے سیاروں کا اپنی طرف کھینچتے ہیں یا زمین پر چیزیں اس لیے گرتی ہیں کہ زمین انہیں اپنی طرف کھینچتی ہے‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی تک ہمارے سکولوں کے نصاب کا حصہ ہے۔ ہم نے ایک سوسال گزرجانے کے بعد بھی گریوٹی کی تعریف کو نہیں بدلا۔
امریکہ سمیت دنیا بھر کے ایجوکیشنسٹس اس بات سے پریشان ہیں کہ وہ کریں تو کیا؟
اگر وہ جدید فزکس کی جدید تعریفوں کو نصاب میں جگہ دیتے ہیں تو اس سے یہ ہوگا کہ بنیادی فزکس جس کی بنا پر حکومتوں کی مشینریاں چل رہی ہیں اور جس کی بنا پر میکانکس کو عروج حاصل ہے ۔ جس کی طرف آکر دنیا بھر کے طالب علم اپنے اپنے ملکوں کو مزید مشیینیں بنا کر دینے کے اہل ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ وہ سب کی سب بدل گئی تو کیاہوگا؟
ہماری مشینیں کون بنائے گا؟
سڑکوں پر گاڑیاں کون چلائیگا؟
مکینکل انجنئرنگ کی طرف طلبہ کی توجہ کم ہوگئی تو کیا ہوگا؟
سرمایہ دارانہ نظام کا سارا پہیہ ہی رک جائیگا۔
پاکستان میں ایک ہی یونیورسٹی ہے ’’پیاس‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو جدید فزکس کے بعض حصوں کو پڑھانے کی دعوے دار ہے۔ اور وہ یونیورسٹی بھی ہمارے ادرے ’’ایٹامک انرجی‘‘ کے تحت اور اسی کے مقاصد پورے کرنے کے لیے بنائی گئی ہے۔
چونکہ اس یونیورسٹی کی کانسنٹریشن محض پارٹیکل فزکس اور اس میں بھی محض انرجی کے حصول کے مقصد پر مرکوز ہے اس لیے وہاں سے بھی ہمیں کوئی فائدہ نہیں مل رہا۔ اس پرمستزاد یہ ستم ہے کہ اس یونیورسٹی سے فارغ ہونے والے طلبہ بھی رٹا مار کر آرہے ہیں اور فی الحقیقت ان آئیڈیاز سے ناواقف ہیں جو جدید فزکس کے تھیوریٹکل پہلوؤں کی وضاحت کرتے ہیں۔
اگرفقط وہاں سے ہی سچے، سائنسدان برآمد ہونے لگ جائیں تو اور نہیں اِس ملک کی بجلی کا مسئلہ سچ مچ حل ہوسکتاہے۔
خیر!۔۔۔۔۔ تو چونکہ بنیادی مقصد انرجی کا حصول ہے، اس لیے ہم پیاس میں پڑھائی جانے والی پارٹیکل فزکس کو بھی اپلائیڈ فزکس ہی شمار کرینگے۔
لے دے کے ہمارے پاس وہی کمپیوٹرکے زمانے والا حل بچ جاتاہے کہ ہم اپنے اپنے طور پر ماڈرن فزکس کے ان حصّوں کا جن میں ہماری دلچسپی بوجہ
’’شوق ِ حصول ِ علم‘‘ قائم ہے، خود مطالعہ کریں۔
زیادہ سے زیادہ لکھیں۔ زیادہ سے زیادہ وڈیوز بنائیں۔زیادہ سے زیادہ لیکچرز اور سیمینارز کا اہتمام کریں۔ جیسا کہ فیس بک پر ایک فورم ’’سائنس کی دنیا‘‘ جناب قدیر قریشی صاحب کی زیرسرپرستی بہت اچھا کام کررہا ہے۔
بس ایک دلی تمنّا ہے کہ جو کوئی بھی یہ کام قومی آگہی اور ہمارے بچوں کی ذہنی نشوونما کے لیے انجام دے وہ اپنے دل سے کسی بھی قسم کے ذاتی عقائد اور عزائم نکال کر میدان میں اُترے۔ کیونکہ قبل ازیں پرویز ھود بھائی نے حد سے زیادہ اچھا کام کیا۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن اُن کا مِشن فزکس کی ترویج کے ساتھ ساتھ مذہب کی تردید بھی تھا سو نتائج وہ نہ نکل سکے جو حقیقتاً ہمارا مدعا ہوسکتے تھے۔
بعینہ اسی طرح کسی ادارہ یا فرد کا مذہب اور مابعدالطبیعات کی تصدیق کے لیے ان افکار کو استعمال کرنا بھی فلسفہ کی اصطلاح میں متکلم (Scholastic) ہونا ہے، جو جدید فلسفہ کے نزدیک مستحسن نہیں۔
تبصرے بند ہیں۔