تبسم فاطمہ
دیکھتے ہی دیکھتے ہندوستان کی آزادی کو 70 برس گزرگئے ۔ ان ستر برسوں کی سیاست کا تجزیہ کیجئے تو ایسے کئی مقام آئے جب آزادی، سیکولرزم اور جمہوریت جیسے الفاظ پر دھول کی پرتیں جمتی ہوئی محسوس ہوئیں — لیکن آندھی اور طوفان کے گزرنے کے بعد یہ غیرمعمولی الفاظ حرکت کرتے ہوئے ہمارے حوصلے اور اعتبار کو دوبارہ بحال کردیتے۔ غور کریں تو یہ صرف الفاظ نہیں ہیں، ہمارے ہندوستان کی سرزمین کی مضبوط بنیاد ہیں جنہوں نے اس ملک کے کردار کے فروغ اورتعمیر وتشکیل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ اس لیے عالمی سطح پر جب ہندوستان کا نام آتا ہے تو یہ نام ایک ایسے ملک کا نام ہوتا ہے جس کی تہذیب و ثقافت، سیکولر اور جمہوری کردار پر ایک دنیا بھروسہ کرتی آئی ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ان تین برسوں میں اٹھنے والی فرقہ واریت کی آندھیوں کے باوجود ہمارے یقین اور اعتماد میں کہیں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔
یقین اس بات پرکہ چند مفاد پرست، خود غرض اور ملک کی سالمیت اور وقار کو مجروح کرنے والوں کا حوصلہ ابھی اتنا نہیں بڑھا کہ ہندوستان کے سیکولر ڈھانچے کو مسمار کرسکیں ۔ آزادی کے بعد یہ کوششیں ہوتی رہی ہیں —فرقہ وارانہ فسادات بھی ہوتے رہے— لیکن ہماری تہذیب کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ شر پسندوں کے حوصلے ٹوٹ جاتے اور گنگا جمنی تہذیب کی طرح ہندو مسلم گلے لگ جاتے۔ ان تین برسوں کی سیاست کا جائزہ لیجئے تو اروندھتی رائے یوگیندر یارو، پرشانت بھوشن، برکھادت، راجندر سچر، سپریم کورٹ کے جج اور دانشوروں کا ایک بہت بڑا قافلہ ہے جو مسلمانوں اور دلتوں کی حمایت میں اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ یہ قافلہ ہندو دہشت گردی کی مخالفت میں اس لیے کھل کر سامنے آچکا ہے کہ اس قافلہ میں شامل افراد سیکولر اور جمہوری تہذیب کو فنا ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور یہ بات انہیں منظور نہیں ہے۔ اورجب تک ہمارے درمیان ایسے لوگ ہیں ، اس ملک کے دلتوں اور مسلمانوں کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور وزیراعظم نریندر مودی کو بھی، اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ صدیوں پرانی گنگا جمنی تہذیب کا خاتمہ کسی قیمت پر ممکن نہیں ہے۔ وزیراعظم مودی نے ہجومی دہشت گردی کے خلاف بیان ضرور دیا، مگر محض بیان دینا موجودہ حالات سے پلڑہ جھاڑنے جیسا ہے۔ سب کا ساتھ، سب کا وکاس، کانعرہ دینے والے وزیر اعظم کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ عملی طور پر ایسے پرتشدد مظاہروں کو روکیں اور ان دہشت گردوں کو سزا سنائیں جو ملک کی سالمیت اور جمہوری قدروں کا خون کرنے پر آمادہ ہیں ۔
اس حقیقت سے انکار مشکل ہے کہ راجیہ سبھا میں طاقتور ہونے کے ساتھ اور بہار فتح کے بعد بی جے پی کی طاقت میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ اور ابھی سے ایسا لگنے لگا ہے کہ بی جے پی، دو ہزار انیس کی جنگ بھی جیت چکی ہے۔ نتیش نے بی جے پی کارڈ اس لیے کھیلا کہ مردہ کانگریس اور اپازیشن کا اتحاد بھی نتیش کو کمزور نظر آرہا تھا۔ یہ ان کا سیاسی فیصلہ تھا، لیکن اس فیصلے کی روشنی میں وہ کیا کچھ حاصل کرپائیں گے، ابھی یہ فیصلہ وقت کو کرنا باقی ہے۔ آزادی کے سترسالہ جشن کا حصہ بنتے ہوئے ہمارے لیے بھی یہ سوال اہم ہو جاتا ہے کہ حکمراں طبقہ ہماری اس آزادی کو کن نظروں سے دیکھ رہا ہے۔؟ اگر کانگریس اوراپازیشن مردہ ہوگئی ہے تو اس سے ہماری آزادی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
آزادی کے لیے اگر ہندوئوں نے خون بہایا تو مسلمانوں اوردلتوں نے بھی۔ ملک میں رہنے والے سکھوں اور عیسائیوں نے بھی۔ لیکن ملک کے سیاسی صفحات پر آج جس عصبیت اور تفریق کا نمونہ پیش کیاجارہا ہے، وہاں نصاب کی کتابوں سے مسلمانوں کے نام ہذف کیے جاچکے ہیں ۔ یہ کیسا جشن اور کیسی آزادی ہے کہ ملک پر جان قربان کرنے والے مسلم مجاہدوں اور سپاہیوں کو تاریخ کی کتابوں سے باہر کا راستہ دکھادیاگیا ہے۔ جشن آزادی کے موقع پر ٹی وی چینلس پر جو فلمیں دکھائیں جارہی ہیں ، ان میں عام طور پر مسلمان کا چہرہ کسی دہشت گرد کا چہرہ ہوتا ہے۔ یہ سلسلہ چلتا رہا تو نئی نسل اس نفسیاتی مرض کی شکارہو جائے گی کہ مسلمانوں نے یا تو صرف دہشت گردی کے کارنامے انجام دیے ہیں یا ملک کے وقار کو مجروح کیا ہے اور جب ہندوستان کو آزادی ملی، اس وقت کسی بھی مسلمان کی کوئی نمائندگی اس ملک میں نہیں تھی۔ آزادی کا جشن مناتے ہوئے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ہم حال اور مستقبل کے، کیسے ہندوستان کے گواہ بن رہے ہیں ۔؟
ابھی حال میں سپریم کورٹ کے وکیل اور سوراج ابھیان کے بانی پرشانت بھوشن نے یہ بیان دیا کہ جنگ آزادی کی جدو جہد میں مسلمانوں کے اہم کردار سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جدو جہد کے دوران لکھے گئے تمام نعرے اور نغمے مسلمانوں نے بنائے جبکہ ہندوتو تنظیموں نے کچھ نہیں کیا۔ یہ بیان متنازعہ تو ہوسکتا ہے لیکن اس بیان کی حقیقت سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا۔ تاریخی واقعات یہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ غلامی کے ایام میں آر ایس ایس نے انگریزوں سے وفاداری نبھائی تھی۔ آر ایس ایس لیڈر مادھو سدا شیو گوولکر نے تو یہاں تک بیان دیا کہ انگریزوں اور مسلمانوں میں ایک کی حمایت کرنی ہو تو انگریزوں کی کرو۔ ویر ساورکر کو جیل ہوئی تو انہوں نے انگریزوں کو معافی نامہ لکھا اور رہائی کے لیے تمام شرائط قبول کرنے کی بات لکھی۔ ابھی مرکزی حکومت مغل سرائے کا نام دین دیائے اپادھیائے کے نام پر کرنے جارہی ہے۔ کانگریس نے سوال پوچھا ہے کہ دین دیال اپادھیائے کی ملک کے لیے خدمات کیا ہیں ؟
میں اس تنازعہ میں نہیں جانا چاہتی لیکن آزادی کی ستر سالہ تقریبات میں شامل ہونے کے موقع پر حکمراں پارٹی سے یہ ضرور کہنا چاہوں گی کہ آزادی کی اصلی خوشی میں شامل ہونے کا احساس انہیں اس وقت ہوگا جب ہندوستان کے ہرمذہب وملت کے لوگ بے خوف ہوکر امن وسکون کے ساتھ، کسی بھی طرح کی فرقہ پرستی یا تعصب سے اوپر اٹھ کر اس جشن کا حصہ بنیں گے۔ ایک طاقتور حکمراں کی سب سے بڑی جیت یہ ہے کہ وہ ملک میں بسنے والے تمام لوگوں کے دلوں کو جیت لے، چاہے وہ دلت ہوں یا اقلیتی طبقہ۔ خوف کے ماحول میں جشن کا رنگ پھیکا ہوجاتا ہے۔ اصلی آزادی یہ ہے کہ ہم ہندوستانی عدم تحفظ اور عدم تحمل کے ماحول سے باہر نکلیں — حکمراں پارٹی کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ مردہ اپازیشن اگرآج کمزور ہے تو کل مضبوط بھی ہوسکتی ہے۔ لیکن اگرحکمراں پارٹی اس ملک کے مسلمان، سکھ، عیسائی اور دلت طبقہ کا دل جیت لیتی ہے تو پھر کمزور یا مضبوط کسی اپازیشن کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ جشن آزادی کے موقع پر یہ سوچنا لازمی ہوجاتا ہے کہ آخر ہمارا ملک کہا جارہا ہے؟
ایک راستہ دشوار اورناممکن بھی ہے کہ پسماندہ اقلیت بالخصوص مسلمانوں کو حاشیہ پر ڈال دیا جائے۔ تین برسوں میں اس ملک میں جو حادثے ہوتے رہے، اس پر عالمی سیاست بھی ناراض دکھائی دیتی ہے۔ دوسرا راستہ دلوں کو جوڑنے کا ہے اورآر ایس ایس مشن کے مطابق یہ راستہ رام راجیہ کا بھی ہے اور آسان بھی۔ ایک راستہ تقسیم کے دنگوں کی یاد دلاتا ہے اور یہ احساس ہوتا ہے کہ آج کی تاریخ میں ہم دوبارہ اسی راستے کی جانب بڑھ رہے ہیں ۔ جب کہ دوسرا راستہ ملک اور دلوں کو جوڑنے کا ہے۔ ابھی اس خوف کے ماحول میں ایسا سوچا نہیں جاسکتا۔ لیکن حکومت یہ ٹھان لے تواگلے برس آزادی کے جشن کا نظارہ کچھ اور ہوگا۔
تبصرے بند ہیں۔