فلسفیانہ طرزِ فکر کی ضرورت و اہمیت!

تحریر:آرایس کرونارَتنے۔ ترجمہ:عنبرین فاطمہ

 پانچویں صدی عیسوی سے قبل کے سقراط سے لے کر مشہور مضمون’’  i am not a Christian   why‘‘کے خالق برٹرینڈرسل تک کی شخصیتیں ایک لمبے عرصے تک میرے لیے مسحور کن رہی ہیں ،ان لوگوں میں میری دلچسپی کی واحد وجہ یہ تھی کہ ان سبھوں نے ’’زندگی کا مقصد کیا ہے ؟‘‘ یا’’ انصاف کی حقیقت کیا ہے؟‘‘یا’’اس دنیامیں ہماراوجودکیوں ہے؟‘‘جیسے موضوعات پرمختلف ومنفردنقطہ ہاے نظرپیش کیے ،یہ لوگ نہ صرف مختلف انداز میں سوچتے ہیں ؛بلکہ ان موضوعات کی صوفیانہ جہتوں اوران کی غلطیوں کی بھی نشاندہی کرتے اور ہماری رہنمائی کرتے ہیں ۔فلسفیوں نے کئی برس اور کئی دہائیاں اپنی سوچنے کی صلاحیت کو تراشنے اور صحیح رخ پر لانے میں صرف کردیں ،انہوں نے اپنے خیالات کو سنوارنے کے لیے اپنی ذاتی صلاحیتوں کا استعمال کیا،ان کاسب سے بڑاآلۂ فکراستقرائی و استنتاجی منطق ہے،جو طلبا منطق پڑھتے ہیں ،وہ اس راہ کی پیچیدگیوں کو سمجھ سکتے ہیں ۔حالانکہ وہ سارے لوگ، جو منطق یا فلسفہ پڑھتے ہیں ،ممکن ہے وہ فلسفی نہ بن سکیں ؛لیکن وہ ایک بہتر مفکر اور رہنماضرور بن سکتے ہیں ۔ہمیں اپنی روز مرہ کی زندگی میں بہت ساری پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے،ہم اپنی زندگی کے تجربوں کو استعمال کر کے ان پریشانیوں کا حل ڈھونڈتے اور اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں ،فلسفے کی زبان میں اس طرزِ عمل کو’’ تجرباتی طریقۂ استنتاج‘‘(Heuristics) کہتے ہیں ۔

دیگرمواقعِ استعمال:

 یہ طریقہ فقط فلسفے تک ہی محدود نہیں ؛بلکہ دیگر مضامین میں بھی کارآمد ہے ،جیسے فوٹو گرافی، خطاطی اورعلمِ نفسیات وغیرہ اوران سب سے زیادہ اس کا استعمال علم ریاضی اور تخلیقی تحریروں میں ہوتاہے،اس کا استعمال کرنا کوئی مشکل امربھی نہیں ہے،اگر آپ کو کوئی مسئلہ درپیش ہے ،تو اسے حل کرنے سے پہلے اس میں ترمیم و تعدیل کی کوشش کریں ،William S. Burroughs اورDavid Bowie کا ماننا ہے کہ تجرباتی طریقے کا استعمال تخلیقی فن پاروں میں کامیاب طریقے سے کیا جاسکتا ہے،مثال کے طور پر جب آپ کوئی چھوٹی کہانی یا نظم لکھتے ہیں ،تو جب تک آپ مطمئن نہ ہوں ، اسے دوبارہ،سہ بارہ سنوار سکتے ہیں ،لکھ سکتے ہیں اوراس کی اصلاح کر سکتے ہیں ۔

 عام طورپرفلسفیوں کوزیادہ عقل مند مانا جاتا ہے،اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ حکمت دوست اوردوراندیش ہوتے ہیں ،یہ بھی واضح رہے کہ ہم میں سے ہرشخص کے پاس حکمت و دانش کی دولت ہوتی ہے،بھلے ہی اس کی مقدار کم یازیادہ ہو۔ہم سب البرٹ آئنسٹائن جیسے عقل مند تو نہیں ہو سکتے؛ لیکن اپنی قوتِ فکر کو ایسے مختلف مضامین اور کتابیں پڑھ کر بہتر بناسکتے ہیں ،جو ہمارے فہم کو چیلنج کر سکیں ۔برٹرینڈ رسل کا مضمون why i am not a Christianایک ایسامضمون ہے ،جو ہمارے نظریات وافکارکو چیلنج کرتا ہے، ڈاکٹر ابراہیم ٹی کمور کی کتاب Begone Godmen توہم پرستی کو چیلنج کرتی ہے۔فلسفیانہ سوچ میں LED lightکی مانندوسعت  بھی ہوتی ہے اور بند بوتل کی طرح تنگ دامانی بھی،تجزیاتی فلسفہ ہمیں سکھاتا ہے کہ کیسے بحث ذریعے صحیح نتیجے پر پہنچیں ،مثال کے طورپر کسی بھی نتیجے پر پہنچنے کے بہت سارے راستے ہوتے ہیں ؛لیکن اگر آپ کا مرکزی راستہ صحیح ہے، تو آخری نتیجہ صحیح رہے گا۔

عمومی طرزِ عمل،منطقی اور فلسفیانہ طرزِ کافرق :

 انسانی فطرت کی یہ غلطی ہے کہ بہت سارے لوگ نہ کچھ سوچنا چاہتے ہیں اور نہ کچھ کرنا چاہتے ہیں ،وہ کسی اور کی ہدایت پہ عمل کر کے ان کے حساب سے چلنا چاہتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ ہندوستان ایک ترقی یافتہ ملک نہیں ہے،جو ہمارے سیات داں کہتے ہیں ہم اس پر یقین کر لیتے ہیں اور انہیں اپنا رہنما چن لیتے ہیں ،پھر جب وہ بدمعاشی کرتے ہیں ،تو ہم انہیں ان کے عہدہ ومنصب سے ہٹانہیں سکتے،اس کے لیے ایک ایسادستورہوناچاہیے،جوعوام ایسا اختیاردے کہ وہ دھوکے بازنیتاؤں کوپارلیمنٹ سے باہرکاراستہ دکھاسکیں ۔ ہمیں فلسفیوں کے بارے میں سوچنا نہیں چھوڑنا چاہیے،اگر ہم کوشش کریں ،تو ہم بھی ان کی طرح سوچ سکتے ہیں ۔آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ کچھ فلسفیوں نے غیر اخلاقی نظریات کی حمایت کی ہے،مثلاًیونانی فلسفی ارسطو نے غلامی کو جائز ٹھہرایااور مارٹن ہیڈگر (1889-1976)نے نازی کی حمایت کی۔جرمنی کے نہایت با اثروجودی فلسفیوں کا کہنا ہے کہ’’ کچھ چیزیں دیکھنے میں بڑی لگتی ہیں ؛لیکن دراصل وہ کچھ نہیں ہوتیں ‘‘ ۔ حد یہ ہے کہ آج کل کے ماہرینِ تعلیم نے ایسا آمرانہ رویہ اختیار کررکھاہے کہ طالب علم اور والدین کوئی سوال نہیں اٹھا سکتے ، اب تو 13 سالہ تعلیمی نصاب کو 12 سال میں محدودکرنے کا قدم اٹھایاجارہاہے۔

 کیا منطق میرے لیے ایک فلسفی کی طرح سوچنے میں مددگارثابت ہوسکتی ہے؟A.B.P. Santiago،جن سے ہم نے 1960 میں منطق پڑھی، انھوں نے ایک باراپنے منفردانداز میں کہاتھا کہ منطق ہمارے لیے واضح اورصحیح طورپر سوچنے میں مددگارہے ، حالانکہ چند دہائیوں کے بعد میں نے جرمن فلسفی کانٹ کی کتاب  Critique of Pure Reason (1871)میں اس کے بالکل برعکس نقطۂ نظرپڑھا ،اسی طرح کانٹ کا کہناتھا کہ ارسطو کے بعد منطق میں کوئی ترقی نہیں ہوئی ،حالانکہ 200 سال بعد Bertrand Russell نے kant کو غلط ثابت کر دیا۔

 فرانس کے عظیم فلسفیRene descartes جو جدید فلسفہ کے بانی مانے جاتے ہیں – ان کی ایک تصویر لور میوزیم پیرس میں ٹنگی ہوئی ہے ،آپ اس کے سامنے ہوں توایسا لگے گاگویاوہ اپنی مخصوص پتلیوں والی آنکھوں سے بے تعلقانہ اور قدرے مغروراندازمیں آپ کودیکھ رہے ہیں -چولہے کے پاس بیٹھ کرتمام تر نظامِ فلسفہ کی تنظیم و تشکیل کے بعد ڈیکارٹ نے بلندآہنگ میں کہاکہ’’ درسگاہوں میں منطق کے نام پرجوکچھ بھی پڑھایا جاتا ہے، وہ اندھیرے میں تیرچلانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے ‘‘بالفاظِ دگر ان کا ماننا تھا کہ مدرسی منطق واقعی میں اِکتشافی منطق نہیں ہے ۔

کچھ فلسفیوں کے مطابق فلسفیانہ سوچ اور منطقی سوچ ایک نہیں ہے،فلسفیوں میں تجزیاتی سوچ کے تئیں پرجوش تجسس پایاجاتاہے، دوسری جانب عام لوگوں میں ایساشدید قسم کا تجسس نہیں ہوتا، جب سوچنے کا موقع آتا ہے،تووہ بس منطقی اندازمیں سوچتے اورکسی حل تک پہنچنا چاہتے ہیں ،اس سینس میں فلسفیانہ طرزِفکرکے لیے آپ کا واقعتاًفلسفی ہونا ضروری نہیں ہے،البتہ اگر آپ کسی بڑی مشکل میں پھنس گئے ہیں ،توایسے موقع پر آپ کو فلسفیانہ سوچ کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنا کچھ وقت زندگی، محبت، موت اور انسانی وجود کے بارے میں غور و فکر کرنے میں گزارنا چاہیے،میں کوئی فیصلہ بات نہیں کررہا۔ سماجیات، منطق، لٹریچراورعلمِ نفسیات فلسفیانہ طرزِفکر کو آگے بڑھانے میں مدد کرتے ہیں ،جہاں تک ممکن ہو،ہمیں بحث ونقاش کی مجلسوں میں شریک ہونا چاہیے اورہمارا مقصد مباحثے میں جیت حاصل کرنے کی بجاے اپنی صلاحیت ِ فکرکو بڑھانا ہو۔یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر ہم سب فلسفیانہ طرزِ فکر کے حامل ہوتے، تو سال بہ سال ان نیتاؤں کے ذریعے دھوکہ نہ کھاتے۔

تبصرے بند ہیں۔