الطاف حسین جنجوعہ
16اگست2018بھارت کے لئے ایک سیاہ دن تھا جس روزملک کی عظیم سیاسی شخصیت، ادیب، شاعر، قلمکار، سٹیٹس مین‘اور سابقہ وزیر اعظم ہند اٹل بہاری واجپائی کے انتقال کی خبرسننے کو ملی۔ صبح پہلے یہ خبر آئی کہ واجپائی جوپچھلے کئی ہفتوں سے نئی دہلی کے ایمز اسپتال میں زیر علاج تھے، کی طبیعت انتہائی ناساز ہوگئی ہے۔ اس پر پورا ملک سوگوار ہوگیا، جگہ جگہ ان کی صحت یابی کے لئے خصوصی دعاؤں کا اہتمام کیاگیا لیکن چند گھنٹوں بعد یہ خبر ملی کہ ان کی آتما قفس عنصری سے پرواز کر چکی ہے۔ ان کے انتقال کے ساتھ ہی ایک عہد کا خاتمہ ہوا۔ ہر انسان میں کچھ کمیاں، خامیاں ہوتی ہیں۔
زندگی کے اس سفر میں خاص طور سے جب آپ کسی بڑے عہدے پر ہوں تو وہاں پر اپنے فرائض کی انجام دہی کے وقت کبھی کبھار آپ سے نا انصافیاں اور غلطیاں ہونے کا حدشہ زیادہ رہتاہے۔ اس لئے یہ وثوق سے کہنا کہ اٹل جی بالکل پاک وصاف تھے مبالغہ آرائی ہوگی لیکن جب ہم ان کا موازنہ دیگر سیاسی شخصیات اور حکمرانوں سے کرتے ہیں تو اس لحاظ سے واجپائی صفِ اول میں دکھائی دیتے ہیں۔ سب سے خاص اور منفرد بات یہ تھی کہ وہ ادب سے جڑے شخص تھے، ایک شاعر تھے۔ شعرا حضرات نازک طبیعت کے مالک ہوتے ہیں، احساسات، جذبات ان کے ہاں زیادہ ہوتے ہیں۔ اس لئے اٹل بہاری واجپائی جی دوسرے سیاسی رہنماؤں کے مقابلہ زیادہ دل حساس تھے، اسی لئے انہوں نے کچھ ایسے فیصلے لئے جودماغ کا زیادہ استعمال کرنے والے سیاستدانوں کے لئے کرنا بہت مشکل ہوتا یا وہ کرنا ہی نہیں چاہتے۔ چونکہ9دہائیوں سے زائد عرصہ پر محیط اٹل بہاری واجپائی حیات رہے ہیں، اس طویل عرصہ کے دوران کئی اُتار چڑھاؤ آئے، کئی نشیب وافروز انہوں نے دیکھے جن کا احاطہ کرنایا اس متعلق کلی کوئی رائے زنی کرنے سے کی شخصیت کا احاطہ نہیں کیاجاسکتا، البتہ کچھ چیزیں ایسی تھیں جومتاثر کن ہیں۔ آنجہانی اٹل نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی، آپسی بھائی چارہ اور صحیح معنوں میں ملک کے سیکولر کردار کو بنائے رکھنے کے لئے جوفیصلے لئے وہ قابل ستائش ہیں۔ پڑوسی ممالک خاص طور سے روایتی حریف پاکستان کے ساتھ تعلقات خوشگوار رکھنے کے لئے انہوں نے انتہائی نازک حالات کے وقت دوستی کا ہاتھ بڑھا کر جنگی ماحول کو امن میں تبدیل کیا۔
جموں وکشمیر ریاست میں ان کے دو نعرے بہت ہی زیادہ مقبول اور زبان زد عام ہیں۔ انہوں نے مسئلہ کشمیر کو’کشمیریت، انسانیت اور جمہوریت‘کے دائرہ میں حل کرنے کی بات کی تھی، علا وہ ازیں لال چوک سرینگر سے انہوں نے کہاتھاکہ’دوست بدلے جاسکتے ہیں لیکن پڑوسی نہیں‘کا نعرہ دیاتھا۔ موصوف جب وزیر اعظم ہند تھے، تب سے ہی ان کی طبیعت ناساز رہی۔ اس لئے پچھلے10-12سال سے وہ مکمل طور سیاسی سرگرمیوں سے مکمل طور الگ تھلگ تھے۔ اب وہ اس دنیا میں نہیں رہے لیکن جس طرح ان کے نام پر بھارتیہ جنتا پارٹی سیاست کر رہی ہے، اس سے ملک بھر کے لوگ غمگین، دل افسردہ ہیں بلکہ اٹل کی آتما کو بھی تکلیف ہوتی ہوگی۔ سال2014کے لوک سبھا انتخابات میں واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کرکے اقتدار کی کرسی تک پہنچنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت نے اٹل بہاری واجپائی کا عوامی جلسوں کے دوران زکر کیا اورنہ ہی ان کے نام پر کوئی پالیسی یا پروگرام بنایاگیا۔ سوچ وفکر کی بات ہے کہ یوم آزادی اور من کی بات پروگرام میں بھی مودی نے اٹل جی کا اتنا زکر کرنا گوارہ نہیں سمجھا، سبھی اسکیمیں اور پروگرام سنگھ پریوار کے لیڈران شیامہ پرساد مکھرجی اور دین دیال اُپادھیائے کے نام پر ہی بنیں۔ لیکن اس مرتبہ 15اگست کے دن لال قلعہ کی فصیل سے قوم کے نام خطاب میں نریندر مودی نے واجپائی کی تعریف کی۔ کشمیریت، جمہوریت اور انسانیت کا نعرہ دوہرایا۔ وہ اس لئے کہ خطاب سے قبل اٹل بہاری واجپائی کو وہ اسپتال میں دیکھ کر آئے تھے اور انہیں معلوم تھاکہ اب ان کا وقت تھوڑا بچا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی نے 2014کے لوک سبھا انتخابات میں گجرات میں بطور وزیر اعلیٰ کے وقت متنازعہ رہے نریندر مودی کو اس قدر پروجیکٹ کیا کہ ان کی تشہیر پراربوں، کھربوں روپے دریا چناب، جہلم کے پانی کی طرح بہائے گئے۔ اب کی بار مودی سرکار ‘کا نعرہ اس قدر مقبول ترین ہوگیاکہ ملک کاشاہد ہی کوئی فرد یا علاقہ تھا، جہاں پر اس نعرہ کی گونج سنائی نہ دی ہو۔ نریندر مودی کے نام کو بیچ کر بھاجپا نے اقتدار حاصل کیا۔ ترقی اور بدلاؤ کا نعرہ دینے والی یہی جماعت چار سالوں کے دوران کچھ خاص نہ کرپائی بلکہ آر ایس ایس ایجنڈا کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش میں بھاجپا نے ہندوستان کے سماجی تانے بانے کو ہی بکھیر کر رکھ دیا۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی، آپسی بھائی چارہ، مذہبی رواداری، یگانگت، اتفاق واتحاد کو زک پہنچا کر سیکولر کردار کو مسخ کیاگیا۔ گاؤ رکھشا، طلاق ثلاثہ، دفعہ35-A، دفعہ370، رام مندر، لوجہادکے نام پر نفرت، حسد، بغض، کینہ، سماجی تقسیم، علاقائی تقسیم، مذہبی تقسیم اور لڑائی جھگڑاکو فروغ دینے میں ہر ممکن کوشش کی گئی۔ بلند وبانگ دعوؤں کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام رہنے کے بعد اب جبکہ بھارتیہ جنتا پارٹی لیڈرشپ کو اپنے پاؤں تلے زمین کھسکتی نظر آرہی تھی، ہوا کا رُخ کسی اور دکھائی دے رہاتھا۔ تذبذب، بے چینی کا ماحول تھا تو ایسے میں اٹل بہاری واجپائی کی موت بھاجپا لیڈرشپ کے لئے اُمید کی کرن لیکر آئی۔
اب اٹل بہاری واجپائی کی استھیوں کے نام پر بھارتیہ جنتا پارٹی لوگوں کے جذبات کا استحصال کررہی ہے۔ ان کی آخری رسومات کو بھی بھاجپا نے اپنے سیاسی مفادات کے لئے استعمال کیا۔ اب ’استھی کلش‘کے تحت ملک بھر میں ان کی استھیاں لے جاکر تقریبات منعقد ہورہی ہیں۔ نئی دہلی میں تو ان کی استھیاں ایک کھلے رتھ نما گاڑی میں رکھ کر پورے شہرِ دلی کا چکر لگایاجارہاہے۔ کشمیر سے کنیہ کماری تک ملک کی تمام ریاستوں، مرکزی زیر انتظام علاقوں، جزائر وغیرہ میں موجود بی جے پی کے دفاتر میں اٹل کی استھیوں کو رکھ کر تقریبات منعقد ہورہی ہیں اور انہیں میڈیا پر خوب پبلسٹی دی جارہی ہے۔ بظاہر یہ کہاجارہاہے کہ ہندوستان کے تمام بڑے دریاؤں میں اٹل جی کی استھیوں کا وسرجن کرنا ہے لیکن ایسا کرتے وقت جوطریقہ کاربھاجپا اپنا رہی ہے، اس سے ہر عاقل وبالغ پریہ بات عیاں ہورہی ہے کہ زعفرانی خیمہ اس سے اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل چاہتاہے۔
گذشتہ روز اٹل بہاری واجپائی کے اہل خانہ نے بھی اس پر بھاجپا کی خوب تنقید کی اور کہاکہ یہ سب سیاست کی جارہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اٹل جی کی آخری رسومات کی ادائیگی کے وقت پانچ کلومیٹر پیدل چلنے کی بجائے اگر اٹل بہاری واجپائی کی دو باتوں پر صرف مودی نے عمل کیاہوتا تو زیادہ بہتر تھا۔ صرف اٹل جی کے اہل خانہ ہی نہیں بلکہ ملک بھر کے دانشور، مفکر، صحاف، تجزیہ نگاربھی اس معاملہ پر بھاجپا کی تنقید کر رہے ہیں لیکن پارٹی کو اس سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں، انہیں تو اپنے اہداف کی حصولی کرنی ہے۔ ایک عظیم سیاسی شخصیت اٹل بہاری واجپائی کی ’استھیوں ‘کے نام پر سیاست پورے ملک کے لئے شرمناک بات ہے۔ سیاسی مفادات کی حصولی کے لئے بعد از مرگ کسی شخصیت کا استعمال افسوس کن ہے!
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔