ایم جے اکبرکی کرامات
عـبـدالـعـزیز
کئی سال پہلے کی بات نہیں ہے صرف دوسال پہلے کی بات ہے ایم جے اکبرمودی لہرکے وقت سنگھ پریوارکی سیاسی پارٹی بی جے پی میں شامل ہوئے۔ تیلنی پاڑہ میں جوکلکتہ سے چندمیل فاصلے پرہے اورایم جے اکبرکی جائے پیدائش ہے ٗفرقہ پرست پارٹی میں ان کی شمولیت کے خلاف مظاہرہ ہواجگہ بہ جگہ احتجاجی پوسٹردیواروں پرچپکائے گئے۔ ان کے بچپن کے ایک دوست پروفیسرنے کلکتہ کے ایک اردواخبارمیں انہیں لعنت ملامت کے بجائے افہام وتفہیم اورتنبیہ سے کام لیتے ہوئے ایک کھلاخط لکھا :
’’سنومبشر(ایم جے اکبر)تم للوپنجواورخیراتی ہوتے توکوئی بات نہ تھی تم شہنوازحسین، مختارعباس نقوی، صابرعلی یہاں تک سلمان خان بھی ہوتے توکوئی فرق نہیں پڑتا، تمہاری بی جے پی میں شمولیت آر ایس ایس کے نظریات کے دفاع اورمودی جیسے خبیث وزیراعظم کی حمایت پرپوری ملت اسلامیہ اس لئے مضطرب ہے کہ اسے ایسالگ رہاہے کہ قومی پریس سے اس کی ایک تواناآوازچھین گئی، ایسالگ رہاہے اس کا داہنابازوکٹ گیا، اسے ایک ملی اثاثے کے لٹ جانے کاغم کھائے جارہاہے، کل تک تم سیکولرطاقتوں کے ترجمان تھے آج ان کے ترجمان بن گئے جومسلمانوں کے دواستھان پاکستان یاقبرستان کانعرہ لگاتے ہیں تم اس مودی کی حمایت کررہے ہوجس نے گجرات فسادات پرتبصرہ کرتے ہوئے مسلمانوں کوکتے کاپلاکہاتھا۔ بھائی مبشرلوٹ آ ؤ، ملت اسلامیہ شدت سے تمہاری واپسی کاانتظارکررہی ہے۔ ‘‘ (آبشار23؍اپریل 2014ء)
مبشریعنی ایم جے اکبرتوبی جے پی یاسنگھ پریوارسے واپس نہیں آئے مگردوسال کے اندراپنے پروفیسردوست کوبی جے پی اوراپنے سے قریب کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اکبرکی آن، بان اورشان قائم کرنے کے لئے6؍اگست 2016ء کو تیلنی پاڑہ کے جلسہ استقبالیہ کی پروفیسرصاحب نے نہ صرف صدارت کی بلکہ ان کی شان میں سپاس نامہ پیش کیاانہیں بابری مسجد مسمارکرنے والی پارٹی کی حکومت کے وزیرہونے پرمبارکبادپیش کی اوردرازی عمرکی دعائیں دیں۔
اسے اکبرکی کرامت ہی کہی جاسکتی ہے اکبرنے اپنے پروفیسردوست کورام سیوکوں کی صف میں شامل کرلیا۔ ایم جے اکبرکلکتہ یتیم خانہ کے ٹرسٹیوں میں سے ایک ہیں۔ سلطان صاحب اس کے سکریٹری ہیں۔ دوسال پہلے جب وہ سنگھ پریوارکے ہوگئے توراقم کے علاوہ کئی لوگوں نے جس میں امام عیدین قاری فضل الرحمن، مولانانعمت حسین حبیبی وغیرہ نے سلطان صاحب کوواسطہ بالواسطہ کہاکہ ایسے جن سنگھی آدمی کومسلمانوں کے کسی ادارہ میں نہیں رکھناچاہئے، سلطان صاحب اس وقت پس وپیش میں تھے مگروہ بھی ایم جے اکبرکی بی جے پی میں شمولیت سے خوش نہ تھے لیکن اب ایسالگتاہے کہ ان کے نائب وزیرخارجہ بن جانے سے سلطان صاحب کااضطراب جاتارہاکیونکہ سلطان صاحب ان کی زیرنگرانی میں کام کرنے والی مرکزی حج کمیٹی کے نائب صدربنالئے گئے۔ سلطان صاحب کوتحفہ متبرکہ ایم جے اکبرسے قریب کرنے کے لئے کافی تھا۔ سلطان صاحب نے بھی پروفیسرکی طرح اپنی سکریٹری شپ میں نہ صرف یتیم خانہ میں ایم جے اکبرکومودی حکومت کے وزیرہونے پرنہ صرف استقبالیہ دیابلکہ اس کی صدارت کی اورایم جے اکبرکویاایم جے اکبرنے ان کواپنی بغل گیری کاشرف بخشا۔ سلطان صاحب جیسے شخص کورام کرلینابھی ایم جے اکبرہی کی کرامت کہی جاسکتی ہے۔ تیلنی پاڑہ کے ایک مفتی نے جن کے مدرسہ عربیہ حنفیہ قاسم العلوم میں ایم جے اکبرصاحب کے لئے استقبالیہ پروگرام منعقدہوا۔ ایم جے اکبرکی قصیدہ خوانی کرتے ہوئے ان کی علمی شان وشوکت اوربرتری پرتقریرکی کہ علم ہی نے آج انہیں مودی جیسی شخصیت کی کابینہ کاوزیربنایا۔ یہ وہی مفتی صاحب ہیں جنہوں نے اکبرکے بیٹاپریاگ یابیٹی موکولیکاکانکاح پڑھانے سے انکارکردیاتھاکیونکہ نکاح کی گواہی میں کسی غیرمسلم کانام تھا۔
مفتی صاحب بھی ایم جے اکبرکیلئے خوشدلی سے یامجبوراًقصیدہ خوانی پرراضی ہوگئے اسے بھی اکبرکی کرامت ہی کہی جائے گی۔
جہاں تک پروفیسراورسلطان صاحب کی بات ہے ان حضرات کوشایدقرآنی تعلیمات یاشرعی معلومات پڑھنے اور سمجھنے کاموقع کم ملاہوگا۔ لیکن مفتی صاحب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسلام میں اللہ کے رسول نے اپنے لئے اورامت کے لوگوں کے لئے علم نافع کی دعاکی ہے وہ علم جولوگوں کوفائدہ پہنچائے وہ علم جولوگوں کے لئے نقصان دہ ہویاایساعلم ہوجوگائے جیسے جانورکے تحفظ وتقدس کے نام پرمسلمانوں اوردلتوں کوقتل کرناجائزسمجھتاہوتووہ علم ناقص ہی نہیں ہے بلکہ وہ جہالت ہے جوکفرسے بھی بدترہے۔ مفتی صاحب قرآن کے اس اعلان سے بھی واقف ہیں کہ ’’عزت صرف اللہ اوراس کے رسول اورمومنوں کے لئے ہے‘‘
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بھی مفتی صاحب کے حافظہ میں ہوگی :
’’جوعزت اسلام کے ذریعہ حاصل نہ ہووہ عزت نہیں ذلت ہے‘‘۔
ایم جے اکبرکواسلام کے ذریعہ نہیں کفروشرک کی پارٹی بلکہ اسلام دشمن یاحق دشمن کی پارٹی کی حکومت کے ذریعہ عزت حاصل ہوئی ہے جس کی مفتی صاحب عزت افزائی کررہے ہیں۔
مفتی صاحب ٗ دورہ ٔفلسطین کے موقع پرحضرت عمرؓ کے واقعہ کاسیرت کی کتابوں میں ضرورمطالعہ کیاہوگا۔ حضرت سلیمان ندوی ؒؒ اپنی کتاب سیرت النبیؐ میں اس واقعہ کوکچھ اس طرح بیان فرماتے ہیں :
’’بیت المقدس کی فتح کے موقع پرحضرت عمرصرومیوں سے بیت المقدس کی کنجی لینے کوشام جارہے تھے، جب شہرکے قریب پہنچے توسپہ سالارِاسلام حضرت ابوعبیدہ صکچھ مسلمانوں کولیکراستقبال کونکلے، جب یہ جلوس ایک ایسے مقام پرپہنچاجہاں کچھ پانی تھا، توحضرت عمر صناقہ سے اترآئے، پاؤں سے چرمی موزے نکال کراپنے کندھے پرڈال لئے اورناقہ کی مہارپکڑکرپانی میں گھسے، اوراسی شان سے اسلام کافرماں روارومیوں کے مقدس شہرمیں داخل ہونے کے لئے بڑھا، حضرت ابوعبیدہ صنے عرض کی یاامیرالمؤمنین آپ یہ کیاکررہے ہیں، کہ موزے اتارکراپنے کندھے پرڈال لئے ہیں، اونٹنی کی نکیل آپ کے ہاتھ میں ہے اورآپ اپنے ہاتھ سے پکڑکراس کوپانی میں لے چل رہے ہیں، یہ وہ موقع ہے کہ ساراشہرآپ کے دیکھنے کوامنڈ آیا ہے، حضرت عمرصنے کہااے ابوعبیدہ !اگرتمہارے سواکوئی اوریہ بات کہتاتومیں اس کوسزادے کرامت ِمحمد اکے لئے عبرت بناتا، ہم سب ذلیل قوم تھے، تواللہ تعالیٰ نے اسلام سے ہماری عزت بڑھائی، توجوعزت خدانے ہم کودی ہے اس کوچھوڑکرکسی اورچیزکے ذریعہ سے ہم عزت چاہیں گے، توخداہمیں ذلیل کردے گا‘‘۔ (جلد -6)
اگراسلام کے علاوہ کوئی ایم جے اکبریانریندرمودی کی قربت یا ہم نشینی سے کوئی عزت چاہتاہے تویقیناوہ اللہ کی اس بات سے صریحاًانکارکرتاہے کہ عزت وذلت دینے والاصرف اورصرف اللہ ہے اوراللہ کے رسول ؐاورحضرت عمرؓ کی تنبیہ اورانذارکی بھی کوئی پرواہ نہیں کرتا۔
آج کی صورت حال :
مفتی صاحب کوشایدمعلوم نہیں کہ اس وقت مودی حکومت کی طرف سے جوکشمیرمیں احتجاجیوں پرپیلٹ گن(Pallet gun) کااستعمال مودی اورمحبوبہ کے سپاہیوں کے ذریعہ کیاگیااورکیاجارہاہے اس سے عورتوں، مردوں کے علاوہ تقریباًسوبچے اپنی آنکھوں سے محروم ہوگئے ہیں اگرکوئی شخص ان کے چہرہ پران گولیوں کے نشانات دیکھ لے تواس کے ہوش اُڑجائیں۔ فلسطین میں اسرائیل کی حکومت ان گولیوں کااستعمال کیاتھامگربعدمیں انسانی حقوق کی تنظیموں کی چیخ وپکارسے اسرائیلی حکومت نے پیلٹ گن کی گولیوں کے استعمال پر پابندی لگادی، وہی گولیاں جواسرائیل کے گوڈاؤن میں سڑرہی تھیں انہیں مودی اورمحبوبہ کے سپاہی استعمال کررہے ہیں کہ مودی اورمحبوبہ کی حکومت اسرائیلی حکومت سے کہیں زیادہ مسلمانوں کے لئے خطرناک نہیں ہے؟
ہمارے مفتیان، علماء اورمشائخ سورہ المائدہ کی آیت نمبر۷۸ ضرورپڑھتے ہوں گے :
’’بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے اللہ کی نافرمانی کی ان پرداؤداورعیسیٰ ؑ ابن مریم کی زبان سے لعنت کرائی گئی اس لئے کہ انہوں نے سرکشی کی اورحدسے گزرجاتے تھے وہ ایک دوسرے کوبرے افعال سے نہ روکتے تھے۔ ‘‘
نبی اکرم ؐ نے آیت مذکورہ کی جوتشریح کی ہے وہ دل ہلادینے والی تشریح ہے :
’’بنی اسرائیل میں جب بدکاری پھیلنی شروع ہوئی توحال یہ تھاکہ ایک شخص اپنے بھائی یادوست یاہمسایہ کوبُراکام کرتے دیکھتاتواس کومنع کرتااورکہتاکہ اے شخص خداکاخوف کر۔ مگراُس کے بعدوہ اسی شخص کے ساتھ گھل مل کربیٹھتااوریہ بدی کامشاہدہ اس کواس بدکارشخص کے ساتھ میل جول اورکھانے پینے میں شرکت کرنے سے نہ روکتا، جب ان کایہ حال ہوگیاتوان کے دلوں پرایک دوسرے کااثرپڑگیا ٗ اوراللہ نے ان سب کوایک رنگ میں رنگ دیااوران کے نبی داؤدؑ اورعیسیٰ ؑ بن مریم کی زبان سے ان پرلعنت کی۔ ‘‘
راوی کہتاہے کہ جب حضورؐ سلسلۂ تقریرمیں اس مقام پرپہنچے توجوش میں آکراُٹھ بیٹھے اورفرمایا :
’’قسم ہے اُس ذات پاک کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم پرلازم ہے کہ نیکی کاحکم کرواوربدی سے روکواورجس کوبُرافعل کرتے دیکھواس کاہاتھ پکڑلواوراسے راہ راست کی طرف موڑدواوراس معاملہ میں ہرگزرواداری نہ برتو، ورنہ اللہ تمہارے دلوں پربھی ایک دوسرے کااثرڈال دے گااورتم پربھی اسی طرح لعنت کرے گاجس طرح نبی اسرائیل پرکی۔ ‘‘
ہرقوم کابگاڑابتداًچندافرادسے شروع ہوتاہے۔ اگرقوم کااجتماعی ضمیرزندہ ہوتاہے تورائے عامہ ان بگڑے ہوئے افرادکودبائے رکھتی ہے اورقوم بحیثیت مجموعی بگڑنے نہیں پاتی۔ لیکن اگرقوم ان افرادکے معاملہ میں تساہل شروع کردیتی ہے اورغلط کارلوگوں کوملامت کرنے کے بجائے انہیں سوسائٹی میں غلط کاری کے لئے آزادچھوڑدیتی ہے ٗتوپھررفتہ رفتہ وہی خرابی جوپہلے افرادتک محدودتھی ٗ پوری قوم میں پھیل کررہتی ہے۔ یہی چیزتھی جوآخرکاربنی اسرائیل کے بگاڑکی موجب ہوئی۔
حضرت داؤد ؑاورحضرت عیسیٰ ؑکی زبان سے جولعنت بنی اسرائیل پرکی گئی اس کے لئے ملاحظہ ہوزبور10 و50 اورمتی 23۔
اب تک گائے کے نام پر16مسلمان قتل کئے جاچکے اورانتہائی بہیمانہ طریقے سے۔ چنددنوں پہلے پنجاب سے ٹرک میں جانورلاتے ہوئے مدھیہ پردیش میں ٹرک ڈرائیورلال جی اورمحمد محسن گائے ماتاکے شرپسندفرزندوں کے ڈر سے جان بچانے کے لئے ایک ندی میں کودگئے، محمد محسن کسی طرح بچ گیا، ڈرائیورکی لاش دوسرے روزتیرتی ہوئی ندی میں ملی۔ یہ پوراواقعہ انگریزی روزنامہ ٹیلیگراف نے 8؍اگست 16ء کواخبارکے صفحۂ اول پہ شائع کیاہے اوردوسرے روزاس پراداریہ لکھاہے۔
ایم جے اکبرصاحب مودی ہی کی کابینہ کے وزیرہیں۔ کابینہ میں ہی سارے فیصلہ ہوتے ہیں، فیصلوں کی تائیداورحمایت ہروزیرکوبلکہ پارٹی کے ہرایم پی کوکرنی پڑتی ہے۔ حدیث میں آیاہے جوشخص جس کے ساتھ ہوتاہے اس کاحشرقیامت میں اسی کے ساتھ ہوگا۔
ایم جے اکبرنے دوسال کے اندربہت بڑی بڑی کرامتیں کی ہیں ان کرامتوں میں سے تیلنی پاڑہ اوریتیم خانہ اسلامیہ کے اعزازمیں جلسہ استقبالیہ کانعقادبھی ہے۔ ابھی تک کسی مسلمان نے یاکسی مسلم تنظیم نے مودی کوبھی لائق استقبال نہیں سمجھا۔ مگران کے وزیرکویہ اعزازتیلنی پاڑہ اورکلکتے میں حاصل ہوا۔
اردوزبان کے مشہورشاعرکلیم عاجزنے اکبرجیسے لوگوں پرحیرت کااظہارکیاہے :
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجرپہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔