ایک اور علم وادب کی دنیا ویران ہوگئی
محمد شاہنواز عالم ندوی
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
عالمی شہرت یافتہ دینی وملی ادارہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کو آج اس وقت شدید غم واندوہ کا سامنا کرنا پڑا جب اس نے گزشتہ روزجبکہ ابھی سپیدہ سحر نمودار نہیں ہوا تھا، رات اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی اور دن آب وتاب کے ساتھ چمکنے کے لئے بے تاب تھا کہ اپنے فرزند ارجمند، داعیٔ سنت، عالم ربانی، ماہر زبان وادب، دنیائے اسلام وعرب میں ترجمان امت اسلامیہ ہندیہ، خلیفۂ اجل مفکراسلام سید ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمہ اللہ، برادرصغیر مرشد الامت استاذا لاساتذہ مولانا سید محمد الرابع حسنی ندوی مولانا سیدمحمد واضح رشید ندویؒ کو اس دارفانی سے داربقا کی طرف رخصت کردیا۔ ’’إنا للہ وإنا إلیہ راجعون‘‘۔ مولانا موصوف نے سنہ1344ھ میں اترپردیش کے مردم خیز ضلع رائے بریلی کے علماء ربانیین، معلمین حاذقین، امت کے محسنین کی جائے آرام گاہ تکیہ کلاں کے علمی وعملی خانوادہ میں آنکھ کھولی اور وہیں کے علمی،ادبی، اخلاقی، ثقافتی واسلامی ماحول میں پروان چڑھے۔ بعدازاں اپنا علمی سفر دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں اس وقت کے مایہ ناز اساتذہ اور خصوصاً مفکراسلام کی سرپرستی ونگرانی میں سنہ1370ھ میں تخصص فی الادب العربی کے ذریعہ مکمل کیا۔ لیکن آپ نے اپنے علمی پیاس کو تشنہ نہیں چھوڑا، بلکہ اس علمی سفر پر ہمیشہ رواں دواں رہے۔
ابتدائی دنوں میں مولانا محترم نے 1953ء میں آل انڈیا ریڈیو دہلی میں بحیثیت ناشر ومترجم ملازمت اختیار کی اور 1953ء تا 1971ء اس ادارہ سے وابستہ رہے اور انگریزی زبان میں شائع ہونے والی خبروں کا عربی میں ترجمہ کرتے رہے۔ اس میدان میں آپ نے بہت کامیاب علمی سفر کیا اور دنیا کے حالات وواقعات کو سمجھنے، دیکھنے اور اس پر غوروفکر کا آپ کو بہت قریب سے موقع ملا۔ آپ نے دوران ملازمت بھی سنت کے احیاء کی کوشش کو لمحۂ زدن کے لئے بھی بالائے طاق نہیں رکھا۔ ہر ممکن آپ نے سنت کی نشرواشاعت اور دین کی تبلیغ وترویج کے کوشاں رہے۔ آپ نے اسی زمانہ میں 40احادیث کا ایک مجموعہ تیار کیا جس کا مقصد کتابی شکل دے کر چھپوانا یا کتابچہ بناکر تقسیم کرنا نہیں تھا بلکہ اس کے ذریعہ اپنے اندر وجوبیماری ہے اس کی دوا فراہم کرنا تھا۔ بعدازاں آپ کی جمع کردہ احادیث کو ترجمہ اور تشریحات کے ساتھ بنام ’’محسن انسانیت‘‘ شائع کیا گیا۔ آپ نے آل انڈیا ریڈیو کی ملازمت کے دوران عالمی وبین الاقوامی سیاسی حالات کا بڑی باریک بینی سے مطالعہ کیا اور امت کے لئے خطرات، سازشوں اور فریب کاریوں کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کی اور اس کے نتیجہ میں آپ نے ہمیشہ امت کو عالمی سیاست، پروپیگنڈوں ، سازشوں سے آگاہ کیا اور اس کی ہمیشہ نقاب کشائی اور امت کی رہنمائی کرتے رہے، جس کی مثال آپ کے وہ مضامین ہیں جو یکے بعد دیگرے افکارواذکار پر مبنی ندوۃ العلماء کے مشہور زمانہ عربی رسالہ میں شائع ہوتے رہے ہیں۔
بہر حال 1971ء میں آپ کے مربی ، محسن اور آپ کے مامو مفکر اسلام سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ نے یہ محسوس کیا کہ واضح رشید کے لئے یہ میدان ٹھیک نہیں ہے جس میں وہ کام کررہا ہے تو آپ نے ان کو اپنے قریب ندوۃالعلماء بلالیا اور آپ کو معلم کردار، معلم ادب عربی کی حیثیت سے ندوہ میں خدمات پر مامور کیا۔ اس وقت سے تاحیات آپ ندوہ کے ایک بہترین استاذ کی حیثیت سے خدمات سے منسلک رہے، آپ نے ایک جہاں کو تعلیم وتربیت سے آراستہ وپیراستہ کیا۔ آپ نے معلمی کا کردار اس خوبی کے ساتھ ادا کیا ہے کہ میری نظر میں شاید اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ ایک عرصہ ہوا جب میں دارالعلوم ندوۃ العلماء میں عالمیت کے آخری سال میں زیر تعلیم تھا۔ چونکہ میری فراغت 2000ء میں ہوئی ہے۔ لیکن آج بھی ایسا لگتا ہے کہ میں المعہد العالی کے ہال میں بیٹھا ہوں اوراستاذ محترم اپنے ایک نرالے اور انتہائی حسین ودلکش انداز میں درس دے رہے ہیں اور عربی زبان وادب کی انتہائی پیچیدہ گتھیاں سلجھارہے ہیں اور ہمارے ذہن ودماغ پر علم کی برکھا برس رہی ہے۔ لگتاہے کہ علم کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر انتہائی سنجیدگی ووقار کے ساتھ بہہ رہاہے اور اس کی موجیں قیمتی موتیاں بکھیررہی ہیں۔ لیکن ہم کم ظرف ہیں جو ان لعل وگہر سے دامن نہیں بھرپارہے ہیں۔ میں آپ کے استاذانہ ومربیانہ کردار کی ترجمانی کیوں کر کرسکتاہوں۔ بس صرف اس وقت کے ایک ماہر علم وفن، قابل وتعریف وتقلید ندوی (مولانا اکرم ندوی، حال مقیم آکسفورڈ یونیورسٹی لندن) کی تحریر کا کچھ پیش کردیتا ہوں۔ اگرچہ کہ یہ بھی ناکافی ہے۔
مولانا اکرم ندوی لکھتے ہیں : ’’آج اساتذہ اور مربین کی کمی نہیں ، مدرسین اور معلمین کی ہر طرف بہتات ہے، مگر ماہر فن استاد، کامیاب مدرس، حاذق معلم، اور قابل تقلید واتباع مربی کا وجود عنقاء ہے، جس مثالی معلم ومربی کا تذکرہ ان سطور میں مقصود ہے، اسے عنقاء پر بھی یک گونہ ترجیح وفوقیت ہے، عنقاء چار دانگ عالم میں مشہور ہے، اور ہر طرف اس کا چرچا ہے، میں جس مایۂ ناز استاذ اور مفخرہ معلمین کی کہانی سنانے جا رہا ہوں وہ نام اور شہرت سے بے پرواہ ہے، گمنامی اس کا سرمایۂ حیات، اور گوشۂ خمول اس کی عافیت گاہ ہے۔ ’’
انہوں نے مزید لکھا ہے : ’’استاد محترم مولانا سید محمد واضح رشید ندوی سے میں نے کئی سال با قاعدہ تعلیم حاصل کی ہے، اور مدتوں استفادہ کیا ہے، دار العلوم ندوہ العلماء سے جدائی کو تیرہ سال ہوگئے ہیں لیکن آج بھی میرا دل مولانا کی محبت وعقیدت سے اسی طرح لبریز ہے، مولانا کی مجالس کی یاد ہمہ وقت ستاتی رہتی ہے، مادر علمی میں گزارے ہوئے وہ لمحات یاد آتے ہیں جب کلاس روم میں ہم مولانا کے درس سے مستفید ہوتے، یا ’’الرائد‘‘ کے دفتر میں مولانا کی گفتگو اور تبصروں سے لطف اندوز ہوتے، بلکہ اس سے زیادہ وہ گھڑیاں ستاتی ہیں جب ہم مولانا کی خاموشی اور سکوت سے فیضیاب ہوتے، مولانا کی ہر ادا، نشست وبرحاست، سکوت ونطق تعلیم وتربیت کے دروس واسباق ہیں ، ماضی کی یہ یاد کس قدر ناخن بدل ثابت ہو رہی ہے:
ہمارے آگے ترا جب کسی نے نام لیا
دل ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا
علم وحکمت، دانش وآگہی اور ادب وصحافت مولانا کی دلچسپی کا سامان ہیں ، مولانا کی اٹھان ہی ایسی ہے کہ لکھنا پڑھنا زندگی کا ایک ضروری مشغلہ بن گیا ہے، بچپن سے علم وادب کی قدر اور زندگی کی تمام دوسری قدروں پر اس کی فوقیت کا احساس مولانا کے ریشہ ریشہ میں پیوست ہے، مولانا کے شجرہ میں دونوں طرف علم وحکمت اور روحانیت ومعرفت رہی ہے، اور ایسا کیوں نہ ہو جبکہ آپ سلالۂ عظام اور زبدہ کرام ہیں ، اور آپ کے دونوں شجرے برگ و بار ہیں شاخ حسنی وعلوی، فرع محمدی اور اصل اسماعیلی وابراہیمی کے:
اصل وفرع را کہ بینی حاصل یک مایہ اند آفتاب وپرتوش از ہم جدا نتواں گرفت‘‘
میں نے مولانا اکرم ندوی صاحب کی تحریر کا حوالہ اس لئے دیا ہے کہ مذکورہ احساس خود میرے احساس کی ترجمانی ہے۔
مولانامحترم صرف استاد ومعلم ہی نہیں بلکہ نامور ادیب اور ماہر سیاسیات اور عالمی منظر نامہ پر گہری بصیرت رکھتے تھے۔ سیاسی حالات پر مبنی مضامین بزبان عربی رسالہ ’’الرائد‘‘ کے ہر شمارہ میں شائع ہواکرتے تھے۔ آپ کی علمی بصیرت کا دنیا اسلام اور دنیا ئے عرب کو اعتراف ہے۔ آپ نے کئی کتابیں اور کتابچے تصنیف کئے ہیں جو آپ کی علمی بصیرت اور علم کی گہرائی وگیرائی کی جیتی جاگتی ثبوت ہیں۔
آپ کا بروز چہارشنبہ 16؍جنوری2019ء کو صبح کی اولین ساعتوں میں انتقال ہوگیا۔ نماز جنازہ بعد نماز ظہر ادا کی گئی۔ جنازہ میں ہزاروں کی تعداد میں شیدان علم وفن، عشاق علم نبوت اور آپ کے شاگردوں میں نے شرکت کی۔ یوں تو سب کو ایک دن اس دارفانی سے جانا ہے۔ لیکن موت اس کی جس کو زمانہ کرے یاد کے مصداق مولانا کے رخصت ہونے سے ایک علم کی دنیا ویران ہوگئی۔ ایک چمن اجڑ گیا۔ کلیجہ منہ کو آرہاہے۔ دل کی کیفیت عجب ہے، جس کا بیان شاید الفاظ وجملوں میں نہیں ہوسکتاہے۔ بس یوں لگ رہاہے کہ
’’وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے ‘‘
دل پریشاں اور ذہن ودماغ قضا وقدر کے فیصلوں میں الجھی ہوئے ہیں اور زبان بے اختیار کہہ رہی ہے کہ
جو بادہ کش تھے پرانے، وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آب بقائے دوام لے ساقی!
علامہ اقبال
بارگاہ رب العز میں انتہائی عاجزانہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ استاذ محترم کو ان کی خدمات کا بہترین بدلہ نصیب کرے اور امت کی جانب سے جزا خیر عطا فرماکر اپنی وسیع وعریض جنت میں جگہ عطا کرے۔ آمین
تبصرے بند ہیں۔