ایک خصوصی تحریر: بابری مسجد کی یوم شہادت

مھدی حسن عینی
ایک بار پھر ہر سال کی طرح آج چھ دسمبر ہے.
یہ ایک ایسی کالی تاریخ ہے،
جس نے آزاد اور سیکولر بھارت کو جو زخم دئیے ہیں،
وہ ابھی تک ہرے  ہیں.
اس زخم کو یہ  حقیقت اور بھی كریدتی ہے کہ
بابری مسجد کے متنازعہ ڈھانچے کو گرانے والوں کو اب تک سزا نہیں ملی ہے.
غور طلب ہے کہ آج سے 24 سال پہلے مذہب اور عقیدے کی آڑ میں سیاسی فوائد کے لئے چلائے گئے ایک ‘تحریک’ نے بابری مسجد کو زمین دوز کر دیا تھا.
اس مجرمانہ کارروائی کے ذریعے ایک سیاسی عزائم کو مذہبی حقیقت میں تبدیل کر دیا گیا تھا.
چھ دسمبر کی سازش جس نفرت کی سیاست کی تعبیر تھی،
اس نے ملک کے پورے سیاسی وسماجی سماجی تانے بانے کو بانٹ کر  رکھ دیا.
ہزاروں لوگ موت کے گھاٹ اتار دیے گئے.
 ملک اور معاشرے کے بارے میں سوچنے والوں کی جو فکر ملک کو ہر محاذ پر آگے بڑھانے میں لگنی چاہیے تھی،
وہ اس واقعہ کے بعد ملک کے سیکولر شکل کو  بچانے میں لگ گئی.
لیکن افسوس کی بات ہے کہ ایسا کرنے میں سیکولر طاقتیں آج تک کامیاب نہیں ہو پائی ہیں،
بابری مسجد فن تعمیر کا کوئی لاثانی نمونہ نہیں تھا.
یہ ملک کی دوسری مسجدوں  کی طرح ایک مسجد تھی،
بلکہ ایک عام مسجد کا ڈھانچہ تھا، جسے کوئی بہت خوبصورت عمارت بھی نہیں کہا جا سکتا.
 لیکن متنازعہ ڈھانچہ ہونے کی وجہ سے ایک سیکولر ملک کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ اس سے متعلق حتمی فیصلہ آنے یا باہمی رضامندی ہونے تک اس کی مکمل حفاظت کرے. لیکن ایسا کرنے میں بھارت بطور ایک راشٹر کے  ناکام رہا.
24 سال پہلے جو ایک  چیز تھی،
وہ اب یاد میں بدل گئی ہے.
ایسی یاد جس کا ذکر کرنے میں بھارتی پارلیامینٹ اور آزاد عدلیہ کو اب ہچکچاہٹ ہونے لگی ہے،
بلکہ شاید یہ کہنا بہتر ہو کہ اس کے ذکر نہ کرنے میں ہی اسے عافیت محسوس ہوتی ہے.
یہ کہنے کی صورتحال اس وجہ سے پیدا ہوئی ہے کیونکہ الہ آباد کی لکھنؤ پیٹھ کے بابری مسجد تنازعہ سے متعلق اپنے فیصلے میں چھ دسمبر، 1992 کا کوئی ذکر تک نہیں کیا.
 لیکن آج سے 6 سال پہلے جب یہ فیصلہ آیا تب ڈرے ہوئے اقلیتی سماج اور تھکے ہوئے سیکولر جماعت نے تقریبا سات ہزار صفحات کے اس فیصلے کے خطرے کو سمجھنے کی جگہ یہ کہتے ہوئے فیصلے سے بچ کر نکلنا چاہا کہ چلو فسادات تو نہیں ہوئے،چلو بات ختم کرو.
لیکن ایسا کرنا یہ بتاتا ہے کہ ہم اور ہمارے حکومتی  ادارے  دانستہ  یا نادانستہ طور پر تیزی سے فرقہ وارانہ طاقتوں کے اثر میں آتے جا رہے ہیں.
ایسے میں راشٹر کی ناکامی، عدلیہ کی ہچکچاہٹ اور معاشرے میں پھیلی راحت کی ہوا،جو کہ اندیشوں  اور خوف میں لپٹا ہوا ہے،
ان سب  کے درمیان اس سیاہ دن کو یاد کرنا کیا ضروری ہے؟
کیا 24 سال پہلے ہوئی ایک ‘سازش’ کی بار بار یاد دلا کر کہیں ہم اپنے معاشرے کو ذہنی طور پر آگے بڑھنے سے روک تو نہیں رہے؟
یاد کرنا اور یاد رکھنا ہمیشہ حفظان صحت کے  ہو، ضروری نہیں. کئی بار تو زندگی میں اطمینان کے لئے بھولنا بہتر رہتا ہے.
ان تمام سوالوں  کا جواب یہ ہے کہ اس سیاہ دن کو یاد کرنا ماضی سے چپکے رہنا نہیں ہے اور نہ ہی یہ ہمارے پاؤں میں بیڑیاں ہی رکھنا ہے.
 بلکہ اس ناکامی کو یاد کرتے ہوئے ہمیں یہ سبق لینا چاہئے کہ ہم چوکس رہیں، پھر سے ایسا زہر والا ماحول نا بننے دیں اور مذہبی جذبات کی آڑ میں ووٹ کی سیاست کرنے والوں کو مستقبل میں کامیاب نہ ہونے دیں.
چھ دسمبر کو یاد کرتے ہوئے ایسی سیاست  اور معاشرے  کی تشکیل کی سمت میں مضبوطی سے بڑھنا چاہئے
 کہ جس سے  مستقبل میں دوبارہ کوئی تاریخ چھ دسمبر کی طرح داغ بن کر بھارت کی تاریخ میں درج نا ہو.
کیونکہ آج بھی ہندوستانی مسلمان ہی نہیں بلکہ تمام انصاف پسند لوگ عدلیہ میں اپنے اٹوٹ یقین کے مستحکم ہونے کا ماتم کرتے ہیں،
6 دسمبر 1992 کو ہندوستان کا مسلمان اپنی نظر سے خود گر گیا ،.
پہلی بار اس زمین پر جسے اس نے اپنے خون سے سینچا تھا،
اسے وہیں غیر ملکی ہونے کا احساس ہوا.
اس دن اس حقیقت کا پتہ چلا کہ کس طرح سیکولر لبادے کے اندر فرقہ وارانہ طاقتیں پنپتی ہیں ‘
ایک تاریخی مسجد کی شہادت کے ساتھ کروڑوں مسلمانوں کے ایمان، ان کی خودداری اور ان کے مذہبی جذبات کو کچلا گیا،
 اور اس  ملک کا وزیر اعظم اس پورے واقعے کے دوران چین کی نیند سوتا رہا (موت کے بعد اس کا انجام بھی دنیا نے دیکھ لیا)
فیض آباد ضلع کورٹ کے حکم پر 1986 میں مسجد کا تالا کھلوا دیا گیا. اس وقت ملک کے وزیر اعظم راجیو گاندھی تھے.فیصلہ عدالت کا تھا لیکن ریاست میں بھی کانگریس کی حکومت تھی اور وزیر اعلی ویر بہادر سنگھ تھے.
ریاستی حکومت نے عدالت میں یہ حلف نامہ دائر کیا تھا کہ تالا کھلوانے سے ریاست میں کسی طرح کی بے امنی کی کیفیت نہیں بنے گی  ،
جس پر عدالت نے تالا کھولنے کا حکم دیا.
سوال تو یہ اٹھتا ہے کے
کانگریس کی ریاست میں اس فیصلے کو انتظامیہ نے اتنی مؤثر طریقے سے نافذ کیا کے صرف 40 منٹ کے اندر دروازہ کھلوا دیا گیا.
یہاں تک تو سب ٹھیک تھا لیکن راجیو گاندھی حکومت کے تحت آنے والے دوردرشن نے اس کا لائیو ٹیلی کاسٹ کیا جس سے مسلمانوں میں کانگریس حکومت کے تئیں غصہ امڈ پڑا.
اصل میں راجیو گاندھی نے ایسا اس لئے کیا کے وہ یہ نہیں چاہتے تھے کے شاہ بانو کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو تبدیل کرنے سے جو ان پر مسلمانوں کا حامی  ہونے  کا الزام لگا تھا وہ صحیح دکھائی دے اس لئے اپنے آپ کو ہندو
حمایتی  دکھانے کے کیلئے
 اور اپنی حکومت و ووٹ بینک کو بتورات رکھنے کے لئے انہوں نے اتنی جلدی کی.
راجیو گاندھی نے جیسے ہی مسجد کا تالا كھلواكر اس کا دوردرشن کے ذریعے براہ راست ٹیلی کاسٹ کرایا،
 شدت پسند هندتوادي تنظیموں کو بیٹھے بٹھائے مسئلہ مل گیا.
الہ آباد میں 1989 کے فروری میں کمبھ کے میلے کے دوران وشو ہندو پریشد سے وابستہ سادھو سنت  اكٹھا ہوئے اور انہوں نے یہ اعلان کیا کے آج سے 9 ماہ بعد یعنی نومبر میں وہ ایودھیا میں رام مندر  تعمیر کے لئے سنگ بنیاد رکھا جائے گا.
گاؤں گاؤں جا کر وشوهندو پریشد اور بجرنگ دل کے کارکنان نے نومبر کے مہینے میں ہونے والے سنگ بنیاد کے پروگرام میں شامل ہونے کے لئے اپیل کے ساتھ ساتھ سماج کے جذبات  کو بھڑکانے کا کام کیا.
 اینٹوں  پر رام رام لکھ کر گاؤں گاؤں جلوس  نکالے گئے اور بابری مسجد کو گرانے کے نعرے دیے گئے.
ملک کے وزیر داخلہ بوٹا سنگھ تھے،اکتوبر میں 1989 کو وشوهندو پریشد کے لیڈروں نے ان سے ملاقات کر سنگ بنیاد پروگرام میں کوئی تکلیف اور پریشانی نہ آئے اس کی  یقین دہانی مانگی اور کانگریس حکومت نے وشوهندو پریشد
کے سامنے گھٹنے ٹیک دئے اور سنگ بنیاد پروگرام کی اجازت دے دی.اور خود بوٹا سنگھ اور اترپردیش کے موجودہ
کانگریس پارٹی کے ہی وزیر اعلی نارائن دت تیواری کے ساتھ سنگ بنیاد پروگرام میں شامل ہوئے.
پھر پورے ملک میں جس طرح سے خون کی ہولی کھیلی گئی اس سے ہندوستانی جمہوریت کراہ اٹھی،
اور آج 24 سال گزر جانے کے بعد بھی جب مبینہ رام بھکت لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی، اٹل بہاری واجپئی، کلیان سنگھ، اشوک سنگھل جیسوں کو اپنی زمین پر دندناتے ہوئے دیکھتی ہے،
اور ہندوتو دہشت گردوں کو جمہوریت کا قتل کر شوریہ دوس  مناتے دیکھتا ہے تو بھارتی جمہوریت  بار بار مرتی  ہے،
 بابری مسجد اس کی اصل جگہ پر پھر سے تعمیر کریں گے یا نہیں ‘یہ سوال آج بھی اپنی جگہ قائم ہے، مسلمان مایوس نہیں ہیں،
لیکن بھارت جیسے متنوع مزاج و سماج ملک میں رواداری اور سیکولرزم کے بغیر جمہوریت قائم نہیں رہ سکتا.
اس وجہ سے ہم نے بہت سوچ سمجھ کر جو آئین تسلیم کیا ہے، اس میں سیکولرزم اور جمہوریت ایک دوسرے کے ہم معنی ہیں.بھارت کی جمہوریت میں سبھوں کے برابر شرکت ہے، سب کو برابر کی  اہمیت ہے.
لیکن چھ دسمبر کا واقعہ اس بات کی علامت ہے کہ اس سے  یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ اگر اکثریت کے دباؤ
 کو قبول نہیں کیا گیا تو وہ مذھب کے نام پر آئین، قانون اور رواداری کی دھجیاں اڑانے سے چوکیں گے نہیں.
بھارت کے سیکولر مستقبل یا یوں کہیں کہ ہندوستان کے وجود کو بچانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ پھر کوئی رام کا نام بدنام نہ کرے اور نہ ہی ہم ایسا کرنے دینے کی کوئی گنجائش ہی چھوڑیں.
کیونکہ کیفی اعظمی کے بقول
رام بنواس سے جب لوٹ کے گھر میں آئے
یاد جنگل بہت آیا جو نگر میں آئے
رقص  دیوانگی آنگن میں جو دیکھا ہو گا
چھ دسمبر کو شری رام نے سوچا ہوگا
اتنے دیوانے کہاں سے میرے گھر میں آئے
جگمگاتے تھے جہاں رام کے قدموں کے نشاں
پیار کی کہکشاں لیتی تھی انگڑائی جہاں
موڑ نفرت کے اسی راہ گذر میں آئے
دھرم  کیا  ان کا ہے،کیا ذات ہے یہ جانتا کون؟
گھر نہ جلتا تو انہیں رات میں  پہچانتا  کون؟
جلتی مشعل لئے جو لوگ نظر میں آئے
شاکاہاری ہے  میرے دوست تمہارا خنجر
تم نے بابر کی جانب پھینکے
تھے سارے پتھر
ہے میرے سر کہ خطا زخم جو سر میں آئے
پاؤں سریو میں ابھی رام نے دھوئے بھی نہ تھے
کہ نظر آئے وہاں خون کے گہرے دھبے
پاؤں دھوئے بغیر سریو کے کنارے سے اٹھے
رام یہ کہتے ہوئے اپنے دوارے سے اٹھے –
راجدھانی  کہ فضا آئی نہیں راس مجھے
چھ دسمبر کو ملا دوسرا بنواس مجھے
✍????
یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔