عادل فراز
بابری مسجد اور رام جنم بھومی تنازعہ میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا تمام مسلمانوں نے تہہ دل سے خیرم مقدم کیا۔ اس فیصلے کے بعد دونوں طرف سے کسی بھی ایسے ردعمل کا اظہار نہیں کیا گیا جس سے ملک میں نقض امن کا خطرہ پیدا ہوسکتا تھا۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے فیصلے کا احترام اسی طرح ہونا چاہئے تھا۔ رہی اس فیصلے پر نظرثانی کی بات تو یہ ہمارا آئینی حق ہے جس پر برانگیختہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن ہمارا مطمح نظریہ ہے کہ اب ریویو پٹیشن داخل کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ مسلمان ایک بار پھر رسوائی کا شکار ہوں گے کیونکہ جب فیصلہ تاریخی شواہد اور ثبوتوں کی بنیادپر نہ ہوکر آستھا کی بنیاد پر ہو تو نظرثانی کے لئے درخواست گذارنا بے مقصد ہے۔
عدالت عظمیٰ نے واضح طورپر آستھا کی بنیاد پر فیصلہ سنایاہے۔ فیصلے میں ’رام للا ‘ کو ایک مدعی کی حیثیت دیکر ان کا متنازع زمین پر حق ملکیت تسلیم کیا گیاہے۔ جب عدالت عظمیٰ ’رام للا‘ کو زمین کا مالک تسلیم کررہی ہے تو کیا مسلمان اب بھی یہ امید رکھتےہیں کہ عدالت ’رام للا‘ کے خلاف فیصلہ سنانے کی ہمت رکھتی ہے ؟۔ قانونی لڑائی تاریخی شواہد اور ثبوتوں کی بنیاد پر لڑی جاتی ہے، آستھا کی بنیاد پر نہیں۔ ویسے بھی عدالت نے فیصلے میں مسلمانوں کی آستھا کو کوئی اہمیت نہیں دی تو پھر ریویو پٹیشن داخل کرنے کا کیا فائدہ ہوگا؟۔ اگر ریویو پٹیشن قبول ہوجاتی ہے تو اب لڑائی ثبوتوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ آستھا کی بنیاد پر لڑی جائے گی۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اب زعفرانی تنظیمیں یہ پروپیگنڈہ کرینگی کہ مسلمانوں نے ’رام للا‘ کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کیاہے کیونکہ عدالت نے زمین کا مالک ’رام للا‘ کو قراردیاہے۔ اس لئے ملک میں امن و امان برقرار رکھنے اور زعفرانی تنظیموں کے پروپیگنڈہ کو ختم کرنےکے لئے ریویو پٹیشن داخل کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔
عدالت عظمیٰ کا فیصلے میں بابری مسجد کے لئے الگ سے پانچ ایکڑ زمین دینا اس بات کی دلیل ہے کہ عدالت نے متنازع زمین پر مسلمانوں کے حق ملکیت کو تسلیم کیاہے۔ اگر مسلمانوں کے حق ملکیت کو تسلیم نہ کیا جاتا تو پھر الگ سے پانچ ایکڑ زمین دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ قابل غور بات یہ ہے کہ متنازع زمین پر مسلمانوں کے حق ملکیت کو تسلیم کرنے کے باوجود ہندئوں کی آستھا کی بنیاد پر فیصلہ کیوں سنایا گیا؟۔ اس سے واضح ہوتاہے کہ عدالت عظمیٰ کو یہ یقین تھاکہ اگر فیصلہ ملک کی اکثریت کے حق میں نہیں دیا گیا تو اقلیتوں کی جان، مال اور ناموس محفوظ نہیں رہے گی۔ عدالت عظمیٰ نے اس فیصلے میں دوراندیشی کا ثبوت دیاہے، یہ الگ بات کہ اس فیصلے کی تمام ناقدین کے ساتھ ہم نے بھی تنقید کی ہے کیونکہ فیصلے میں ہماری عقیدت کا احترام ملحوظ نہیں رکھا گیا۔ مگر جب ہم اس فیصلے پر غورکرتے ہیں تو معلوم ہوتاہے کہ یہ فیصلہ ملک کے حق میں ہے اور ملک کے مسلمانوں کے حق میں بھی۔ ہاں اس حقیت سے انکار نہیں کیا جاسکتاکہ فیصلے کی بنیادیں کمزور ہیں جس پر عدالت عظمیٰ کی تنقید جاری ہے۔
مسلم پرسنل لاء بورڈ اور دوسرے مولوی صاحبان جو نظرثانی کا مطالبہ کررہے ہیں دراصل اپنی قیادت کا پرچم بلند رکھنے کے خواہاں ہیں۔ یہ پورا گروہ کبھی بابری مسجد اور امت مسلمہ سے مخلص نہیں رہا۔ جس طرح بی جے پی نے رام مندر کا قضیہ زندہ رکھ کے ہمیشہ اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کی ہے اسی طرح بعض مسلم رہنمائوں اور وکیلوں نے بابری مسجد قضیہ کو زندہ رکھا تاکہ ان کی قیادت کا بھرم باقی رہے۔ آج بھی یہ لوگ بابری مسجد کے نام پر اپنی مردہ سیاست اورقیادت میں دوبارہ روح پھونکنے کی کوشش کررہے ہیں مگر اب اس راکھ کے ڈھیر میں چنگاری تک نہیں ہے۔
مسلم قیاد ت کا یہ کہنا کہ مسجد کو منتقل نہیں کیا جاسکتاہے لہذا بابری مسجد کی منتقلی کے لئے وہ آمادہ نہیں ہیں، ایک مضحکہ خیز بیان ہے جس میں تاریخ سے ناواقفیت صاف جھلکتی ہے۔ اس سے پہلے بھی عالم اسلام میں مسجدیں منتقل ہوتی آئی ہیں اور آئندہ بھی ہوتی رہیں گی۔ اگر اسلامی ممالک میں مساجد کی منتقلی کا نظام موجود ہے تو پھر ہندوستان میں واویلا مچانے کی کیا ضرورت ہے ؟۔ مسئلہ بس اتنا ہے کہ مساجد کی منتقلی کا یہ سلسلہ ایسے ممالک میں پیش آیا جن سے ہماری عقیدتیں وابستہ ہیں، اس لئے ہم نے کبھی ان کے خلاف بولنے کی جرأت نہیں کی۔ ترکی میں ۶۱۰ سالہ قدیم مسجد کو ڈیم کی تعمیر کے لئے منتقل کیا گیا تھا اس وقت پورا عالم اسلام خاموش رہا۔ اگر مساجد کی منتقلی غیر اسلامی عمل ہے تو پھر ہم اسلامی ملکوں کے خلاف کیوں نہیں بولتے ؟۔ اگر ہندوستان میں اپنی قیادت کے تحفظ کے لئے سیاست کی جارہی ہے تو پھر قائدین محترم ہندوستان میں امن و بھائی چارہ کا ماحول بنارہنے دیں۔ اس کو ختم کرنے کی کوشش بالکل نہ کریں۔ اب بہتر یہی ہوگا کہ عدالت کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے بابری مسجد کے مسئلے سے دستبردارہوجایا جائے۔
جو مسلم قائدین عدالت کے فیصلے پر نظرثانی کا مطالبہ کررہے ہیں انہوں نے کبھی مسلمانوں کی تعلیمی، اقتصادی اور سیاسی پسماندگی دورکرنے کے لئے کوئی مضبوط منصوبہ بندی کیوں نہیں کی ؟۔ ایودھیا میں اگر بابری مسجد تعمیر ہوجاتی ہے تب بھی کیا مسلمانوں کی ترقی کی راہیں ہموار ہوجائیں گی ؟۔ ہرگزنہیں !۔ اس وقت ملک کا نوجوان اپنی لیڈرشپ سے متنفر ہوچکاہے۔ وہ مایوسی کے عالم میں اپنے قائدین کی جانب دیکھ رہاہے کہ آخر انہوں نے ہمارے مستقبل کی بہتری کے لئے کیا مناسب اقدامات کئے ہیں ؟۔ حقیقت یہ ہے کہ ان مولویوں اور تنظیموں کے پاس سہم شریعت کا اتنی موٹی رقم آتی ہے جس کا ہمیں اور آپ کو اندازہ بھی نہیں ہوگا۔ مگر افسوس ان کے پاس نہ تو کوئی معقول وژن ہے اور نہ قوم کے جوانوں کے لئے کوئی منصوبہ بندی۔ یہ فقط اپنی حکمرانی قائم رکھناچاہتے ہیں اور اس کے لئے وہ کسی بھی حدتک جاسکتے ہیں۔ اب مسلم نوجوانوں ایسے لیڈروں کے دام فریب سے باہر نکلنا ہوگا کیونکہ اب ایسے ضمیر فروش مولوی ان کے مستقبل کا فیصلہ نہیں کرسکتے !جوانوں کو بیدار ہونا ہوگا اور اپنے مستقبل کی فکر کرنی ہوگی کیونکہ وقت اور حالات تیزی کے ساتھ بدل رہے ہیں۔
اب ہندوستان میں امن و امان اور یکجہتی کے فروغ کے لئے مسلسل کوششیں ہونی چاہئیں۔ جو تنظیمیں ’ ہندتوو‘ اور ’راشٹرواد‘ کی بنیادپر سیاست کررہی ہے ان کا جھوٹ بھی اب طشت از بام ہوچکاہے۔ یہ بوکھلائی ہوئی سیاسی جماعتیں ہماری ایک چھوٹی سی غلطی سے دوبارہ بام عروج پر پہونچ سکتی ہیں، لہذا ان کے زوال کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔