بالغ نظر نثر نگار: شرف الدین ساحل کی ادبی خدمات کا اعتراف
وصیل خان
زیر نظر کتاب ’ بالغ نظر نثر نگار ‘ کی مرتب شبانہ پروین ہیں اور جو صاحب تذکرہ کی بہو نما بیٹی ہیں جنہوں نے ساحل صاحب کی پیرانہ سالی اورخصوصا ً آنکھوں کی معذوری کے سبب ان کے ادھورے کاموں کو منظر عام پر لانے کا مستحسن ارادہ کیاہے اللہ انہیں عزم و حوصلہ سے نوازے اور ان کے ارادوں کو تقویت بخشے۔ زیر نظر کتاب میں وہ مضامین و مقالات اور تبصرے شامل ہیں جوالگ الگ مواقع پر مختلف قلمکاروں نے شرف الدین ساحل کی ادبی خدمات پر قلم بند کئے ہیں جسے مرتب نے یکجا کرکے ایک خوبصورت اعترافیہ کتاب کی شکل میں نذر قارئین کردیا ہے۔
شرف الدین ساحل جولان گاہ ادب کیلئے غیر متعارف نہیں وہ ایک طویل عرصہ سے نہ صرف لکھنے پڑھنے میں مصروف ہیں بلکہ انہوں نے ادب کو متعدد قیمتی تصنیفات سےبھی نوازا ہےجن میں تنقید و تحقیق سے لے کر تاریخ و سیر اور شعرو ادب جیسے موضوعات پر کتابیں شامل ہیں۔ ان کا تعلق ناگپور سے ہےجس نے مہاراشٹر کی دوسری راجدھانی ہونے کے ساتھ ساتھ علم و ادب کے میدان میں بھی ہمیشہ اپنی ایک معیاری شناخت قائم رکھی ہے۔ تاریخی تناظرمیں دیکھیں تو یہاں ہر دور میں ممتاز اہل قلم کی ایک اچھی خاصی تعداد موجودرہی ہے۔ یہاں کی مشہور ادبی شخصیات میں ناطق گلاؤٹھی، منظور حسین شور، طرفہ قریشی، حمید ناگپوری مانی ناگپوری، شارق جمال، شاہد کبیر، جلیل ساز، ظفر کلیم، عبدالرحیم نشتر، زرینہ ثانی وغیرہم کے نام بطور مثال پیش کئے جاسکتے ہیں۔ ساحل صاحب نے اردو، فارسی اور عربی میں ایم اے کرنے کے بعد ناگپور سے ہی ایک تحقیقی مقالہ ’ ناگپور میں اردو ‘ لکھ کر پی ایچ ڈی کی بھی سند حاصل کرچکے ہیں بعد میں انہوں نے ڈی لٹ کیلئے بھی ایک مقالہ تحریر کیا لیکن ممتحنین میں کچھ اختلافات کے سبب ڈی لٹ کی سند تونہ مل سکی لیکن یونیورسٹی کے ذمہ داران نے انہیں ایک بار پھر پی ایچ ڈی کی سند تفویض کردی۔ ان کی شعری تصنیفات دست کوہکن، شرار جستہ، حراکی روشنی اور آئینہ ٔ سیما کے عنوان سے شائع ہوچکی ہیں اسی طرح تحقیق و تنقید پر مشتمل ان کی متعدد کتابیں شائع ہوچکی ہیں جن میں ’ ملت اسلامیہ کا سفر، بیان میرٹھی حیات و شاعری، کامٹی کی ادبی تاریخ، تاریخ ناگپور، سرسید ایک مطالعہ، ناگپور میں اردو کا ارتقائی سفر، ناگپور کا مسلم معاشرہ تین جلدوں میں، بیان میرٹھی اور غالب کے علاوہ شرح قصیدہ مدیح خیرالمرسلین، شرح کلام غالب، معیار ادب جیسی اہم ترین کتابیں شامل ہیں جو ادب میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں، اس کے علاوہ انہیں ملک کی مختلف اردو اکادمیوں کی جانب سے متعدد انعامات سے بھی نوازا جاچکا ہے۔
ڈاکٹر آغا غیاث الرحمان لکھتے ہیں کہ’’ ڈاکٹرساحل نے دوسروں کی سلگائی ہوئی آگ پر اپنے ہاتھ نہیں سینکے بلکہ اپنی آگ خود جلائی ہے۔ ان کے اندر تجسس کی جو ایک چنگاری روشن ہوچکی تھی مسلسل کئی سال سے اپنے آپ کو سرگرم عمل رکھ کر اس چنگاری میں مزید حدت پیدا کرتے رہے یہاں تک کہ وہ چنگاری شعلہ جوالہ بن گئی اور اس کی آگ میں تپ کر ساحل کے اندر تلاش و جستجو کیلئے فولادی صفات اور تخلیقی بصیرت پیدا ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ناگپور اور کامٹی کے گمشدہ ادبی سرمائے کو تلاش و جستجو کے بعد یکجا کیا اور بحسن و خوبی مختلف عنوانات کے تحت مرتب کرکے منظر عام پر پیش کرنے کا زبردست کارنامہ انہوں نے انجام دیا۔ بہت کم شخصیتیں ایسی ہوتی ہیں جن کے سر پر کسی کام کو انجام دینے کا سہرا بندھتا ہےڈاکٹر صاحب کا شمار انہی افراد میں ہوتا ہے۔ ‘‘
راقم الحروف کو بھی موصوف کی کئی ایک کتابوں پر اظہار خیال کا موقع مل چکا ہے، مطالعاتی تجربہ یہی باور کرتاہے کہ ڈاکٹر شرف الدین ساحل ایک ہمہ جہت قلمکار ہیں اور تقریبا ً تمام تصنیفات ان کی صالح فکری اور جذبہ صادق کی ترجمان بنی ہوئی ہیں جب وہ تحقیقی و تنقیدی میدان میں قدم رکھتے ہیں تو اس کے جملہ لوازمات کا خیال رکھتے ہوئے ان تاریک گوشوں کو بھی منور کرنے کی کوشش کرتے ہیں جہاں جہاں سے ان کی تحقیق روشن ہوسکے اسی طرح وہ تنقید کو تنقیص نہیں بناتے ظاہر ہے تنقید اور تنقیص میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ تنقید بلاشبہ اسلام اور معاشرے کی مقبول و مرغوب شئے ہےجس کا مقصد تعمیر ی انقلاب ہے نہ کہ تخریب۔تنقیص بلاشبہ اسلام اور معاشرہ دونوں کیلئے نامحمودفعل قرار دیا گیا ہے جس کی بنیاد شر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تنقید کے دوران جملہ عوامل پر گہری نظر رکھتے ہوئے چیزوں کو اسی مقام پر رکھتے ہیں جو اس کی اصل جگہ ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ تنقید ہر لحاظ سے ایک جائز اور مفید عمل ہے لیکن تنقیص بہر صورت ایک ناجائز اور ضرررساں عمل ہے۔ ساحل صاحب نے اپنی تحریروں میں ان نکتوں کا خاص خیال رکھا ہے۔ محمد دانش غنی کا یہ اقتباس صد فیصد درست ہے جس میں انہوں نے موصوف کا درست تجزیہ کیا ہے۔
’’ ساحل صاحب نے نصف صدی کے طویل ادبی سفر میں جدید رجحانات اور افادی نقطہ نظر کو اپنا یا اور ادب کی تخلیق میں اعلیٰ مقاصد کو پیش نظر رکھا اور اسے وزن و وقار بخشا اور زندگی کے زمینی حقائق اور علمی موضوعات سے قارئین کو روشناس کرایا۔ ان کی تحریروں میں جہاں ایک طرف ان کی شخصیت کا عکس نظر آتا ہے وہیں دوسری طرف ان کے عہد کی جھلک بھی صاف دکھائی دیتی ہے۔ وہ جہاں ایک ماہر تعلیم اور دانشور کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں وہیں ایک منفرد تبصرہ نگار و مقرر بھی تسلیم کئے جاتے ہیں جس سے ان کے اسلوب کا حقیقی رنگ دکھائی دیتا ہے۔ ‘‘
بہرحال مرتب کی یہ کوشش اس لئے بھی قابل تحسین سمجھی جائے گی کہ اردوادب کےاس زوال پذیر دور میں جب عوامی سطح پر اس جانب دلچسپیاں معدوم ہوتی جارہی ہیں ایوان ادب میں اس کا خیرمقدم کیا جانا چاہیئے اور امید کی جانی چاہیئے کہ وہ بقیہ ادھورے کاموں میں بھی اپنی دلچسپی برقرار رکھیں گی۔
نام کتاب: بالغ نظر نثر نگار ( شرف الدین ساحل )، مرتب: شبانہ پروین، زیر اہتمام:علیم، پبلی کیشنز، حیدری روڈ، مومن پورہ، ناگپور(مہاراشٹر )، قیمت:200/- روپئے صفحات: 352، ملنے کا پتہ: ساحل کمپیوٹرس، حیدری روڈ مومن پورہ ناگپور ۴۴۰۰۱۸( مہاراشٹر)، موبائل : 07276006332-09021106583
تبصرے بند ہیں۔