بحث و تنقید کی علمی دنیا اور جاہلانہ روش   

عبدالعلیم بن عبدالحفیظ سلفی

الحمدللہ وحدہ والصلاة والسلام على من لا نبي بعده، وبعد:

بحث وتحقیق اور علمی دنیا میں اختلاف اور تضاد رائے عام سی بات ہے ، حسب محل اسلوب میں نرمی اور سختی دونوں بحث وتحقیق کا لازمہ ہیں ، جس کے سبب تعریف وتنقید کاسلسلہ کبھی دراز سے درازتر ہوتا چلا جاتا ہے اور کبھی کسی نتیجے پر پہنچ کر یا بسااوقات بغیر پہنجے بھی ختم ہوجاتا ہے۔

جامعہ سلفیہ بنارس میں تعلیمی دورمیں اساتذہ کرام کی رہنمائی میں اور جامعہ امام ابن تیمیہ اور مرکز امام ابن باز میں تدریسی اور بحث و تحقیق اور تصنیف وتالیف سے منسلک رہتے ہوئے میں نےبے شمار محققین ومصنفین کے اسالیب تحقیق وتنقید کا بغور مطالعہ کیا ہے، علماء وناقدین کی سنجیدگی وغیرسنجیدگی دونوں طرح کے طرزو اسلوب سے واسطہ پڑا ہے، اس میدان میں کچھ ناقدین کی قدرو قیمت اور مقام ومرتبہ کا یہ عالم تھاکہ جن پر نقد کرتے وہ ان کے علم ومعرفت کی بے تحاشہ قدر کرتے ، اور اس کی وجہ بھی ہوتی تھی وہ یہ کہ یہ خود ان کے علم ومعرفت کی قدر کرتے تھے۔

لیکن گذرتے وقت کے ساتھ اس میدان میں ساری قدروں کو پامال کردیا گیا ہے، نہ علم کی قدر ہے اور نہ ہی علماء کی، بس کوئی آپ کی رائے کے خلاف لکھ دے اسے اپنی شخصیت کی تنقیص اور کسرشان سمجھ لیا جاتا ہے، اور ادب و احترام کے سارے حدود پار کر دئے جاتے ہیں۔

اور یہ رویہ جب علماء کے اندر پیدا ہوجائے توپھر عوام ایک دوسرے سے بدست وگریباں ہوجاتےہیں۔
میں نے کئی سالوں سے اس کے اسباب پر غور کرنے کی کوشش کی ہے ،اور جو اسباب ميرے سامنے آئے وہ نہایت ہی مایوس کن اور علم وادب کے لئے سم قاتل ہیں:

١- خود فریبی وخود نمائی : یہ ایسی بیماری ہے جو کسی کے اندر پیدا ہو جائے تو ادب واحترام کے سارے جذبات کو مجروح کرڈالتاہے ، خصوصا علماء کے اندر اپنے علم کے تئیں غیرضروری اور غیر مناسب عجب اور گھمنڈ اپنے علاوہ دیگراصحاب علم کی تنقیص پر ابھارتاہے۔

آپ جب چند مضامین کی تصنیف یا ترجمہ کرکے خود کو علامہ اور منار علم سمجھنے لگیں تو پھر سارے علماء ہیچمداں نظر آئیں گے اور آپ کےاندر علمی تواضع وانکسار اور دوسروں کے علم کی قدر ہو تو وقت کاابن تیمیہ اور ابن المبارک ہونے کے باوجود ایک ادنی طالب کے علم کی قدر کرنے کا جذبہ پیدا ہوگا جو آپ کے علم کے معیار اور مقام ومرتبہ کو بلند سے بلند تر کرتا جائےگا۔

کچھ لوگ خود آپ سے آپ کے مضمون کی تعریف کریں توتھوڑی دیر کے لئے خوشی تو ہوتی ہے لیکن سچ پوچھئے تویہ آپ کے لئے کوئی تعمیری اور مثبت پہلو نہیں رکھتا، جبکہ کسی کی تنقید آپ کو مزید اپنے علم میں نکھار کاموقع فراہم کرتی ہے اور اپنی غلطیوں اور جانے انجانے سرزد بعض فکری کجی کے اندر سدھار کا راستہ فراہم کرتی ہے۔

٣- متعصبانہ رویہ:

جامدانہ تقلید نے اپنے ناقد یا مد مقابل کے تئیں ہمارے اندر جارحانہ و متعصبانہ رویہ کو جنم دیا ہے، کسی نے ہمارے موقف کا رد کیا نہیں کہ ہمارے اندر جاہلیت و تعصب کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے۔

چند سالوں پہلے ایک صاحب نے مجھے اپنے فیس بک گروپ میں شامل کرلیااسی گروپ میں انہوں نے عرفہ کے روزے سے متعلق اپنے موقف کو بیان کیا میں نے کمنٹ میں ان کے موقف کی مخالفت کی اور ان سے اس پہ نظر ثانی کی درخواست کی جو کہ میرا حق تھا اور شریعت کے ایک ادنی طالب کی حیثیت سے میری ذمہ داری بنتی تھی کہ سنت سے ثابت ومتعین عمل کی حیثیت کو بیان کروں جسے اجماع کے نام پر (جو کہ اصلا محال ہے) اور اجتھاد واختلاف مطالع کی واقعیت و غیر واقعیت کا غلط سہارا لے کر رد کیا جا رہا ہو۔ ان صاحب نے غصہ میں میرے کمنٹ کو ڈلیٹ کرکے مجھے بلاک کردیا ، میں نے جب ان باکس میں ان سے وجہ پوچھی توایساجواب ملا جسے سن کر کوئی بھی ذی شعور سوائےسر پیٹنے کے اور کچھ نہیں کرسکتا ۔ وہ کہنے لگے کہ آپ نے بے ادبی کی ہے اسلئے بے ادبی والے کمنٹ کو ڈلیٹ کردیا ہے۔ !!!

ابھی کچھ دنوں قبل ایک صاحب کی وڈیو دیکھ رہا تھاجوعرفہ کے روزے سے متعلق تھی جس میں اس روزے کو قیام عرفات سے متعلق ماننے والوں کو ” تکفیری ” جیسے صفت سے متصف کیاگیاہے۔

اب بات سمجھ میں نہیں آتی کہ قرن اول سےلے کر اب تک امت کا اتنابڑا طبقہ جس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر عصر حاضر کےبڑے بڑے اور بزرگ علماء تک صوم عرفہ کو قیام یوم عرفہ سے متعلق مانتے رہے ہیں سب کے سب کافر ہیں؟؟؟؟؟ "واللہ المستعان علی ما تصفون”۔

اور تعجب خیزبات یہ بھی ہے کہ رد عمل میں دوسرے گروہ کے تعلق سے بھی نازیبا کلمات کہے جارہے ہیں۔ اللہ ایسے لوگوں کو ہدایت دے۔

٣-دوسرے کے علم کی ناقدری:

ہمارے اسلاف نے علم وتحقیق کی دنیا میں اپنا مقام مرتبہ اس لئے بنایا کیوں کہ انہیں دوسروں کے علم کی قدر کرنا معلوم تھا، بلکہ جب وہ کسی پر نقد کرتے تو ایسا لگتا کہ انہوں نے صاحب کلام سے زیادہ مرتبہ ان کے کلام کو پڑھا ہے اور ان سے زیادہ سمجھنے کی کوشش کی ہے، جس سے مد مقابل کے علمی مقام ومرتبہ کا پتہ بھی جلتا تھااور تنقید کا سلیقہ بھی پیدا ہوتا تھاجس کی وجہ سے تنقید برائے جنگ و جدل نہ ہو کر تنقید برائے تعمیرو اصلاح اور تفہیم وتوحید ہوا کرتی تھی۔

عرفہ کے روزہ کے تعلق سے ہی جب میں نے مذکور صاحب سے اپنے ایک مضمون کے مطالعہ کاالتماس کیا تو ان کا جواب تھاکہ :”مجھے آپ کے مضمون سے کوئی مطلب نہیں ، میں نے جو باتیں کہی ہے دلیل کی روشنی میں کہی ہے”۔

اب ان سے کون کہے کہ آپ کے دلائل سے اگر اتفاق و اطمینان ہوتا تو آپ پر نقد کرکے اپنا وقت کیوں ضائع کرتا ؟ اور آپ سے مناسب اور مطمئن کرنے والے دلائل کا مطالبہ کیوں کرتا؟ چند لوگ آپ کے مضمون کی تعریف کردیں اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ آپ عائشہ وعطاء اور ابن باز وغیرہ سے بڑے علامہ فہامہ ہوگئے ؟ اور نہ ہی کسی کے میرے مضمون کی تعریف کردینے سےمیں ابن قدامہ اور ابن عثیمین سے بڑا عالم وفقیہ بن گیا۔ اجتھادی مسائل میں آپ اپنے دلائل پیش کیجئے ہم اپنے دلائل پیش کریں گے آپ ہم پہ نقد کیجئے، ہم آپ پر کریں گے، اور اس وقت تک کریں گےجب تک دوسری طرف سے تسلی بخش جواب نہیں مل جاتا ، لیکن ادب کے دائرے میں، کسی پر آپ اپنا موقف زبردستی نہیں تھوپ سکتے۔

چند دنوں پہلے ایک گروپ میں شامل ایک صاحب نے وہاٹس اپ پہ فون کیا علیک سلیک کے بعد انہوں نے عرفہ کے روزے کے دن کے تعلق سے سوال کیا میں نے اسی گروپ میں شیئر عرفہ سے متعلق اپنےمضمون سے متعلق ان سے سوال کیا کہ کیا انہوں نے اسے پڑھا ہے ؟ ان کا جواب تھا نہیں ۔ جب کہ اس گروپ میں اس مضمون کو کئی بار شیئر کیا گیا تھا۔

لوگ سو، دو سو ڈھائی سو گروپوں میں شامل ہوکر اپنی باتیں شیئر تو کرلیتے ہیں لیکن لوگوں کو ان کی باتوں سے کتنا اشتباہ ہوتاہے اور ان کوکتنی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس سے ان کو مطلب نہیں ہوتا۔

تعجب ہوتا ہے لوگ دوسروں کی تحریروں کو پڑھتے نہیں اور جب انہیں معلوم پڑتا ہے کہ ان موقف کے خلاف کسی نے لکھا ہے تو آگ بگولہ ہوجاتے ہیں اور پھر تنقید کے نام پر تنقیص و تنکیر اور تنفیر کا سلسلہ شروع ہو جاتاہے۔

1 تبصرہ
  1. وصی احمد MA urdu کہتے ہیں

    بعض لوگ تنقید کو هی برامج سمجھتے هیں انهیں یه پته هی نهیں هوتا که صالح اور غیر صالح میں فرق کرنا هی تو تنقید ھے جوال ضروری بهی ھے اور صحیح بهی۔بعض لوگ تعریف سے خوش هوتے هیں اور چاهتے هیں که ان کی هربات پر لبیک کها جاءے۔۔۔۔

تبصرے بند ہیں۔