بنگال میں شراب بندی کا مطالبہ قابل قدر ہے
عبدالعزیز
فارورڈ بلاک کے لیڈر علی عمران ممبر مجلس قانون ساز (Legislative Assembly) نے اسمبلی کے اجلاس کے دوران شراب پر پابندی یا شراب بندی کی بات اٹھاکر مغربی بنگال کے 90 فیصد لوگوں کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کی ہے۔ علی عمران نے ریاست بہار کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ بہار میں شراب بندی سے جرائم میں کمی آئی ہے اور وہاں کے حالات میں سدھار آرہا ہے۔ جب بہار کے وزیر اعلیٰ کا بنگال اور بنگال کے وزیر اعلیٰ سے رابطہ ہے۔ایک دوسرے کے یہاں جانا آنا ہے تو شراب کے معاملے میں بھی مغربی بنگال میں بہار ماڈل اپنانے کی ضرورت ہے۔ علی عمران رمز کی بات پر ترنمول کے ایم ایل اے چراغ پا ہوگئے اور انھیں لعن طعن کرنے لگے یہ کہہ کہ ریاست کو 717 کروڑ روپئے شراب ٹیکس کے ذریعہ آمدنی حاصل ہورہی ہے۔ کانگریس کے ایم ایل ڈاکٹر مانش بھوئیاں نے علی عمران کی تائید و حمایت کرتے ہوئے کہاکہ بہار اور بنگال کا میل جول بڑھ رہا ہے تو بہار ماڈل اپنانے میں کیا حرج ہے۔ اگر بنگال کو پاک و صاف بنانا ہے تو ان ساری چیزوں پر روک لگانے کی ضرورت ہے جس سے بنگال میں دن بدن خرابی آرہی ہے۔ جب ہی بنگال ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔ اچھی بات یہ ہوئی کہ سی پی ایم کے ممبر اسمبلی ڈاکٹر سوجن چکرورتی نے بھی فارورڈ بلاک کے ایم ایل اے اور کانگریس کے ایم ایل اے ڈاکٹر بھوئیاں کی پرزور حمایت کی۔ علی عمران رمز نے یہ بھی کہاکہ محترمہ ممتا بنرجی شراب نہیں پیتی ہیں پھر کیوں شراب پینے والوں کو رعایت دے رہی ہیں اور شراب کی فروخت پر پابندی عائد نہیں کر رہی ہیں۔ محترمہ ممتا بنرجی کا کوئی منفی یا مثبت رد عمل نہیں آیا مگر ان کی پارٹی کے لوگوں نے اپنے غصے کا اظہار کیا۔ اس پر بھی محترمہ ممتا بنرجی خاموش رہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ محترمہ ممتا بنرجی شراب بندی کے خلاف ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ ترنمول میں کئی مسلمان ایم ایل اے ہیں مگر سب کی زبان مہر بلب رہی۔
شراب تمام برائیوں کی ماں (ام الخبائث) ہے۔ اس سے بے شمار برائیاں پھیلتی ہیں۔ شراب کی وجہ سے کروڑوں گھر تباہ و برباد ہوتے ہیں۔ عورتیں خاص طور سے شرابی شوہروں کے ذریعہ نشانہ بنتی ہیں۔ بچے بھی شرابی باپ کی عادتوں کی وجہ سے بری لعنتوں کے شکار ہوتے ہیں۔ ان میں خراب عادتیں پیدا ہوجاتی ہیں۔ شراب کے نشے میں ڈرائیور بہت آسانی سے راہ گیروں کو کچل ڈالتے ہیں۔ شراب کی اس قدر خرابیاں ہیں کہ اگر ان کی خرابیوں اور مضر اثرات پر قلمبند کیا جائے تو ایک مضمون کیا ایک کتاب بھی اس کا احاطہ نہیں کرسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں شراب حرام ہے۔ پہلے شراب پینے والوں پر چالیس کوڑے لگانے اور پھر اسی کوڑے کا قانون نافذ کیا گیا اور شراب بنانے، فروخت کرنے، شراب پینے پلانے، ایک جگہ سے دوسری لے جانے ہر چیز پر پابندی کر دی گئی۔ شراب ایسی خراب چیز ہے کہ شراب پینے والے کی زندگی تباہ و برباد ہوجاتی ہے۔ گھر اور بال بچے تباہ ہوجاتے ہیں۔معاشرہ میں گندگی پیدا ہوتی ہے۔ جتنے بڑے بڑے جرائم کرنے والے ہوتے ہیں سب شرابی ہوتے ہیں اور شراب کے نشے میں عموماً بڑے سے بڑا جرم کر ڈالتے ہیں۔ لوگ شرابیوں کو شراب پلاکر بڑے بڑے جرائم کراتے بھی ہیں۔
حکومتیں خواہ ریاست کی ہوں یا مرکز کی، ان سب کو معلوم ہے کہ شراب بری چیز ہے۔ حکومت کی طرف سے ہدایت ہے کہ ہر شراب کی بوتل پر یہ لکھا جائے کہ ’’شراب نوشی مضر ہے‘‘۔ ایک طرف حکومت کہتی ہے کہ شراب مضر ہے۔ صحت کو خراب کرتی ہے۔ دوسری طرف شراب کی دکان کھولنے کیلئے لائسنس دیتی ہے۔ شراب کے ہوٹل کھولنے کی اجازت فراہم کرتی ہے۔ کلبوں میں شراب پینے پلانے، رقص و سرود کی مجلسیں منعقد کرنے کی چھوٹ دیتی ہے۔ اس طرح حکومت شہریوں کو کہتی ہے کہ شراب بھی پیو مگر نشہ میں نہ ہو۔ حکومت کا نشہ پلاکر شرابیوں کو ہدایت دینا جہالت اور پاگل پن کے سوا کیا ہوسکتا ہے۔ مہاتما گاندھی نے ملک کے شہریوں سے آزادی کی لڑائی کے دوران وعدہ کیا تھا کہ ’’جیسے ہی ملک آزاد ہوگا ملک میں شراب بندی کا قانون نافذ ہوجائے گا‘‘۔ گاندھی جی کے ایما پر یہ قانون نافذ بھی ہوا مگر ان کے قتل کے بعد حکومت ہندنے گاندھی جی کے وعدے پر پانی پھیر دیا اور شراب بندی کا قانون گجرات کے سوا کہیں نافذ نہیں ہوا۔ کیرالہ میں بہت بعد میں یہ قانون نافذ ہوا۔ بہار میں چند ماہ پہلے نتیش کمار نے عورتوں کے مطالبہ پر شراب بندی کا قانون نافذ کیا ہے۔ عورتوں نے نتیش کمار سے مطالبہ کیا تھا وہ شراب بندی پر پابندی کا قانون نافذ کریں۔ نتیش نے الیکشن کے دوران وعدہ کیا تھا اور اس وعدہ کا ایفا کیا۔ محترمہ ممتا بنرجی عورت ہیں یقیناًوہ عورتوں کا درد جانتی ہوں گی۔ اگر مغربی بنگال کی عورتیں بہار کی طرح اندولن (تحریک) چلائیں تو امید کی جاسکتی ہے کہ محترمہ ممتا بنرجی عورتوں کے ووٹوں کی تعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے شراب بندی کا قانون مغربی بنگال میں نافذ کر دیں۔
مغربی بنگال میں بہت سی غیر سرکاری تنظیمیں شراب بندی کے حق میں ہیں۔ ان سب کی اجتماعی کوششوں اور جدوجہد سے بھی حکومت شراب بندی پر مجبور ہوسکتی ہے۔ لہٰذا اجتماعی تحریک شراب بندی کیلئے جلد شروع ہونا چاہئے۔ لوہا گرم ہے کام ہوسکتا ہے۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔