شب قدر

مولانا ولی اللہ مجید قاسمی

ارشاد باری ہے:

اِنّا انزلناہ فی لیلۃ القدر وما ادراک ما لیلۃ القدر‘ لیلۃ القدرِ خیرمن الف شھر‘ تنزلُ الملائکۃُ والروح فیھا مِن کل امر سلام ھی حتّی مطلع الفجر O

ہم نے قرآن کو شب قدر میں نازل کیا اور آپ کو کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزاروں مہینوں سے بڑھ کر ہے‘ اس رات فرشتے اور روح القدس اپنے پروردگار کے حکم سے ہرخیرکے معاملہ کے لئے(زمین پر)اُترتے ہیں‘ یہ رات سلامتی ہی سلامتی ہے‘یہاں تک کہ فجر طلوع ہوجائے۔
شب قدر کی اہمیت کو قرآن نے اپنے مخصوص انداز میں مختصر طورپر اس طرح بیان کردیا ہے کہ اس پر کوئی اضافہ نہیں کیا جاسکتا‘ ایک اچھوتے‘ نرالے اور دل کو چھوتے ہوئے اسلوب میں سب کچھ بیان کردیاگیاہے‘ جس میں نہ تو کوئی مبالغہ ہے اور نہ ہی نکتہ آفرینی۔۔۔ اس رات میں زمین پر فرشتوں کے نزول اور رمضان کے پُرنُور مہینہ کی وجہ سے ایک ایسی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے کہ جس کی وجہ سے افعال کی تاثیری صلاحیت میں اضافہ ہوجاتا ہے‘ روحانیت کے فاصلہ سمٹ آتے ہیں اور ان چند گھڑیوں ہی میں انسان وہ سب کچھ حاصل کرلیتا ہے جو برسوں کی ریاضت کے بعد ملتے ہیں‘ اُمتِ محمدیہ پرربِ کائنات کا یہ بڑا عظیم احسان ہے کہ محض ایک رات کی عبادت کوتراسی برس چار ماہ سے زائد کے برابر کردیا۔ اب ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ احسان شناسی اور اس نعمت کی قدردانی کا ثبوت دیں۔
شب قدر میں ذکر‘دعا‘ استغفار‘تلاوت قرآن ہر ایک کی فضیلت ہے‘ لیکن نفل نماز جو ان سب کا مجموعہ ہے‘ کی خصوصی اہمیت ہے‘ اسی لئے رسول خداﷺ نے فرمایا :
من قام لیلۃ القدر ایمانا واحتسابا غفرلہ ماتقدم من ذنبہ ( بخاری ومسلم)
جو شخص ایمان کی حالت میں اور کار ثواب سمجھ کر شب قدر میں نماز پڑھے تو اس کے پچھلے گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔
شب قدر کی تعیین:
اوپر مذکورہ سورہ میں ہے کہ قرآن شبِ قدر میں نازل کیاگیا اور سورہ بقرہ میں ہے کہ قرآن ماہِ رمضان میں نازل ہوا اس سے اشارہ ملا کہ شب قدر رمضان ہی کے کسی رات میں ہے،  احادیث میں مزید اس کی وضاحت کی گئی کہ رمضان کے اخیر کے دس راتوں میں سے طاق راتوں میں شب قدر تلاش کرو(تحر والیلۃ القدر فی الوترمن العشر الاواخرمن رمضان ؍ صحیح بخاری و مسلم ریاض الصالحین ؍460) ان طاق راتوں میں بھی زیادہ امکان اکیس‘ تئیس اور ستائیس میں ہے(معارف السنن 5؍518) بلکہ اکثر علماء کا خیال ہے کہ ستائیسویں رات میں شب قدر کی زیادہ اُمید ہے(حوالہ سابق)۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ شب قدر دو ایک تو وہ ہے جس میں آسمان سے فیصلے کئے جاتے ہیں ‘ اسی رات میں قرآن آسمان دنیا پر مکمل طورپر نازل ہوا‘ اس کے بعد وہاں سے تھوڑا تھوڑا نازل ہوتا رہا‘ یہ رات پورے سال میں صرف ایک مرتبہ آتی ہے اور یہ رمضان کے ساتھ خاص نہیں رمضان کے علاوہ سال کے دیگر حصوں میں بھی ہوسکتا ہے۔ البتہ زیادہ اُمید رمضان میں ہونے کا ہوتا ہے‘قرآن نازل ہونے کے وقت یہ رات رمضان ہی میں تھی ‘۔۔۔ دوسری وہ رات جس میں ایک قسم کی روحانیت محسوس ہوتی ہے‘ فرشتے زمین پر آتے ہیں‘ مسلمان اس رات عبادت میں مشغول ہوتے ہیں اوران کے انواروبرکات سے ایک دوسرے کو نفع پہونچتا ہے‘ فرشتے ان سے قریب ہوجاتے ہیں‘شیاطین دور بھاگتے ہیں۔دعائیں اور طاعتیں قبول کی جاتی ہیں‘ یہ رات ہررمضان کے آخری دہائی کے طاق راتوں میں ہوتی ہے‘ یہ رمضان ہی میں رہتی ہے۔ البتہ آگے پیچھے ہوسکتی ہے(حجۃ البالغہ 2؍42)۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اس توجہہ کے ذریعہ شب قدر کی تعیین کے سلسلہ میں مختلف رایوں کے درمیان موافقت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے‘ ان کا خیال ہے کہ اس سلسلہ میں صحابہ کرام کے درمیان جو اختلاف ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک شب قدر پورے سال میں دائر رہتی ہے اور بعض لوگ ستائیسویں شب کو شب قدر قرار دیتے ہیں(دیکھئے: معارف السنن 5؍518) وہ ان کے وجدان اور ادراک پرمبنی ہے۔
(5) حضرت عبداللہ بن مسعود‘ ابن عباس ‘ وعکرمہ کے نزدیک شب قدر پورے سال میں دائر رہتی ہے۔ امام ابوحنیفہ کا بھی مشہور قول یہی ہے۔ اس کے قائل مشہور صوفی ابن العربی بھی ہیں۔ حضرت ابی بن کعب اور دیگر صحابہ کرام ستائیسویں شب کو شب قدر قرار دیتے ہیں۔ امام ابو یوسف محمد اور امام ابو حنیفہ سے ایک روایت کے مطابق شب قدر رمضان میں ہے۔ اس کے قائل اکثر علماء ہیں۔
شب قدر کی مخصوص دعا:
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے دریافت کیا کہ اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ کونسی رات شب قدر ہے تو اس رات میں میں کیا دعا کروں‘ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے حضور یہ عرض کرو :
اللھم انک عفو کریم تحب العفوفاعف عنی (1)
اے اللہ ! تو بڑا معاف کرنے والا اور بہت کرم کرنے والا ہے تو معاف کردینے کو پسند کرتا ہے‘ پس تو مجھے معاف فرما۔

تبصرے بند ہیں۔