بِٹ کوائن: عوام کی حاکموں پر فتح
ندیم عبدالقدیر
زندگی معمول کے مطابق گز ر رہی تھی اور ایک دن اچانک ہی شام کے ۸؍بجے ایک شخص ٹی وی اسکرین پر نمودار ہوتا ہے اور آپ کو یہ بتاتا ہے کہ آ پ کی محنت اور خون پسینہ کی کمائی اب کاغذ کے ٹکڑوں سے زیادہ کچھ نہیں، آپ پر بجلی گرتی ہے لیکن آپ کچھ نہیں کرپاتےہیں۔ جارج بش نام ایک امریکی درندہ اپنے سیاسی عزائم کی تسکین کیلئے عراق پر چڑھائی کردیتا ہے اور عراقی عوام کی زندگی بھر کی کمائی عالمی بازار میں کاغذ کے ٹکڑوں میں بدل جاتی ہے۔ ’ٹرومین‘نامی امریکی صدر وحشی پن کی آخری حدود کو چھوتے ہوئے جاپان کے دو شہروں پر ایٹم بم گرانے کا حکم دے دیتا ہے اور جاپانی کرنسی کو کوڑیوں کے مول بنادیتا ہے۔ شام، ایران، لیبیاان تمام ممالک کی کرنسی بھی زمینوں پر قبضہ کرنے، عوام کو رعایا بنانے کی کوششوں کی بھینٹ چڑھ چکی ہے۔ آپ کی کرنسی بھی کسی پاگل سوپر پاور یا نیٹو جیسے اداروں میں بیٹھے انسان نما مخلوق کی بڑھتی بھوک کا لقمہ بن سکتی ہے، اور آپ کچھ نہیں کرسکتے۔
کرنسی آخر ہے کیا؟ کاغذ کے ٹکڑے ہی تو ہے۔ ہم اسے کھا نہیں سکتے، اسے پہن نہیں سکتے، اس کے گھر نہیں بنا سکتے۔ہم اسے صرف اسلئے اہمیت دیتے ہیں کیونکہ انہیں بنانے والے اداروں کو ہم ’حکومت‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ ان حاکموں کے پاس فوجیں ہیں، جنگی طیارے ہیں، ٹینک ہیں، ہیلی کاپٹرہیںاور ہماری گلیوں میں پھرنے والے خاکی وردی میں ملبوس ’پولس‘نامی غنڈے ہیں۔ یہ اپنی طاقت کے بل بوتے پر عام انسان کو حشرات الارض سے زیادہ نہیں سمجھتے۔
حکمرانوں کے پاگل پن، توسیع پسندانہ عزائم، ذاتی انا پرستی اور لامحدود اختیارات کی تسکین کیلئے آخر عام آدمی کیوں بلی کا بکرا بنے ؟اس بات کو سوچ کر اسی حشرات الارض میں سے ایک شخص اٹھااور ’عام آدمی کی کرنسی‘ بنا ڈالی۔ اگست ۲۰۰۸ء میں ’سکوشی ناکاموتو‘ نامی گمنام شخص نے انٹرنیٹ پر ایک فرضی کرنسی ’بٹ کوائن‘ کی بنیاد ڈالی۔
بٹ کوائن سے پہلا سودا، دو پزّا کا ہوا تھا۔ دو پِزّا کیلئے ۱۰؍ہزار ’بٹ کوائن‘ ادا کیے گئے ، جو آج ناقابل ِ یقین جیسی بات لگتی ہے۔ شروع میں اس کرنسی کو کوئی بھی قبول کرنے کےلئے تیار نہیں تھا۔ صرف اس لئے کہ یہ ایک فرضی کرنسی ہے، لیکن حالات آہستہ آہستہ بدلنا شروع ہوئے۔ لوگوں کو معلوم ہوا کہ بٹ کوائن کسی بھی ملک کی کرنسی کی طرح نہیں ہے۔ لوگوں کو یہ بھی معلوم ہوا کہ اس کرنسی پر کسی بھی ملک، بینک یا شخص کی اجارہ داری نہیں ہے۔ اس کے دام گرنے کے امکانات بہت کم ہیں۔
کسی بھی ملک کی سیاست، بین الاقوامی حالات، جنگیں، قحط، الیکشن، بڑی شخصیات کی موت، بڑے دہشت گرد حملے، سونامی، زلزلے، اسٹاک مارکیٹ کی مندی، مارکیٹ کی کساد بازاری، بینکوں کا دیوالیہ ہوجانا، اقوام متحدہ ، ورلڈ بینک، انٹرنیشنل مونیٹری فنڈ وغیرہ وغیرہ وغیرہ کچھ بھی اس کرنسی کو متاثر نہیں کرسکتے ہیں۔ لوگوں کو یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ فرضی کرنسی بھلے ہی ہے لیکن حالات ایسے بھی نہیں ہیں کہ اپنی مرضی کے مطابق جتنی چاہے اتنی کرنسی پیدا کرلی جائے۔ کوئی بھی پاگل اور وحشی حکمران اسے کنٹرول نہیں کرسکتا ہے اور نہ ہی کوئی شعبدہ باز وزیراعظم اسے منسوخ کرسکتا ہے۔
یہ ڈیجیٹل کرنسی ہے، جو کہ ’الیکٹرانک کان کُنی‘ کے عوض بطور انعام ملتی ہے۔ دنیا میں بڑے بڑے جنونی کمپیوٹر انجینئر اپنے سارے کام کاج چھوڑ کر ’بٹ کوائن‘ کی کان کُنی میں جٹ گئے۔ ان میں سے کئی کامیاب بھی ہوئے۔ آج بٹ کوائن کی کان کنی بھی، سونے کی کان کنی جیسی ہی ہے۔ فرق اتنا ہے کہ بٹ کوائن کی کان کی ایک حد ہے۔ انٹرنیٹ پر زیادہ سے زیادہ ۲؍کروڑ ۱۰؍لاکھ ہی بٹ کوائن کی کھوج کی جاسکتی ہے۔ اس کے بعد دنیا میں مزید بٹ کوائن وجود میں نہیں آئیں گے۔ اب تک ایک کروڑ ۶۰؍لاکھ بٹ کوائن کی ہی کان کنی کی جاسکی ہے۔ پہلے یہ کام کافی آسان تھا لیکن گزرتے وقت کے ساتھ یہ انتہائی مشکل ہوچکا ہے کیونکہ کان سوکھ رہی ہے۔ اس سے ’بٹ کوائن‘ کی سپلائی کم ہوتی جارہی ہے جب کہ دوسری طرف اس کی مانگ میں اضافہ ہوجاتا جارہا ہے، جس کے سبب اس کی قیمت آسمان چھونے لگی۔ وہ بٹ کوائن جس کی قیمت ۲۰۰۹ء میں ایک ہندوستانی روپیہ بھی نہیں تھی، وہ دسمبر ۲۰۱۷ء میں ۹؍لاکھ روپے ہوگئی۔ یکم دسمبر ۲۰۱۷ء کو ایک سکہ کی قیمت ۹۸۵؍امریکی ڈالر تھی ۔
ساری دنیا کے لوگ بٹ کوائن کے پیچھے پاگل ہیں۔ ہم سمجھ رہے ہیں کہ یہ سب بیوقوف ہیں، ہوسکتا ہے وہ بیوقوف ہوں، لیکن کم از کم یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ ملین ڈالر مالیت کے اپنے اپنے ملک کی کرنسی کو بٹ کوائن کی کرنسی میں تبدیل کرنے والے ان خریداروں کو پتہ ہے کہ یہ ایک فرضی کرنسی ہے۔ اس کے باوجود یہ لوگ اپنی دولت کو بٹ کوائن کی کرنسی میں بدل رہے ہیں۔
یہ لمحہ ہے سوچنے کا، غور کرنے کا کہ انسان نے کیا پایا کیا کھویا۔ آج ساری دنیا کے عوام ایک فرضی شخص (سکوشی ناکاموتو) کے ذریعے بنائی گئی ایک فرضی کرنسی پر سوپر پاور اور دنیا کے تمام طاقتور مملکتوں کی کرنسی سے زیادہ اعتماد کررہے ہیں، کیوں ؟؟؟
انہیں سوپر پاور اور نیٹو پر بھی اعتماد نہیں رہا۔ کبھی کمیونزم کے نام پر، کبھی دہشت گردی کے نام پر، کبھی قوم کے نام پر، کبھی جہاد کے نام پر، کبھی اسلام کے نام پر، کبھی انا کے نام پر ان کی حکومتیں ہمیشہ انہیں ڈراتی ہی رہی ہیں۔ وہ اپنے حکمرانوں، ان کی سیاسی پینترے بازیوں، ان کے سیاسی عزائم، ان کے توسیع پسندانہ ہتھکنڈوں، ان کے کارپوریٹ میڈیا اور ان کے این جی او مافیاسے بھی بالکل اسی طرح بیزاری کا اظہار کررہے ہیں جس طرح گزرے زمانے کے لوگ اپنے راجاؤں، مہاراجاؤں اور بادشاہوں سے بیزار تھے اور بٹ کوائن کے ذریعے عام آدمی نے سوپر پاور سمیت تمام بڑی بڑی حکومتوں کے لڑاکا طیاروں، جنگی آلات،طیارہ شکن توپوں، ٹینکوں، بڑے بڑے اداروں، بڑی بڑی ایجنسیوںاور تمام چوٹی کی بین الاقوامی تنظیموں پر تھوک دیا ہے۔ آخ تھو۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔