بھارتیہ جنتا پارٹی کا یونی ورسٹی تعلیم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع
صفدرامام قادری
بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنی دوسری اننگ کے آغاز ہی میں اپنا حقیقی رنگ دکھانا شروع کر دیا ہے۔الیکشن سے پہلے بہت سارے ایسے فیصلوں کی انھوں نے بنیاد رکھ دی تھی مگر انھیں اس بات کا انتظار تھا کہ جیسے تیسے حکومت قائم کرلینی ہے، اس کے بعد اپنے مخفی ایجنڈوں کا نفاذ کرنا ہے۔ آر۔ا یس۔ ایس۔ کا روزِ اوّل سے یہ خواب رہا ہے کہ سماج کو اندر سے توڑا جائے اور اشتراک کے آہنگ کو اتنا کمزورکر دیا جائے کہ سماج کبھی بھی مشترکہ اقدار پر خود کو قائم نہ کر سکے۔اسمرتی ایرانی سے پرکاش جاویڈکراور موجودہ مرکزی وزیرِ تعلیم کی مجموعی کارکردگی اس بات کا آخری ثبوت ہے کہ تعلیم کے استحکام اور ترقی پذیر ممالک کے لوگوں کو عالمی دھارے میں شامل کرنا ان کا ایجنڈا نہیں ہے بلکہ یہ لوگ تعلیم کو منتخب افراد کی جاگیر سمجھنے کے لیے پابندِ عہد ہیں۔ اگلے پانچ برسوں تک ہندستانی عوام کو اسی آگ میں جھلسنا ہے۔
تعلیم کے معاملے میں الیکشن سے پہلے ہی بھارتیہ جنتا پارٹی نے پَے بہ پَے شب خونی انداز میں کئی فیصلے کیے تھے۔دس فی صد اعلا برادریوں کو ریزرویشن دینا جس قدر عجلت میں مقرر ہو ا، وہ بادشاہت کے زمانے میں بھی شاید ممکن نہیں تھا اور جمہوریت میں تو عوامی غور و خوض کیے بغیر بنیادی پالیسی کو ترتیب دینے کا کام سوچا ہی نہیں جا سکتا۔مگر یہ فیصلہ ہو ا اور اس رفتار سے نافذ ہو ا کہ سب کے سب اس تعجیل پر انگشت بہ دنداں تھے۔ٹھیک اس سے پہلے یہ فیصلہ بھی الہ ٰ آباد ہائی کورٹ کے حوالے سے سامنے آچکا تھا کہ یونی ورسٹیوں میں دو سو کے بجائے تیرہ پوائنٹ روسٹرنافذ کیا جائے۔ کچھ یونی ورسٹیا ں تو جیسے انتظار ہی کر رہیں تھیں۔ اگلے دن سے دس فی صد اونچی برادری کا ریزرویشن اور تیرہ پوائنٹ روسٹر نفاذ کا انھوں نے اعلان ہی کر دیا۔بعض جگہوں سے اشتہارات بھی شائع ہو گئے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی نے پچھلے دورِ وزارت میں یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی تقرری کے لیے نئے ضابطوں کو بڑی خاموشی کے ساتھ منظوری دی تھی اور اہتمام کے ساتھ اس وقت کے وزیرِ تعلیم پرکاش جاویڈ کر نے یہ اعلان کیا کہ نئے اصول و ضوابط کے مطابق۲۰۲۱ سے پی ایچ۔ ڈی۔ کی ڈگری لیکچر شپ کے لیے لازمی قرار دی جائے گی۔ اتفاق سے اس وقت الیکشن کی ہماہمی میں لوگوں نے زیادہ توجہ نہیں دی اور نفاذ چوں کہ دو برس بعد سے ہو نا تھا، اس لیے قوم نے بھی اپنی بے خبری یا سستی کامظاہرہ کیا۔ لیکچر شپ کے لیے مختلف طرح کے خانوں میں اصول و ضوابط اور ویٹیج میں تبدیلی کی گئی مگر طلبہ میں سے لے کر اساتذہ کسی نے اس کی پرزورمخالفت نہیں کی۔
باوثو ق ذرائع سے صحافتی حلقوں میں یہ خبرگشت کر رہی ہے کہ لیکچر شپ کے لیے مرکزی حکومت عمر کی حدکم کرکے پینتیس (۳۵)برس کرنے جا رہی ہے۔اس کا بھی اشارہ مل رہا ہے کہ ریزرویشن کے کسی بھی زمرے یعنی دلت،پسماندہ طبقات اورآدیواسی طبقے کو بھی ایک دن کی بھی رعایت نہیں دی جائے گی۔حالاں کہ یوجی سی کے ایک ممبر نے اس سے انکار کیا ہے مگراندیشے قرین قیاس ہیں۔ آپ یاد رکھیے کہ تمام سرکاری عہدوں کے لیے ریزرویشن کے تحت مختلف طبقوں میں عمر میں تین سے پانچ برسوں کی رعایت دی جاتی ہے۔اس کے برعکس یونیورسٹیوں میں وہ دروازہ بند کیا جا رہا ہے۔اس پینتیس برس میں اس بے روز گار کو نیٹ بھی پاس کرنا ہے اور پی ایچ۔ ڈی۔ کی بھی ڈگری لے کر آنا ہے۔ ہندستا ن روایتی طور پر غربت کا مارا ہو ا ہے اور دیہی سماج پر مشتمل ہے۔ایسے لوگوں کے لیے یہ مشکل نشانہ ہے۔ عمومی صورت حال میں ایم اے پاس کرنے والے بچے پچیس برس سے زیادہ کے ہو ہی جاتے ہیں۔ اب ہندستان بھر کی یونی ورسٹیوں میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے کے مواقع کس قدر ہیں، اس کا ایک سرسری جائزہ لے لیجیے تو سب کچھ آئینہ ہو جائے گا۔ اس طرح حساب و کتا ب مکمل کیجیے تو اس زمانے میں ایک طالب علم پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرتے کرتے بتیس سے پینتس برس کا ادھیڑ ہو چکا ہو تا ہے۔
اعلا تعلیمی اداروں میں تقرری کے لیے مذکورہ اصولوں کو حکومت کی تعلیم کے تئیں خصوصی توجہ کہہ کر پیش کیا جا رہا ہے۔ تمام چیزیں حقیقت میں ہندستان کے پس ماندہ، دلت، کمزوراور اقلیت آبادی کے حقوق کے خلاف وہی خفیہ ایجنڈہ ہیں جنھیں بھارتیہ جنتا پارٹی کو نافذکرکے ’ہندو ہندستان‘بنانا ہے۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ اسمرتی ایرانی ہوں یا پرکاش جاویڈکر یا درجنوں کتابوں کے مصنف موجودہ وزیرِ تعلیم؛ سب کے زمانے میں ایسے فیصلے آسانی سے سامنے آتے رہے ہیں۔ بات یہ ہے کہ ناگ پور کے مفکرین نے جو’ خفیہ اصول وضوابط‘ حکومت کو سونپ رکھے ہیں، ان پر وزراے تعلیم کو صرف دستخط کرنا ہے۔ یہ سلسلہ دوسری اننگ میں مزید تیزی سے چل پڑا ہے۔
اعلا تعلیمی ادارے میں تقرّری کے لیے یو جی سی نٹ کا امتحان لیتی تھی اور اس سے لوگ تقرری پاتے تھے۔ نئے نئے ریگولیشن لاکر اس میں چور دروازے بنائے گئے اور خاموشی سے بغیر نِٹ امتحان پاس کیے ہوئے ریگولیشن کے تحت پی ایچ۔ڈی کرنے والوں کو مواقع عنایت کر دیے گئے۔ انھیں Weightage بھی زیادہ دیے گئے جب کہ وہ کسی قومی سطح کے اہلیتی امتحان میں کامیاب نہیں ہوئے۔ اب اسے لازمی بنا کر حکومت کی یہ کوشش ہے کہ اعلا تعلیمی اداروں میں دیہی علاقوں کے افراد، پس ماندہ، اقلیت، دلِت اور محروم طبقوں کے لوگ اس دوڑ سے باہر ہو جائیں۔
ہمیں اس بات سے بے خبر نہیں رہنا چاہیے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی مکمل طور پر برہمن وادی پارٹی ہے اور امِت شاہ کی قیادت میں اس کی دھار مزید تیز ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے لوگوں کو جمہوریت اور سماجی انصاف جیسے امور سے کم سے کم دلچسپی ہے۔تعلیم کو عام کرنا انھیں کیوں کر پسند ہو اور اعلا ڈگریاں بھی عام لوگوں کو حاصل ہوں، وہ اسے کیوں کر انجام دیں گے۔ یونی ورسٹیاں محض مُٹھّی بھر لوگوں کے لیے ہوں، یہ گذشتہ دو سو برس کی عوامی جِدّ و جُہد کے ساتھ حکومت کا سب سے بڑا عملی مذاق ہوگا۔ دکھاوے کی کوالٹی اور معیار کی دُہائی دے کر حکومت اصل میں غلامی کے دور اور جاگیردارانہ نظام کے نفاذ کا ماحول بنا رہی ہے۔
اعلا تعلیم کے سلسلے سے حکومت کے ایسے فیصلوں کو اپوزیشن کے افراد بھی سنجیدگی سے شاید ابھی سمجھ نہیں رہے ہیں۔ اتّر پردیش کے پرائیویٹ میڈیکل کالجوں سے ایک آن میں محروم طبقات کے ریزرویشن کو یوگی جی نے جس طرح ختم کیا، یو۔پی۔ کی سڑکوں پہ آگ لگ جانی چاہیے تھی مگر ملائم، اَکھِلیش اور مایاوتی کی ڈیڑھ اینٹ کی جُدی مسجدیں قائم رہیں۔ کانگریس سے لے کر کمیونسٹ پارٹیوں تک کسی کو بھارتیہ جنتا پارٹی کی پالیسیوں پر سڑکوں پر اُترنے کا یارا نہیں۔ ۱۹۷۴ء میں جس طرح جے پرکاش نارائن کی قیادت میں یونی ورسٹی کے لڑکوں نے تحریک چلائی تھی؛ اگر ایسی کوئی منظّم تحریک نہ چلی تو بھارتیہ جنتا پارٹی امبانی اور اڈانی کے ساتھ ساتھ دیگرمفادپرستوں سے ملک کے ہر کام اور ادارے کا سودا کریں گے اور انگریزوں سے بڑی غلامی کے دن آنے میں شاید ہی دیر لگے۔
تبصرے بند ہیں۔