بھگوا غنڈوں سے گھری، گر میری بیٹی ہوتی
محمد شعیب رضا نظامی فیضی
کرناٹک کے کئی کالجوں میں آج کل حجاب کا معاملہ بڑا پیچیدہ ہوچلا ہے۔ مسلم بچیوں کو حجاب کے ساتھ کلاس رومز میں آنے پر ادارے کے ذمہ داروں نے روک لگا دی ہے۔ ان کا ترک کیا ہے کیا نہیں یہ دوسری بحث ہے مگر جو تصویریں سامنے آرہی ہیں ان سے لگتا ہے بھگوا رومال ڈالے بہت سارے غنڈے ہمارے قوم کی بیٹیوں کو گھیرے ہوئے ہیں اور اچھل کود کرکے اپنے مذہب کا نعرہ لگا رہے۔ حالاں کہ کچھ ایسی تصویریں بھی آئی ہیں جن میں دیکھا گیا نیلا رومال پہن کر کچھ دلت طبقہ کے نوجوانوں نے مسلم بچیوں کی حمایت کی ہے مگر ان کی تعداد مٹھی بھر ہے۔ اور وہیں ہمارا حال ہے کہ ہم اپنے گھروں میں بیٹھ کر تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ ذرا تصور تو کریں کہ ایسے نازک حالات میں اگر ان مسلم بچیوں کی جگہ ہماری اور آپ کی بیٹی ہوتی تو بھی کیا ہم ہاتھ پہ ہاتھ رکھے بیٹھے ہوتے؟ کیا اس وقت بھی ہم خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہتے؟ کسے نہیں معلوم کہ اگر اتنے سارے نوجوان جو کہ اس وقت جوانی اور نفرت کے نشے میں دھت ہیں ان کے درمیان مٹھی بھر بچیوں کے تحفظ کا کیا؟ کیا ہمیں انھیں ان درندوں کے سامنے ایسے ہی چھوڑ دینا چاہیئے؟ کیا ہمیں ان درندوں کے خلاف کچھ نہیں کرنا چاہیے؟
میں یہ نہیں کہتا کہ اے مسلمانو تم ہتھیار اٹھا کر میدان میں آجاؤ مگر کیا ہم مسلمانوں میں قانونی کارروائی کرنے کی بھی ہمت نہیں؟ کیا ہمارا ملک جمہوری ملک نہیں؟ کیا ملک کے آئین میں ہمارے حقوق محفوظ نہیں؟ تو پھر کیوں ہم اپنے حقوق کی لڑائی نہیں لڑنا چاہتے ہیں؟ کیوں ہم اپنے حقوق کی پاس داری کے لیے آگے نہیں آتے؟؟؟ ماضی اور حال میں ہم پر ہزاروں ظلم کیوں نہ ہوئے ہوں، لاکھوں ہندو سادھو کیوں نہ اس ملک کو ہندوراشٹرا بنانے کی مانگ کرتے ہوں، کروڑوں لوگوں کو کیوں نا ملک کے مسلمانوں کے وجود کو ختم کرنے کی خواہش مگر کیا اس ملک میں ہمارای تعداد نہ کے برابر ہے؟ 15 سے 20 کروڑ مسلمانوں کی آبادی والے اس ملک میں شاید ہی اب تک کسی نے قانونی چارہ جوئی کی پیش رفت کی ہو۔ مسلم لیڈران ہو یا مسلم تنظیمیں یا بڑے چھوٹے مذہبی رہنما سب کے سب ابھی بلوں میں گھسے ہوئے اپنی بہن بیٹیوں کی عزت کو تار تار ہوتا دیکھ کیا لطف اندوز ہورہے ہیں؟
اگر ایسا ہے تو پھر تیار رہیں کل آپ کے بہن بیٹی کی عزت آپ کے سامنے یوں لوٹی جائے گی کہ آپ اف تک نہ کرسکیں گے اور اس گمان میں نہ رہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔ اگر آج ہم نے کچھ نہ کیا تو خدا نہ کرے لیکن کل واقعی ایسا ہی ہوگا۔ اور خدا نہ خواستہ ایسا ہوا تو یقیناً اپنی بہن بیٹی کی عزت نیلام کرانے کا اسباب مہیا کرانے والے کوئی اور نہیں بلکہ خود آپ ہی ہوں گے۔ لہذا اب بھی وقت ہے اپنی بہن بیٹیوں کی عزت و ناموس کی خاطر آگے آئیں اور جتنا ممکن ہو اتنا اس مسئلہ میں اپنی قربانی پیش کریں! ورنہ آپ کی آنے والی نسلیں آپ پر ماتم کرتے بھی شرمائیں گی۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔