پرسنل لا بورڈ کا تنظیمی نظام اور وابستہ توقعات

۳ جون ۲۰۲۳ء کو اندور میں پرسنل لا بورڈ کی انتخابی نشست کے پس منظر میں

ذکی نور عظیم ندوی

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ہندوستانی مسلمانوں کی بہت حد تک ایک ایسی متحدہ و متفقہ تنظیم ہے جس کو ملکی پس منظر میں مسلمانوں کی نمائندہ اورترجمان تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے قیام کےاصل مقاصدمیں مسلمانوں کے عائلی قوانین کا تحفظ ، اس کیلئے مناسب اور ضروری حکمت عملی تیار کرنا ،مسلمانوں کےنجی معاملات کو شرعی احکام کے مطابق ڈھالنےکیلئےماحول سازی، اس کے تعلق سے ہونے والی قانون سازی اور ملکی ماحول میں آنے والی تبدیلیوںکا جائزہ لے کراس کی خوبیاں اور خامیاں اجاگر کرنا، اس سلسلہ میں ذہن سازی کیلئےپروگرام بناکر ا س کی تنفیذ کی کوشش اور حتی الامکان سنجیدہ اقدامات کے ذریعہ اس میں ترمیم و اصلاح کی تگ و دو کرنا شامل ہے۔

لیکن ملک میں تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوںاوربدلتے حالات میں بورڈ نے بحالت مجبوری، وقتی ضرورتوں اور عوامی تقاضوں  اور دباؤکے مد نظر مسلمانوں کی تعلیمی و معاشی پسماندگی ،ان کے جان و مال اور دیگرحقوق کے تحفظ کی طرف بھی توجہ دی لہذا بابری مسجد، یکساں سول کوڈ، جبراً تبدیلی مذہب، سی اے اے، این آر سی،ماب لنچنگ، بے قصوروں کی گرفتاری ، مسلمانوں سے متعلق امور میںقانونی پیروی اور دیگر اہم ایشوز سے بورڈبے تعلق نہیں رہ سکا۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا امتیاز ہے کہ اس میں ملکی سطح پر کسی بھی میدان میں سرگرم و نمایاں بیشترشخصیات کی بھرپور نمائندگی ہے، لہذا اس میں بیشتر مسلم فرقوں، جماعتوں اور مسلکوں کے ممبران بحیثیت عہدیدار و ممبران یا مدعو خصوصی شریک رہتے ہیں اور عملاً اس کی کارگردگی میں حصہ لیتے ہیںاسی طرح اس میں مسلم معاشرہ کے مختلف شعبہ ہائے زندگی میںسرگرم شخصیات جن میں بالخصوص مذہبی رہنما، علماء و دانشوران، ماہرین قانون اور سیاست داں اور دیگرسماجی و معاشرتی میدانوں میں قابل ذکر افراد کوشامل کرنے کی ممکنہ طور پر کوشش کی جاتی ہے۔

اور اس طرح اگر دیکھا جائے تو تعلیمی، دعوتی و سماجی ہی نہیں بلکہ قانونی سیاسی غرض ہر میدان میںسرگرم اور فعال ملی افراد اس بورڈ کا حصہ ہیں اور اپنے اپنے حلقوں میں اچھا اثرو رسوخ رکھتے ہیںاور اگر کبھی سماج کے تمام طبقات، مسالک اور جماعتوں کو ساتھ لے کر متحدہ اور متفقہ طور پر پالیسی بنانے، اس کو نافذ کرنے یا اس سلسلہ میں ذہن سازی یا ماحول سازی کی ضرورت پیش آئے تو اس سے زیادہ مؤثر افراد کسی بھی تنظیم ادارہ اورجماعت میں نہیں مل سکتے اوراس طرح اس بورڈ کے ذریعہ جو اجتماعی کام کیا جاسکتا ہے وہ اس وقت وطن عزیز میں مسلمانوں کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔

جہاں تک بورڈ کے تنظیمی ڈھانچہ کا تعلق ہے تو اس میں صدرکو سب سے زیادہ اختیاراور اہمیت حاصل ہےاور یہ عہدہ مولانا محمد رابع حسنی ندوی کی وفات سے اس وقت خالی ہےاور آئندہ 3 و 4 جون 2023کو ان کی جگہ اندور کے اجلاس میں نئے صدر کے انتخاب کا امکان ہے۔ اسی طرح بورڈ میںمختلف مسلکوں اور جماعتوں کو بورڈ سے جوڑکر اس کی متفقہ حیثیت کو برقراررکھنے کے مقصد سے کئی نائب صدوربھی ہوتے ہیں لیکن بظاہر نہ ان کے کچھ اختیار ات ہوتے ہیں اور نہ ہی کوئی ذمہ داریاں اور نہ ہی بورڈ کی سطح پر کوئی سرگرم کردار۔ اسی وجہ سے صدر کی خالی ہونے والی سیٹ کے تعلق سے ان میں سے کسی نام پر بحیثیت نائب صدر غور کرنے کی امید نہیں کی جاتی، ہاں دوسرے عوامل و محرکات کی بنیاد پراگر کسی نائب صدر کا انتخاب عمل میں آجائے تو یہ ممکن ہے ۔اور اس وقت تو دو نائب صدور کے عہدے بھی خالی ہیں جن کے لئے اندور کے اجلاس میںغور و خوض اور تعیین کی توقع کی جاسکتی ہے۔

بورڈ میں دوسرا اہم عہدہ جنرل سکریٹری کا ہے جس پر عملی طور پر بورڈ کے مقاصد کے حصول کے لئے پروگرام تیار کرنے اور اس کی منظوری کے بعد اس کی تنفیذ کی بڑی ذمہ داری ہوتی ہے ،اس وقت یہ اہم ذمہ داری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی جیسی مشہور علمی شخصیت کے پاس ہے جو بے شمار علمی کاموں اور مشغولیتوںکے ساتھ بہت سے دیگر اداروں کے بھی اصل ذمہ دار ہیں اور ان اداروں کا دائرہ کار بھی محدود و معمولی نہیں۔ یہی نہیں بلکہ وہ صرف ملکی سطح پردوسری اتنی تنظیموں اور اداروں میںسرپرست اور د یگر عہدوں پر فائز ہیں جن کے نام شاید وہ خود بھی ایک نشست میں نہ بتا سکیں۔ اس پر مزید مختلف کتابوں پر مقدمہ لکھنا،ملک و بیرون ملک کسی بھی میدان میں کسی قدر بھی مشہور شخصیت کی وفات پر تعزیتی نوٹ، ملکی حالات میں تغیر پذیر صورت حال اور اہم ملکی و ملی واقعات پر پریس نوٹ بھیجنااورملکی و بین الاقوامی سیمنار و کانفرنسوں میں شرکت کے لئے بھی وقت نکالنے پر مجبور ہیں۔ اور یہ خارج از امکان نہیں کہ ایام سفر ایام اقامت سے زیادہ ہوجاتے ہوں اور شریعت میں دی گئی رخصت کے مطابق قصر سے فائدہ اٹھاتے ہوں گے ۔ لیکن فکر مند ہوں گے کہ ملکی حالات اور بورڈ کے مسائل میں قصر کی گنجائش کیسے نکالیں؟

میں سمجھتا تھا کہ سکریٹری جنرل کی مدد اور الگ الگ امورکے تقسیم کار کے لئے ہی بورڈ میں کئی سکریٹری کے عہدہ ہیں لیکن مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی جنرل سکریٹری کے عہدہ پر تقرری کے بعد اور گذشتہ دنوں وفات پانے والےمشہور ماہر قانون ظفریاب جیلانی مرحوم کی لمبی علالت کے دوران ان کی جگہ کسی اور کی مستقل یا عارضی تقرری نہ ہونے یاان کےذریعہ انجام پارہے امور کسی دوسرے کو تفویض نہ کرنے سےاگر کوئی فرق نہیں پڑتاتو آخر کئی سکریٹریوں کی تقرری اورانتخاب کے پیچھے کیا مقاصد ہیں؟ کیا ان سکریٹریوں کو کچھ متعینہ کام دے کر جنرل سکریٹری کا بوجھ ہلکا نہیں کیا جاسکتا یا بعض اہم کمیٹیوں کےکنوینر حضرات کو ہی سکریٹری بنا کر اس عہدہ کی شان اور افادیت کو بڑھاناممکن نہیں ؟

اسی طرح مجلس عاملہ، مجلس تأسیسی اورمیقاتی ممبران کا انتخاب جومنتخب ممبران کے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں اور جو ملک و بیرون ملک اس ممبر کے علمی و سماجی قد اور قدر دونوںمیں اضافہ کا ذریعہ اور مزید احترام اور اعتماد کا سبب بنتا ہے اور جس کی وجہ سے لوگ اس کے لئے کوششیں بھی کرتے ہیں اور کامیابی کی شکل میں اس عہدہ کو اپنے نام کے ساتھ لکھنا باعث فخر سمجھتے ہیں۔ ان کی کیا ذمہ داری ہوتی ہے  جس کے تئیں وہ اپنی کوئی جواب دہی محسوس کریں ؟ کیونکہ یہ عام طور پراپنے مسلک، جماعتوں،تعلیمی اداروں میں ہی نہیں بلکہ مختلف میدانوں میں سر گرم اورعوام میںمقبول ہوتے ہیں اور ان کے سرگرم اور فعال کردار سے بورڈ کے مقاصد کے حصول میں کافی مدد مل سکتی ہے۔

اب جبکہ اندور میں بورڈ کے تقریبا تمام ممبران، اہم ملی، سماجی، سیاسی ، تعلیمی و قانونی ماہرین ورہنماملکی صورت حال، یہاں کے ملی  مسائل ، اس کے حل اور اس کے لئے ذمہ داریاں اور ذمہ داروں کے تعین و تعیین کے لئے سر جوڑ کر بیٹھ رہے ہیں میں امید کرتا ہوں کہ ملت اسلامیہ ہندیہ کیلئے یہ اجلاس ہر طرح سے خیر وبرکت کاسبب اور ان کی دینی ، تعلیمی اور سماجی فلاح و بہبود کا اس نئے دور میںنقطہ اولیں ثابت ہوگا ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔