بیانیات
وصیل خان
کسی بھی زبان اور اس میں تخلیق ہونے والے ادب کیلئے تنقید ایک جز ولاینفک کا درجہ رکھتی ہے اس کے ذریعے تخلیق کے متن کے اندرون عموماً نہ دکھائی دینے والے عوامل کی تشریح و توضیح اصل مقصد ہوتا ہےساتھ ہی متن کے ظاہری اشارات و کنایات بھی زیر بحث لائے جاتے ہیں اس طرح تحلیق کار کے رجحانات ترجیحات اور اس کے تحریری مقاصد کو مکمل وضاحت کے ساتھ قارئین کے گوش گزار کردیا جاتا ہے جس سے عام قاری کما حقہ واقف نہیں ہوتا۔تنقید کے اس عمل سے تمام ترتحریری ابہامات و ایہامات قاری کی نظروں میں اس طرح واضح و روشن ہو جاتے ہیں کہ تخلیق کا راور خود اس کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں رہ جاتا اور وہ تحریر کے بین السطوراور تخلیق کار کے اس مافی الضمیر تک بہ آسانی پہنچ جاتا ہے جس کیلئے یہ تحریر پیش کی گئی ہے۔
اس تناظر میں اگر دیکھیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ تنقید بہر حال ایک صالح اور شفاف عمل کا نام ہے جس کےتوسط سے کسی تحریر کی صفائی ستھرائی اور وضاحت و صراحت اصل مقصد ہوتا ہے، لیکن عمومی طورپر ہمارے یہاں ایک عجیب بدعت جڑپکڑتی جارہی ہے، ہم تنقید و تنقیص کے فرق کو مٹاتے جارہے ہیں حالانکہ یہ دونوں لفظ بالکل الگ الگ معانی و مفہوم کے حامل ہیں ۔تنقید بلا شبہ ایک جائز اور صحت مند عمل ہے اس کے برعکس تنقیص کسی بھی صورت میں ناقابل قبول اور غیر تعمیری اور ناپسندیدہ عمل ہے۔ ادب ہی نہیں زندگی کے تمام تر شعبوں میں آزادی ٔ تحریر و تقریر ہر ایک کیلئے بنیادی حق کا درجہ رکھتا ہے جس پر قدغن نہیں لگایا جاسکتا لیکن اتنا یاد رہے کہ آزادی کی بھی بہر حال ایک حد مقرر ہوتی ہے اس سے تجاوز کی کسی کو اجازت نہیں دی جاسکتی۔
ہمارے بیشتر تنقید نگاروں کا حال یہی ہے کہ وہ اس حد فاصل کو بھی پار کرنے سے گریز نہیں کرتے اور افراط و تفریط کا شکار ہوکر اس طرح کی موشگافیاں کرتے ہیں کہ ان کا فن نقد ونظر ہی تشکیک کا زدہ نظر آنے لگتا ہے۔ قاضی افضال حسین کا شمار دور جدید کے اہم تنقید نگاروں میں ہوتا ہے ان کی مرتب کردہ کتاب ’ بیانیات ‘ اصلا ً تنقید کی کتاب نہیں لیکن اس میں اظہار کے لسانی معمول اور معنی خیزی کے وسائل کا جو موضوع زیر بحث لایا گیا ہے اس کا ادراک نہ صرف تخلیق کار اور ناقد کیلئے بلکہ قارئین کیلئے بھی لزوم کا درجہ رکھتاہے اس سے عدم واقفیت محض فضا میں تیراندازی جیسا عمل ہوگا جس کا نشانے پر لگ جانا محض اتفاق ہوسکتا ہے حقیقی نہیں ۔ زبان، بیان، تیکنک اور ہیئت کی تفہیم متن کے داخلی و خارجی وسائل کی تفہیم میں انتہائی معاون ہوتی ہے۔ زیر نظر کتاب اپنے گراں قدر مقالات اور مضامین کے ذریعے بیانات کے انہی لازمی اصول و ضوابط پر بحث کرتی ہے اور تفہیم کے اس راستے کو روشن کرتی ہے جس پر چل کر کسی بھی متن کے داخلی و خارجی رجحانات کو پوری صحت کے ساتھ سمجھا جاسکتا ہے۔ کتاب کے بنیادی مقاصد بیان کرتے ہوئے قاضی صاحب خود رقمطراز ہیں:
’’ ’واقعہ ‘ اس کی تنظیم ( پلاٹ Suzet)اس کا تناظر ( روئداد ؍وصف حال ) واقعات کے راوی، ان کی اقسام و صفات، ان کا ارتکاز نظر، متن کے وہ اجزاءہیں جن کے تخلیقی اتصال سے افسانوی متن تشکیل پاتا ہے اور یہ صرف اس صورت میں ممکن ہے۔ جب افسانہ نگار کی تخلیقی صلاحیت گہرے فنی شعور سے بہرہ مند ؍متصف ہو۔ اسی گہرے فنی شعور کی مناسبت سے، کسی زبان کی افسانوی روایت میں فن کار کے مرتبہ کا تعین ہوتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ فکشن کا قاری ؍ ناقد متن میں ان اجزاکے تخلیقی تقابل اور معنی کی تشکیل میں ان کے کردار سے اچھی طرح واقف ہو۔ مضامین کا یہ مجموعہ افسانے کی قرأت کی اسی اہم ضرورت کے تحت مرتب کیا گیا ہے کہ اگر اردو افسانے کے مباحث کو سچ اور جھوٹ، حقیقی اور خیالی وغیرہ کی روایتی حدود سے آگے بڑھانا ہے تو ان کا یا اس طرح کے مباحث کا مطالعہ اور ان کے حوالے سے اردو میں نئے مباحث کا آغاز ناگزیر ہے۔ ‘‘
آگے وہ مزید لکھتے ہیں:
’’ اظہار کے لسانی معمول میں معنی خیزی کے وسائل کا مطالعہ اب باقاعدہ ایک شعبہ ٔ علم ہے جسے اصطلاحاً بیانیات (Narratology ) کہتے ہیں ۔ اس شعبہ ٔ علم کی اساس اس تصور پر ہے کہ دوسرے معمولات اظہار ( رنگ و موسیقی وغیرہ ) کے مقابلے زبان متن کے معنی کے بیان کا تنہا وسیلہ ہے یہاں تک کہ وہ متون جو موسیقی یا رنگ کے ذریعے تشکیل پاتے ہیں ان کی تعبیر و تفہیم بھی زبان کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ زبان، متن کی تشکیل اور اس کے ’ معنی ‘ کی تعمیر کا یہ غیر معمولی کارنامہ کیسے انجام دیتی ہے ؟بیانیات میں بحث و تجزیئے کا موضوع ہے دوسرے تمام لسانی علوم کی طرح اس کے اپنے وسائل اور اصطلاحات ہیں ، جن کی مدد سے بیانات کے مباحث قائم ہوتے ہیں مثلا ً خود بیانیہ ایک مخصوص اصطلاح ہے جو اپنے لغوی معنی کے علاوہ ایک مخصوص اصطلاحی مفہوم بھی رکھتی ہے : اپنے عام مفہوم میں اخبا ر کی خبر، پولس کی رپورٹ یا کوئی بیان ’ بیانیہ ‘ کہا جاتا ہے، لیکن اصطلاحاً یہ لفظ ’ واقعہ کے بیان ‘ کیلئے مخصوص ہے۔ یعنی بیانیہ صرف وہ متن ہے جس میں کسی ایسے واقعہ، عمل یا فعل کا بیان کیا جائے جس سے صورتحال میں تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ بیانیہ میں ’’ واقعہ ‘‘ کی اس مرکزیت کے باوجود ایک جملہ یا پورا متن صرف افعال پر مشتمل نہیں ہوتا۔ ایک مکمل جملے میں اسم ضمیر اور صفات بھی ہوتے ہیں ۔ ‘‘
ادب کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں یہ بات مزید شدت سے کہی جاسکتی ہے کہ ہمارے بیشتر تخلیق کار اور ان کے قاری کیلئے یہ ناگزیر ہے کہ وہ ان قواعد و ضوابط کی تفہیم اور حسب ضرورت تعمیل کے بغیر نہ تو ادب عالیہ کی تخلیق کرسکتے ہیں نہ ہی اسے عالمی ادب کی بساط پر پیش کرسکتے ہیں ۔ آج زبان و ادب کا تیزی سے گرتا ہوا معیار ہماری اسی عدم دلچسپی بلکہ بڑی حد تک تغافل کو ظاہر کررہا ہے اور ادب کا ایک بڑا طبقہ بے چارگی اور بے حسی کے عالم میں کف افسوس ملتا دکھائی دیتا ہے۔ ادب پر ایک افتاد یہ بھی آپڑی ہے جس سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ یعنی ادب تو بہرحال کسی نہ کسی شکل میں تیار ہورہا ہے لیکن قاری ناپید ہوتے جارہے ہیں اس سمت بھی غوروفکر کی ضرورت ہے جب قاری ہی نہ ہوں گے تو ادب پڑھے گا کون ؟ آج سب سے بڑا مسئلہ یہی درپیش ہے۔
کتاب کے دیگر قلمکاروں میں شمس الرحمان فاروقی، ممتاز شیریں ، قاضی افضال حسین، ارجمند آراء، سہیل احمد فاروقی، خالد قادری، ناصر عباس اور ڈاکٹر عبدالرحمان شامل ہیں جنہوں نے مفید او بنیادی مباحث کے ذریعے یہ ثابت کیاہے کہ جمود کی اس فضا کو تحلیل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ تخلیق کار اور نقاد دونوں ہی ان بنیادی مباحث کو آگے بڑھائیں تاکہ یہ جمود ٹوٹے اور ادب عالیہ کی تخلیق کا راستہ آسان ہوسکے۔
تبصرے بند ہیں۔