عارض خان عرف جنید: چند اہم سوالات

ذاکر حسین

عارض خان عرف جنید کے دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار ی کے بعد ایک بار پھر اعظم گڑھ اور ملک کے مسلمانوں کو بدنام کرنے کا سلسلہ چل پڑا ہے۔ میڈیا میں آئی خبروں کے مطابق گزشتہ روز عارض خان عرف جنید کو دہلی پولس کے اسپیشل سیل اور این آئی اے نے مشترکہ کوششوں کے بعد گرفتار کیا ہے۔ معاملے کو لیکربحث مباحثے کا دور جاری ہے۔ ایک طرف میڈیا عدالت کے فیصلے سے قبل ہی ملزم کو مجرم قرار دیتے ہوئے عارض کیلئے دہشت گرد جیسے سنگین اور حساس الفاظ کا استعمال کر رہاہے تو وہیں عارض خان کے گائوں، ضلع اور ملک کے مسلمان اسے کسی بھی قیمت پر دہشت گرد ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ این آئی اے اور دہلی پولس کی اسپیشل سیل کی مشترکہ کوششوں کے بعدگرفت میں آئے انڈین مجاہدین کے مبینہ رکن عارض خان عرف جنیدکو ان کے گائوں اور اعظم گڑھ کے عوام کسی بھی طرح سے دہشت گرد ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں۔

عارض خان کے آبائی وطن نصیر پور کے لوگوں سے راقمِ سطور نے جب بات کی تو لوگوں نے کہاکہ عارض خان کی فیملی ایک طویل مدت سے اعظم گڑھ شہر کے کوٹ محلے میں رہائش پذیر ہے اور خاندان کے افراد کبھی کبھار گائوں میں آتے تھے۔ گائوں والوں نے بتایاکہ ظفر عالم ور ا ن کا کنبہ بہت پہلے نصیر پور گائوں چھوڑ کر اعظم شہر کے کوٹ محلہ اپنے نانیہال میں جا کر بس گیا تھا۔ظفر عالم اپنے بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ سب سے بڑے بھائی خورشید عالم، دوسرے نمبر پر ڈاکٹر فخرعالم جو پیشے  سے ڈاکٹر ہیں، نصیر پور میں اپنا ایک اسپتال چلا رہے ہیں۔ تیسرے نمبر پر بدرعالم آئی پی ایس اور سب سے چھوٹے ظفر عالم دور درشن میں ملازمت کرتے تھے۔

گائوں کے ایک معزز شخص نے بتایا کہ عارض خان کو گائوں کیا بلکہ پورا اعظم گڑھ بے گناہ مانتا ہے اور لوگوں کا کہنا ہیکہ اسے فرضٰی طریقے سے پھنسایا جا رہاہے۔ انہوں نے کہاکہ عارض خان کے خاندان کے تمام افراد تعلیم یافتہ اور اونچے عہدے پر فائز ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ عارض کے خاندان کے بدرِ عالم نامی شخص آئی پی ایس کے عہدے پر ملک کیلئے اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ خاندان کے لوگ اپنے کام سے کام رکھنے والے ہیں اور خاندان کے کسی بھی فرد کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں ہے۔ یہاں تک کہ عارض خان کا بھی ماضی میں کوئی ایساریکارڈ نہیں ہے، جس کی بنیاد پر اس پر شک کیا جائے۔ عارض خان کی گرفتار ی پر کانگریس لیڈر سلمان خورشید اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سنٹرفار کمپریٹیوریلیجنس اینڈ سویلائزنس ڈپارٹمنٹ میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر منیشا کے بعد اب عارض کے گائوں نصیر پور اور ضلع اعظم گڑھ سے بھی سوال اٹھنے لگے ہیں۔ یاد رہے کہ گزشتہ روز میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹرمنیشانے کہا تھاکہ 10سال کے بعد اچانک بٹلہ ہائوس انکائونٹر کے نام پر ہوئی گرفتار مناسب معلوم نہیں ہوتی۔ وہیں اس معاملے میں راشٹریہ علماء کونسل نے بھی عارض خان کی گرفتاری اور بٹلہ ہائوس انکائونٹر کو لیکر ایک بار پھر سوال اٹھائے ہیں۔ پارٹی کے قومی جنرل سیکریٹری مولانا طاہر مدنی کا اس معاملے میں کہنا تھا کہ راشٹریہ علما ء کونسل روزِ اول سے ہی بٹلہ ہائوس انکائونٹر کو فرضی مانتی ہے اور فرار دکھائے گئے نوجوانوں کو بے قصومانتی ہے، عارض بھی بے قصور ہے۔ عارض خان کی گرفتاری کے بعد سے اہلِ خانہ خوف و ہراس میں مبتلا ہے۔ معتبر ذرائع سے ملی خبر کے مطابق عارض کے والدین کا انتقال ہو چکا ہے اور فیملی کے دیگر افراد اس معاملے کو لیکر بہت زیادہ خوف زدہ ہیں، یہاں تک کہ وہ اس مسئلے پرمیڈیا سے بات تک کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ عارض خان کی گرفتار کے بعد ایک بار پھر بٹلہ ہائوس انکائونٹر کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ بھی زور پکڑنے لگا ہے۔

راشٹریہ علما ء کونسل نے ایک بار پھر بٹلہ سانحہ کی عدالتی تحقیات کا مطالبہ دہرایا ہے۔ عارض خان کو انڈین مجا ہدین کا فعال رکن بتا یا جا رہاہے اوراین آئی اے، دہلی پولس نے اس کے اوپر کل 15لاکھ روپئے کا انعام رکھا تھا۔ ان کے بیان کے مطابق عارض کو نیپال سرحد سے گرفتار کیا گیاہے۔ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا یہاں تک ادرو اخبارات نے بھی عارض کو دہشت گرد لکھنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں دکھائی اورخود ہی عدالت اور جج بن گئے۔۔ اب سوال یہ ہیکہ ہمارا میڈیاکسی بھی مسلمان کو ہشت گرد بتانے میں اتنی عجلت کیوں  دکھاتاہے؟

معاملہ عدالت میں ہے، اور عدالت ملزم کو مجرم یا بے گناہ ہونے کا فیصلہ کرے گی، لیکن میڈیا اس طرح کے معاملات میں عدالت سے پہلے ہی خود عدالت بن جا تا ہے۔ مقامی لوگوں کو اس بات پر بھی اعتراض ہیکہ عارض خان کو عدالت کے فیصلے سے قبل ہی کیوں دہشت گرد لکھا جا رہاہے۔ این آئی اے ارو دہلی پولس کے اسپیشل سیل کے بیان کے مطابق عارض بٹلہ ہائوس معاملے میں مطلوب تھا۔غورِ طلب ہیکہ بٹلہ ہائوس انکائو نٹر کو ملک کے مسلمانوں کے علاوہ دیگر طبقات کے انصاف پسند افراد غلط مانتے ہیں اور ان کی جانب سے مسلسل اس پولس آپریشن کی جوڈیشیل انکوائری کا مطالبہ ہوتا آرہاہے۔لیکن ابھی تک حکومت کی جانب سے بٹلہ ہائوس انکائونٹر کی جوڈیشیل انکوائری کا کوئی واضح موقف پیش نہیں کیاہے جس کی وجہ سے مسلمانوں اور انصاف پسند طبقوں میں غم و غصے کا احساس پایا جا رہاہے۔ واضح ہو کہ 19 ستمبر2008میں دہلی کے جامعہ نگرمیں دہلی پولس نے اعظم گڑھ کے دو مسلم نوجوانوں عاطف امین اور محمد ساجد کو مبینہ تنظیم سیمی کا رکن بتا کر ہلاک کر دیاتھا۔اس کے بعد سے حقوق علمبردار کی تنظیموں بالخصوص راشٹریہ علماء کونسل کی جانب سے اس پولس آپریشن کو لیکر مسلسل شک وشبہے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

انکائونٹر میں ہلاک محمد ساجد کی انکائونٹرکے وقت عمر تقریباً 13،14کے آس پاس تھی۔ مرحوم ساجد کی عمر کو دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں ہیکہ ساجد نے اتنی کم عمر میں دہشت گردی کی دنیا سے کتنا واسطہ رہاہوگا۔ساجد کی والد محترم اپنے نوجوان بیٹے کی موت پر رنج وغم کی چادر سے ایسا لپٹے کہ موت کے بعد بھی ان کے چہرے سے رنج و غم کااحساس ان کے عزیز اقارب کو مسلسل پریشان کرتارہا۔ان کے چہرے پر چھائی درد کی پرچھائیں جیسے ہر وقت یہی سوال پوچھتی ہو ں کہ ہمیں کب انصاف ملے گا؟ لیکن ان کاانتظارانتظار ہی رہا اور وہ بھی درد کے سایے میں جیتے جیتے زندگی سے ہار بیٹھے۔ شاید اپنے بیٹے کی اچانک موت سے وہ دنیا سے بیزار ہو گئے تھے یا پھر شاید انہیں اپنے بیٹے سے ملنے کی جلدی تھی۔ بٹلہ ہائوس انکائونٹر میں ہلاک عاطف امین کے والد محترم کے چہرے پر بھی اپنے جوان بیٹے کی موت کے درد کے سائے ہر وقت منڈلاتے نظر آتے ہیں۔ محترم امین مسلسل راشٹریہ علماء کونسل کے ساتھ اپنے بیٹے کو انصاف دلانے کیلئے جدوجہد کی راہوں میں سرگرداں ہیں۔ محترم امین کی دردناک کہانی کچھ یوں ہیکہ ان کا ایک بیٹابٹلہ ہائوس انکوائونٹر میں میں زندگی کی دہلیز عبور کر موت کی وادیوں میں کہیں کھو گیا تو دوسرا بیٹاآج کل موت وزیست سے سے نبردآزما ہے۔اب سوال یہ ہیکہ جناب امین صاحب کی احساسِ محرومی کا صلہ کون دے گا؟حکومت یاپھر دہلی پولس۔

واضح ہوکہ آئین ہندکی مروجہ کرمنل پروسیجر کوڈ(ضابطہ مجموعہ فوجداری )کی دفعہ 176کے مطابق کسی بھی پولس ٹکرائو کی مجسٹریٹ جانچ کروانا لازمی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ حکوت مسلمانوں اور انصاف کا احترام نہ صحیح آئین ہند کا احترام کرتے ہوئے اس پولس آپریشن کی جانچ کرواتے ہوئے  انصاف کو انصاف دلائے۔ اربابِ اقتدار کاکہنا ہیکہ بٹلہ ہائوس انکائو نٹر کی جوڈیشیل انکوائری سے دہلی پولس کا مورل ڈائون ہوگا۔ جنابِ عالی گستاخی معاف ہو مٹھی بھر  پولس کے مورل ڈائون کے چکرمیں ملک کے کروڑوں مسلمانوں اور لاکھوں انصاف کے متلاشی لوگوں کے مورل کو آپ کچل رہے ہیں۔ بٹلہ ہائوس انکائونٹر کی جوڈیشیل انکوائری  کی مانگ اور اس معاملے میں انصاف کی مانگ کر رہے راشٹریہ علماء کونسل کے سربراہ مولانا عامررشادی، دیگر لیڈران اور کارکنان قابلِ مبارکباد ہیں کہ جس طرح سے مسلسل آپ سب بلا خوف حکومت سے جوڈیشیل انکوائری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

بٹلہ ہائوس انکائونٹر نہ صرف ایک انکائونٹر نہیں تھا بلکہ یہ حادثہ آزاد ہندوستان کی تاریخ کا سب سے بد ترین دن تھا جب دہلی پولس نے د ونوجوانوں کو آئین اور حقوق انسانی کی تمام حدود کو عبور کرتے ہوئے قتل کر دیا۔انکائونٹر میں ہلاک محمد ساجد کے بارے میں کہاکہ جاتا ہیکہ وہ ایک نا بالغ لڑکا تھا اورانکائونٹر سے قبل وہ اعظم گڑھ کے اپنے آبائی وطن سنجر پور میں رسوئی گیس بھرنے کی دوکان چلایا کرتا تھااور میڈیانے اسی سے جوڑ کر ساجد کو بغیر کسی تحقیق کے بم بنانے کا ماہر بتا دیاتھا۔حالانکہ جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے انکائونٹر میں ہلاکت کے وقت ساجد کی عمر 13،14تھی۔ اب اس بات پرر ٖغور کرنے کی ضروت ہیکہ ایک تیرہ، چودہ سال کے بچے کو بم بنانے کی اتنی مہارت کہاں سے حاصل ہوئی ہوگی ؟انکائونٹر کے بعد گرفتاریوں کا لامتنا سلسلہ چلا، جس میں سنجر پور باشندہ محمد سیف، اعظم گڑھ باشندہ محمد شہزاد، اعظم گڑ ھ کے ہی موضع بینا پارہ سے تعلق رکھنے والے حافظ ابوالبشر سمیت انگنت تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کو گرفتارکیا گیا۔بٹلہ ہائوس انکائونٹر کے بعد پولس کی گرفت میں آئے اعظم گڑھ کے موضع خالص پورباشندہ شہزاد احمد کو دہلی کی ایک نچلی عدالت ساکیت کورٹ نے عمر قید کی سزا سنائی ہے۔

حالانکہ شہزاد احمد کے معاملے میں ایسے بہت سے شواہد ہیں، جو شہزاد احمد کی عمر قید کی سزا پر بہت سے سوال اٹھاتے ہیں۔ جس دن ساکیت کورٹ میں شہزاد احمد کی مقدمے کی سماعت ہورہی تھی توملزم نے کورٹ سے مانگ کرتے ہوئے کہا تھا کہ فاضل جج ایک بار L-18 کو دورہ کر کے وہاں کا جائز لے لیں کہ کیا اس عمارت کی ا وپری منزل سے کوئی چلانگ لگا کر زندہ بچ سکتا ہے ؟ لیکن ساکیت کورٹ نے شہزادا حمد کی مانگ کو رد کرتے ہوئے اسے عمر قید کی سزا سنا ئی۔ واضح رہے کہ جامعہ نگر میں واقع L-18چار منزلہ عمارت ہے اورشہزاد احمد پر جس فلیٹ سے سے کود کر بھاگنے کا الزام ہے وہ عمارت کی چوتھی منزل ہے۔ اب غو کرنے والی بات ہے کہ اگر کوئی شخص چار منزلہ عمارت سے کودتا ہے تو اس کا زندہ بچنا کیسے ممکن ہے ؟ حکومت کو چاہئے کہ اس انکائونٹر کی عدالتی تحقیقات کروائے، تاکہ انکائونٹر، شہزاد احمد اور ان سب معاملے سے جڑے دیگر باتوں کو لیکر ملک کے مسلمانوں اور انصاف پسند طبقوں میں جو شکوک و شبہات پائے جا رہے ہیں، اس کو ختم کیا جاسکے۔ عارض خان عرف جنید کے معاملے میں نہ صرف اس کے گائوں نصیر پور بلکہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد شک وشبہہ میں مبتلا ہے اور اسے کسی طرح بھی دہشت گرد ماننے کیلئے تیار نہیں ہے۔

لوگوں کا کہنا ہیکہ اس سے قبل بے شمار مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے جھوٹے الزام میں پھنسا کر ان کی زندگیاں تباہ کی جا چکی ہیں۔ اب پولس اور ملک کی ایجنسیوں کو ملک کے مسلمانوں کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے پولس اور خفیہ ایجنسیوں سے وابستہ افسران کو اس بات پر دھیان دینے کی ضرورت ہیکہ وہ کسی بھی شخص کو بے گناہ اور فرضی طریقے سے نہ پھنسائیں۔ اس طرح کے معاملات میں ملک کی حکومتوں اور عدلیہ کو بھی اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے دہشت گردی کے جھوٹے الزام میں فرضی طریقے سے پھنسانے والے افسران کے خلاف ٹھوس اور سخت اکیشن لیناچاہئے۔ بتا دیں کہ بٹلہ ہائوس انکائونٹر کے بعد اعظم گڑھ سے اب تک انگنت نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا جا چکا ہے۔ گرفتار کئے گئے نوجوان کم از کم آٹھ سالوں سے جیلوں میں قید ہیں اور بہت سست رفتاری سے مقدمے کی سماعت ہو رہی ہے، جس کی وجہ سے مذکورہ نوجوانوں کے اہلِ خانہ کو ان کی رہائی کی کوئی امید نظر نہیں آر ہی ہے۔ محمد سیف کے والد محترم محمد شاداب عرف مسٹر کہتے ہیں ’بٹلہ ہائوس انکائونٹر کے بعد مفرور ملزمین کی دس سال گذرنے کے بعد بھی کسی کی کوئی خبر نہیں ہے۔انہوں نے مزید کہاکہ ہم ملک کے پولس اور ایجنسیوں کے ساتھ مکمل تعاون کیلئے تیار ہیں۔ ہم صرف چاہتے ہیں کہ ہمارے درد کو سمجھا جائے اور بٹلہ ہائوس انکائونٹر کی عدالتی تحقیقا ت کروائی جائے۔ یہ صرف محمد سیف کے والد کے الفاظ اور درد نہیں ہیں بلکہ محترم شاداب کے یہ الفاظ اعظم گڑھ کے ہر مسلمان کے خیالات اور سوچ کی رعکاسی کرتے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔