بیمار معاشرہ
سہیل بشیر کار
خیر امت ہونے کی حیثیت سے ہمیں ہر معاملے میں اچھا اور اعلیٰ ہونا چاہئے تھا لیکن معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ پاکستان کے عظیم مفکر احمد جاوید صاحب کہتے ہیں کہ ہمارا سب سے بڑا اجتماعی مرض یااْمّْ الامراض یہ ہے کہ ہم گھٹیا لوگ بن کر رہ گئے ہیں ؛ ذوق میں، فہم میں، ذہن میں، اخلاق میں ہر معاملے میں ہم اوسط سے نیچے ہیں۔ یہ ہمارے انحطاط کا سب سے بڑا سبب ہے اور اسی سے ذہنی اور اخلاقی انحطاط پیدا ھوا۔۔۔ ہم بہت چھوٹے لوگ ہیں اور اس چھوٹے پن کو دْور کرنے کی خواہش بھی نہیں رکھتے۔ ہم بہت معمولی لوگ ہیں اور اس معمولی پن سے نکلنے کی ہم کوئی طلب بھی نہیں رکھتے۔معمولی پن پیدا ہو جانا مرض ہے۔معمولی پن پر راضی ہو جانا موت ہے۔معمولی پن کا متبادل لفظ پست بھی ہے۔ پست ہونا ہمارے وجود کا لازمی حصہ بن چکا ہے۔ میدان چاہے علم کا ہو، فہم کا ہو، ذوق کا ہویا اخلاق کا ہو، ہم معمولی اور پست سطح کا وجود پیش کرتے ہیں۔ ہماری پست ذہنیت ہمارے اخلاق سے ہر روز ظاہر ہوتی ہے۔
ہمارے سرکاری اداروں کی حالت تشویشناک ہے۔ سرکاری اور دوسرے نیم سرکاری اداروں میں اکثر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ ہمارے ملازم سائل کو نظراندازکرکے تاریخ پرتاریخ دیتے رہتے ہیں۔ حالانکہ وہ ان کا کام اُس وقت بھی کر سکتے ہیں۔ بلا وجہ کام کو ٹالنا گناہ بھی ہے اور جرم بھی۔ کسی سے بلا وجہ دفتر کے چکر لگوانا ہمیں گناہ تصور ہی نہیں ہوتا۔ ہمارے سیکریٹریٹ میں وہ قابل افسر مانا جاتا ہے جو زیادہ سے زیادہ فائلز پر منفی نوٹ لکھے۔جو زیادہ سوالات کھڑا کرے۔حیرت ہوتی ہے کیا ایسا معاشرہ پڑھے لکھے لوگوں کا ہوسکتا ہے!یہ بڑی بڑی ڈگریاں کب ہمیں انسان بنائیں گی۔کاش ہمیں اس کا احساس ہوتا کہ کسی شخص کو تکلیف دینا کس درجہ گناہ ہے۔ کسی ملازم کے لئے اس طرح کا اپروچ قانوناً، شرعاً، اخلاقاً نازیبا ہے۔ ہماری سالہاسال کی عبادتیں اس طرح کے گناہوں کومعاف نہیں کراسکتی۔
میرے ایک جاننے والے ہیں۔ ان کا SRO کیس تھا۔ ایسی ایسی چھوٹی نظرانداز کی جانے والی خامیاں نکالی گئیں کہ انسان حیران ہوتا ہے۔ بعض اوقات سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ آیا یہ خامیاں ڈھونڈنے والا کرسی پر براجمان واقعی انسان ہی ہے۔ ایک طرف اس کے جواں سال باپ کا انتقال ہوا تھا۔افرادِخانہ معاشی مسائل سے جوجھ رہے تھے۔ اس کے باوجود ہر روز پریشان کیا جا رہا تھا۔میں نے چند سال پہلے دیکھا کہ ایک جوان سال لڑکی کی موت ہوئی تھی اس کے جی پی فنڈ ایکاونٹ میں چند ہزار تھے۔ کیس بنانے کے لئے اس کے لواحقین کو محض رشوت کے لئے تنگ کیا جاتا رہا۔راقم نے رشوت مانگنے والے اس ملازم کو کہا کہ واللہ مجھے تم میں اور کفن چور میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا۔ رشوت اب ہمارے معاشرے میں کوئی معیوب چیز نہیں سمجھی جاتی ہے، رشوت کے خلاف سخت وعید کے باوجود ملازم اسے اپنا حق سمجھتا ہے۔یہ ناسور اب ہمارے کلچر کا حصہ بن گیا ہے۔
سرکاری اور دیگر اداروں میں ہمارا رویہ اپنے ماتحت ملازمین کے ساتھ ہتک آمیزہے۔گویاوہ افسروں کے غلام ہوں جنہیں ذلیل کرناان کافرضِ منصبی ہو۔ ماتحت ملازمین کو ذلیل کرنا ہمیں بری بات محسوس نہیں ہوتی۔ حد تو یہ ہے کہ ہم اپنے ماتحت ان لوگوں کے ساتھ بھی بداخلاقی سے پیش آتے ہیں جو ہمارے والدین کے عمر کے ہوتے ہیں۔ ڈسپلن کے نام پر ماتحتوں کو تنگ کرنا ہمیں برا محسوس ہی نہیں ہوتا۔
کاروبار کسی بھی قوم کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے۔اسلام کو پھیلانے میں تجار نے کافی اہم رول ادا کیا ہے لیکن اس معاملے میں بھی ہمارا رول ٹھیک نہیں۔ میں ذاتی طور آن لائن شاپنگ کے خلاف ہوں۔ میں ہی نہیں میرے کئی دوست یہ مانتے ہیں کہ اپنے ہی مارکیٹ میں چیزیں خریدنے کے کئی فوائد ہیں۔ اس سے معاشی نظام بہتر رہتا ہے، اپنا علاقہ خوشحال رہتا ہے۔میں کبھی کبھار ہی جب مجبوری ہو اور مطلوبہ چیزیں مارکیٹ میں دستیاب نہ ہوں تو آنلائن خریداری کرتا ہوں۔ میرے ایک صنعت سے وابستہ دوست بڑی بڑی چیزیں بھی لوکل مارکیٹ سے خریدتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس طرح یہاں کے پیسے یہیں اسی علاقے میں گشت کریں گے۔جس کا بالواسطہ فائدہ بھی مجھے ہی ملنا ہے۔ یہی بات میں کل ایک دوست کو سمجھا رہا تھا کہ آن لائن خریداری کرنا مناسب نہیں۔ اس نے جواب میں کہا میرے ساتھ مارکیٹ چلیں وہاں ایک shirt کی قیمت معلوم کی تو دوکاندار نے 1100 روپے کہا۔ میرے دوست نے کہا کہ آپ برانڈ اور سٹف اچھے سے دیکھیے گا۔دوسرے دن انہوں نے ویسی ہی shirt پہن کر لائی اور سرینگر کے دوکاندار کی بل دکھائی، جس پرقیمت بس 700 روپے درج تھی۔ وہاں ایک اور دوست تھے انہوں نے کہا دیکھو آن لائن قیمت صرف 400 روپے۔ جوتے کی قیمت مارکیٹ میں 2400روپے تھی اور یہی جوتا آپ کوآن لائن 1200 روپے میں مل رہا ہے۔بیٹری کی قیمت ہمارے بازار میں 23 ہزار ہے۔ آن لائن قیمت ہے 16500۔
میں نہیں کہتا کہ ہمارے ہاں مقامی مارکیٹ میں چیزوں کی قیمت آن لائن قیمتوں کے برابر ہو۔ لیکن تفاوت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ ہم مسلمان ہیں۔ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ کاروبار کرتے ہوئے ہمارا انجام صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ پھر اتنی دھوکہ دہی کیوں ؟ کیا ہمیں اپنے پیارے رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پر یقین نہیں رہا؟ ہماری ریاست مسلم اکثریتی ریاست ہے۔جموں سرینگر قومی شاہراہ جوں ہی بند ہوتا ہے نرخ آسمان کو چھوتے ہیں، حالانکہ اشیاء خردونوش پہلے سے یہاں موجود ہوتے ہیں۔ ہمیں احساس ہی نہیں ذخیرہ اندوزی کی کس قدر ممانعت ہے۔
اس مضمون میں صرف چند باتوں کی ہی طرف اشارہ کیا گیا ہے لیکن ہماری حالت ہر معاملے میں ایسی ہی ہے۔ رب العزت ہمیں صحیح شعوربخشے اوربداخلاقی کے اس اجتماعی وباسے ہم سبھی کو’شفاء‘دے۔
٭٭٭
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔