تاریخ اہل حدیث جنوبی ہند کے درخشاں پہلو: کتنی حقیقت کتنا فسانہ

کاشف شکیل

چند روز قبل  بتاریخ 10 مارچ 2018 بروز سنیچرچونتیسویں آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس   کے موقع پر  "تاریخ  اہل حدیث جنوبی ہند کے درخشاں پہلو” نامی ایک گرانقدر کتاب کا اجراء ہوا، جس پر مرتب کی جگہ شیخ عبد الوہاب جامعی حفظہ اللہ کا نام لکھا ہوا ہے، چونکہ اس کتاب کو میں نے شیخ محترم کے اشراف میں ترتیب دیا ہے اس لئے  اس پرمیں نے اپنا احتجاج درج کرایا، نتیجہ یہ نکلا کہ مجھ پر نہ صرف طرح طرح کے جملے کسے گئے، بلکہ بعض سینئر احباب اپنی زبانوں کو غیر اخلاقی حد تک دراز کر گئے، یہاں تک کہ بعض  نے تو جہالت کی انتہاء  کردی اور اسے شمال وجنوب کا مسئلہ بنا ڈالا، کوئی مجھے ضابطہ اخلاق سکھانے لگا، تو کوئی نشر وتالیف اور مولف ومرتب کےقواعد وضوابط بتانے لگا، کوئی اشارے کنائے میں خاموش رہنے کے لئے کہہ رہا تھا، تو کوئی اس دلیل کے ساتھ صبر کا درس دے رہا تھا کہ یہ تو بر صغیر کے بہت سارے شیوخ کرام اور مشایخ عظام  کی ایسی سنت جاریہ رہی ہے جس کو  اپنانے میں ان کے خلفاء  "وعضوا علیہا بالنواجذ” کی عملی تصویر بنے ہوئے ہیں ۔

کاش اسی پر بس ہوجاتا، مگر ایسا نہیں ہوا، بلکہ  بعض اخوان    چار قدم آگے بڑھ کرتحقیق وتالیف کے باب میں ایسے ایسے اصول کا اضافہ کر نے لگے کہ دنیا کے محققین شرما جائیں ، اور بڑے بڑے مولفین اپنى تالیف سے دستبردار ہوکر انھیں ان مراکز اور لائبریریوں کے نام کردیں جن کی مدد، توسط  اور تعاون سے انھوں نے اپنے کتابیں تیار کی ہیں ، یا پھر اپنے ان سپر وائزروں کے نام کردیں جو ایسی تحقیقات کو اپنے زیر نگرانی تیار کراتے ہیں ، اور  نہ صرف ہر طرح کی رہنمائی کرتے ہیں ، بلکہ مصادر ومراجع کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ہر ممکن اصلاح وتحسین کا کام بھی کرتے ہیں ، ہمارے ایسے احباب کو یقینا اختلاط ہوا، اور وہ کسی کتاب کی تالیف وتحقیق اور اس کے مالکانہ حقوق میں فرق نہ کر سکے، دنیا  کے بڑے بڑے علمی مراکز جو باحثین کو نہ صرف گرانقدر تنخواہیں دیتے ہیں ، بلکہ انھیں ان کی فیملیوں سمیت ہر طرح کی سہولیات فراہم کرتے اور مکمل تعاون کرتے ہیں وہ بھی کتاب کے مؤلفین اور محققین کا نام کتاب پر برقرار رکھتے ہیں ، اور اگر کتاب ان  علمی وتحقیقی سینٹروں کی طرف منسوب بھی کی گئی تو مؤلفین ومحققین یا پوری کمیٹی کا نام جلے حروف میں کتاب کے پہلے صفحہ پر یا کسی مناسب اور باوقار جگہ پوری صراحت کے ساتھ موجود ہوتا ہے، اور اگر کسی کمیٹی نے کام کیا ہے، اور  مختلف افراد کے کام الگ الگ ہیں تو سب کے عمل کی صراحت کر دی جاتی ہے۔

دنیا کے معتبر علمی اداروں اور موثوق ریسرچ سینٹروں میں یہی طریقہ رائج ہے، امانت داری  کے عظیم  تقاضے کے ساتھ ساتھ ایک اہم سبب اس کا یہ بھی ہے کہ تحقیق وتالیف اور ترتیب وتہذیب یہ فکری حقوق کے زمرے میں آتے ہیں ، جن کا مالک وہی شخص ہوتا ہے جو اسے براہ راست انجام دیتا ہے، اور وہی ان میں واقع غلطیوں اور اجتہادات کا مسؤول بھی ہوتا  ہے،جس کی طرف نہ صرف انھیں منسوب کیا جاتا ہے، بلکہ بصورت اشکال اسی کی طرف رجوع بھی کیا جاتا ہے، لہذا کسی متعاون یا مشرف کی طرف اسے منسوب کرنے سے بہت سارے اشکالات پیدا ہوجائیں گے، اور ان اشکالات سے دیگر مشکلات کی راہیں کھلتی چلی جائیں گی۔

بہر حال یہ موضوع  کافی تفصیل اور دقت  طلب وگہرے تجربے اور علم کا متقاضی ہے، اور اس پر مستقل لکھنے کی ضرورت ہے، مگر یہ مجھ جیسے طالبعلم کے بس کی بات نہیں ، مجھے امید ہے کہ اس پر ہمارے وہ سینئر راہ نما ضرور قلم اٹھاکر اس کی عقدہ کشائی کریں گے جنھیں اس میدان کا تجربہ ہے، اور جو فن تالیف وتحقیق کے شہسوار اور علمی مراکز کے خوشہ چیں ہیں ۔

 اس بحث ومباحثہ اور رد وقدح   کا ایک انتہائی دلچسپ پہلو یہ رہا کہ وہ احباب جو مجھے  تالیف وترتیب کے قواعد وضوابط سے روشناش کرا رہے تھے، اور میری حیثیت ایک  ناقل اجیر تک محدود کر رہے تھے، ان میں سے کئی غیر شعوری طور سے مجھے حقیقی معنوں میں مرتب مان کر تناقض کی زندہ جاوید مثال بھی بن رہے تھے، مگر چونکہ  میں ان کی نظروں میں  محض ایک اجیر تھا جو کسی کے تعاون سے اس  کی نگرانی اور رہنمائی میں اس کے پروجیکٹ پر کام کر رہا تھا اس لئے میرا  نام اس کتاب کے ٹائٹل پر ایک دھبہ کے سوا کچھ نہیں تھا، نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اس اصول  وضابطہ ہی کے نقض میں لگ گئے جو ایک لکھنے والے کو مرتب کہتا ہے، چنانچہ وہ ایک طرف  یہ تسلیم بھی کر رہے تھے کہ میں نے اس کتاب کو ترتیب دی ہے، مگر اس پر بھی بضد تھے کہ میں اس کتاب کے مرتب ہونے  کا دعوى نہیں کرسکتا، گویا ترتیب کا وہ عمل جو میں نے انجام دیا وہ  ہمارے ایسے احباب کے یہاں ترتیب کا کوئی اور مفہوم رکھتا ہے، اور کتاب کے ٹائٹل پر موجود مرتب کا لفظ ترتیب کا کوئی اور مفہوم،،، حیراں ہوں دل کو روؤں  کہ پیٹوں جگر کو میں ،،، اور ہوتا ہے شب وروز تماشہ مرے آگے،،، والی عجیب  صورتحال تھى، اور میں سوچ رہا تھا کہ جب ہمارے اپنے ان  احباب کا یہ حال ہے جو ہمارے ہم پیالہ وہم مشرب ہیں ، اور جن سے اسی متواضع شعور وآگہی اور کمزور قلم نے رشتہ جوڑا ہے، تو غیروں سے کیا شکوہ!!؟

 میں سمجھتا ہوں کہ شعور ولا شعور کے اسی ٹکراؤ نے یہ عجیب متناقض صورت حال پیدا کردی کہ خود  شیخ عبد الوہاب جامعی حفظہ  اللہ عرض مرتب میں ایک طرف  واضح انداز میں یہ بات کہہ رہے ہیں کہ یہ کتاب ان کی نگرانی میں ترتیب دی گئی ہے، اور دوسری طرف ٹائٹل پر مرتب کی جگہ خود ان کا نام پورے آب وتاب کے ساتھ چمک رہا ہے۔ تناقض کی اس سے واضح مثال بھلا اور کیا ہو سکتی ہے؟

 افسوس کہ (الحب یعمی ویصم)، اور (التعصب یعمی البصر والبصیرۃ) کے مصداق بہت سارے احباب بلکہ اجلاء نے وہ موشگافیاں کیں   اور ایسے ایسے گل کھلائے کہ الامان والحفیظ۔ ہمارے بعض وہ سینئر احباب بلکہ راہ نما جن کی تحریروں سے ہم مستفید اور صحبت سے شرف حاصل کرتے  ہیں انھوں نے تو سوالات کے ایسے نشتر مارے کہ روح چھلنی ہوجائے، سوالات کیا تھے وکیل استغاثہ کے وہ اتہامات تھے جن سے ایک مسکین ملزم کو چھلنی کیا جاتا ہے، وہ بظاہر تو سوالات تھے مگر درحقیقت منفی جوابات سے لبریز، بلکہ رد وتردید کے وہ تازیانے تھے جو میرے جسم سے زیادہ روح پر برسے، اور ابھی تک برس رہے ہیں ۔

حد تو تب ہوگئی جب وہ احباب جو اپنے کسی مضمون یا اس کے بنیادی فکر کی چوری پر طوفان برپا کردیتے ہیں ، اور فیس بک سے لے کر واٹساپ تک، ٹویٹر سے لے کر انسٹی گرام تک قیامت بپا کر دیتے ہیں ، وہ بھی نہ صرف قواعد وضوابط اور فن تحقیق وتالیف کے نادر اصول وضوابط پر روشنی ڈالتے نظر آئے، بلکہ ان میں سے کچھ ایسے بھی دیدہ دلیر نکلے جو  صبر ایوب وحلم یعقوب علیہما السلام کی مثال مع شرح وتفسیر دینے لگے۔ مگر کیا کیا جائے!  یہ وہ  دنیا ہے جس کے عجائب ختم نہیں ہوتے، اور یہاں اس طرح کا  ہر نمونہ وافر مقدار میں مل جاتا ہے۔

 صبر بلا شبہ بہت اچھی صفت ہے، اور کامیابی کا راستہ طے کرنے والے ایک انسان کی پہچان و علامت اور اس کے لئے مشعل راہ ہے، اسی لئے حدیث شریف میں صبر کو روشنی سے تعبیر کیا گیا  ہے۔ بلا شک صبر کی یہ شرعی مثالیں ہمارے لئے مشعل راہ ہیں ، مگر جہاں صبر ظلم اور نا انصافی کی راہ کھول دے وہاں صبر کی افادیت پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے، اور پھر صبر نہ صرف محل نظر ہوجاتا ہے، بلکہ بسا اوقات وہ صبر نہیں رہ جاتا بلکہ عجز وبیچارگی کا نمونہ بن جاتا ہے۔

ظاہر ہےجس نے کسی کتاب کی تیاری میں اپنی صبح وشام ایک کی ہو، مختلف مقامات کی خاک چھانی ہو، ایسے ایسے علاقوں کی دھول چاٹا ہو جہاں کی تہذب وثقافت زبان وادب بالکل مختلف ہو، اور اپنے وطن سے دور ایک غیر مانوس جگہ پر اپنے لیل ونہار صرف اس لئےصرف کیا ہو تاکہ تاریخ اہل حدیث کا ایک اور اہم گوشہ سامنے آجائے، اس کے ساتھ اگر ایسا سلوک کیا جائے تو کیسا محسوس ہوگا؟ جس شخص کے حقیقی جدو جہد کو نہ صرف پوری سفاکی سے نکار دیا جائے بلکہ الٹا اسے طرح طرح کے الزامات لگائے جائیں ، زبان کی درانتی سے  اسے لہو لہان کیا جائے، اور بین السطور دو ٹکے کا اجیر ثابت کرنے کی کوشش کی جائے، وہ کیسا محسوس کرےگا؟  میری جگہ حساس قارئین اور میدان تحریر وتالیف اور بحث وتحقیق  کے باذوق افراد خود کو رکھ کر دیکھیں ، ان شاء اللہ  سب کچھ سمجھ میں آجائے گا، اور مجھے امید ہے کہ وہ  میرا درد اپنے دل پر ضرور محسوس کریں گے۔

 حالانکہ  انصاف کا تقاضہ تو یہ تھا کہ  پہلےمجھ سے تفصیل طلب کی جاتی، پھر کوئی حکم لگایا جاتا، مگر تفصیل وہ طلب کرتا ہے جسے حقیقت کی تلاش ہو، جس کے آنکھ پر تعصب کی عینک، یا کسی کے تقدس کا ہالہ   اسے گھیرے میں لے رکھاہو اسے دلیل سے مطلب نہیں ہوتا، اس کی زبان اور قلم آگے آگے اور عدل وانصاف پیچھے پیچھے چلتا ہے۔ بہر حال  ظلم وزیادتی کے اسی طوفان میں بعض سنجیدہ احباب نے مشورہ دیا کہ میں اپنى بات مکمل تفصیل سے اہل علم وفضل کے سامنے رکھوں ، اور اس کا  فیصلہ انہیں پر چھوڑ دوں کہ میرى اس کتاب سے کیا نسبت ہے؟ اور اس کتاب میں میرے عمل کا حجم اور میری کارگردگی کی نسبت کیا  اور کتنی ہے؟

چنانچہ میں آپ لوگوں کے سامنے اس گرانقدر  کتاب کی جمع  ترتیب اور اعداد وتالیف  میں اپنے اعمال وکردار  کو تفصیل سے پیش کر رہا ہوں ، اس امید کے ساتھ کہ آپ انصاف کے ساتھ فیصلہ کریں گے، اور میرا  اس کتاب سے حقیقی معنوں میں  جو تعلق ہے اسے جاننے اور ماننے کی کوشش کریں گے۔ فاقول وباللہ التوفیق:

شیخ عبدالوہاب جامعی حفظہ اللہ صاحب سے میری ملاقات: 29،30 اور 31 جنوری 2017 کو رائیدرگ میں سہ روزہ دورہ تدریبیہ تھا جس میں مجھے شرکت کا موقع ملا، دورہ تدریبیہ کے آخر میں ایک عوامی خطاب تھا جس کی صدارت مولانا عبدالوہاب جامعی صاحب فرما رہے تھے، آخر میں آپ نے اپنے گرانقدر صدارتی خطاب سے بھی نوازا، اور یہیں پہلی بار مجھے شیخ عبدالوہاب جامعی صاحب کو  جاننے، سننے اور دیکھنے کا اتفاق ہوا۔

رائیدرگ سے قریب بمقام "ملکالمرو” میرے چچا  (ابو کے کزِن)  کا گھر ہے، جہاں سہ روزہ تدریبیہ کے دوران میرا روز آنا جانا ہوتا تھا، چونکہ اس وقت میں دعوتی فیلڈ سے الگ ہوگیا تھا اور فارغ تھا اس وجہ سے چچا نے مشورہ دیا کہ اگر تم کرناٹک ہی میں کسی کام پر لگ جاؤ تو تمھارے لیے بہتر ہوگا، میں ان کی اس بات پر راضی ہوگیا تو انھوں نے شیخ عبدالوہاب جامعی صاحب کو فون کیا، چونکہ جامعی صاحب صوبائی جمعیت اہل حدیث کرناٹک و گوا کے امیر ہیں اور ان کے پاس ویکینسیز رہتی ہیں ، لہذا جب ان سے بات ہوئی تو انھوں نے چچا سے کہا کہ ان کو بھیج دیں میں انھیں جس قابل سمجھونگا اسی کے مطابق کام بتاؤنگا۔

ادارہ اسلامیہ مینارٹی ٹرست ہرپن ہلی آمد :  چنانچہ 5 فروری 2017 بروز اتوار صبح 9:00 بجے کے قریب میں شیخ عبدالوہاب جامعی صاحب کے آفس پہونچا، ملکالمرو سے میرے ساتھ جامعی صاحب کے رشتہ دار رفیق صاحب بھی ہرپن ہلی تک آئے تھے، جامعی صاحب جمعیت اہل حدیث کرناٹک و گوا کے امیر ہیں ، اور فی الحال "اسلامیہ مینارٹی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ” کے زیر اہتمام مختلف تعلیمی ورفاہی ادارے چلاتے ہیں ، ساتھ ہی ساتھ  بیت المال بھی ہے۔

کام کی ابتدا: شیخ عبدالوہاب جامعی صاحب کے اسکول کے بچوں کا 28 فروری 2017 کو سالانہ دن تھا جس کی تیاری میں بعض اساتذہ لگے ہوئے تھے، پہلے ہی روز تھوڑی گفتگو کے بعد مجھے بچوں کے لیے نظموں کے انتخاب وغیرہ کی ذمہ داری سونپ دی گئی، جامعی صاحب کے ساتھ سفر و حضر میں دو تین دن گزرنے کے بعد جامعی صاحب نے تاریخ اہل حدیث جنوبی ہند سے اپنی دلچسپی کا اظہار کیا اور بتایا کہ برسوں سے میری تمنا ہے کہ تاریخ اہل حدیث جنوبی ہند مرتب ہو اور مجھے امید ہے کہ یہ کام آپ بخوبی کر سکتے ہیں ، جماعت سے جڑے اس مبارک کام کے لئےمیں نے بھی  حامی بھر لی۔

انھوں نے بتایا کہ میرے پاس تاریخ اہل حدیث جنوبی ہند کے سلسلے میں کچھ پرانی فائلیں ، اورخطوط ہیں ، جبکہ  کچھ میرے اپنے مشاہدات ہیں ، ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی ذکر کیا کہ ان سارے مواد کی فوٹو کاپی میں نے شیرخان صاحب کو بھیجی تھی جس کو ڈاکٹر بہاء الدین صاحب نے تاریخ اہل حدیث جلد سوم میں شامل کیا ہے۔ یہ مکمل مواد بقول جامعی صاحب وہی ہے جو ڈاکٹر بہاء الدین نے تاریخ اہل حدیث جلد سوم میں (صفحہ 379 سے 404 تک یعنی  کل 25 صفحات) شامل کیا ہے، جس کا بیش تر حصہ نذرانہ اشک اور مولانا سید اسماعیل رائیدرگی کے مضمون پر مشتمل ہے، مواد کی کثرت و قلت کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

کتاب کی ترتیب کا آغاز : اللہ کے فضل سے میں نے کتاب مرتب کرنی شروع کر دی، شیخ عبدالوہاب جامعی صاحب نے جہاں بھی میرا تعارف کرایا اسی حیثیت سے کرایا کہ "یہ میرے ساتھ کاشف شکیل ہیں جو میرے اشراف میں تاریخ اہل حدیث جنوبی ہند مرتب کر رہے ہیں "۔ چنانچہ مجھے ہر جگہ مرتب کے طور پر متعارف کرایا گیا، اور خلوت وجلوت میں کبھی بھی یہ نہیں کہا گیا کہ ترتیب بھلے ہی آپ دے رہے ہیں لیکن مرتب کے طور پر میرا نام رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت سے لے کر آج تک جس نے بھی اس سلسلے میں پوچھا میں نے یہی کہا کہ "مولانا عبدالوہاب جامعی صاحب کے زیر اشراف تاریخ اہل حدیث جنوبی ہند مرتب کر رہا ہوں "۔ چنانچہ تقریبا ایک سال پرانے(یعنی کام کی ابتدا کے وقت کے) کمنٹس اور گفتگو اس بات  کا بین ثبوت ہیں ، چنانچہ مولانا ہی کے کہنے پر جب شیرخان جمیل احمد عمری صاحب سے بات ہوئی اس وقت بھی میں نے یہی کہا، اور جیسا کہ جماعت سے جڑے  تقریبا سبھی افراد  کو معلوم ہے کہ شیرخان صاحب جماعت و جمعیت کے لئے ایک محترم  باوقار اور  ذمہ دار آدمی ہیں ۔ اسی کام کے دوران شیخ عبدالعظیم عمری مدنی اور شیخ عبدالحسیب عمری مدنی حفظہما اللہ سے بھی ملاقات ہوئی، ان حضرات سے بھی جامعی صاحب نے میرا یہی تعارف کرایا تھا۔

ترتیب کی ابتدا اور اس کا طریقہ کار:  میں نے کام کی ابتدا یوں کی کہ سب سے پہلے مولانا ثناء اللہ عمری ایم اے عثمانیہ کی کتاب "نذرانہ اشک” جو خاکوں کا مجموعہ ہے اس میں سے جن اہل حدیث شخصیات نے جنوبی ہند میں کام کیا ہے ان کے تذکرہ کو ملخصا از ولادت تا وفات ترتیب کے ساتھ اپنے طور پر لکھنا شروع کردیا، اور ہر شخصیت کے بارے میں دوسری کتابوں میں جو مواد فراہم ہوتا اس کو بھی اس میں شامل کردیتا، میں نے شخصیات پر لکھتے وقت یہ التزام کیا کہ تذکرہ بالترتیب نسب و ولادت، تعلیم و تربیت، خدمات، وفات، حلیہ اور پسماندگان پر مشتمل ہو۔

کتاب پر ہوئے کام کی نوعیت : اس کتاب پر ہوئے کام کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

1- اشراف: یہ مکمل شیخ عبد الوہاب جامعی حفظہ اللہ کا تھا۔ اور یہ کہنے میں مجھے کوئی تردد نہیں کہ شیخ عبد الوہاب جامعی حفظہ اللہ نے حتى المقدور اشراف کا حق بخوبی ادا کیا، اس موضوع پر کتاب تیار کروانا  ان کا دیرینہ خواب تھا، لہذا  انھوں نے اس اہم ترین موضوع کی طرف صرف   میری رہنمائی ہی نہیں کی، بلکہ میں کھلے دل سے یہ اعتراف کروں گا کہ مجھے  اللہ کے فضل وکرم کے بعد  انھیں کے سبب یہ اہم اور مبارک کتاب ترتیب دینے کا شرف  حاصل ہوا۔

 میں ان کے ایک ادارہ میں باتنخواہ  موظف تھا، انھوں نے نہ صرف اس اہم  موضوع کی طرف میری رہنمائی کی، بلکہ اپنے اشراف میں اسے مکمل مرتب کروایا جیسا کہ عرض مرتب میں آپ نے خود بھی اس کا ذکر کیا ہے، دوران ترتیب حتى الامکان مختلف مصادر ومراجع کی طرف رہنمائی کرنے کے ساتھ ساتھ آپ اپنے بعض ذاتی  واقعات اور  مشاہدات بھی بتاتے رہے۔ آپ کے تعاون کا یہ سلسلہ جاری رہا  یہاں تک کہ میں کتاب کی ترتیب سے فارغ ہوگیا۔

 اسی طرح اشراف میں جامعی صاحب ایک اہم کام  یہ بھی کرتے تھے کہ میں جو ترتیب دیتا  تھا اس کو کمپوزنگ کے لیے بھیجنے سے پہلے آپ ایک نظر دیکھتے تھے، اور بسا اوقات بعض عبارتوں یا معلومات کی اصلاح  بھی کر دیا کرتے تھے، جو کہ ایک ذمہ دار مشرف کی پہچان،اور ایک اکیڈمک نگران کی علامت ہے۔

 یہاں ایک نہایت اہم بات ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جب میں نے جامعی صاحب کے اشراف میں  ترتیب کا کام شروع کیا تو یہ  طے ہوا  کہ کتاب میں جہاں کہیں متکلم یا اس قسم کے صیغے استعمال ہونگے وہ شیخ عبدالوہاب جامعی صاحب کی طرف لوٹیں گے، اور اس کے بارے میں مقدمہ میں وضاحت کردی جائے گی، اس لیے کہ ان بزرگوں کے بارے میں میرے اپنے مشاہدات نہیں تھے کہ میں اس قسم کا کچھ لکھ سکتا۔ اب ظاہر ہے کہ مقدمہ میں اس وضاحت کی ضرورت اسی وقت پڑ سکتی ہے جب کتاب کے ٹائٹل پر  میرا یا ہم دونوں کا  نام ہو، ورنہ اگر صرف جامعی ہی صاحب کا نام رکھنا ہوتا تو اس وضاحت کی ضرورت قطعا نہیں تھی۔

2-  ترتیب : یہ مکمل طور پر میری ہے، چنانچہ پوری  کتاب شروع سے آخر تک میرے اپنے اسلوب میں مرتب ہے، سوائے درج ذیل تذکروں اور مضامین کے جنھیں بعض نہایت  ناگزیر وجوہات اور معقول اسباب وموانع  کی بنا پر میں نہیں لکھ سکا، یا ترتیب دینے سے قاصر رہا:

مولانا خلیل الرحمن اعظمی۔ مولانا ظہیر الدین رحمانی، (اس تذکرہ کا نصف سے زائد حصہ خود رحمانی صاحب کے انٹرویو سے انھیں کے الفاظ میں منقول ہے)۔ عبدالقادر پیارم پیٹ (جو مولانا ثناء اللہ عمری کے مضمون پر مشتمل ہے)۔ مولانا مختار ندوی (جو مولانا ضیاء الحسن سلفی کی کتاب سے ماخوذ ہے)۔ مولانا حبیب الرحمن اعظمی۔ شیرخان احمد حسین۔ جماعتی اجلاس اور کانفرنس: ایک جائزہ (شیخ اسعد اعظمی کے مضمون کے تناظر میں )۔ چترادرگہ کانفرنس کا پس منظر۔

چنانچہ یہاں اسلوب  کا فرق  واضح ہے، جو میرے اسلوب سے بالکل مختلف ہے،قارئین اسے بآسانی محسوس کر سکتے ہیں ۔

علاوہ ازیں عرض مرتب ہے جو جامعی صاحب نے لکھا ہے، اور کتاب کی تقریظ ہے جو استاذ الاساتذۃ  فضیلۃ الشیخ  حافظ حفیظ الرحمن عمر ی مدنی حفظہ اللہ کے گہربار قلم سے نکلی ہے۔

 3- مواد:  اس سلسلے میں تفصیل ہے:

اوپر اجمالا  بیان ہو چکا کہ خود جامعی صاحب کے دعوے کے مطابق ان کا مواد کتنا تھا!۔

جزوی تفصیل درج ذیل ہے:

  • پہلے باب سے 80 صفحہ تک پورا مواد میرا ہے جو میں نے اپنی E-Library یا ادارہ کی لائبریری کی کتابوں کی مدد سے لکھا تھا، اس سلسلے میں جنوبی ہند میں اہل حدیث کی آمد کی بابت شیخ عبد الحسیب صاحب مدنی نے محی الدین آلوائی کی کتاب کی طرف رہنمائی بھی فرمائی تھی۔
  • اسی طرح صفحہ نمبر 83 سے168  تک ( سوائے 87،88،91،92،اور 152 سے163  تک کے)۔

190 سے 241  تک، (سوائے211 اور 233 کے)۔

247 سے 268  تک، (سوائے ایک دو پیراگراف کے)۔

271 سے 308  تک۔

318 سے 358  تک(سوائے 333 اور 341)۔

361 سے 372  تک۔

376 سے 383  تک۔

389 سے 392  تک۔

394 سے 399  تک۔

407 سے 409  تک۔

433 سے 445  تک۔

467 سے 501  تک۔

524سے 528  تک۔

543 سے 564  تک۔

567 سے 583 تک۔

585 سے 589  تک۔

611 سے 619  تک، (سوائے 617 کے)۔

633 سے 637  تک۔

666 سے 730  تک۔

744 سے 756  تک۔

یہ سارے مواد  محض میری کوششوں کا ثمرہ ہیں ، جن میں جامعی صاحب کا کوئی عمل  دخل نہیں ہے۔

مواد کیسے فراہم ہوئے؟ :اولا E- Library سے کافی آسانی ہوگئی، نیز اس فن سے دلچسپی رکھنے والوں سے مسلسل میرا رابطہ رہا، بعض اہم کتابوں کا پی ڈی ایف احباب کے توسط سے پہونچا، محی الدین آلوائی کی کتاب غالبا مرشد عبدالقدیر بھائی نے بھیجی تھی، ڈاکٹر عبدالرحمن فریوائی ایک بار آئے تو ان سے نزھۃ الخواطر کی سافٹ کاپی مانگی جو حاصل ہوئی، فجزاہ اللہ خیرا، اسی طرح حیدرآباد کے سفر میں مولانا رفیق سلفی سے اس سلسلے میں گفتگو ہوئی، مولانا عبدالرحمن فاروقی صاحب امیر جمعیت حیدرآباد سے مولانا عبدالسلام ندوی، مولانا عبدالحی حیدرآبادی اور دیگر حیدرآبادی علماء کے سلسلے میں تفصیلی گفتگو ہوئی، مولانا ابوتمیم محمدی کے سلسلے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے ان کے گھر جانا ہوا، وغیرہ۔

اسی طرح یہ مواد مختلف کتابوں بطور خاص: نذرانہ اشک، عکس حیات، مجھے یاد آنے والے، مجلہ اہل حدیث شکراوہ، چمن جامعہ کے باغبان، نقوش حیات، مخیر اعظم،تذکرہ واجدی، تذکرۃ المناظرین، مسیحا نفس، اخبار اہل حدیث امرتسر، جامعۃ المفلحات کی سالانہ میگزین، نورالایمان، صوت الحق، نوائے اسلام، حیات مسیح، اہل حدیثوں کے حق میں عدالت کا تاریخی فیصلہ نیز ابو یحیی امام خان نوشہروی، خالد حنیف صدیقی، عبدالرشید عراقی، اسحاق بھٹی، قاضی اطہر مبارکپوری، شیخ محمد اکرام، معبری،آلوائی، ڈاکٹر بہاء الدین، عطاء اللہ حنیف بھوجیانی، اسلم سیف فیروزپوری، یوسف کوکن عمری، نذیر احمد املوی، غلام رسول املوی، ڈاکٹر قیام الدین احمد، رفیع اللہ مسعود تیمی، سید عبدالحی حسنی، سید اسماعیل رائیدرگی، حبیب الرحمن اعظمی، ابو الفضل عبدالحنان، حکیم اجمل خان وغیرہم -غفر اللہ لہم- کی تحریروں سے لیا گیا ہے۔

قارئین خود سوچیں کہ اگر سارا مواد جامعی صاحب کا تھا تو فہرست مراجع ومصادر چہ معنی دارد؟!۔

ایک اہم اور ضروری بات: یہاں یہ ذکر کردینا بہت ضروری سمجھتا ہوں کہ مذکورہ بالا صفحات کے علاوہ جو صفحات ہیں ان کا بھی مکمل مواد شیخ عبدالوہاب جامعی صاحب کا نہیں ہے، بلکہ اس کا بعض حصہ ہے، مگر  چونکہ ان کے جزئیات کا ذکر طویل اور ذرا پیچیدہ ہے، اس لیے اس کو نظر انداز کیا جارہا ہے، البتہ قارئین اتنا جان لیں کہ عام طور پر جامعی صاحب کا ذاتی  مواد انکے واقعات اور مشاہدات ہیں جو بمشکل کتاب کا  دو فیصد حصہ ہیں ۔ اور اگر  بہت مبالغہ کیا جائے تو پانچ فیصد سے تجاوز نہیں کرسکتے۔

قارئین یہاں یہ بات یاد رکھیں کہ یہ گفتگو كتاب كے  مواد کے تعلق سے ہو رہی ہے، ترتیب کے تئیں  نہیں ، ترتیب کے سلسلے میں تفصیلی گفتگو  اوپر گزر چکی ہے۔ گویا  کتاب کی ترتیب تو میں نے دی ہی ہے، پلس کتاب کا  مواد فراہم کرنے میں بھی الحمد للہ میرا کلیدی اور اساسی کردار رہا ہے۔

کتاب کی ترتیب کے سلسلے میں میری دلچسپی: کتاب کے سلسلے میں میری دلچسپی بیان سے باہر ہے، ادارہ کا موظف ہوئے ایک ماہ گزر گیا مگر میں نے تنخواہ کے سلسلے میں گفتگو تک نہیں کی، مجھے اس موضوع سے بے حد لگاؤ تھا، چونکہ ابھی میں نیا نیا فارغ ہوا تھا، اور اس قسم کا عظیم الشان کام  مجھے مل گیا اس لیے میری خوشی دیدنی  تھی، اور حوصلہ آسمان پر تھا۔

عموما  میں صبح  آٹھ نو بجے سے ترتیب میں مشغول ہوتا  تو عشاء تک یہی کام جاری رکھتا، سوائے کھانے پینے، ضروری حاجات، اور نماز کے وقفہ کے۔ میں جتنے روز رہا  کبھی دن میں آرام نہیں کیا الا ماشاء اللہ، فرائی ڈے یا سنڈے کسی روز بھی میں تعطیل نہیں کرتا تھا، بلکہ بسا اوقات میں فجر کے بعد ہی  سے کام شروع کر دیتا تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس کام کے دوران  میں نےشیخ عبدالوہاب جامعی صاحب کے ادارہ کی لائبریری کو تین بار مکمل طور پر کھنگالا ہے۔

اضلاعِ کرناٹک میں دعوت اہل حدیث کی ابتدا پر میرا کام:  اسی طرح میں نے اضلاعِ کرناٹک کے مختلف علاقوں میں اہل حدیثیت کی ابتدا کیسے ہوئی؟، وہاں کی جماعت کے مؤسس اور جمعیت کے بانی کون ہیں ؟  وہاں کی اہم مساجد کب بنیں ؟  وغیرہ پر تقریبا 70 صفحات مرتب کیے تھے۔ ارادہ یہی تھا کہ وہ قیمتی صفحات اس گرانقدر   کتاب کا حصہ ہوں گے، مگر  یہ دیکھ کر شدید دھچکہ لگا کہ  وہ اہم ترین صفحات اِس کتاب کا حصہ نہیں ہیں ۔ واللہ المستعان! پتہ نہیں اس کار عجیب میں کیا مقاصد پنہاں ہیں ؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ قیمتی صفحات اگلے ایڈیشن کی زینت بنیں ؟ یا پھر مستقل طور سے کسی کے نام سے شایع کئے جائیں ؟

دراصل شخصیات پر لکھتے وقت میں اس بات کا خیال رکھتا تھا کہ کن کے ذریعہ کہاں کی جمعیت، اور  کون سے مسجد کی بنا پڑی، چنانچہ اس کو الگ کاپی میں لکھ دیتا تھا، آخر میں ان تمام معلومات کو میں نے تقریبا 70 صفحات میں King size) کاپی میں بغیر سطر چھوڑے ہوئے) مرتب کیا تھا۔ اس میں میسور کے مقامات میں دعوت اہل حدیث کی ابتدا کے سلسلے میں "عکسِ حیات” از ڈاکٹر صبغۃ اللہ سے کافی استفادہ کیا تھا۔

ابتدا سے انتہا : تاریخ اہل حدیث کی ترتیب کے لیے میں "اسلامیہ مینارٹی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ”  کا 5 فروری 2017 کو موظف بنا، 8 تاریخ سے میں اپنے کام میں کمال تندہی سے بالکل مشغول ہوگیا، اور یہ سلسلہ بلا ناغہ وبلا تعطیل مسلسل جاری رہا، یہاں تک کہ 29 مارچ 2017 تک 200 سے زائد صفحات مرتب ہوگئے، جیسا کہ شیرخان صاحب سے اس وقت ہوئی مراسلت میں ذکر ہے۔

کام کا  یہ سلسلہ بلا انقطاع جاری رہا، اور میں مسلسل اپنے کام میں پوری محنت کے ساتھ لگا رہا، یہاں تک کہ جب رمضان قریب آیا تو  مولانا نے مجھ سے کہا کہ "آپ اس مہینہ گھر نہ جائیے جلد ہی جب کام مکمل ہوجائے گا  تب گھر جائیے گا”، چنانچہ میں نے رمضان  میں بھی کام کا سلسلہ جاری رکھا، اورعید  والدین، بھائی بہنوں اور اعزاء واقارب کے ساتھ کرنے کے بجائے وہیں پردیس میں کی۔

 لکھنے اورکمپوزنگ کرنے کا طریقہ : لکھنے اورکمپوزنگ کرنے کا طریقہ  یہ تھا کہ میں مرتب شدہ معلومات  کاپی پر لکھتا تھا، ایک کاپی مکمل ہو جاتی تو اس کو خلیل الرحمن محمدی کو بھیج دیا جاتا تھا جو کمپوزنگ کرتے تھے، جیسا کہ کتاب میں کمپوزنگ کے خانہ میں انھیں کا نام ہے، یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا، ادھر کتاب کا ایک حصہ مرتب ہوتا اور اُدھر اس کی کمپوزنگ، یہاں تک کہ کتاب کی ترتیب مکمل ہوگئی، اور پروف ریڈنگ کا مرحلہ شروع ہو گیا۔

میری گھر واپسی :  ترتیب کا کام ختم ہونے کے بعد اب  مجھے گھر  واپس آنا تھا، چنانچہ 25 اگست 2017  کا بنگلور سے لکھنؤ کا میرا  ٹکٹ نکالا گیا، جسے خودشیخ عبد الوہاب جامعی صاحب نے یہ کہہ کر بنوایا تھا کہ اس وقت تک پروف ریڈنگ وغیرہ کا کام بالکل مکمل ہوجائے گا، اور آپ کے ذمہ کوئی کام باقی نہیں رہ جائیگا، لہذا آپ آسانی سے گھر جاسکیں گے۔

چنانچہ میرا ٹکٹ 25 اگست 2017  کا  بن چکا تھا، جسے خود شیخ عبد الوہاب جامعی نے بنوایا تھا، مگر اس متفق وقت موعود  سے محض گیارہ روز قبل  14 اگست 2017  کو مولانا نے یوں ہی ایک چھوٹی سی بات پر  اس قدر "شیریں گفتاری” سے کام لیا کہ میرا دل اُچاٹ ہوگیا، اور میں نے وہاں رہنا مناسب نہ سمجھا، (واضح رہے کہ اس بحث کی مختصر سی آڈیو میرے پاس محفوظ ہے)، چنانچہ میں نے اس حادثہ کے دو دن بعد 16 اگست 2017 کو مولانا کا ادارہ چھوڑ دیا۔

ادھر ابھی کچھ دنوں سے میں مسلسل مولانا کو فون کر رہا ہوں مگر وہ ریسیو نہیں کر رہے ہیں ، تین بار ریسیو  بھی کئے تو بات کرنے سے انکار کردیا۔

کتاب میں موجودعرض مرتب کے ایک پیراگراف کا جائزہ اور اس پر میرا تبصرہ: شیخ  عبد الوہاب جامعی حفظہ اللہ عرض مرتب  کے آخری حصہ میں فرماتے ہیں :  "پھر ادارہ اسلامیہ ایجوکیشن ٹرسٹ ہرپن ہلی کے سابق موظف نوجوان عالم مولوی کاشف شکیل عالیاوی حفظہ اللہ ہیں ، جو چند ماہ تک اس کام میں میرے معاون رہے، تقریبا بیس سال سے میرے پاس جمع شدہ علمی مواد کو نقل کرنے کی ذمہ داری احسن طریقہ سے نبھاتے رہے، لمحہ بہ لمحہ کتاب میرے نگرانی میں ترتیب دی جا رہی تھی، کتاب کے مکمل ہونے میں کافی کام باقی تھا کہ وہ اس سے دستبردار ہوگئے”۔

اس پیراگراف پر میرا تجزیہ نکات کی صورت میں درج  ذیل ہے:

1- آپ کے بقول میں ادارہ کا موظف تھا  نہ کہ آپ کا ذاتی، جیساکہ آپ نے خود واضح کیا ہے، اور ادارہ عوامی ہے جس کے مہتمم اور نگران اعلی آپ ہیں ۔

2- کاش سابق موظف کے ساتھ ساتھ آپ کھلے دل  کے ساتھ پوری شفافیت سے یہ بھی بتا دیتے کہ میرا کام کیا تھا یا میں کس کام پر مامور تھا۔

واضح رہے کہ میں ادارہ میں نہ مدرس تھا، نہ کچھ اور، سوائے اس کے کہ میرا کام تاریخ اہل حدیث جنوبی ہند کی ترتیب تھا۔

3- "چند ماہ تک”:  آپ نے اس کی وضاحت کیوں نہیں کی کہ: یہ دورانیہ 5 فروری 2017 سے 14 اگست 2017 تک کا تھا۔

نیز کیا چند ماہ کہہ کر آپ میرے کام کو کم ثابت کرنا چاہتے ہیں ؟ اور کیا واقعتا  ایسا  کیا جا سکتا ہے !؟

مثلا (واضح رہے کہ یہاں کلی تشبیہ مراد نہیں ہے بلکہ محض وجہ شبہ واضح کرنا مقصود ہے) اگر کوئی شیخ الاسلام امرتسری مرحوم کی ان کتابوں کے سلسلے میں جو انھوں نے ایک یا دو دن میں تصنیف کی ہیں ، یہ کہے کہ انھوں نے اس کتاب کے لیے ایک یا دو دن کا وقت نکالا۔ تو کیا اس سے یہ لازم آئے گا کہ یہ کتاب انکی تصنیف کردہ نہیں ہے۔ تو  پھر کیا چند ماہ  (چھ ماہ دس دن) میں تاریخ اہل حدیث جنوبی ہند کی ترتیب ناممکن ہے؟

خاص طور سے ایسی صورت میں جب کہ اس کے بعض مشمولات مثلا "روداد آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس مدراس 1918”  شیخ الاسلام ثناء اللہ  امرتسری رحمہ اللہ ہی کے الفاظ میں منقول ہے، جن پر جہاں میں نے  ضروری سمجھا یا جن شخصیات کے بارے میں مناسب سمجھا ان کا حاشیہ میں ذکر کردیا۔

اسی طرح بعض شخصیات کے بارے میں مولانا ثناء اللہ عمری ایم اے عثمانیہ کی کتاب "نذرانہ اشک” اور "مجھے یاد آنے والے” سے کافی استفادہ کیا گیا ہے، بلکہ چند تذکرے ان کی کتاب سے ملخصا ذکر کئے گئے ہیں ، چنانچہ قارئین خود اس کو دیکھ سکتے اور ملاحظہ کرسکتے  ہیں۔

مذکورہ بالا وضاحتوں کے بعد کیا یہ ماننے میں کوئی ہچکچاہٹ یا تردد باقی رہ جاتا ہے کہ سوائے چند صفحات کے یہ  مکمل کتاب میں نے ہی چھ ماہ  دس دن کے وقفہ میں مرتب کی ہے؟ ویسے بھی  اس طرح کے کاموں میں عموما ماہ و سال اہم نہیں ہوتے ہیں ، بلکہ یہ اہم ہوتا ہے کہ کس نے کتنا کام، کیسے، اور کس حیثیت سے کیا ہے؟۔

4- آپ نے لکھا ہے:  "اس کام میں میرے معاون رہے”، بظاہر اس سے آپ کی مراد  یہی نکلتی ہے کہ  میں کتاب کو مرتب کرنے میں آپ کا معاون رہا، کیونکہ جب  حسب ٹائٹل کتاب  آپ نے مرتب کی ہے، اور میں آپ کا معاون رہا ہوں ، تو  ظاہر ہے میرا تعاون ترتیب کتاب ہی میں ہوگا۔ پھر آپ نے اپنے وضاحتی بیان میں مجھے محض ناقل کیوں گردانا؟

5- آپ نے لکھا ہے:   "تقریبا بیس سال سے میرے پاس جمع شدہ علمی مواد…”۔ جب کہ آپ نے اپنے وضاحتی بیان میں 31 سال قبل سے مواد جمع کرنے کی بات کہی ہے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ کے دونوں قول میں سے کونسا قول صحیح ہے  20  یا  31  !!؟

اب ایک پتہ کی بات بتاتا ہوں ذرا غور سے پڑھیں تو یہ بیس سالہ جمع شدہ علمی مواد کی حقیقت آشکارہ ہوجائیگی:

جامعی صاحب نے خود اپنے وضاحتی بیان میں لکھا ہے کہ انھوں نے اپنی جمع شدہ تمام معلومات کو سن 2008 میں شیخ شیرخان جمیل صاحب کے توسط سے محسن ملت ڈاکٹر بہاء الدین صاحب کو بھیج دیا تھا جس کو انھوں نے تیسری جلد میں شامل کیا ہے، جیسا کہ وضاحتی بیان میں جامعی صاحب لکھتے ہیں:  "میری فراہم کردہ تمام معلومات ڈاکٹر صاحب نے تاریخ اہل حدیث جلد سوم میں شامل کر لیں "۔

یعنی اس وضاحتی بیان کے مطابق 1986 سے 2008 تک کی (مکمل 22 سال کی) جمع کردہ تمام معلومات تاریخ اہل حدیث جلد سوم میں شامل ہیں ۔ اب یہ معلومات کتنی ہیں تاریخ اہل حدیث جلد سوم کے قارئین، یا  محسن ملت، یا  پھر شیخ شیرخان صاحب بذات خود  واضح کر سکتے ہیں۔

الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں

لو  آپ  اپنے  دام  میں  صیاد  آگیا

برا نہ مانیں تو ایک چیز اور عرض کردوں کہ :  چونکہ تاریخ اہل حدیث جلد سوم کے لیے آپ نے اپنا 22 سال کا جمع شدہ مواد محسن ملت ڈاکٹر بہاء الدین صاحب کو دے دیا تھا اس لیے نام نہاد ضابطہ تالیف واصول بحث وتحقیق کے مطابق تو  جلد سوم کے ٹائٹل پر بطور مرتب آپ کا نام ہونا چاہیے، نہ کہ ڈاکٹر صاحب کا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ   ڈاکٹر صاحب نے آپ کا نام ٹائٹل پر ذکر کرنے بجائے مقدمہ میں ذکر کر کے کھلی نا انصافی کردی ہے؟

6- آپ کا قول:  "…کو نقل کر نے کی ذمہ داری…”۔  اب میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اس سے پہلے آپ نے مجھے کس چیز میں اپنا معاون قرار دیا ہے، کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ آپ بھی نقل کر رہے تھے اور میں بھی ؟ تو پھر محض نقل کرنے کے لیے میری کیا ضرورت تھی ؟ آپ نے تو مختلف لوگوں سے میرا تعارف ہی یہی کرایا تھا کہ "یہ میرے ساتھ کاشف شکیل ہیں جو میرے اشراف میں تاریخ اہل حدیث جنوبی ہند مرتب کر رہے ہیں "۔ پھر یہاں ناقل کہنے  کا کیا مطلب؟

7-  آپ کا قول:  "احسن طریقے سے نبھاتے رہے”۔

اگر میں محض ناقل تھا، تو  پھر کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ میری writing بہت اچھی تھی؟ اور میں نقل کے فرائض احسن طریقے سے نبھاتا رہا۔

8- آپ کا قول:  "لمحہ بہ لمحہ کتاب میرے نگرانی میں ترتیب دی جا رہی تھی”۔ حقیقت سے پردہ اٹھاتی یہ وہ عبارت ہے جس کی تاویل ممکن نہیں ہے، اور یہ  لا شعور کی ایسی سچائی ہے جو شعور کو اپنے پاؤں تلے روندتے ہوئے سچائی کو نقش على حجر کر  گئی ہے، اور وہ برگزیدہ بھکت جو جوش دفاع میں ہر حدود کو پھلانگ گئے، اور وہ بھی جنھوں نے اسے  شمال جنوب  کا مسئلہ بنا کر  جاہلیت کے دروازے پر دستک دے دی، اس کا اب تک  کوئی جواب نہیں دے سکے۔ ہمارے ایک محبوب نے تاویل کی کوشش کی تو اوندھے منہ گرے، اور تحریف ساری سنتیں تازہ کرکے بھی بات نہ بنا سکے۔

 تناقض کا ایسا  شاہکار کم ہی دیکھنے کو  ملتا ہے، مگر اس عالم فانی میں ہر چیز کا نمونہ مل ہی جاتا ہے۔ ایک طرف صراحت کے ساتھ یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ کتاب میرے اشراف میں ترتیب دی جارہی تھی، جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ مشرف آپ تھے اور مرتب کوئی اور، مگر  دوسری طرف کتاب کے  ٹائٹل پر مرتب کی جگہ آپ کا نام جگمگا رہا ہے، اور مشرف کا کوئی پتہ نہیں !!۔

ظاہر ہے جب بقول خود آپ کی حیثیت متعین ہو گئی کہ آپ مشرف تھے تو روئے زمین پر میرے علاوہ اور کوئی بھی اس کتاب کے مرتب ہونے کا دعویدار نہیں ہے، لہذا جس مجہول مرتب کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ میں ہی ہوں ۔ مزید آپ نے اس جملہ سے پہلے اور بعد ہر دو جگہ میرا ہی تذکرہ کیا ہے، لہذا سیاق و سباق بھی اسی کا متقاضی ہے کہ میں ہی  اس کا مرتب ہوں ۔

9-  آپ کا قول: "کتاب کے مکمل ہونے میں کافی کام باقی تھا کہ وہ اس سے دستبردار ہوگئے”۔

پہلی بات تو یہ  کہ بات واقع کے بالکل خلاف ہے، کیونکہ کتاب تقریبا مکمل ہوچکی تھی، اور وہ پروف ریڈنگ کے آخرى مرحلہ سے گزر رہی تھی، صرف چند تذکرے  مع عرض مرتب باقی رہ گئے تھے، اس لیے وہ میرے  مرتب کردہ نہیں ہیں ۔ اس کے ناگزیر اور معقول اسباب وموانع مع کلی تفصیل اوپر گزر چکے ہیں ۔ کاش آپ دقت سے نہ سہی تقریبا ہی بتادیتے کہ وہ کتنا کام ہے جس کی ترتیب میں نے نہیں دی ہے، یا جو میرے آنے کے بعد پائے تکمیل تک پہنچا ہے!۔

 در اصل کام کی تکمیل کے بعد ہی مجھے سفر کی اجازت ملی تھی، وگرنہ کافی کام باقی رہتا تو کبھی اس کی اجازت نہ ملتی، آخر کام ہی کے تکمیل کا  تو حرص تھا جس کی وجہ سے آپ  نے مجھے رمضان میں بھی وہیں رہنے کے لئے کہا، اور میں نے عید اپنے وطن میں کرنے کے بجائے وہیں کی۔

دوسری بات کتاب کے مکمل ہونے سے آپ کا  کیا مطلب ہے؟ نقل یاترتیب؟ ظاہر تو یہی ہے کہ ترتیب ہی مراد ہے اس لیے کہ یہ عرض مرتب ہے اور کتاب کی تکمیل ترتیب ہی سے ہوگی، نقل اور نسخ کا کام تو کمپوزر کر ہی رہے تھے۔ پھر خرد کا نام جنوں ، اور جنوں کا خرد رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟

تیسری ایک اہم بات یہ ہے کہ مواد اگر واقعی مواد ہی ہوں تو ان کو نقل نہیں کیا جاتا بلکہ مرتب کیا جاتا ہے!!۔

چوتھی بات یہ ہے کہ اس جملے  میں دست برداری کی بات کہی گئی ہے، اور آدمی دست بردار اسی چیز سے ہوتا ہے جو اس کی اپنی ہو۔

10-  آپ نے آخر میں لکھا ہے:  "کام کسی حد تک تکمیل کو پہونچ گیا اور کتابی صورت میں مرتب ہوگیا”، اس سے بھی صاف یہی پتہ چلتا ہے کہ کام کی تکمیل سے کتاب کی ترتیب ہی مراد ہے۔

محترم قارئین! یہ اس کتاب کے تئیں میری وضاحت، اور اس کی ترتیب وتالیف اور تکمیل میں  میرے کردار اور حصے کا تفصیلی ذکر ہے، جو میں نے پوری دیانتداری اور حتى الامکان پوری دقت کے ساتھ پیش کر دی ہے۔ اب آپ پورے انصاف کے ساتھ خود فیصلہ کریں کہ اس  کتاب کا حقیقی مرتب کون ہے؟ اور اس گرانقدر کتاب سے صحیح معنوں میں میری کیا اور کتنی نسبت بنتی ہے؟

معزز قارئین کرام!

آخر میں یہ وضاحت میں ضروری سمجھتا ہوں کہ ان شاء اللہ العزیز اس موضوع پر یہ میرا پہلا اور آخری  مضمون ہوگا، جس میں میری پوری کوشش رہی ہے کہ میرا مکمل کام پوری دیانتداری سے آپ کے سامنے آجائے، الحمد للہ  آخرت کے دن پر میرا ایمان بہت قوی ہے، وہ دن جس  کی خطرناکی اور اس میں انسان کی بیچارگی کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالى نے ارشاد فرمایا ہے: (یوم تبلى السرائر فما  لہ من قوۃ ولا ناصر)۔ یقینا اس دن سب کو حقیقت کا پتہ چل جائے گا، اور ہر مظلوم کو ظالم سے اس کا حق بھی مل جائے گا۔

اللہم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ، وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ

تبصرے بند ہیں۔