سازشی تعلیم اور ہمارے بچّے

فواد کیفی

 کیا ہم اپنے  بچوں کو اسلام مخالف تعلیم دے رہے ہیں؟

کیا ہمارے بچوں کے ساتھ دھوکہ ہو رہا ہے؟

کیا ہم نے اپنے بچوں کو اسلام دشمنوں کی گود میں دے دیا ہے؟

مغرب، یوروپ اور بالخصوص یہود اسلام اور مسلمانوں سے زمانہ قدیم سے ایک الگ طرح کا بیر پال رکھے ہیں ۔ انکی اٹھتے بیٹھتے  سوتے جاگتے بس یہی فکر رہتی ہے کہ کیسے بھی اسلام کا خاتمہ  (نعوذباللہ) کر سکیں ۔ اس کے لیے وہ طرح طرح کی ترکیبیں آزماتے آرہے ہیں ۔ ایسے بیشمار محاذ اور میدان ہیں جہاں انھوں نے اسلام کے خلاف اپنی جنگیں چھیڑ رکھی ہیں ۔ اسی میں سے ایک محاذ ہے۔ ۔۔تعلیم۔

انھیں بخوبی علم ہے کہ اسلام میں علم، تعلیم، درس و تدریس، کتنی اہمیت کی حامل شۓ ہے۔۔اس سے قبل کہ اس پر بات کی جاۓ زرا ایک  سر سری نظر اسلام میں علم کی اہمیت پر ڈالتے چلیں ۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر  ہزاروں نبیوں و رسولوں کو اپنی کتاب دیا ساتھ ہی  انھیں حکم دیا اسی کتاب کے ذریعہ اپنی قوم کے انسانوں کی ہدایت  فلاح کے انتظام کۓ جایں ۔

اس کے برعکس نبی صلى الله عليه وسلم پر جو کتاب  یعنی قران مجید نازل ہوئی اس کا اعجاز یہٰ ہے کہ یہ کتاب رہتی دنیا تک اور پوری انسانیت  کے لیے ہدایت ورحمت ہے۔ اس میں دنیا کے تمام علوم کا ذکر ہے۔ قرآن کہتا ہے:

”وَنَزَّلْنَا عَلَیْْکَ الْکِتَابَ تِبْیَاناً لِّکُلِّ شَیْْءٍ وَہُدًی وَرَحْمَةً وَبُشْرَی لِلْمُسْلِمِیْنَ.“ (النحل:۸۹)

(اے نبی صلى الله عليه وسلم ! ہم نے آپ پر جو کتاب نازل کی ہے اس میں ہرچیز کو بیان کردیا ہے اور اس میں رحمت وہدایت ہے اور مسلمانوں کے لیے خوش خبری ہے۔)

انسان کے لۓ ”علم“ کی اہمیت اس واقعے سے اور عیاں ہو جاتی ہے کہ جب۔حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے  پیدا کیا تو انہیں وہ تمام ”علوم“ عطاکیے جن سے ان کا واسطہ پڑ سکتا تھا۔قرآن کریم میں اس کا تذکرہ کچھ یوں موجودہے:

”وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاء کُلَّہَا ثُمَّ عَرَضَہُمْ عَلَی الْمَلاَئِکَةِ فَقَالَ أَنبِئُونِیْ بِأَسْمَاء ہَؤُلاء إِن کُنتُمْ صَادِقِیْن. قَالُواْ سُبْحَانَکَ لاَ عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّکَ أَنتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ. قَالَ یَا آدَمُ أَنبِئْہُم بِأَسْمَآئِہِمْ فَلَمَّا أَنبَأَہُمْ بِأَسْمَآئِہِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّکُمْ إِنِّیْ أَعْلَمُ غَیْْبَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا کُنتُمْ تَکْتُمُونَ.“ (البقرہ:۳۱)

(اور سکھایا اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام چیزوں کے نام اور پھر سامنے کیا ان سب چیزوں کوفرشتوں کے،پھر اللہ نے فرمایا ان سے بتاوٴ مجھ کو ان کے نام اگر تم سچے(جانتے) ہو؟فرشتوں نے کہا: تیری ذات پاک ہے، ہم کو نہیں معلوم، مگر جتنا تونے مجھے علم دیا ہے۔ بے شک تو ہی ہے اصل جاننے والا اور حکمت والا۔ پھر اللہ نے آدم سے کہا: بتاوٴ تم ان کو ان چیزوں کے نام۔ جب انہوں نے بتادیا ان کے نام، تواللہ نے فرشتوں سے کہا: کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں خوب جانتا ہوں ان چیزوں کو جو آسمان و زمیں میں چھپی ہوئی ہیں اور میں یہ بھی جانتا ہوں جو ظاہر ہے اور جو چیز چھپی ہوئی ہے۔)

 نبی اکرم کو جس دین سے نوازا گیا، اس کی ابتدا ہی تعلیم سے  ہوئی۔غارحرا میں سب سے پہلی جو وحی نازل ہوئی وہ سورہ علق کی ابتدائی چند آیتیں ہیں ، جن میں نبی امی کو کہا گیا :

”اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ. خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ. اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ. الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ. عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَم.“(العلق:۱-۵)

(پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے سب کو پیدا کیا۔ پیدا کیا اس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے۔ پڑھ، تیرارب بڑا کریم ہے۔ جس نے سکھایا علم قلم کے زیعہ۔ اس چیز کا علم دیا انسان کو جو وہ نہیں جانتا۔ )

علم والوں کی اہمیت

 قرآن کہتا ہے:

”یَرْفَعِ اللَّہُ الَّذِیْنَ آمَنُوا مِنکُمْ وَالَّذِیْنَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ وَاللَّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیْرٌ.“(المجادلہ:۱۱)

(تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جن کو علم عطا ہواہے، اللہ اس کے درجات بلند فرمائے گا اورجو عمل تم کرتے ہو اس سے اللہ باخبر ہے۔)

دوسرے مقام پر فرمایا گیا ہے:

”قُلْ ہَلْ یَسْتَوِیْ الَّذِیْنَ یَعْلَمُونَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُونَ إِنَّمَا یَتَذَکَّرُ أُوْلُوا الْأَلْبَاب.“ (الزمر:۹)

(اے نبی،کہہ دیجیے کیاعلم رکھنے والے(عالم) اور علم نہ رکھنے والے (جاہل) برابر ہوسکتے ہیں ۔ نصیحت تو وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں ۔ )

کبھی تاریکی اور روشنی کی مثال سے سمجھایا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے:

”قُلْ ہَلْ یَسْتَوِیْ الأَعْمَی وَالْبَصِیْرُ أَمْ ہَلْ تَسْتَوِیْ الظُّلُمَاتُ وَالنُّور.“(الرعد:۱۶)

(کہہ دیجیے،کیا برابر ہوسکتے ہیں اندھا(جاہل) اور دیکھنے والا(عالم) یا کہیں برابر ہوسکتا ہے اندھیرا اور اجالا۔)

اس طرح کی بہت ساری آیتیں ہیں جن میں عالم اور جاہل کے فرق کو واضح کیا گیا ہے اور ان کے درجات کے تعین کے ساتھ مسلمانوں کو ”حصول علم“ کے لیے ابھارا گیا ہے۔اس سلسلے میں کثرت سے احادیث بھی وارد ہوئی ہیں جن میں اہل علم کی ستائش کی گئی ہے۔ اللہ کے رسول فرماتے ہیں :

” وَفَضْلُ الْعَالِمِ عَلَی الْعابِدِ، کَفَضْلِی عَلَی اَدْنَاکُمْ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلى الله عليه وسلم: اِنَّ اللّٰہَ وَمَلَائِکَتَہُ وَاھْلَ السَّمٰوَاتِ وَ الْاَرْضِیْنَ حَتَّی النَّمْلَةَ فِی جُحْرِھَا وَحَتَّی الْحُوْتَ لَیُصَلُّوْنَ عَلی مُعَلِّمِ النَّاسِ الْخَیْرَ.“

(اورعابد پر عالم کی فضیلت ایسی ہے جیسے میری فضیلت تم میں سے ادنی پر۔ یقینا اللہ عزوجل، اس کے فرشتے اور آسمان وزمین والے حتیٰ کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور مچھلی تک لوگوں کے معلم کے لیے بھلائی کی دعاء کرتی ہیں ۔ )

ایک دوسری حدیث کے راوی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہیں ، وہ بیان کرتے ہیں :

”خَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلى الله عليه وسلم ذَاتَ یَوْمٍ مِن بَعضِ حُجَرِہِ، فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ، فَاِذَا ھُوَ بِحَلْقَتَیْنِ: اِحْداھُمَا یَقرَوٴُن الُقُرْآنَ وَیَدْعُوْنَ اللّٰہ، وَالْاُخْرَی یَتَعَلَّمُونَ وَیُعَلِّمُونَ. فَقَالَ النَّبِیُ: کُلٌّ عَلی خَیْرٍ، ھٰوٴُلَاءِ یَقُرَوٴُنَ الْقُرْآنَ وَیَدْعُوْنَ اللّٰہ، فَاِنْ شَاءَ اَعْطَاھُمْ وَاِنْ شَاءَ مَنَعَھُمْ، وَھٰوٴلَاءِ یَتَعَلَّمُوْنَ وَیُعَلِّمُوْنَ، وَاِنَّمّا بُعِثْتُ مُعَلِّماً، فَجَلَسَ مَعَھُمْ.“

(ایک دن رسول اللہ اپنے حجرے سے باہر تشریف لائے اور مسجد (نبوی) میں داخل ہوے،وہاں دوحلقے بیٹھے ہوے تھے،ایک حلقہ قرآن کی تلاوت کررہا تھا اوراللہ سے دعاء کررہا تھا،دوسرا تعلیم وتعلم کا کام سرانجام دے رہا تھا۔ آپ نے فرمایا: دونوں بھلائی پر ہیں ۔ یہ حلقہ قرآن پڑھ رہا ہے اور اللہ سے دعاء کررہاہے۔ اللہ چاہے تو اس کی دعاء قبول فرمائے، یا نہ فرمائے۔دوسرا حلقہ تعلیم وتعلم میں مشغول ہے (یہ زیادہ بہتر ہے) اور میں تو معلم بناکر بھیجا گیا ہوں ۔ پھر یہیں بیٹھ گئے۔)

علم نافع  کے لیے اللہ کے حضور یہ دعاء بھی کرتے تھے:

”اَللّٰھُمَّ اِنّی اَسْئَلُکَ عِلْماً نَافِعاً،

(اے اللہ! میں تجھ سے علم نافع کی  درخواست کرتا ہوں ۔ )

کیوں کہ اللہ نے انہیں ایسا کرنے کا حکم دیا تھا:

”وَقُل رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْما.“(طٰہٰ:۱۱۴)

(اے پیغمبر کہو:اے میرے رب !میرا علم زیادہ کر۔)

اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے تعلیم و تربیت میں معراج پاکر دین و دنیا میں سربلندی اور ترقی حاصل کی لیکن جب بھی مسلمان علم اور تعلیم سے دور ہوئے وہ غلام بنالیئے گئے یا پھر جب بھی انہوں نے تعلیم کے مواقعوں سے خود کو محروم کیا وہ بحیثیت قوم اپنی شناخت کھو بیٹھے۔۔۔یہی وہ  تعلیم تھی   جس نے ریگستان میں رہنے والے بدّووں کی، اونٹ بھیڑ بکریوں کے ریوڑ پوسنے والی، بات بات پر ایک دوسرے کے خون بہا دینے والی، چھوٹی سی لڑاٸ کو صدیوں تک اور پشتوں تک لڑنے والی قوم کو ایک وقت پوری دنیا میں سرخرو بنا کر رکھ دیا یہ چیزیں ان اسلام دشمنوں کو کیسے پسند آسکتی تھیں  لہاذا انھوں نے اسی اسلامی تعلیم کے خلاف ایک زبردست تانابانابنا  زبردست منصوبہ بندی  کی اور ہمارے معاشرے میں راٸج تعلیمی نظام میں بڑی کامیاب سیندھ ماری کۓ جانے کی ترکیبیں  عمل میں لاۓ  تاکہ ہم مسلمان جو کبھی پوری دنیا میں  غالب قوم کی حیثیت سے متعارف تھے پھر سے مغلوب اور محکوم بن جایں ۔

آج کا دور ایسا ہے کہ ہم پر ہر طرف سے صلیبی سازشیں جاری ہیں ۔ پورا عالم اسلام اسکی زر میں ہے اور ان سازشوں کی ہلاکت سے کراہ رہا ہے۔ان حملوں سے عالم اسلام کا یہ حال ہو گیا ہے کہ اپنی آنکھوں کے سامنے انکی سازشوں کو دیکھتے، سمجھتے ہوۓ بھی ایک آہ بھرنے کے لۓ بھی اپنے لب نہیں کھول سکتے۔ہماری نام نہاد مسلم حکومتیں بھی ایسی بے بسی اور لاچارگی کی شکار ہیں کہ وہ یہ سب جانتے بوجھتے بھی خاموش تماشاٸ بنی ہوٸ ہیں ۔ انھوں نے ہر شعبے پر اپنی گرفت مظبوط کر لی ہے۔ لیکن جو معاملہ دینی تعلیم اور  اسلامی افکار و اقدارکاہے وہ بڑا اہم ہے۔۔

اپنی اولاد کے ساتھ دھوکہ

ان یورپی اور صلیبیی سازشوں نے ہمارے نظام تعلیم کو اپنے دور رس منصوبے کے تحت یکسر تبدیل کر دیا ہے۔۔۔انکی یہ پلاننگ ہے کہ ہمارے اندر سے اسلامی مزاج ختم کر دیا جاۓ، ہمارے افکار و نظریات اور عقیدے پر چوٹ کی جاۓ۔انکی سازش میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم یا ہماری نسلیں عام نظر سے تو بے شک دینی تعلیم حاصل کریں مگر ہمارے اندر  دین فہمی نہ رہے، غور و فکر، تدبر کی صلاحیت نہ بچے۔ ۔۔اور پھر ایک وقت ایسا آۓ کہ ہماری قوم کے  ایسے تمام  بزرگ جو  دین  فہمی کا  اصلی سرچشمہ ہیں جب ایک ایک کرکے دنیا سے جا چکیں تو ہماری بعد والی نسلوں کے اندر دین فقط نام بھر کا باقی رہ جاۓ۔آج جب ہم اپنے گردو پیش کا محاسبہ کرتے ہیں تو پاتے ہیں کہ واقعی ہماری نوجواں نسل سے دینی حرارت بالکل غاٸب ہو چکی ہے۔ ۔۔مطلب صاف ہے کہ ان اسلام دشمنوں کی سازشیں ہم پر ہماری نسلوں پر اثرانداز ہو چکی ہیں ۔ اور افسوس تو ان دانشور اور علما ٕ طبقوں پر ہوتا ہے کہ وہ ہمیں جس طرح اور تمام باتوں کی توجہ اپنی تقریروں میں کرواتے ہیں ، اس اہم موضوع یعنی  تعلیم کے خلاف چل رہی سازشوں کو اجاگر کیوں نہیں کرتے۔؟

وہ ہمیں وقت رہتے کیوں نہیں ہوشیار کرتے؟ اور ان سے بچنے کی ترکیبیں کیوں نہیں بتاتے۔؟

ہمارے بچے اور جوان

آج ہم دیکھ رہے ہیں ہمارے بچے جو عصری تعلیم کے میدان میں انگریزی،حساب اورساٸنس پرتواپنی عمر کے لحاظ سے عبور حاصل کر رہے ہیں مگر انہیں بچوں کا اسلامک جنرل نالج یا تو بالکل نیچے ”زیرو“ ہے یاانتہاٸ ناقص ہے۔ان بچّوں کو چار  کلمہ یاد نہیں ، چند مخصوص دعایں یاد نہیں ، نماز کے فرایض، واجبات،ارکان کو چھوڑۓ نماز کے لۓ ضروری چند تصبیحیں اور سورتیں ازبر نہیں ، الا یہ کہ جنازہ کی دعا اور افطار کی دعا یاد رہتی۔۔۔بچوں کے علاوہ آج کے وہ نوجوان جنکی عمر 20سے25 سال کی ہے، ان  میں اکثر کو آخری نبی ﷺ کا صرف نام مُحَمَّد ﷺ پتہ ہے۔ انھیں سیرت پاک ﷺ کاکچھ پتہ نہیں ۔ ۔۔وہ اتنا ہی جانتے ہیں بہت سے نبی آۓ۔لیکن ان میں سے چند مشہورومقبول انبیا ٕ کے نام تک بتانے سے قاصر ہیں ۔ چہ جایکہ قصص النبیا پر بات کی جاۓ،غزوات کے حالات و واقعات، صلح حدیبیہ،اور فتح مکہ وغیرہ کی تفصیل تو انکے لۓ بہت دور کی بات ہے۔انھیں بچپن سے اسکولوں میں اتنا ہوم ورک مل جایا کرتا تھا کہ جس میں عام پڑھاٸ کے علاوہ ”اسکیچ ڈراینگ“یعنی مصوری اور وقتاً فوقتاً کلچرل پروگرامز سے متعلق گلوکاری اور رقص کی مشق بھی شامل رہا کرتی تھیں ۔ اب انکے پاس وقت ہی کہاں بچتا تھا کہ وہ اسلامی اور عربی پرتھوڑابھی دھیان  دے پاتے۔ عربی زبان کو چھوڑیۓ  ان یورپی نظام  تعلیم کی سازشوں کے شکار ہو کر ہمارے بچے ”مادری زبان“تک سے  دور ہوتے جا رہے ہیں ۔ انکی پلاننگ میں شاید یہ بھی شامل ہو کہ جب ہماری  مادری زبان پوری طرح ختم ہو جایگی تو اسکا مطلب ہم آٹومیٹک  عربی سے،دین سے، اسلامی طور طریقے، اور عقیدے سے  دور ہوتے چلے جاینگے۔یہ سب ایک بڑی اور گہری سازش کا اثر ہے جو ہمارے خلاف اس خوبصورتی سے رچا جارہا ہے کہ ہمیں یہ اسکا احساس ہی نہیں ۔ ۔۔

”علامہ جلال العالم“ کی عربی کتاب کا ترجمہ ”قاضی ابو سلمان“ نے کیا ہے۔وہ کتاب کےمقدمہ  میں  لکھتے ہیں ۔

” ہمارے تعلیمی نظاموں میں ملّی اور قومی زبانوں کی یورپی سامراج کے ہاں قایم شدہ یونیورسیٹیوں کے ”نصاب ہاۓ تعلیم“ کو اندھا دھند طریقے سے رایج کیا جا رہا ہے۔اب یہی ذریعہ بچ گیا ہے اب وہیں سے اعلیٰ تعلیمی ذہن،فکر و فرد درآمد کۓ جا رہے ہیں ۔ وہاں ہی اپنے ذہین اور محنتی افراد کو تعلیم و تربیت کے لۓ بھیجا رہا ہے۔ ان تعلیمی اداروں کی اصلیت اور جو فکری و نظریاتی تعلیم ہیں وہ صد فی صد ”تثلیثی“ اصولوں پر ہیں اور وہ انھیں چیزوں کی تشہیر ہمارے معاشرے میں کرتے آرہے ہیں ۔ یورپی سامراج عالم اسلام میں مسیحی تعلیمی اداروں کی ترویج سے کہیں زیادہ ” سیکولر“ طور پر چلنے والے تعلیمی اداروں پر اسکی زبردست سرپرستی و حمایت حاصل ہے۔۔۔“

اور وہ سیکولر تعلیمی ادارے کون کون سے ہو سکتے ہیں یہ ہم اور اپ آسانی سےاپنےمعاشرے   میں چاروں جانب پھیلے ہوۓ ان ”کانونٹ“ اور انگلش میڈیم پبلک اسکول کے ساین بورڈ سے اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ جو ہمارے بچوں کے اندر سے دین کو ”دیمک“ کی طرح دھیرے دھیرے کھرچ رہے ہیں اور بدلے میں ہم سے اسکی موٹی فیس بھی بلا ناغہ وصول رہے ہیں ۔ ۔۔۔افسوس کہ اس جانب لوگوں کا دھیان کیوں نہیں جاتا، یا لوگ جان بوجھ کر اپنے بچوں کو اس جہنم کے حوالے کر رہے ہیں ۔ یہ بھی وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ بے شک ایک بڑا طبقہ اس سےانجان ہو مگر ہمارےدانشوروں اور علما ٕ کی زیریں نگاہ سے یہ چیزیں کیسی بچ سکتی ہیں ؟ اور اکثر مقام پر دیکھا گیا ہے کہ ہمارے مدرسوں کے  استاد بھی اپنے بچّوں کو انہیں انگلش میڈیم اسکول  میں پڑھنے کو  بھیجتے ہیں ۔ یہ اصل المیہ ہے ہمارے معاشرے کا۔ ۔۔۔۔

مدرسے بھی محفوظ نہیں

عالم اسلام میں کٸ ایسے تعلیمی ادارے ہیں جنکی  پشت پناہی یا سرپرستی یہ یورپی سامراجی مراج والے تعلیمی ادارے کر رہے ہیں ۔ انکے نصاب وہ طۓ کرتے ہیں ۔ ۔۔اساتذہ کاانتخاب انکی مرضی سے ہوتا ہے۔یہاں تک کہ عمارت کی تعمیر بھی انکے اشاروں پر ہی ہوتی ہے۔ان تمام کاموں میں وہ بے دریغ خرچ کر رہے ہیں ۔ ۔سوال ہوتا ہے کہ وہ کیوں اتنا خرچ کر رہے ہیں ۔ ۔۔۔تو جواب ملتا ہے سیمویل زیومر SAMUEL ZUEMER کی زبان سے۔۔۔۔

”چونکہ مسلمان کو مسیحی مدارس سے نفرت ہے اس لیۓ ان ممالک کے اندر  ایسے ”لادینی مدارس“ کا قیام ہمارے لۓ واجب ہے کہ جہاں پر مسلمان خوشی خوشی اپنے بچوں کو داخل کرا سکیں ۔ ہمیں اس حوالے سے ان ”لادینی مدارس“ کے ”قیام و اہتمام“ کے لۓ ہر ممکن سہولت بہم  پہنچانی ہے جو ہم کر رہے ہیں ۔ یہ مدارس ہمارے لۓ انتہاٸ مفید اور ہمارے مقصد کے لۓ بڑے مددگار ثابت ہونگے کیونکہ ان مدارس کےتوسط سے ہم  ان مسلمان طلبہ کے اندر سے ”اسلامی شخصیت“ اور ”اسلامی تہذیب و ثقافت“ کی ”روح “ کو بالکلیہ ختم ہونے میں موثر طریقے پر کامیاب ہو سکتے ہیں “حوالہ۔۔۔(الغازةعلی العالم الا سلامی) ص ٨٢۔۔۔(”اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یورپی) سازشیں ۔ ۔۔۔ص۔۔۔۔٢٤

{نوٹ۔۔۔کتاب عربی کی ہے اور عربی میں اسکول کو ”مدرسہ “ کہا جاتا ہے۔}

جی ہاں یہ ہیں انکی پلاننگ جن پر وہ عمل پیرا ہیں ۔ ۔۔۔اب بات مسیحی  نام والے اسکول اور مدرسوں سے آگے بڑھ چکی ہے آپ نے اقتباس میں دیکھا کہ دشمن کس طرح ہمارے معاشرے میں ہماری نسلوں کے ساتھ تعلیمی لحاظ سے   سیندھ ماری کر رہے ہیں ۔ ۔۔۔۔اور وہ جو بھی منصوبہ بندی کرتے ہیں اس پر بہت دیانتداری سے عمل بھی کرتے ہیں ۔ ۔۔۔ایسے بے شمار انسان اس کام میں لگے ہوۓ ہیں ، کروڑوں روپے کے صرفہ کو یورپی تنظیمیں  برداشت کرتی ہیں اور اس کے پیچھے صرف اور صرف منشا یہ ہے کہ اسلام کو کھوکھلا کر دیا جاۓ۔ آج ہندوستان   پاکستان بنگلہ دیش میں ایسے بہت سارے  ”دینی مدارس“ بھی مل جاینگے جو  انکی ما تحتی  میں چل رہے ہونگے جہاں سے ایسےمزاج کے لوگ تیار ہوکر نکلتے ہیں جو ظاہری ساخت اور ڈیل ڈول سے تو مسلم دکھتے ہیں مگر انکے بیانات اور طرز عمل توحید خداوندی کےخلاف ہوتے ہیں وہ  مُحَمَّد ﷺ کی سیرت پاک پرطنزیہ بیانات سے گریزنہیں کرتے، خلفاۓ راشدین اور صحابہ اکرام پر انگشت نماٸ کرنے سے باز نہیں رہتے، یہ دراصل یہیں کے پیداوار ہوتے ہیں ۔ ۔۔۔

اسکول

ان سازشیوں نے ایسے بیشمار اسکولوں پران کے تعلیمی اصولوں اور نصاب تعلیم پر اپنا قبضہ جمایاہوا ہے۔۔۔۔کچھ تو کھل کر مسیحی ناموں کے ساتھ جیسے  سنٹ جوزف، سنٹ پول، سنٹ زیویر اور سنٹ میری وغیرہ ناموں سےاور کچھ دیگر ناموں سےہمارے ہر بڑے چھوٹےشہروں کے  بعد گاٶں اور اب گلیوں اور محلے تک میں پھیل  چکے ہیں ۔ ۔۔اور کچھ ایسے  اسکول بھی ہیں جنکے نام تو مختلف ہیں ، اصول تعلیم بھی الگ ہے، اساتذہ بھی معیاری، مگر  دوسرے اسکولوں  سے مقابلہ اور کمپٹیشن کی وجہ سے وہ بھی اسی نصاب کو چلانے پر مجبور ہیں ۔ نصابی کتابوں پر بحث کی جاۓ تو اس کے لۓ ایک الگ لمبی طوالت درکار ہوگی۔ ہندوستان کے ایک  چھوٹے سے قصبے پر کۓ  گۓ سروے کے مطابق  جہاں اس طرح  کے غیر  سرکاری اسکولوں کی تعداد تقریباً 15 ہیں ۔ ۔۔ان میں سے ایک کو چھوڑکر باقی کسی اسکول میں ”اردو“ کی تعلیم دینے کا کوٸ نظام سرے سے ہے ہی نہیں ۔ ایک دو میں اردو کے نام پر پڑھاٸ تو ہے مگر پانچویں کلاس سے شروع ہے اسکے نیچے کوٸ انتظام نہیں ۔ ۔۔تقریباً دس ایسے اسکول ملےجہاں مسلم استاد تو تھے مگر اردو کے استاد ہی نہیں تھےصرف امتحان لے لۓجاتے  ہیں ۔ ۔۔چاہے بچہ جیسے بھی کچھ بھی لکھ دے۔۔اور اسکول انتظامیہ اسے پاس بھی کر دیتی ہے۔۔۔۔۔یہ ہے صورت  حال ہمارے معاشرے کی۔۔۔۔۔پتہ نہیں ہم کب جاگینگے۔

ایک اور اقتباس

اسی کتاب کا ایک اور اقتباس دیکھۓ۔۔۔

”ہمارے لۓ واجب ہے کہ ہم ”بلاد اسلامیہ“کے اندر ایسے یوروپین طرز اور نمونے کے تعلیمی اداروں کا جال بچھا دیں جو کہ ”لادینی“ نظام تعلیم کے اصول پر قایم ہوں ۔ ہمارے ان تعلیمی اداروں سے تلیم و تربیت حاصل کرنے والی نوجواں نسل کی کم از کم 90 فیصد تعداد ”اسلام“ اور قران کے بارے میں اپنے یقین اور اعتماد سے بالکل تہی دامن ہو جاینگی۔جب یہ نسل ہمارے تیار کردہ نصابوں کے نتیجے میں پروان چڑھینگی، جب یہ ہماری زبان، ہمارے فلسفے ہمارے دوسرے افکار و تصورات کو ہمارے  ہی اساتزہ سے پڑھے گی تو پھر یہ نسل نہ صرف اپنے اسلامی افکار و فلسفہ سےبرگشتہ  ہو جایگی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ ہمارے لادینی افکار و تصورات کی دل و جان سے گرویدہ  بھی ہو جایگی۔“(حوالہ ص۔۔۔١٤٨ /٢٦ )

اس طرز کے سارے تعلیمی ادارے دراصل الحاد ودہریت کی عملی تربیت گاہ ہیں ۔ ۔۔۔ہمارے دانشوروں کو چاہۓ کہ اب بھی اس سازشوں اور ان حقایق سے قوم کو  آگاہ کریں تاکہ مزید تخریب سے ہماری قوم اور قوم کے بچے محفوظ رہ سکیں ۔ یہ تعلیمی ادارے بڑے منظم انداز سے بڑے سلیقے سے ہمارے معاشرے میں گھس کر ہمارے بچوں کے معصوم ذہنوں سے بچی کھچی اسلامی فکر و تہزیب کو نکال نکال کر باہر پھینک رہے ہیں اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں ۔ ہم اپنے بچوں کے منہ سے کبھی نبیوں کے قصے اور صحابہ کے قصے، غزوہ کے حالات نہیں سنتے مگر جدید طرز کے فلمی موسیقی پر رقص ضرور دیکھ کر خوش ہوتے ہیں ۔ ۔۔۔افسوس۔۔۔۔۔۔۔۔

عربستان کی ایک مثال

یہ چیزیں ہم اپنے معاشرے میں تو دیکھ ہی رہے تھے اب دیکھۓ ”مصر“ کی ایک کہانی۔

ایک یوروپین مبشرہ ”مسز میگلین“ کے مطابق

” ہم نے قاہرہ کے ”کلیةالبنات“ میں صرف ایسی بچیوں کو اپنے ہاں تعلیم کے لۓ داخلہ دیا جن کا تعلق ”پاشا“اور ”بک“  جیسے اعزازات کے مالک خاندانوں سے تھے، اورمیرا خیال ہے غالباً ہمارے ادارے کے سوا کوٸ دوسرا مسیحی ادارہ ایسا نہیں ہے کہ جس نے ”پاشاٶں “ اور ”بکوں “ جیسے بااثر اور وجیہ خاندانوں کی بہو بیٹیوں کو ہم سےزیادہ یورپی تہزیب و ثقافت کے رنگ سے رنگین کیا۔ اور انکے اندرمسیحی اثرو نفوز پیدا کرنے کے لۓ ہم سے زیادہ کیا ہم جیسی کوٸ  خدمت دی ہو۔ہمارا تجربہ ہے کہ ”مدارس“ سے بڑھ کر کوٸ دوسری ایسی جگہ نہیں ہے کہ جہاں بیٹھ کر اسلامی تہزیب و ثقافت کے ”قلعے“ کو بہتر اور موثرانداز میں مسمار اور زمین بوس کرنے کا مسیحی فریضہ انجام دیا جا سکتا ہے۔۔۔(۔بحوالہ۔ ۔۔ص ١٦١/ ص ٣٠ )

چند بیانات

اسلام دشمنوں کے چند بیانات پیش کر رہا ہوں جس سے انکی ذہنیت عیاں ہو جایگی کہ وہ لوگ ہمارے دین اسلام سے اتنی نفرت کیوں کرتے ہیں ۔ انکے یہاں ہر خواص وعام کیا عوام کیا سرکاری آفیسر کیا فوجی کیا وزیر سب  کے ذہن و دماغ میں یہ بات  محو کرا دی جاتی ہے کہ اسلام، مسلمان تمہارے ابدی دشمن ہیں ، ان سے نہ صرف ہوشیار رہیں بلکہ جب اور جس طرح موقع ملے ان پر پوری شدت سے حملہ کرنے سے نہ چوکیں ۔ ۔۔

   ١۔۔لارنس براٶن Lournce Brown لکھتا ہے

”اسلام ہی وہ آہنی دیوار ہے جو کہ ہم یورپ والوں کے استعمار میں بری طرح حاٸل ہے۔(حوالہ۔التبشیر والاستعمار۔ ص۔١٨٤/ ٩٨)

٢۔۔گلیڈ اسٹون۔Glad Stone  برطانیہ کا وزیر اعظم رہ چکا ہے اور اس سے قبل امور خارجہ و وزارت دفاع کا قلمدان بھی اسکے پاس رہ چکا ہے۔کہتا ہے۔

”جب تک یہ قران مسلمانوں کے دلوں یا دماغوں میں حکمراں رہیگا اس وقت تک یورپ اسلامی مشرق کو نہ تو اپنے قبضے میں لا سکتا ہے اور اگر قبضے یا تسلط میں لے بھی آۓ تو وہ اپنے تسلط کو زیادہ دیر تک برقرار نہیں رکھ سکتا“(حوالہ۔المنار۔شمارہ۔٩۔١١۔١٩٦٢۔۔ص۔٩٨)

٣۔۔۔روسیوں کا بھی عقیدہ ہے کہ ”کمیونزم“ کے فروغ میں حاٸل آہنی دیوار اسلام ہی ہے۔ازبکستان کی اشتراکی پارٹی کا روزنامہ ”کیزل ازبکستان“کا مدیر اپنے اداریہ میں یوں لکھتا ہے:

”اسلام کو نیست و نابود کۓ بغیر ”کمیونزم“ کے لۓ ازبکستان کیا بلکہ پورے عالم اسلام میں کہیں  بھی کمیونزم کی جڑیں پڑ سکناناممکنات میں سے ہے۔“(حوالہ۔الاسلام و التمنیةالاقتصادیة۔ص ٥٦۔۔ص٩٩)

٤۔۔۔ایک  فرانسیسی گورنر نے الجزاٸر پر فرانس کے سو سالہ اقتدار کے مکمل ہونے کی خوشی میں منعقد ایک تقریب میں تقریر کرتے ہو کہا تھا۔

”ہم الجزاٸر پر کبھی بھی اور کسی صورت میں اپنے غلبے کو برقرار نہیں رکھ سکتے، جب تک کہ الجزاٸری قران پڑھتے رہینگے اور عربی زبان بولتے رہینگے۔لہاذا ہمارے لۓ واجب ہے کہ ہم ان کے دل و دماغ قران پاک کا وجود محو کر دیں اور عربی لغت کو انکی زبانوں سے کاٹ کر باہر نکال دیں “۔ (حوالہ۔۔المنار۔ شمارہ۔ ٩۔١١۔١٩٦٢ ص٩٨)

٥۔۔۔ایک یورپی مبشر کہتا ہے۔۔۔۔” وہ قوت جو کہ اسلام میں پوشیدہ ہے دراصل وہ طاقت ہے جو کہ سدّسکندری کے طور پر ایک ناقبل تسخیر دیوار کی حیثیت سے فروغ عیساٸت کے راستے میں حاٸل ہے۔۔۔“ (حوالہ الاسلام والتنمیةالاقتصادیة ص ٥٦۔ ص٩٩)

٦۔۔اسی طرح اشعیا بومان اپنے مقالہ میں لکھتا ہے ” اس طرح کا آج تک کوٸ اتفاق نہیں ہو کہ کوٸ قبول اسلام کے بعد دوبارہ اپنے اپ کو حلقہ  بگوش مسیحیت کر لیا ہو“(حوالہ۔ التبشیر و الاستعمار ص ١٢١۔ ص ٩٩)

٧۔۔روس کے ایک سابق وزیر خروشوف نے ایک دفعہ الجزاٸر کے انقلابیوں کے ایک وفد سے گفتگو کرتے ہوۓ کہا تھا” اسلام اپنی انقلابیت کا تحفظ کرتا رہیگا کیونکہ اسلام انقلابی عوام اور انقلابی اقوام کا دین ہے۔یہی وہ دین ہے جسے یورپ کے جنگجویانہ صلیبی ذہنیت کے ہاتھوں جنگوں کا اج تک سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ (حوالہ۔ القومیة و الغزوةالفکری ص ٨٨۔ ۔ص ١٠٠)

٨۔۔اسراٸل کے سابق وزیر اعظم بن گوریان نے کہا تھا۔۔۔”میں بڑی شدت سے ایک چیز کا خطرہ محسوس کرتا ہوں کہ ایسا  نہ ہو کہ کل کلاں کوٸ عالم عرب یا عالم اسلام میں نیا مُحَمَّد  ظہور پزیر نہ ہو جاۓ۔“ (حوالہ جریدہ الکفاح الاسلامی اپریل ١٩٥٥ ص١٠٠)

ایسے اور بھی بےشمار بیانات ہیں جو یہاں پر طوالت سے بچنے کے لۓ نہیں ڈالا جا رہا ہے۔اصل مقصد ان بیانوں کا ایک نمونہ  دکھانے کا یہ ہے کہ وہ دشمن جو ہمارے خلاف گھات لگاۓ بیٹھے ہیں ، ہمارے دین اسلام اور ظابطہ حیات بتانے والی کتاب قران کے متعلق انکی سوچ کیا ہے۔یہ ہم پر، ہماری عوام پر ظاہر ہو جاۓ۔حالات کی سنگینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہےکہ دشمن ہمارے دروازے تک پہنچ گۓ ہیں اور ہم خواب غفلت میں میٹھے خرّاٹے لینے میں محو ہیں ۔ کاش کہ کوٸ زور کا کڑکا آۓ اور ہم، ہماری قوم نیند سے بیدار ہو جاۓ۔۔

تبصرے بند ہیں۔