اپنے آئینی حقوق سے محروم بچہ مزدور

بھاگیہ شری

( مہاراشٹر)

”ہم ہندوستان کے لوگ“ سے شروع ہونے والے خطاب کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کی گئی تھی کہ یہ الفاظ ادا کرنے والوں کی تعداد شاید کم ہوں لیکن وہ پورے ہندوستان کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہاں بولی جانے والی باتوں میں پورا ہندوستان راگ ملائے گا۔ اور پھر ان بڑے بڑے وعدے لکھنے کا عمل شروع ہوا جو ایک موٹی کتاب میں نظر آنے لگا، جسے آئین کہا جاتا ہے۔کتاب تو تیار کی گئی مگر کسی نہ کسی طرح اس کتاب کی موٹائی نظام کی جلد میں اس طرح اتر گئی ہے کہ وہ پھنسے ہوئے گلوں سے آنے والی سسکیوں کے لیے بے حس ہو گئی ہے۔ مایوسی کا یہ رونا صرف سسکیوں پر محیط نہیں ہے بلکہ یہ گلے میں پھنسی ہوئی یہ آوازیں چیخ و پکار میں تبدیل ہو نا چاہتی ہیں۔ یہ اتنی زور سے چیخنے کی خواہش مند ہیں کہ ان کی آوازیں بہرے نظام کو سننے پر مجبور کر سکیں لیکن بے بسی ان کے ہونٹوں پر مہر لگا دیتی ہے اور ان کی آوازیں صرف سسکیوں میں دفن ہوکر رہ جاتی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ موجودہ نظام ان سسکیوں کونظر انداز کرنے میں ماہر ہو گیا ہے یا یوں کہیے کہ نظام ان کو نظر انداز کرنے کے لیے ہی بنایا گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ معاشرہ منظم طریقے سے بچوں کو مزدور بنانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ چاہے وہ سیما ہو جسے ”عظیم تعلیمی نظام“ نے نئی زندگی دی یا کومل، جس پر سسٹم نے بہت بڑا احسان کیا اور اسے اپنی ماں کے لیے 120فیصد شرح سود پر قرض لینے پر مجبور کردیا جوکہ غیر قانونی ہے، یا رنجانی جسے پدرانہ نظام نے محدود کر دیا، قبل اس کے کہ وہ پدرانہ نظام کا مطلب سمجھ پاتی، یا پوجا، جسے طبی امداد کے شاندار تحفے سے نوازا گیا۔ جس کے بدلے اب وہ سفید لباس میں دکان چلا رہی ہے۔

اخلاقی تجزیہ ہمیشہ ظاہر کرتا ہے کہ معاشرہ ننگا ہے۔ اس لیے میں اسے نظر انداز کر رہی ہوں اور آئینی اخلاقیات کی طرف توجہ مبذول کر رہی ہوں اور کچھ قانونی پہلوؤں کو دکھانے کی کوشش کر رہی ہوں۔ جنہیں پڑھ کر ایسا لگے گا کہ سارا نظام صرف ان مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے بنایا گیا ہے لیکن زمینی سطح پر ان کا کوئی رول نہیں ہے۔اس سلسلے میں بات کرتے ہیں رنجانی سے متعلق۔سب سے پہلا اور سب سے اہم مسئلہ جس کے بارے میں رنجانی نے دوران گفتگو ذکر کیا وہ تھا کام کی جگہوں پر واش رومز کی عدم دستیابی۔ چائلڈ لیبر ایکٹ کے سیکشن 13(2) کے مطابق، حکومت کو نوعمر ملازمین کی صحت اور حفاظت، خاص طور پربیت الخلاء اور پیشاب خانوں کے استعمال، پینے کے پانی اور صفائی وغیرہ کو یقینی بنانے کے لیے قوانین بنانا ہے۔ مزید برآں، مہاراشٹر شاپس اینڈ اسٹیبلشمنٹس (ملازمت کے ضابطے اور سروس کے حالات) ایکٹ، 2017 (اس کے بعد ‘ایم ایس ای ایکٹ)، سیکشن 19 کے تحت، ہر ملازم صفائی سمیت ملازمین کی صحت اور حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرنے کا پابند ہے۔ایم ایس ای ایکٹ کا سیکشن 22 آجر کو پابند بناتا ہے کہ وہ مردوں و خواتین کے لیے ایسا مناسب بیت الخلاء اور پیشاب خانہ مہیا کرا ئے جو ملازمین کے لیے آسانی سے قابل رسائی ہوں۔جیسا کہ رنجانی نے بتایا کہ اسے واش روم استعمال کرنے کے لیے کسی قریبی ہوٹل یا ہسپتال وغیرہ میں جانا پڑتا ہے جو بالکل بھی آسان نہیں ہے۔ یہ مذکورہ بالا قوانین کی براہ راست خلاف ورزی ہے۔ واش رومز کا دورہونااور وہاں سے جانا بھی رنجانی کے لیے زیادہ محفوظ سفر نہیں ہے جیسا کہ وہ اپنے تجربے میں بیان کرتی ہیں یہ مذکورہ بالا قوانین کی براہ راست خلاف ورزی ہے۔ رنجانی کے مطابق واش کے لیے یہاں سے وہاں جانا بھی بڑی حد تک محفوظ نہیں ہے۔

 ایم ایس ای ایکٹ کے سیکشن 19 کے مطابق آجر کو نہ صرف ملازمین کی حفاظت کو یقینی بنانا چاہیے بلکہ اسے یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرنے چاہیے۔جیسا کہ رنجانی نے بیان کیا کہ جب وہ واش روم استعمال کرنے جاتی ہیں تو وہ خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتی ہیں اور بعض اوقات متعلقہ ہوٹل کے عملہ وغیرہ نازیبا تبصرہ کرتے ہیں۔ واش روم استعمال کرنے کے بعد واپسی کے دوران، سڑک کے دکاندار بھی کبھی کبھی اسے چھیڑتے ہیں۔ کام کے اوقات کے دوران عوامی بیت الخلاء کا استعمال کرنا کیونکہ ان کا آجر واش روم کی سہولیات فراہم نہیں کرتا ہے غیر محفوظ ہے۔ رنجانی کے بیان کے مطابق اسے واش روم استعمال کرنے کی اجازت لینی پڑتی ہے اور اسے یا اس جیسے دیگر ملازمین کو بیت الخلاء کے لیے 5 منٹ سے زیادہ کی اجازت نہیں ملتی ہے۔یہ حالات انسانوں کے وقار اور خودمختاری پر براہ راست حملہ اور انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2015 میں صفائی کے حق کو عالمی انسانی حق قرار دیا۔ اس طرح یہ سہولت فراہم نہ کرنا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ وقت کی پابندی اور عوامی بیت الخلاء میں دستیاب سہولیات ملازمین بالخصوص خواتین ملازمین کو ہر طرح کی بیماریوں سے دوچار کرتی ہیں۔حیض کے دوران مناسب اور اچھے واش رومز نہ ہونے کی وجہ سے حیض کے لیے بہت نقصان دہ ہو تا ہے اور یہ محفوظ کام کرنے کی جگہ اور زندگی کے بنیادی انسانی حق کی خلاف ورزی بھی ہے۔ رنجانی نے بتایا ہے کہ کام کے اوقات متعین نہیں ہیں یعنی اسے وقت پر کام پر پہنچنا ہے لیکن لوٹنے کا وقت غیر متعین ہے۔ لوٹنے کا وقت کام کی مقدار پر منحصر ہے، جو کبھی کبھی رات کے وقت تک بھی ہو سکتا ہے۔ چائلڈ لیبر ایکٹ کے سیکشن 7 کے مطابق، کام کی جگہ پر کام کرنے والا کوئی بھی نوجوان مقررہ گھنٹوں سے زائد وقت تک کام نہیں کرے گا۔ اس کے علاوہ، کھانے کے وقفہ سمیت کل کام کے اوقات چھ گھنٹے سے زیادہ نہیں ہوں گے۔

سیکشن 7 نوعمروں کو شام 7 بجے سے صبح 8 بجے کے درمیان کام کرنے سے بھی منع کرتا ہے۔ نوعمروں کو اوور ٹائم کرنے کے لیے بھی ملازم نہیں رکھا جانا چاہیے۔ یہ مکمل طور پر ممنوع ہے۔اس کے علاوہ، ایم ایس ای ایکٹ کا سیکشن 15 یہ فراہم کرتا ہے کہ اگر کوئی ورکر اوور ٹائم کرتا ہے، تو اسے ان کی نارمل اجرت سے دگنی شرح پر اجرت دی جائے گی۔ایکٹ کا سیکشن 13(2) یہ بھی بتاتا ہے کہ کسی بھی خاتون کارکن کو رات ساڈھے نو بجے کے بعد کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے (سوائے اس کہ اس میں اس کی رضامندی  شامل ہو اور اس کی حفاظت سمیت اس کی رہائش گاہ تک نقل و حمل کے کے مناسب انتظام ہو)۔ رنجانی نے اپنے کام کے حالات کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ کام کے اوقات مقررہ کی کوئی تعمیل نہیں ہے۔ اسے بعض اوقات رات کے وقت تک گھنٹوں تک کام کرنا پڑتا ہے اوور ٹائم کے لیے کوئی اضافی معاوضہ نہیں ادا کیا جاتا ہے۔ کام کے اوقات کے لیے لازمی تعمیل، کوئی اوور ٹائم نہیں وغیرہ کی آجر مستقل بنیادوں پر خلاف ورزی کرتا ہے۔رنجانی نے اپنے کام کے حالات بیان کرتے ہوئے کہا کہ دوپہر کے کھانے کا وقفہ اسے ہمیشہ نصیب نہیں ہوتا، جو کہ ریگولر ہونا ہی چاہئے۔ جبکہ چائلڈ لیبر ایکٹ کی دفعہ 7 (2) کا تقاضا یہ ہے کہ نوعمروں کے لیے ہر دن کام کی مدت اس طرح مقرر کی جائے کہ بیک وقت وہ تین گھنٹے سے زیادہ نہ ہو اور پھر کم از کم ایک گھنٹے کے لیے آرام کا وقفہ ہو۔رانجانی کو دوپہر کے کھانے کا باقاعدہ وقفہ فراہم نہیں کیا جاتا اور یہاں تک کہ جب انہیں اجازت دی جاتی ہے، یہ صرف 30 منٹ کے لیے ہوتاہے۔ یہ سرے سے ہی قانون کی خلاف ورزی ہیں۔

کچھ ایسے ہی حالات سیما کے ہیں۔اپنے کام کے حالات کے بارے میں بات کرتے ہوئے سیما نے چھٹیوں کے بارے میں بات کی۔ اس نے بتایا کہ ان کی ہفتہ واری چھٹیوں کی تعداد 4 سے گھٹا کر 2 چھٹی کر دی گئی ہے۔جبکہ چائلڈ لیبر ایکٹ کا سیکشن 8 لازمی قرار دیتا ہے کہ ہر ملازم کو کم از کم ہفتہ واری چھٹی، ہر ہفتے ایک پورے دن کی چھٹی دی جانی چاہیے۔ایم ایس ای ایکٹ کا سیکشن 16 یہ بھی فراہم کرتا ہے کہ ہر ملازم کو لگاتار چوبیس گھنٹے کی ہفتہ وار چھٹی کی اجازت دی جائے اور اس کی عدم موجودگی میں اس کے بدلے معاوضہ کی چھٹی دی جائے۔ سیما نے ہمیں بتایا کہ یہ چھٹیاں اس کو نہیں مل پا رہی ہیں۔ اس طرح یہاں قانون کی لازمی دفعات کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ تقرری اور اختیارات کے معاملے میں کام کی جگہ پر خواتین کے خلاف صنفی امتیاز کی موجودگی بہت زیادہ نظر آتی تھی۔ اس سے تنخواہ میں تفاوت بھی پیدا ہوتا ہے۔ایم ایس ای ایکٹ کا سیکشن 13 بھرتی، تربیت، تبادلے یا پروموشن یا اجرت کے معاملے میں خواتین ورکرز کے ساتھ امتیازی سلوک کو منع کرتا ہے۔ ہندوستان کا آئین برابری کے وعدے پر کھڑا ہے۔ اس طرح خواتین کے ساتھ بالواسطہ امتیازی سلوک مندرجہ بالا دفعات کی خلاف ورزی اور فطری طور پر غیر اخلاقی ہے۔یہ جگہ ذات پات کے امتیاز کو بھی ظاہر کر تا ہے۔ جیسا کہ اوپر کہا گیا ہے، ہمارا آئین برابری کے وعدے پر کھڑا ہے اور ہمارے آئین میں ذات پات کے امتیاز کو واضح طور پر حل کیا گیا ہے۔

وہیں کومل نے انٹرویو میں اپنے کام کے اوقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ اسے کم از کم 8 گھنٹے اور زیادہ سے زیادہ 12 گھنٹے تک کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔جبکہ چائلڈ لیبر ایکٹ کے سیکشن 7 کے مطابق، کام کی جگہ پر کام کرنے والا کوئی بھی نوجوان مقررہ گھنٹوں سے زیادہ کام کرنے کے لئے مجبور نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، وقفہ سمیت کل کام کے اوقات چھ گھنٹے سے زیادہ نہیں سکتے ہیں۔ سیکشن 7 میں نوعمروں کو شام 7 بجے سے صبح 8 بجے کے درمیان کام کرنے سے بھی منع کرتا ہے۔ نوعمروں کو اوور ٹائم کرنے کے لیے بھی ملازم نہیں رکھا جانا چاہیے۔ یہ مکمل طور پر ممنوع ہے۔اس کے علاوہ ایم ایس ای ایکٹ کا سیکشن 15 یہ فراہم کرتا ہے کہ اگر کوئی ورکر اوور ٹائم کرتا ہے، تو اسے ان کی نارمل اجرت سے دگنی شرح پر اجرت دی جائے گی۔ کومل کے بتانے کے مطابق کام کے اوقات قانون کے مطابق نہیں ہیں۔ نوعمروں سے اوور ٹائم کام نہیں لینا چاہیے اور کام کے اوقات مقرر کیے جانے چاہیے۔یہاں بھی قانونی تعمیل کی خلاف ورزی صاف نظر آرہی ہے۔کچھ ایسا ہی ذکر پوجا نے بھی کیا تھا۔پوجا نے اپنی گفتگو میں بتایا کہ بطور ملازم انہیں کام کے دوران موبائل فون رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ ملازمین کی خود مختاری کی خلاف ورزی اور غیر ضروری معلوم ہوتا ہے۔ان سب کے علاوہ عام عدم تعمیل کی کچھ دیگر مثالیں بھی موجود ہیں جیسے کہ چائلڈ لیبر ایکٹ کے سیکشن 9 کے تحت انسپکٹر کو نوٹس دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ نوٹس میں آجر کے بارے میں تفصیلات اور نوعمر ملازم کی تقرری کی معلومات ہونی چاہیے۔ چائلڈ لیبر ایکٹ میں 2016 کی ترمیم کا ایک بڑا مقصد چائلڈ لیبر میں مصروف بچوں کی بحالی کو یقینی بنانا تھا۔

 بہر کیف، یہ زیادہ تر خطرناک ملازمتوں میں مصروف بچوں کو ہی فراہم کیے جاتے ہیں۔ ان فوائد کو مزید لوگوں تک پہنچانے کے لیے اس میں نوعمر ملازمین کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ آجروں پر محض جرمانہ عائد کرنا کافی نہیں ہے۔ چائلڈ لیبر ایکٹ کی دفعات کی عدم تعمیل فطری طور پر تعزیراتی جرم ہے۔ یہ بچے کے ملازم کو مناسب بیرونی مدد کی عدم موجودگی میں غیر ضروری دباؤ میں ڈال سکتا ہے۔اس سفر کے دوران ہمارا سامنا دلت سماج کی کچھ لڑکیوں سے ہوا جنہیں سماج یا ورک سوسائٹی کے ہاتھوں کمزور اور بے وقوف سمجھا جاتا ہے۔ کیا ہم معاشرے کو غلط کہہ سکتے ہیں، کیوں کہ یہ لڑکیاں، جو خود ایک ایسے پورے نظام سے لڑ رہی ہیں جو انہیں اور ان کے خاندانوں کو مٹانے کی ہر لمحہ کوشش کر رہا ہے۔سوال یہ ہے کہ وہ کمزور کیسے ہیں؟ وہ ہر روز اپنے آپ میں کمزور اس لیے ہوتی ہیں کہ جب ان کے خلاف ایک لہر چلتی ہے تو وہ  اپنے خاندانوں کو ساحل پر لانے کی کوشش کرتی ہیں مگر اپنے استحقاق کا لبادہ اوڑھے کچھ لوگ انہیں کمزور لڑکیوں کے وجود سے لاعلمی کا دعویٰ کر تے ہیں۔مصنف ڈبلو این سی بی کی فیلو ہیں۔ (چرخہ فیچرس)

تبصرے بند ہیں۔