تذکرہ، تعارف اور روایت

منت اللہ صدیقی

        فارسی ایران کی زبان ہے۔ اہل ایران اپنی ذہانت، نفاست، شائستگی اور علم و فضل کے لئے مشہور ہیں۔ ہندوستان میں فارسی زبان و ادب کا آغاز محمود غزنوی سے ہوا۔ اس کے بعد یہ زبان مسلسل ہندوستان میں جاری و ساری رہی اور فارسی کے مختلف مراکز وجود میں آئے۔ د لاہور ملتان اور دہلی وغیرہ فارسی کے بڑے مراکز شمار کئے جاتے تھے اس کے علاوہ اودھ کا خطہ جو ہمیشہ سے مردم خیز رہا ہے اس نے بھی فارسی زبان و ادب کی پیش رفت میں ایک نمایاں کردار ادا کیا۔ اورنگ زیب کی وفات(1707) کے بعد جب ہندوستان میں مرکزی حکومت کا خاتمہ ہو گیا تو اس کا اثر فارسی پر بھی پڑا۔ جب شعراءو ادباءکی خاطر خواہ سرپرستی نہیں ہوی تو وہ مختلف درباروں کا رخ کرنے لگے۔ اس نازک دور میں سرزمین اودھ نے فارسی زبان وادب کی ترویج و اشاعت میں نمایاں خدمات انجام دیں۔

        پہلی جنگ آزادی کے بعدہندوستان میں نوابین اودھ کا عہد (1721 تا 1857) فارسی زبان و ادب کا عہد زریں کہا جا سکتا ہے۔ ”نوابین اودھ نے علم و ادب اور فنون لطیفہ سے دلچسپی کی سابقہ روایات کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ انہیں ہر طرح فروغ و استحکام بخشا۔ اودھ کی سرزمین نے ایسے ایسے مایہ ناز ادیب اور شاعر پیدا کئے جو اپنی طرزنگارش، حسن بیانی، زبان کی صفائی، شیرینی اور سلاست و روانی میں ہر طرح سے ممتازوممیز تھے۔ “ اس دور میں فارسی کی متعدد اہم تصنیفات معرض وجود میں آئیں۔ اور فارسی زبان و ادب کے مختلف موضوعات پر گران قدر کتابیں تلیف ہوئیںان موضوعات میں فن ”تذکرہ نگاری“ بھی نہایت اہم ہے۔

        اس سے پہلے کہ فارسی تذکرہ نگاری کی تاریخ بیان کی جائے مناسب یہ ہوگا کہ لفظ تذکرہ کی وضاحت کرتے ہوئے اس پرسیر حاصل بحث کی جائے۔

        تذکرہ عربی زبان کا ایک لفظ ہے اس کا مادہ ذ(ذال)، ک(کاف)اور، ر (را) ہے

        ذکر (ن) ذِکرا و تذکارا -اﷲ۔ اللہ کی پاکی و بزرگی بیا ن کرنا۔

        لفلان حدیثا : ذکر کرنا، ازکرہ الشی: یاد دلانا

        ا لتذکرہ : وہ چیز جس سے حاجت یاد آجائے (جمع) تذاکر…………….المنجد ص353 ذکریا آفسیٹ پریس دیوبند

        ”فارسی زبان میں لفظ تذکرہ کا استعمال(آنند راج کے مطابق) یاد داشت، یاد کرنا اور نصیحت کرنا کے لئے ہوتا ہے۔ فرہنگ نظامی کے مطابق تاریخ کی ایسی کتاب جس میںشعراءکے احوال واذکار مذکور ہوں تذکرہ کہلاتی ہے۔ فرہنگ نظامی ناظم الاطباءکے مطابق تذکرہ یادگار، یاد داشت اور سفرنامہ کو کہتے ہیںاور ایک ایسی کتاب کو کہتے ہیں جس میں شعراءکے حالات زندگی لکھے ہوں“۔ ….’ ’تذکرہ نویسی فارسی در ہند و پاکستان‘۔ 1968ء:ڈاکٹرعلی رضا نقوی: مطبع: مسسة مطبوعاتی علمی چاپ علی اکبر علمی تہران، ص :2“

        لفظ تذکرہ عربی زبان کے لفظ ذکر سے ماخوذہے جس کے معنی یاد کرنا، یاد آنا، یاد دلانا اور تذکرہ کے معنی یاد دہانی اور سرگذشت کے ہیں، لیکن اصطلاح میں اس لفظ کا استعمال ایک ایسی کتاب کے لئے ہوتا ہے جس میں اشخاص کے احوال و آثار کا ذکرکیا گیاہو۔ صفوی دور سے پہلے ”تذکرہ دولت شاہ “کے علاوہ تمام فارسی ادب کی کتابوں میں تذکرہ لفظ کا استعمال ’یادگار‘ ’یادداشت ‘ اور ماضی کے کاموں کو یاد کرنے کے معنی کے لئے ہوتا تھا، لیکن رفتہ رفتہ صفوی دور میں ہی اس لفظ کا استعمال ایک ایس کتاب کے لئے کیا جانے لگا جس میں شعراءکے مختصر احوال اور انکے اشعار مذکور ہوں۔

        تذکرہ کی سب سے پہلی کتاب جس کا نام تذکرہ سے شروع ہوتا ہے ”تذکرة الاولیائ“ ہے اور اس کی تالیف آٹوھویں صدی ھجری کے ابتدائی دور میں فرید الدین عطارنے کی تھی۔ اس کتاب کے سلسلہ میں علی رضا نقوی اسی کتاب کے مقدمہ کی عبارت نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ”دیگر باعث آن بود کہ چون دیدم کہ روزگاری پدید آمدہ است کہ الخیر شرو اشرار الناس اخیار الناس ر افراموش کردہ اند تذکرہ ¿ ساختم اولیاءرا ایں کتاب را ’تذکرة الاولیائ‘ نام نہادم تا اھل خسران روزگار اھل دولت را فراموش نکنندو گوشہ نشینان و خلوت گرفتگان را طلب کنند وبا ایشاںرغبت نمانید تا در نسیم دولت ایشاں بہ سعادت ازلی پیوستہ گردند“

        فارسی کی دوسری کتاب کہ جس کا نام لفظ تذکرہ سے شروع ہوتا ہے وہ شیخ نصیر الدین طوسی کا رسالہ ’تذکرہ‘ (597-672ھ)ہے یہ بیس فصلوں پر مشتمل ایک رسالہ ہے جس میں لفظ تذکرہ کا استعمال ماضی کے کاموں کو یاد کرنا اور ان کی نصیحت کرنے کے لئے ہوا ہے۔

        تذکرہ نام سے شروع ہونے والی فارسی کی تیسری کتاب ’تذکرة الشعرائ‘ ہے اس کتاب میں تذکرہ لفظ کا استعمال گذشتہ کاموں کے لئے کیا گیا ہے، اس کتاب کی تالیف 892ھ میں دولت شاہ سمرقندی نے کی تھی۔

        بر صغیر ہند اور پاکستان میں تذکرہ لفظ کا استعمال ایسی کتابوں کے بارے میں ہوتا ہے جس میں لوگوں کے احوال اور انکے کارنامے لکھے گئے ہوں، جیسے : تذکرةالامراءکیول رام او ر تذکرہ علمائے ہند از احمد علی وغیرہ۔

        تذکرہ دولت شاہ کے علاوہ صفوی زمانہ سے قبل تمام فارسی ادب میں لفظ تذکرہ یادگار اور کارہائے باستاں کو یاد کرنے کے لئے استعمال ہوتا تھا، اس کے بعد صفوی دورہی میں ایسی کتاب کے لئے لفظ تذکرہ کا استعمال کیا جانے لگا جس میں شعراءکے احوال،نام و نسب، پیدائش و وفات ان کا دورو عہد اورو اشعار کی وضاحت کی گئی ہو۔

        صفوی دور اور ہندوستان کے تیموری عہد میں لفظ تذکرہ کا استعمال ذکر و یادگار کے معنی میں کیا جاتا تھا اس کے علاوہ ایک ایسی کتاب کے لئے کیا جاتا تھا جس میں شعراءکے حالات زندگی اور ان کے اشعار کو بھی شامل کیا گیا ہو،یعنی ان کو یاد کیا گیا ہو یاان کے کارناموں کو یاد گار کے طور پر محفوظ کر لیا گیا ہو،مثال کے طور پر مندرجہ ذیل کتب پیش خدمت ہیں۔

        ’تذکرہ شاہ طہماسپ صفوی‘ اس کتاب میں شاہ طہما سپ نے اپنی سلطنت کے ابتدائی دور سے لے کر تخت نشینی تک کے واقعات و حالات(930ھ) کا تذکرہ کیا ہے۔

        ’تذکرہ ہمایوں و اکبر‘ یہ تذکرہ بادشاہ اکبر کی فرمائش پر (963-1014)میں تالیف کیا گیا تھا۔ اس کتاب میں 949 تا 999ھ تک بادشاہ ہمایوں اور بادشاہ اکبر کے زمانے تک کے واقعات شامل ہیں۔

        ’تذکرة الملوک‘ یہ کتاب 1138ھ میں تالیف ہوئی ہے اس تذکرہ میں صفوی بادشاہوں کے دور حکومت کے منصبداروں کا حال کے ساتھ ساتھ اس عہد کے دستور العمل کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔

        ’تذکرہ آنند رام مخلص‘ یہ کتاب ہندوستان کے بادشاہ محمد شاہ (1131-1161ھ) اور ایران کے بادشاہ نادرشاہ (1148-1160ھ) کے درمیان ہوئی جنگ کی تاریخ اور اس کے حالات پر مشتمل ایک تذکرہ ہے۔

        ’تذکرة الملوک‘ یہ ہندوستان کی ایک عام تاریخ ہے اس کا مولف یحی خان میر، ہندوستان کے بادشاہ فروخ سیر (1124-1113ھ) کا منشی ہے اس نے اس کتاب میں ہندوستان کی عام تاریخ مسلمانوں کی ہند پر فتح سے لے کر 1149ھ تک کے واقعات کو تفصیل سے لکھا ہے۔

        ’تذکرة الخواتین‘ اس کتاب کی تالیف میر دوستی نے 955ھ میں کی تھی،اس میں شعراءکا تذکرہ اور ان کے اشعار کو درج کیا گیا ہے۔

        ’تذکرہ نصرت‘ یہ کتاب شعرءاور ان کے اشعار پر مشتمل ایک تذکرہ ہے اس کو میر محمد صالح حسینی نے 1104ھ میں تالیف کیا تھا اس تذکرہ کو لطایف الخیال کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

        مذکورہ کتب کی تالیف کے ساتھ ساتھ صفوی دور میں ہی لفظ تذکرہ کا استعمال ذکر کرنا اور یاد آنا کے معنی میں کیا جانے لگا تھا جس کی مثال’تحفہ سامی‘ مولف سام میرزا صفوی (957ھ) اور اسی دور میں میں لفظ تذکرہ کا استعمال شعراءکے احوال اور ان کے اشعار کے نمونوں کو پیش کرنے کے لئے بھی ہونے لگا تھا اس قسم کی کتابوں میں’تذکرہ نصرآبادی‘ از محمد طاہر نصر آبادی (1083)کی تالیف بھی شامل ہے۔ صفوی عہد کے بعد زندیہ اور قاچاری دور میں لکھے گئے تذکروں میں تذکرہ لفظ کا استعمال شعراءکے تذکرے کے معنی میں کیا جانے لگا یعنی ایک ایسی کتاب کے لئے ہوتا تھا جس میں شعراءکے حالات زندگی اور ان کے اشعارو کلام کا نمونہ پیش کیا گیا ہو جبکہ مندرجہ ذیل کتابوں میں تذکرہ لفظ کا استعمال کارہائے باستاں کے معنی میں کیا گیا ہے۔

        ’آتشکدہ‘ یہ کتاب لطف علی بیگ آذر بیگدلی کے ذریعہ 1174ھ میں لکھا گیا، یہ ایک معروف و غیرمعروف شعراءکا تذکرہ ہے مولف نے اس کتاب میں مذکور شعراءمیں سے اکثر کا ذکر انہیں کے دیوان سے لیا ہے جو بھی متقدیمین کا دیوان ان کو ملا ان کے احوال و اشعار اسی دیوان سے نقل کئے ہیں اور اسی مناسبت سے اس کتاب کا نام ’آتشکدہ‘ رکھا ہے۔

        ’مجمع الفصحا‘ رضا قلی خان کے ذریعہ1284ھ میں لکھی گئی یہ کتاب ایک تذکرہ ہے اس میں لفظ تذکرہ کا استعمال ایک ایسی کتاب کے لئے کیا گیا ہے جو شعراءکے حالات اور ان کے اشعار پر مشتمل ہو۔ جیسا کہ اس کتاب کے مقدمہ میں خود صاحب کتاب نے لکھا ہے ”عجمی تذکروں میں کسی بھی مصنف نے اشعار کو جمع کرنے کہ ہمت نہیں کی ہے“۔

        ’ریاض العارفین‘ یہ کتاب رضا قلی خان ہدایت کے ذریعہ1260ھ میں لکھا گیا ایک تذکرہ ہے اس میں لفظ تذکرہ کا استعمال مولف نے شعراءکے حالات اور ان کے اشعار کے مجموعہ و یادگار کے معنی میں کیا ہے۔

         جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ تذکرہ لفط کا استعمال مختلف ادوار میں مختلف معنی کے لئے کیا گیا ہے جبکہ ہر دور میں اس لفظ کا استعمال تقریباً تذ کرہ کے معنی کے لئے یا اس کے قریب المعانی میں مستعمل ہوا ہے لیکن یہ کہنا بالکل غلط نہ ہوگا کہ ان میں سے ہر ایک میں کچھ مماثلت کے ساتھ ساتھ کچھ تفریق بھی پائی جاتی ہے اسی طرح کچھ تذکروں کے نام موخر الذکر ہیں جس میں لفظ تذکرہ کا ستعمال شعراءکے تذکرہ کے لئے کیا گیا ہے جس میں ان کے حالات اور ان کے اشعار کو بھی شامل کیا گیا ہے مثال کے طور پر ’تذکرہ شحات‘ از سحاب اصفہانی و ’تذکرہ عبد الرزاق بیک دنبلی‘ و تذکرہ درویش نوای کاشانی، تذکرہ محمد شاہی نواب بہمن میرزا، تذکرہ اختر، تذکرہ دلگشا، اور تذکرة السلاطین وغیرہ، خلاصہ کلام یہ ہے کہ ایران کے فاسی ادب میں تذکرہ لفظ کا استعمال ”ایک ایسی کتاب کے لئے کیا جاتا ہے جس میں شعراءکے حالات کے ساتھ ساتھ ان کے اشعار کے نمونے بھی شامل ہوں“۔

        دائرہ معارف اسلام عربی اور دائرہ معارف اسلام اردو نے تذکرہ کے تعریف میں ایک معنی کے اور اضافہ کے ساتھ کچھ یوں تعریف کی ہے، کسی واقعہ کی روایت ترتیب وار بیان کرنے کو تذکرہ کہتے ہیں، ”سندی کہ ہنگام تفویض بہ قضا بہ قضات دادہ می شد، آن را ہم تذکرہ کی گفتند“ (طورمعنی از منشی احمد حسین کاکوروی سحرص10)

        ایران کے ایک معروف محقق ڈاکٹر مصفا کے مطابق اکثر فارسی تذکروں میں مذکور شاعر اور ان کی شعر و شاعری میں بہت سی تاریخ اور ادبی غلطیاں پائی جاتی ہیں، جن میں کبھی شعر و شاعری اور شعراءکے دور کی تعین، شعراءکے حالات زندگی کی تعین یہاں تک کہ ان کی پیدائش و وفات کی تعین میں بھی غلطیاں پائی جاتی ہیں۔ اکثر تذکرہ نویسوں نے اپنی اپنی کتاب میں شاعروں کے حالات زندگی ان کے اشعار کے چند نمونے اور کہیں کہیں کسی کی زبان و ادب سے بحث کی ہے ان میں بھی اکثر نے قدیم مصنفوں کی پیروی ہی کی ہے کسی نے بھی جدید طرز تذکرہ نویسی کو متعارف نہیں کرایا۔ ان تذکرہ نگاروں میںسے بیشتر کی تصنیف میں تقسیم بندی کے لحاظ سے جدید طرز روش کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ شاعروں کے بیان اسلوب کی رو سے اگر مبالغہ اور اغراق سے کام نہ لیا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ کسی بھی تذکرہ نویس نے شاعروں کے بیان اسلوب سے واقف کرانے میں روگردانی سے کام لیا ہے اور ان کے اس پہلو کو اجاگر نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی کسی نے اس پر تنقید کی ہے،اکثر تذکرہ نویس نے شعراءکی اہمیت ان کے اسلوب اور کلام و سبک پر روشنی ڈالنے کی بجائے ان کا تعارف اور ان کے کلام کاچند نمونہ ہی پیش کیا ہے،لیکن ان میں سے بعض شعروکلام شنانس مصنف بھی ہیں جنہوں نے اچھے عمدہ و نایاب کلام اور صحیح سخن گوئی سے روشناس بھی کرایا ہے۔ اس نقطہ نظر سے اگر یہ کہا جائے کہ اکثر تذکرہ نویسوں نے شعراءکا اسلوب، سبک ان کے کلام کی جدت و ندرت، صنائع بدائع، فصاحت و بلاغت اور ان کے کلام پر روشنی نہ ڈالتے ہوئے صرف شعراءکا مختصر تعارف، نام و نسب، تاریخ پیدائش و وفات، استاد و شاگر اور کس عہد و دربار سے وہ تعلق رکھتے تھے انہیں چند باتوں پر اکتفا کرتے ہوئے ان کے اشعار میں سے ایک یا دو شعر یا چند اشعار کے انتخاب پر ہی انحصار کیا ہے۔ اسی طرز بیان کو لبا ب الالباب سے لیکر مجمع الفصحاء تک کے سبھی تذکروں میں اختیار کیا گیا ہے۔

        قاچاری و زندیہ عہد کے ادبی اصطلاح میں لفظ تذکرہ کے استعمال اس کتاب کے لئے کیا جاتا تھا جس میں شعراءکے حالات زندگی اور ان کے اشعار کے نمونے مذکور ہوں۔ اسی طرح اگر کسی کتاب میں صرف شعرا کے حالات زندگی کا ذکر ہو اور ان کے کلام کا نمونہ پیش نہ کیا گیا ہو تواس کو تذکرہ نہیں کہیں گے بلکہ اس کتاب کو ’بیاض‘ یا’سفینہ ‘یا’ جنگ‘ کہیں گے۔ قدیم زمانے میں ہندوستان اور پاکستان میں شعروشاعری کا ذوق عام تھا چونکہ اس وقت نشرواشاعت کے ذرائع موجود نہیں تھے اس لئے لوگ ذاتی یا شخصی تذکرہ لکھا کرتے تھے جس میں ان کے ہم عصرشعراءکا ذکر اور ان کے کلام کا نمونہ پیش کیا جاتا تھا لیکن ان میں سے اکثر وبیشتر شخص یا پھر ذاتی مفاد کے لئے لکھے جاتے تھے۔ جس کتاب میں شعراءکے تفصیلی احوال اور ان کے اشعار کے نمونے شامل ہوں اس معنی کے تقریبا قریب المعنی لفظ”بیاض‘ سفینہ، اور جُنگ“ کا استعمال کچھ فرق کے ساتھ کیا جاتا تھا۔

        بیاض: ”بیاض نویسی بھی تذکرے کی طرح ایک مقبول عام شغل تھا“……..اردو تنقید کا ارتقاء (ص85)از عبادت بریلوی، محبوب المطابع برقی پریس دہلی۔ ۶

        فرہنگ آنند راج کے مطابق بیاض کے معنی تاریکی سے روشنی میں لانا اور صاف کرنا کے ہیںیعنی مسودہ کے لئے خوشخط اور صاف صاف لکھنا۔ فرہنگ نظام کے مطابق بیاض ایک ایسی طویل کتاب کو کہتے ہیں جس میں کچھ دعائیں یا اشعار اور ان کا مطلب یا پھر مختلف چیزیں لکھی ہوں۔ فرہنگ نفیسی کے مطابق بیاض ایک چھوٹے کتابچہ لکھنے کو کہتے ہیں،یعنی ایک ایسا کتابچہ جس کو یاد دہانی کے طور پر ہمیشہ اپنے ساتھا رکھا جائے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ بیاض کسی سادہ کاپی، رجسٹر یا پھر دفتر کو کہتے ہیں جس میں ذاتی طور پر کوئی شخص دعائیں، احادیث اور مراثی وغیرہ مطلب اور اس کی مادہ تاریخ کے ساتھ لکھ لے، اس کے علاوہ مذہبی، ادبی اور غیر ادبی جملے اپنی معلومات کے لئے لکھ لئے جائیں، بیاض میں بغلی ڈائیری کے مقابلہ طوالت ہوتی چونکہ اس میں کسی کام کی یاد دہانی کے طور پر چند باتیں لکھی جاتی ہیںلیکن بیاض میں صرف ایک ہی کتاب کی تفصیل لکھی جاتی ہے۔

        گیان چند جین کے مطابق بیاض اس کتاب یا ذاتی کاپی کو کہتے ہیں جس میں صاحب کتاب خود اپنے یا پھر دوسروں کے اشعار، نظمیں یا غزلیں لکھ لے، کبھی کبھی اسی کاپی یا کتاب میں مصنف کے بارے میں چند جملے یا فقرے بھی لکھ لئے جاتے ہیں۔ جیسا کہ انہوں نے اس کی تعریف خود اپنی کتاب ’تحقیق کا فن‘ میں صفحہ نمبر ۰۰۶ پر لکھا ہے

        ”کسی کی ذاتی کاپی جس میں وہ اپنے یا دوسروں کے اشعار، نظمیںیا غزلیں لکھ لیتا ہے، شاذان کے مصنف کے بارے میں تعارفی جملہ یا فقرہ لکھ دیا جاتا ہے“۔

        بیاض کی اصطلاح جو ایرانی اور فارسی مصنفین نے مستعمل کی ہے اسی معنی میں قدیم زمانہ سے دور حاضر تک کے دیگرممالک کے مصنفین بھی استعمال کیا ہے، جبکہ بعض کے نزدیک بیاض شعرا اور ان کے اشعار مجموعہ کا نام ہے جس میں فارسی تذکروں کا حوالہ بھی درج ہو، جیسے کہ بیاج صائب، اسی طرح بیاض میر معز خان فطرت اس کا نام گلشن فطرت بھی ہے، بیاض محمد علی ماہر، بیاض محمد زمان راسخ،بیاض داراشکوہ، بیاض میر آزاد بلگرامی وغیرہ۔

        ڈاکٹر علی رضا نقوی کے مطابق ”اگر کوئی کتاب صرف اشعار کے نمونوں پر مشتمل ہوں اس میں شعراءکے احوال مذکور نہ ہوں تو اس کو تذکرہ نہیں کہیں گے بلکہ اس کو بیاض کہیں گے، بیاض لفظ کا استعمال کسی ذاتی کاپی یا ڈائری کے لئے ہوتا ہے جس میں وہ اپنے یا دوسروں کے اشعار لکھ لیتا ہے، کبھی کبھی ان کے مصنف کے بارے میں کچھ تعارفی جملے بھی لکھے جاتے ہیں۔ ”جو لوگ عمدہ تذکرے نہ لکھ سکتے تھے وہ اپنے ذوق کی تشفی کے لئے بیاض بنا لیتے تھے جس میں اپنی پسند کے اشعار اور غزلیں، شاعر کے نام مختصر حالات کی قید سے جمع کر لیتے تھے، لیکن بیاض کے لئے کوئی خاص ترتیب نہیں ہوتی جس طرح جامع اور مرتب نے پسند کیا مرتب کر لیا۔ “….اردو تنقید کا ارتقائ(ص86)

        سفینہ: کے لفظی معنی کشتی کے ہیں۔ سفینہ عام زبان میں بیاض کو ہی کہتے ہیںچونکہ اس میں بیاض کی طرح ہی طوالت پائی جاتی ہے اور کشتی بھی اپنی بناوٹ کے اعتبار سے لمبی و طویل ہوتی ہے اس میں بھی مختلف چیزیں اور سامان رکھا جاتا ہے۔

        فرہنگ آنند راج کے مطابق سفینہ ایک طویل کتاب کو کہتے ہیں چونکہ سفینہ طوالت میں کشتی کی طرح ہوتی ہے اسی لئے اس کا نام سفینہ رکھا۔

        فرہنگ نظام کے مطابق” سفینہ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ منتخب اشعار کا دفتر یا کتاب کشتی کی طرح ہوتی ہے کہ جس میں ہر قسم کا مال تجارت ہوتا ہے“۔ اسی لئے ایسی کتاب کو سفینہ کہتے ہیں جس میں منتخب شعرا کے احوال اور ان کے کلام واشعار کانمونہ ہوتا ہے۔

         جس طرح بیاض میں مختلف شعراءکا ذکر اور ان کے اشعارو کلام کا نمونہ پیش کیا جاتا ہے اسی طرح سے سفینہ لفظ کا استعمال ایک ایسی کتاب کے لئے ہوتا ہے جس میں شعراءکے حالات اور ان کے کلام و اشعار مذکور ہوں،سفینہ ایک ایسی کتاب کو بھی کہتے ہیں جس میں نظم و نثر کا منتخب نمونہ ہو یا پھرجس میں مختلف شعراءکے احوال و اشعار کا ذکر ہو تقریبا اسی معنی کے لئے ترکی زبان میں لفظ جنگ کا استعمال ہوتا ہے۔

        ”سفینہ کے لغوی معنی کشتی کے ہیں، چونکہ کشتی میںکئی قسم کی چیزیں اور لوگ ہوتے ہیں اسی مناسبت سے لفظ سفینہ کا ستعمال ایسی کتاب کے لئے کیا جاتا ہے جس میں مختلف شعراءکے منتخب اشعار اور ان کے حالات مذکور ہوں اور اس کا دوسرا نام بیاض اور جنگ بھی ہے۔ چنانچہ حافظ کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں:

صراحی می ناب و سفینہ غزل است

درایںزمانہ رفیقی کہ خالی از خلل است

        قدیم فارسی ادب میںچند کتاب کے لئے سفینہ لفظ کا استعمال اس مجموعہ کے لئے ہوا ہے جس میں اشعا اور ادبی نمونے مذکور ہوں۔ سب سے پہلی کتاب جس میں سفینہ لفظ کا ستعمال کارہائے باستاں کے لئے ہوا ہے وہ دیوان کمال الدین اسمٰعیل ہے اس کتاب میں مذکور مندرجہ ذیل شعر میں شاعر نے سفینہ لفظ کو سفینہ شعر کے لئے استعمال کیا ہے:

دریں سفینہ نگہ کن بچشم معنی بیں

کی رشک لعبت مانی و صورت چیست

سفینہ چیست غلط می کنم کی دریائیست

کی دست عقل زا طراف آن گہر چیست

سفینھا را در بحر دیدہ اند بسی

سفینہ کہ درو بحرھا بود اینست

        چنانچہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ حافظ نے اپنے مذکورہ شعر میں سفینہ لفظ کے معنی فرہنگ نظام سے کارہائے باستاں کے لئے استعمال کیا ہے (درایں زمانہ رفیقی کہ خالی از خلل است   صراحی می ناب و سفینہ غزل است)۔ بظاہر اس کے برعکس فرہنگ نظام میں لفظ سفینہ اس جگہ گذشتہ کاموں کے اشعار کے مجموعہ کے لئے استعمال ہوا ہے شعراءکے دیوان کے لئے نہیں۔

        خلاصہ کلام یہ ہے کہ سفینہ جنگ کی مانند ہوتا ہے اور اس کے لغوی معنی کشتی کے ہیں اور فارسی ادبیات میں جنگ کے معنی کارہائے باستاں کے ہیں۔ یہ ہی اصطلاح ہندوستا ن، پاکستان کے علاوہ دوسرے ممالک میں فارسی زبان و ادب میں سفینہ اور جنگ لفظ کا استعمال کارہائے باستاں کے لئے ہوتا ہے اور متعدد سفینہ ایران اور پاکستان کے کتب خانوں میں موجود ہیں، مگر بعض مصنفین نے ایک دو جملہ اشعار کے لئے بھی کہے ہیں جیسے ’سفینہ علی حزیں‘۔ یعنی کچھ سفینہ نویس نے کہا ہے کہ سفینہ اس مجموعہ کو کہتے ہیں جس میں شعراءکے اشعار اور کارہائے باستاں مذکور ہوں۔ یہ بات بھی توجہ کے لائق ہے کہ ہندوستان اور پاکستان میں جو بھی تذکرہ سفینہ کے نام سے لکھے گئے ہیں وہ خاص ادبی اصطلاح میں مستعمل نہ ہو کر لغوی معنی میں استعمال کئے گئے ہیں۔ سفینہ کے لغوی معنی کشتی کے ہیں چونکہ اس میں مختلف قسم کی چیزیں اور لوگ ہوتے ہیں اسی معنی کے لئے لفظ سفینہ ایک ایسی کتاب کے لئے ہوتا ہے جس میںمختلف شعراءکے احوال اور ان کے کلام و اشعا کا نمونہ شامل ہوجیسے ’سفینہ بیخبر‘ ’سفینہ الشعرائ‘ اور ’سفینہ خوشگو‘ وغیرہ۔

        ’جُنگ‘ کے لفظی معنی اونٹ کے ہیں،چونکہ اونٹ پراب بھی زیادہ بوجھ نہیں لادا جاتا ہے لیکن یہاں پر اس کے معنی کشتی یا بڑے جہاز کے ہیں، اور اسے یاک بڑا بیاض بھی کہتے ہیں۔ اسی مناسبت سے جنگ کو ایک ایسی کتاب کہتے ہیں جس میں مختلف قسم کے شعراءاور ان کے اشعار مذکور ہوں۔ برہان قاطع کے نزدیک ’جنگ ایک قسم کا جواہے‘ ایک بڑی کشتی یا بڑے بیاض کو جنگ کہتے ہیں جس میں مختلف قسم کے اشعار ہوں۔ فرہنگ آنند راج کے مطابق بڑی کشتی، شعراءکے دیوان اور ان کے تذکرے کو جنگ کہتے ہیں یا پھر ایک ایسی کتاب یا دفتر کو کہتے ہیں جس میں مختلف شعراءکے متعدد اشعار لکھے ہوں۔

        ترکی زبان میں لفظ جنگ کے معنی بڑی کشتی کے ہیں۔ فرہنگ نظام کے مطابق موٹی یا ضخیم کتاب کو جنگ کہتے ہیں۔ فرہنگ نفیسی کے مطابق بڑے بیاض کو جنگ کہتے ہیں جس میں طرح طرح اشعار و مسائل اور مختلف قسم کی حکایت و قصہ لکھے ہوں۔ یادداشتہائے قضوینی میں جنگ لفظ کا استعمال جنگ ہندی یا پھر ہندوستانی اصطلاح کے مطابق بڑی کشتی کے معنی میں ہوا ہے یعنی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لفظ جنگ ہندوستان میں سفینہ اشعار کے لئے مستعمل ہوتا ہے۔ اسی لئے یہ بات یہیں سے ماخوذ معلوم ہوتی ہے کہ لفظ جنگ سفینہ کے مجازی معنی میں لیا جاتا ہے۔ یہ بات بھی قابل غور و توجہ ہے کہ لفظ جنگ کو اگر جنک بول کر استعمال کیا جائے تو یہ چینی زبان میںبڑی کشتی کے لئے مستعمل ہوتا ہے اسی طرح جنگ اور جانگ مالائی اور جاوائی زبان میں کشتی یا بڑی کشتی کے معنی میں مستعمل ہے۔

        لفظ جنگ ہندوستانی زبان میںظاہراً فارسی زبان سے آیا معلوم ہوتا ہے کیونکہ اصطلاح فارسی میں اس کے معنی ایک ایسی کتاب کے ہیں جو بیاض کی طرح ہو جس میں مختلف مطالب بالخصوص ادب سے متعلق اور عام طور ادبی پر نظم و نثر کو یاد داشت کے طور پر لکھ لیا گیا ہو، چونکہ یہ کتاب مختلف مضامین کی وجہ سے کشتی کی طرح طویل ہوتی ہے اور اس میں مختلف لوگوں کا کلام ہو تا ہے اسی واسطے اس کو جنگ کہتے ہیں۔ اس اصطلحی تعریف سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیاض اور جنگ میں بہت مماثلت پائی جاتی ہے لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ جنگ بھی بیاض کی طرح طویل ہو۔

        یہ بات مسلم ہے کہ یہ اصطلاح ”مجموعہ اشعار شعرا و ادبائ“ کے معنی میں، صرف ایران میں مستعمل ہے ہندوستان اور پاکستان میں نہیں۔ لفظ جنگ مجموعہ اشعار شعراءو ادباءکے معنی میں نہ تو قدیم ہندوستانی ادب میں استعمال ہوا ہے اور نہ ہی جدید ہندوستانی فارسی ادب میں استعمال ہوتا ہے،اسی لئے ہندوستان میں کوئی بھی مجموعہ جنگ کے نام سے ترتیب و تالیف نہیں ہوا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ ایران کے متعدد کتب خانوں میں بہت سے جنگ موجود ہیں مثال کے طور پر ایران کی یونیورسٹیوں کے ادبی کتب خانوں میں،مرکزی مدارس اور مجالس میںمتعدد جنگ موجود ہیں جن کا اطلاق اشعار، احادیث، اخبار اور حکایات کے لئے ہوتا ہے۔

مذکورہ اصطلاحات کے علاوہ کچھ اور اصطلاحات ہیں جو تذکرہ سے تھوڑی بہت مماثلت رکھتی ہیں لیکن ان میں اور تذکرہ میں بہت فرق بھی ہے جس کی وضاحت ان کی تعریف سے ہی واضح ہو جائے گی اس لئے ضمناً اس کا ذکر کرنا بھی بہتر ہوگا تا کہ تذکرہ اور ان اصطلاحات میں تفریق کی جا سکے۔

مرقع: کے لغوی معنی تصویروں کی کتاب اور فقیروں کی اس گدڑی کے ہیں جسے ان لوگوں نے ٹکڑا ٹکڑا جوڑ کر بنایا ہو، یعنی پیوند دار کپڑا جو کہ ٹکڑے ٹکڑے جوڑ کر بنایا گیا ہو۔ فرہنگ آنند راج کے مطابق مرقع اس کتاب یا فقیر کی گدڑی کو کہتے ہیں جس کو پارہ پارہ(ٹکڑا ٹکڑا) کرکے جمع (اکٹھا) کیا گیا ہو۔ فرہنگ نظام میں مرقع تصویر کے اس ٹکڑے کو کہتے ہیں جسے کتابی شکل میں جمع کر دیا ہو، ان کے نزدیک مجازاً مرقع خوش نویسی کے ایک ایسے ٹکڑے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جسے کتابی شکل میں جمع کیا گیا ہو۔ ٹکڑا ٹکڑا اکٹھا کر کے گدڑی بنانا یا فقیر کی گدڑی یاتصویر کی کتاب کو مرقع کہتے ہیں(فرہنگ نفیسی)۔ ان کے نزدیک ایک ایسی کتاب کو مرقع کہتے ہیں جس میں مختلف خطوط کو ترتیب دیا گیا ہو۔

کشکول: کشکول کے لغوی معنی بھیک کا بڑا پیالہ کے ہیں۔ گیان چند جین کے مطابق کشکول اس بیاض کو کہتے ہیں جس میں دوسروں کی متفرق نظم و نثر کی چیزیں لکھ لی گئیں ہوں۔ وہ کتاب جس میں مختلف قسم کے موضوعات (خاص طور سے مذہبی موضوعات) کا ذکر ہوکشکول کہلاتی ہے جیسے ’کشکول شیخ بہائی ‘اور ’کشکول بہرامی ‘وغیرہ۔

مخلات: مخلات کے لغوی معنی توبرہ کے ہیں یعنی وہ تھیلا جس میں دانہ بھر کے گھوڑے کے منہ پر چڑھاتے ہیں۔ اصطلاح میں ایک ایسی کتاب کو کہتے ہیں جس میں ادبی، عرفانی، تاریخی، اور مذہبی مسائل مذکور ہوں۔ جیسے’ مخلات بہرامی‘۔

کراسہ: کراسہ کے لغوی معنی کاپی کے ہیں۔ اصطلاح میں اس چھوٹی مجموعہ کو کہتے ہیں جو کہ کاپی کہ طرح ہو اور اس میں تاریخ،ادب، مذہب اور عرفان کے موضوعات پر مختلف مضمون ہوں۔

فارسی کا پہلا تذکرہ

        فارسی زبان میں سب پہلا اور قدیم تذکرہ جو لکھا گیا ہے وہ ’لباب الاالباب‘ ہے، جس کو سدیدالدین محمد عوفی نے لکھا ہے اس کتاب میں مصنف نے شعراءکے حالات ان کے اشعار اور ان کے متعلق دیگر معلومات فراہم کی ہیں۔ یعنی فارسی زبان میں سب سے پہلے لکھی وہ کتاب جس میں شعراءکے احوال اور ان کے اشعار کا نمونہ ہو ’لبا الاالباب‘ ہے۔ اس سے قبل کوئی بھی ایسی کتاب نہیں ملی ہے جس میں شعرا کا تذکرہ ان کے احوال و شعار کے ساتھ کیا گیا ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شعراءعرب کے طبقات پر لباب الالباب سے پہلے چند تذکرے لکھے جا چکے ہیں عجمی(عربی کے علاوہ فارسی یا اردو) شعراءپر کوئی بھی تذکرہ سدیدالدین محمد عوفی کی نظر سے نہیں گذرا ہے، یعنی انہوں نے اس کتاب سے پہلے کوئی فارسی کا تذکرہ انہوں نے نہیں دیکھا۔ اس کتاب کے متعلق خود محمد عوفی نے اپنی کتاب کے مقدمہ کی فصل دوم میںدعوی کیا ہے کہ لباب الا لباب فارسی کا سب سے پہلا تذکرہ ہے جس میںفارسی شعراکے طبقات کا ذکر کیا گیا ہے۔

        ”شک نیست کہ در این شیوہ در طبقات شعرای عرب چند تالیف ساختہ اند، ولکن در طبقات شعرای عجم ھیچ تالیف مشاھدہ نیفتادہ و ھیچ مجموعہ در نظر نیامدہ است۔ “

        قابل غور اور توجہ بات یہ ہے کہ لباب الالباب سے پہلے دو کتاب ایسی تالیف ہوئی ہیں جو تذکرہ سے مماثلت رکھتی ہیں بلکہ اگر ان کو تذکرہ کہا جو تو کچھ غلط نہ ہو گا ان میں سے پہلی کتاب ابو طاھر الخاتونی کے ذریعہ لکھی ’مناقب الشعرائ‘ ہے اس کی تالیف پانچویں صدی ھجری کے آخری دور اور چھٹی صدی ھجری کے شروع میں ہوئی ہے۔ دوسری کتاب جس کا شمار تذکرہ میں ہوتا ہے وہ نظامی سمر قندی کی ’چہار مقالہ‘ ہے اس کتاب کی تالیف 505ھ میںہوئی ہے۔

حوالہ

ڈاکٹرعلی رضا نقوی:

 ’تذکرہ نویس فارسی در ہند و پاکستان‘۔ 1968ء، مطبع: مؤسسۃ مطبوعاتی علمی چاپ علی اکبر علمی تہران، ص 1،2،15،38 تا 45، 450، 456، 463، 477، 494-496، 521-525، 552-554،

فاروقی زہرا:

’اودھ کے فارسی گو شعراء‘ 2003ء، مطبع: فئن آفسیٹ ورکس 4152 اردو بازار، دہلی۔ ص۔ 17، 18،45، 128 تا 131

ڈاکٹر سید عبداللہ:

’ادبیات فارسی میں ہندؤوں کا حصہ‘ – ص۔ 106 تا 109۔

کاکوی سید عطاء الرحمان: مرتب

’سفنیۂ ہندی‘ از بھگوان داس ہندی۔ 1958ء، – مطبع لیبل لیتھو پریس۔ رمنہ روڈ۔ پٹنہ، ص، الف تا ج، 241 تا 243۔

عابدی، فروفیسر امیر حسن:

’فارسی ادب میں ہندؤں کا حصہ‘ India’s rich and valuable contribution to Persian literature, In the light of recent discoveries. Pg. no.6,40,41

المنجد و مصباح اللغات۔

تبصرے بند ہیں۔