علامہ اقبال کے کلام میں ترکوں کی کہانی

 ڈاکٹر غلام قادر لون

 اس وقت پوری دنیامیں ترکی کا ڈرامہ ’ارطغرل‘کی دھوم مچی ہوئی ہے۔ یہ ڈرامہ نہیں خلافت عثمانیہ کی تاریخ ہے۔ اس وقت اس ڈرامے کو دنیا کے ساٹھ ممالک میں دیکھا جارہا ہے اور دنیا کی مختلف زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوچکا ہے۔ ترکوں کے ایک قبیلہ کی شاخ ”قائی“ کا سردار سلیمان خان(شاہ) تھا جس کا بیٹا ’ارطغرل‘خلافت عثمانیہ کا مورث اعلیٰ ہے۔ ’ ارطغرل‘ کے فرزند عثمان خان نے  ١٢٩٩ء میں ’سلطنت عثمانیہ ‘ کی بنیادرکھی جوبعدمیں’خلافتِ عثمانیہ‘کے عنوان سے سوا چھ سو سال تک تین براعظموں کے مختلف خطوں پر حکومت کرتی رہی ۔ عالم اسلام کی یہ عظیم خلافت صدیوں تک مسلمانانِ عالم کی امیدوں کا مرکز بنی رہی۔ ۱۳ اکتوبر ١٩٢٣ ءکو اس کے خاتمے کا اعلان کردیا گیا اور اس کے خاتمے اور اس کی منسوخی کی بد خبری دوسروں کی زبان سے نہیں خود ترکوں کی جانب سے دنیا کو سنائی گئی۔

 خلافت عثمانیہ کا عروج تاریخ اسلام کا سنہری زمانہ اور اس کا زوال ملت اسلامیہ کے انتشارو افتراق کا آغاز تھا۔ ایک زمانے میں ترکوں کی فتوحات پر چراغاں کئے جاتے تھے اور جب انہیں کہیں شکست ہوتی تھی تو عالم اسلام کے مختلف گوشوں سے آہ و فغاں بلند ہوتی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو قسطنطنیہ کی فتح کی جو خوشخبری سنائی تھی، وہ ٢٨ مئی ١٤٥٣ءکو اسی قوم کے ہاتھوں پوری ہوئی تھی۔ بیسویں صدی کے شروع میں ترکوں ہی کی حمایت میں ہندوستان میں تحریک خلافت چلی، جس سے برصغیر کے مسلمان ترکوں اور ترکوں کی اسلامی خدمات سے روشناس ہوگئے۔ نامور علماءمیں مولانا شبلی نعمانی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابو الکلام آزاد وغیرہ کو تحریک خلافت سے قبل ہی ترکوں سے عقیدت اور ہمدردی تھی۔ مولانا شبلی نے ١٩١٤ءمیں وفات پائی۔ مولانا جوہر اور مولانا آزاد تحریک خلافت کے روح رواں تھے۔

 خلافت عثمانیہ کو عالم اسلام کے جو بڑے بڑے شعراءعظمت کی نشانی سمجھتے تھے۔ ان میں عالم عرب کے نامور شاعر احمد شوقی اور برصغیر کے علامہ محمد اقبال پیش پیش تھے۔ علامہ نے ۱۲ اپریل ١٩٣٨ءکو وفات پائی۔

 علامہ اقبال ۹ نومبر ١٨٧٧ءکو سیالکوٹ میں پیداہوئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ترک زوال سے گزر رہے تھے۔ خلافت عثمانیہ کے زیر نگین علاقے ایک ایک کرکے الگ ہورہے تھے۔ ١٩١٢ءکو بلقان جنگ نے ترکوں کو جس شکست سے دوچار کردیا تھا اس نے پورے عالم اسلام میں رنج و غم کی لہر ڈوڑائی تھی۔ ان حالات نے علامہ اقبال کو بھی متاثر کیا چنانچہ ان کے کلام کا بہترین حصہ ترکوں اور عالم اسلام کے دوسرے خطوں کے حالات سے متاثر ہوکر لکھا گیا ہے اور یہی حصہ سوز و گداز سے لبریز بھی ہے۔

 ١٩١١ ءمیں ترکوں کی زبوں حالی سے فائدہ اٹھاکر اٹلی نے طرابلس پر حملہ کردیا۔ اس جنگ میں شیخ سنوسی کی قیادت میں عرب قبائل نے ترکوں کی حمایت میں اٹلی کے خلاف ہتھیار اٹھائے۔ ١٩١٢ءمیں ایک عرب لڑکی فاطمہ بنت عبداللہ مجاہدین کو پانی پلاتی ہوئی شہید ہوئی۔ اس کی شہادت کی خبر جب ہندوستان پہنچی تو علامہ نے فاطمہ بنت عبداللہ کے نام سے ایک مرثیہ لکھا جس کا پہلا بند یہ ہے

 فاطمہ تو آبروئے امت مرحوم ہے 

ذرہ ذرہ تیری مشت خاک کا معصوم ہے

 یہ سعاد ت حور صحرائی تیری قسمت میں تھی

نمازیانِ دین کی سقائی تیری قسمت میں تھی

 یہ جہاد اللہ کے رستے میں بے تیغ و سپر 

ہے جسارت آفریں شوق شہادت کس قدر

 یہ کلی بھی اس گلستان خزاں منظرمیں تھی

ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میںتھی

 اپنے صحرا میں بہت آہوابھی پوشیدہ ہیں

 بجلیاں برسے ہوئے بادل میں بھی خوابیدہ ہیں

 علامہ اقبال ترکوں سے محبت رکھتے تھے۔ انہیں اس قوم کی بہادری، جفاکشی اور جوانمردی پسند تھی۔ انہوں نے اپنے کلام میں ترکوں کی اصول پرستی کی مثال میں ”محاصرہ ادرنہ“ کا ذکر کیا ہے۔ ادرنہ (ایڈربانوبل) کے قلعہ میں ترک سپہ سالار شکری پاشا اپنی فوج کے ساتھ محصور ہوگیا۔ دشمنوں نے قلعہ کا محاصرہ کیا۔ تو شکری پاشا نے سامان رسد نہ ہونے کی بنا پر جنگی قانون کا اعلان کردیا ۔ جس کی رو سے فوج اب ذمی عیسائی رعایا سے خوراک لینے کی مجاز ہوگئی۔ چنانچہ یہودیوں اور عیسائیوں کے سامان خوردنوش پر ترکی فوج کا قبضہ ہوگیا مگر شہر کے مفتی نے جب یہ بات سنی تو اس نے فتویٰ جاری کیا کہ یہودی اور عیسائی ہمارے ذمی ہیں ۔ ان کا مال ازروئے شریعت مسلمان فوجیوں پر حرام ہے اس فتویٰ کا اثر یہ ہوا کہ مسلمان فوجیوں نے یہودیوں اور عیسائیوںکا سارا مال و اسباب واپس کردیا۔ علامہ نے ۹ اشعار پر مشتمل نظم لکھی جس میں مفتی اعظم کے فتویٰ کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے

 ذمی کا مال لشکر مسلم پہ ہے حرام  فتویٰ تمام شہر میں مشہور ہوگیا

 چھوتی نہ تھی یہود و نصاریٰ کا مال فوج  مسلم خدا کے حکم سے مجبور ہوگیا

 ترکوں کی تاریخ میں شریعت کی پاسداری، دینی محبت، ایفائے عہد، رواداری کے صدہاواقعات ہیں جن سے اس قوم کی بلند سیرتی کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ پہلی جنگ عظیم (١٩١٤ ء تا ١٩١٩ء) کے خاتمے کے بعد انگریز خلافت عثمانیہ کے خاتمے کیلئے تیزی سے کام کرنے لگے۔ حالانکہ ہندوستان میں انگریزوں نے جنگ عظیم کے دوران مسلمانوں سے وعدہ کیا تھا کہ خلافت کا خاتمہ نہیں ہوگا۔ مگر جب انگریزوں کی سازش کی خبریں آنے لکھیں تو دسمبر ١٩١٩ءکے خلافت کانفرنس کے اجلاس میں فیصلہ لیا گیا کہ جنوری ١٩٢٠ءمیں ایک وفد انگلینڈ بھیجا جائے جو مسلمانوں کے اس مطالبہ سے وہاں کے حکمرانوں کوآگاہ کرے کہ خلافت کو منسوخ نہ کیا جائے۔ اس موقع پر علامہ اقبال نے ”دریوزہ خلافت“ تحریر کی

 اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے جائے

  تو احکام حق سے نہ کر بے وفائی

 نہیں تجھ کو تاریخ سے آگہی کیا 

خلافت کی کرنے لگا تو گدائی

 خریدیں نہ ہم جس کو اپنے لہو سے

  مسلمان کو ہے ننگ وہ پادشاہی

 مرا ازشکستن چناں عار نائد

 کہ از دیگراں خواستن مومیائی

 ترکی کو یورپ کا ’مرد بیمار‘ کہا جاتا تھا۔ یہ نام اسے یورپ والوں نے دیا تھا جو ہمیشہ خلافت عثمانیہ سے خائف رہتے تھے ۔ ترکوں کے خلاف جب نمدار شریف حسین نے انگریزوں کا ساتھ دیا تو انگریزوں نے ترکوں سے شام، لبنان، فلسطین اور موصل تک کا علاقہ چھین لیا۔ اگست ١٩١٧ء پیرس میں اتحادی ممالک کانفرنس ہوئی جس میں طے پایا کہ آرمینیہ، مشرقی انا طولیہ، آسانہ اور درہ دانیال روس کو دیا جائے گا۔ جنوبی البانیہ، تھریس اور قسطنطنیہ یونانیوں نے مانگا۔ ۵۱ جون ١٩١٨ ءکو یونانیوں کے سمرنا کی بندرگاہ پر قبضہ کیا ۔ نومبر ١٩١٨ء میں اتحادی فوجوں نے قسطنطنیہ پر قبضہ کیا۔ جون ١٩١٩ء میں پیرس میں کانفرس ہوئی جس میں دس ملکوں نے شرکت کی ۔ ترکوں نے نمائندہ بھیج کرصلح کی کوشش کی لیکن اتحادیوں نے ایک نہ سنی۔ ۶۱ مارچ ١٩٢٠ ءکو اتحادیوں نے قسطنطنیہ کی حکومت اپنے ہاتھ میں لی۔ بلقانی مقبوضات پہلے ہی چھن چکی تھیں۔ افریقہ میں مغربی اقوام نے تمام علاقے ترکوں سے ہتھیائے تھے۔ دارالخلافہ قسطنطنیہ پر اتحادیوں نے قبضہ کرکے فرید پاشا کی سربراہی میں کٹھ پتلی حکومت قائم کی اور ١٠ اگست ١٩٢٠ءکو سلطان سے ایک دستاویز پر دستخط لئے گئے جس میں کہا گیا تھا کہ ترکی اب آزاد ملک نہیں ہے اسے فوج کی نہیں صرف ١٥ ہزار پولیس کی ضرورت ہے ۔ اتحادیوں نے پارلیمنٹ کو تحلیل کردیا اور ۶۸ ترک رہنماﺅں کو مالٹا میں نظر بند کرکے ترکی کی سلطنت ختم کردی۔ ان حالات سے متاثر ہوکر علامہ اقبال نے ”خضرراہ“ لکھی جو ان کی بہترین نظموں میں شمار ہوتی ہے۔ جس میںشریف حسین کی غداری اور ترکوں کی قربانیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے

 بیچتاہے ہاشمی ناموس دین مصطفےٰ

خاک و خون میں مل رہا ہے ترکمانی سخت کوش

  اسی بہترین نظم کا یہ شعر بہت مشہور ہا

 آگ ہے اولاد ابراہیم ہے، نمرود ہے

کیا کسی کو پھر کسی کا امتحان مقصود ہے

 یونانیوںنے’ سمرنا‘پرقبضہ کرکے ترکوں کاقتل عام کیا۔ انہوں نے مسلمانوںپرظلم وبربریت کے پہاڑتوڑے یہ حالت دیکھ کرمشرقی اناطولیہ کے مسلمان خودیونانیوںکے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ ’مناستر‘میں جوفوجی کالج تھا، وہاں کے طلباءنے بھی یونانیوں کے خلاف مورچہ سنبھالا۔ اس دوران قومی اسمبلی کے ارکان نے اعلان کیاکہ سلطان سے جومعاہدہ ہواہے، اس میں ترکی قوم کی رضامندی شامل نہیں ہے ۔ چونکہ اتحادیوں نے خلیفے پردباﺅڈال کرقومی رہنماﺅں سے تمام فوجی اختیارات اورشہری حقوق سلب کروائے تھے، اس لئے انہوں نے اعلان کردیاکہ انہیں’آستانہ‘کی حکومت تسلیم نہیں ہے، اگرچہ شیخ الاسلام نے بھی ان کے خلاف فتوٰی دیاتھامگر ترکوں میں قوم پرست رہنمامقبول ہورہے تھے۔ ١٩٢١ءمیں عصمت پاشانے ’اینونو‘کے مقام پریونانیوں کو شکست دی۔ ۴۲اگست کویونانی’سقاریہ‘میں ترکوں سے ہارگئے۔ یونانی فوجیوں کی تعداد۳ لاکھ تھی۔ ترکوں کے پاس ہتھیاروں اورسازوسامان کی کمی تھی ۔ انہوںنے١٩٢١ءکے جاڑے میں تیاری کی۔ ٢٤جولائی ١٩٢٢ءکوترکوں نے جنگ کاآغازکیا۔ ٣٠ اگست کویونانیوں کو’ازیراورسروصہ‘میں شکست ہوئی۔ ۸دسمبر١٩٢٢ ء کوسمرناپرترکوں کاقبضہ ہوگیا۔ ۳لاکھ یونانی فوجیوں میں سے بہت کم بچ گئے۔ اکثرسمندرمیں غرق ہوگئے یاقتل ہوگئے۔ ترکوں کو بے شمارمالِ غنیمت ہاتھ لگا۔ ترکوں کی فتح سے یورپ میں صفِ ماتم بچھ گئی۔ اتحادیوں نے اب ترکوں سے صلح کرنے کی کوشش کی، چنانچہ انہوں نے وعدہ کیاکہ وہ قسطنطنیہ سے نکلیں گے۔ ٢٤ جولائی ١٩٢٣ءکوصلح نامے پردستخط ہوئے۔ ترکوں کواناطولیہ کاساراعلاقہ، مشرقی تھریس اورادرنہ بھی واپس دیاگیا۔ یورپی علاقے کااچھاحصہ بھی ترکوں کوواپس ملا۔ قسطنطنیہ سے اتحادی نکل گئے۔

 ’سمرنا‘کی فتح پرپورے عالمِ اسلام میں خوشی منائی گئی۔ مسجدوں میں چراغاں کیاگیا۔ شعراءنے اس پرنظمیں لکھیں ۔ علامہ اقبال کی شاندار نظم ’طلوعِ اسلام‘اسی فتح کے موقع پرلکھی گئی ہے۔ جس کاہربندمضمون آفرینی اوررمزوکنایہ کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہے اوریہ نظم اردوادب کی شاہکارتصورکی جاتی ہے

 عقابی شان سے جھپٹے تھے جوبے بال وپرنکلے

ستارے شام کے خونِ شفق میں ڈوب کرنکلے

 ہوئے ندفونِ دریا، زیرِدریاتیرنے والے طمانچے

موج کے کھاتے تھے، جوبن کرگہرنکلے

 غبارِرہ گزرمیں، کیمیاپرنازتھاجن کو

جبینیں خاک پررکھتے تھے جواکسیرگرنکلے

 ہمارانرم روقاصدپیامِ زندگی لایا

خبردیتی تھیں جن کوبجلیاں وہ بے خبرنکلے

 ٭٭٭

3 تبصرے
  1. خورشید احمد کہتے ہیں

    ڈاکٹر غلام قادر لون صاحب کے قلم کی چاشنی بڑی میٹھی ہے ۔مضمون مختصر ہے لگتا ہے جلدی میں لکھا گیا ہے اور بات ادھوری محسوس کی گئی

    1. ندیم اشرف کہتے ہیں

      مجھے بھی کچھ ایسا ہی لگ رہا ہے جیسے بات ادھوری رہ گئی ہے

  2. مدثر مقبول کہتے ہیں

    ماشاءاللہ بارک اللہ

تبصرے بند ہیں۔