تقسیم ہند: میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں؟

حسنین اشرف

برصغیر پاک و ہند کی تاریخ ایک خونی تاریخ ہے جس میں مختلف ادوار میں بہت سے حکمرانوں نے حکومت کی اور ہر حکومت نے عوام کو غلام بنائے رکھنے، ان کی محنت کی کمائی پر ہاتھ صاف کرنے اور زمینی وسائل سے استفادہ کے ساتھ ساتھ اس مظلوم اور محکوم قوم کے خون سے ہولی کھیلنے کا سلسلہ جاری رکھا جو کہ بدقسمتی سے آج تک جاری ہے۔

’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی اگرچہ انگریزوں سے منسوب ہے لیکن یہ نظریہ ہر جابر حکمران ہر دور میں آزماتا رہا اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے، البتہ اس کے انداز الگ الگ ہو سکتے ہیں۔ ہر ظالم و جابر حکمران مذہب، مسلک، زبان، علاقہ اور نسل کی بنیاد پر لوگوں کو تقسیم کرتا ہے ان کے درمیان ان بنیادوں پر نفاق پیدا کرتا ہے اور مزے سے حکومت کرتا ہے اس سارے عمل میں صرف غریب عوام پیستے ہیں۔

میں نے برصغیر پاک و ہند کی تاریخ کا مطالعہ پہلی بار سکول دور میں کیا پھر غم زندگی اور غم روزگار نے کئی سالوں تک اس موضوع پر گہرائی سے مطالعہ کرنے کا موقع نہیں دیا، حال ہی میں جب میں نے اس موضوع کو تفصیل سے پڑھا تو ذہن میں سوالات کا ایک جمِ غفیر سلسلہ تھا جو مجھے مسلسل پریشان کیے رکھتا کہ آخروہ کون سے عوامل تھے جو تقسیم ہند اور قیام پاکستان کا باعث بنے؟

بہت سے سوالات اب بھی تشنہ ہیں، اگرچہ کچھ سوالوں کے جواب مجھے مل گئے ہیں۔ ویسے تو بہت سے عوامل ہیں اور ہر شخص کی اپنی تشریح ہے لیکن میں صرف دو واقعات کا حوالہ دوں گا۔

1۔ کچھ عرصہ قبل زی نیوز کی جانب سے 15 جون 2015 کو یو ٹیوب پر اپ لوڈ کیا گیا ایک وڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں لکھنو کے شیعہ عالم اور لکھنو کے بڑا امام باڑہ کی آصفی مسجد کے امام جمعہ مولانا سید کلب جواد نقوی صاحب اور مولانا انصار رضا صاحب اور دیگر کچھ مہمان مدعو تھے، موضوع تھا ’’بڑا امام باڑہ کی تالا بندی‘‘ مولانا کلب جواد صاحب کا موقف تھا کہ چونکہ ’’بڑا مام باڑہ‘‘ ایک مذہبی مقام ہے اس کا ایک تقدس ہے اور چونکہ عوام اس مذہبی مقام کے تقدس کا خیال نہیں کرتے، یہاں شراب نوشی ہوتی ہے، خواتین نیم عریاں لباس میں آتی ہیں اور جوان جوڑے غیر اخلاقی حرکتیں کرتے ہیں لہٰذا بطور احتجاج ’’بڑا امام باڑہ‘‘ کو تالا لگایا گیا ہے تا وقتیکہ ان امور کی اصلاح نہیں ہو جاتی۔

مذہبی تعصب سے بالاتر ہو کر دیکھا جائے  تو اس میں کسی کو بھی اختلاف نہیں ہونا چاہیے کہ تمام مذاہب کے مذہبی مقامات کے تقدس کا خیال رکھنا چاہئے چاہے وہ مسلمانوں کی ہوں، ہندو، سکھ، عیسائی یا کسی بھی مذہب کی، تا کہ مذہبی رواداری برقرار رہے اور معاشرے میں امن قائم ہو سکے، لیکن یہ دیکھ کر انتہائی دکھ اور افسوس ہوا کہ پروگرام میں شامل غیر مسلم مہمانوں کی بجائے علامہ انصار رضا نے مولانا سید کلب جواد نقوی صاحب کے ساتھ شدید اختلاف کیا اور انتہائی غیر مہذب انداز میں اس کو حکومتی، عوامی اور سیاسی رنگ دینے کی کوشش جس پر مولانا کلب جواد صاحب بطور احتجاج پروگرام کے آغاز میں ہی اسکو ادھورا چھوڑ کر چلے گئے (نتیجہ آخر میں پیش کروں گا)

2۔ دوسرا واقعہ نوجوت سنگھ سدھو کے نو منتخب وزیراعظم عمران کی تقریب حلف برداری میں شرکت اور پاکستانی آرمی چیف کے گلے ملنے پر بھارت میں بے جا واویلہ ہے۔

کسی بھی عالمی تقریب میں جہاں مختلف ممالک کے مہمان مدعو کیے جائیں بے شک حکومتی اعلیٰ عہدے دار ہی کیوں نہ ہوں ایک دوسرے سے ہاتھ ملانا یا مروتاً گلے ملنا ایک معمول کی بات سمجھی جاتی ہے چاہے وہ دشمن ہی کیوں نہ ہوں اور اس چیز کو ہمیشہ مثبت انداز سے دیکھا جاتا ہے اور ایسے ہی دیکھا جانا بھی چاہئے۔ مثلاً مودی جی اور نواز شریف کا بغلگیر ہونا یا راہول گاندھی کا مودی جی سے گلے ملنا حالانکہ سب جانتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے ایک دوسرے کے ساتھ کیسے تعلقات ہیں اور مودی جی اور راہول گاندھی قطعاً ایک دوسرے کے دوست نہیں۔ ہمیں ان کے گلے ملنے کو مثبت انداز سے دیکھنا چاہیے نہ کہ اس کو نفرت اور دشمنی کی نظر سے۔

نوجوت سنگھ سدھو کے پاکستان آرمی چیف سے گلے پر بھارتی میڈیا اور کانگرس مخالف پارٹیوں کی مخالفت تو سمجھ میں آتی ہے لیکن مجھے اس وقت بہت زیادہ دکھ ہوا جب سکھوں کے ایک گروپ نے بھی سدھو کی مخالفت میں بیان دیا اور کرتارپور بارڈر کھولنے کی پاکستانی آفر اور سدھو کے مخلصانہ مطالبہ کو ایک سیاسی ڈرامہ قرار دیا حالانکہ کرتارپور بارڈر کے کھلنے سے پوری سکھ کمیونٹی کا فائدہ ہے اور دونوں ممالک کے تعلقات کی بہتری کی طرف ایک مثبت قدم ثابت ہو سکتا ہے۔

ان دو واقعات کے ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جب ہم اپنے معمولی سے ذاتی فائدے کیلئے یا حکومتی آشیرباد حاصل کرنے کے لئے اپنے قومی اور مذہبی مفاد کو قربان کر دیں گے اسے پس پشت ڈال دیں گے تو پھر ہمیں اپنے حکمرانوں سے شکوہ نہیں کرنا چاہیے وہ ضرور ہمارا استحصال کریں گے اور اپنی حکومت کی مضبوطی کیلئے، ہم سے ہی ووٹ لے کر ہمارا خون بہائیں گے اور ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے اقتدار اور طاقت کا یہ کھیل کھیلتے رہیں گے اور ہم یوں ہی انہیں کوستے رہیں گے یا زبانی جمع خرچ، چند اخباری بیانات، ٹی وی پر تنبصرے اور کسی سانحے پر احتجاجی مظاہرہ، پھر وہی کھیل زیرو سے شروع ہو گا۔ لہذا ہمیں رونے یا احتجاج کرنے کا کوئی حق نہیں، ہم اسی سلوک کے قابل ہیں اور ہمارے ساتھ یہی ہونا چاہئے۔

تقسیم ہند یقیناً برصغیر پاک و ہند کا سیاہ ترین باب ہے، انگریز کو ہم اس لئے قصوروار نہیں ٹھہرا سکتے کیونکہ انگریز کبھی بھی متحدہ یا مضبوط ہندوستان چھوڑ کر نہیں چانا چاہتا تھا، یہ ہندوستان کی اس وقت کی قیادت اور ہندوستانی عوام کی مکمل ناکامی ہے کہ انگریز ہندوستان کو کمزور کرنے میں کامیاب ہو گیا اسکے علاوہ تمام ہندوستانی قومیتوں کی مکمل ناکامی ہے کہ وہ اپنے آپ کو متحد نہ رکھ سکے۔

مجھے یقین کامل ہے کہ مہاتما گاندھی، ابوالکام آزاد اور بہت سے دوسرے ہندوستانی رہنماؤں کے علاوہ بہت سے مسلمان علماء بھی جس میں مسلم لیگ کے رہنماء بھی شامل ہیں کبھی بھی دل سے ہندوستان کی تقسیم کے حق میں نہیں تھے لیکن کچھ غیر مرئی قوتوں نے کام دکھایا اور ہندوستانی قوم کا شیرازہ بکھر گیا۔

میں ایک پنجابی ہوں اور تقسیم ہندوستان کے وقت موجود نہیں تھا لیکن جب برطانوی دور کے پنجاب کا نقشہ دیکھتا ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے، کہاں وہ پنجاب جو افغانستان سے کشمیر تک تھا، آج سمٹ کر کیا رہ گیا ہے؟ لیکن اب کیا ہو سکتا ہے سوائے پچھتانے کے۔

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں

تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

تبصرے بند ہیں۔