تحریکِ آزادیِ ہند میں مسلم خواتین کا کردار 

محمد ابراہیم سجاد تیمی

اسے ایک المیہ ہی کہا جائے گا کہ تاریخ نویسوں نے تحریکِ آزادیِ ہند میں عام ہندستانی خواتین کے شان دار کردار سے عموماً اور مسلم خواتین کے تابناک کردار سے خصوصاَ مجرمانہ اغماض کیا ہے۔ تحریکِ آزادی ہند کے تذکروں میں ان کو وہ مقام و مرتبہ نہیں دیا گیا جس کی وہ واقعی حق دار تھیں۔ حیرت کی بات ہے کہ خاتون تاریخ داں منموہن کور نے بھی اپنی کتاب ” Women in India’s Freedom Movement ” میں جنگِ آزادی میں شاندار کردار ادا کرنے والی ہزاروں مسلم خواتین میں سے صرف بیگم حضرت محل اور بی اماں کے تذکرے پر ہی اکتفا کیا ہے۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ اس میں ان کا کردار مردوں کے مقابلے میں کسی بھی حیثیت سے کم تر ہرگز نہیں رہا تھا۔ اس مجرمانہ اغماض کی ایک بڑی وجہ تعصب و تنگ نظری کے علاوہ مسلم مورخین کی غفلت اور مورخین کا ننانوے فیصد حصہ مردوں پر مشتمل ہونا ہے۔ تاریخ کا ادنیٰ طالب علم بھی اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہے کہ تحریکِ آزادی ہند کے آغاز سے تقسیمِ ہند و پاک تک کے تمام مراحل میں مسلم خواتین کا اتنا ہی شان دار ہمہ جہتی کردار رہا ہے جتنا غیر مسلم خواتین کا۔

تاریخ یہ کیسے بھول سکتی ہے کہ 1857 کی جنگِ آزادی میں تھانہ بھون، مظفر نگر کی انقلابی شخصیت قاضی عبد الرحیم کی ماں اصغری بیگم نے بہ نفس نفیس شرکت کی اور شکست خوردگی کے بعد انگریزوں نے انہیں گرفتار کرکے زندہ جلا دیا؟ اسی طرح بی بی حبیبہ اور بی بی رحیمہ، جنہوں نے اپنی بے مثال شجاعت و بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انگریزی فوج کی پیش قدمی روک دی تھی لیکن بوجوہ شکست کھائیں تو انگریزوں نے انہیں بھی گرفتار کرکے پھانسی پر چڑھا دیا؟ بتانے کی ضرورت شاید نہیں ہے کہ یہ اور ان جیسی خواتین جنہوں نے تحریکِ آزادی ہند میں اپنی دلیری، جاں سپاری، جذبہِ فدائیت اور ایثار و قربانی کی لازوال مثالیں قائم کیں، مورخین چاہے ان کے کارناموں کے تذکرے سے جتنا بھی صرفِ نظر کر لیں، لیکن ان کی داستانیں اس وقت تک زبان زد رہیں گی اور ان کے روشن کارناموں کا قصہ اس وقت تک دوہرایا جاتا رہے گا، جب تک سورج اور چاند کی گردش جاری رہے گی۔ ہاں! اگر معاملہ انہی چند ایک خواتین کی جان و مال کی قربانی کا ہوتا تو تاریخ اسے اپنے کسی سرد خانہ میں ڈال بھی سکتی تھی، مگر ایک محتاط اندازے کے مطابق محض 1857 کی جنگوں میں آزادیِ وطن کی خاطر پیش کیے جانے والے 225 مسلم خواتین کی جانوں کے نذرانے کو وہ کیسے بھلا پائے گی؟

تاریخ اسے بھی نہیں بھلا سکے گی کہ جھانسی کی رانی لکشمی بائی، کستوربا گاندھی، سروجنی نائیڈو، وجے لکشمی پنڈت، کملا نہرو، سروپ رانی، کِٹو رانی چینما، بھیکا جی کاما، سچیتا کرپلانی، ساوتری بائی پُھلے، لاڈو رانی زتشی، من موہنی زتشی، شیاما زتشی، جنک زتشی اور دیگر سیکڑوں غیر مسلم خواتین نے بھی تحریکِ آزادی ہند کو کامیابی کی منزل تک پہنچانے میں ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا ہے۔ راہِ حریت میں پیش کی گئی ان کی قربانیوں کو ہمیشہ خراجِ عقیدت پیش کیا جاتا رہے گا۔ اسی طرح، انہی کے شانہ بشانہ چلتے ہوئے کبھی ان کے برابر اور کبھی ان سے زیادہ قربانیاں پیش کرنے والی مسلم خواتین کو بھی تاریخ کے صفحات میں جگہ ملتی رہے گی اور انہیں یاد کیا جاتا رہے گا۔

 بیگم حضرت محل کی وطن پر جاں نثاری اور ایثار و قربانی سے بھلا کون صرف نظر کر سکتا ہے جنہوں نے اپنے سرتاج نواب واجد علی شاہ کی اودھ سے کلکتہ جلا وطنی کے بعد اودھ میں رہ کر فوج کی کمان سنبھالی، انگریزوں کو پے در پے شکست دے کر اسے ان کے چنگل سے آزاد بھی کرا لیا، مگر انگریزوں کی سازش اور اپنوں کی غداری کے سبب آخر کار شکست سے دوچار ہو کر نیپال میں پناہ گزیں ہوئیں، وہیں انتقال کیا اور وہیں مدفون بھی ہوئیں۔ آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کی اہلیہ رانی زینت محل نے اپنے سرتاج کے ساتھ ہی رنگون کی جلاوطنی کا عذاب جھیلا، وہیں انتقال کیا اور وہیں پہلوئے یار ہی میں دفن بھی ہوئیں۔ مولانا حسرت موہانی کی شریکِ حیات نشاط النساء بیگم کا وطن کی آزادی کی راہ میں ایثار اور صبر و استقلال بھی مثالی تھا۔ اس راہِ وفا میں ہزاروں مصائب نے آزمایا مگر ان کے پائے استقامت میں ذرا بھی لغزش نہیں آئی۔ انہوں نے اپنے شریکِ حیات مولانا موہانی کا اس وقت بھی حوصلہ بڑھایا جب وہ جیل میں قید بامشقت کی سزا جھیل رہے تھے۔ انہوں نے مولانا موہانی کو اپنے ایک خط میں مخاطب کرتے ہوئے لکھا: ” تم پر جو افتاد پڑی ہے، اسے مردانہ وار برداشت کرو۔ میرا یا گھر کا مطلق خیال نہ کرنا۔ خبردار! تم سے کسی قسم کی کمزوری کا اظہار نہ ہو”.

علی برادران کی والدہ عابدی بیگم عرف بی اماں کے راہِ حریت میں صبر و استقلال اور ایثار و قربانی کی مثال بھی ابدی ہے۔ اگر کہا جائے کہ بی اماں ہندستان کی خنساء بنت تماضر تھیں تو مبالغہ نہ ہوگا۔ ان کے دونوں بیٹے تو اس راہ کی صعوبتوں کو جھیل ہی رہے تھے مگر ان کی بہو رانی یعنی مولانا محمد علی جوہر کی اہلیہ امجدی بیگم کو بھی قید و بند کی مشقتیں جھیلنا پڑیں۔ مولانا آزاد کی زوجہ محترمہ زلیخا بیگم بھی کتنی باحوصلہ خاتون تھیں، اس کا اندازہ اس خط سے لگایا جا سکتا ہے جو انہوں نے 1942 میں مہاتما گاندھی کو اس وقت لکھا جب مولانا آزاد کو ایک سال کی سزا ہوئی تھی اور وہ جیل میں تھے۔ انہوں نے اس خط میں لکھا: ” میرے شوہر کو محض ایک سال کی سزا ہوئی ہے جو ہماری امیدوں سے بہت کم ہے۔ اگر ملک و قوم سے محبت کے نتیجے میں یہ سزا ہے تو اس کو انصاف نہیں کہا جائے گا۔ یہ ان کی اہلیت کے لیے بہت کم ہے۔ آج سے میں بنگال خلافت کمیٹی کا پورا کام دیکھوں گی”۔

1832 میں لکھنو میں پیدا ہونے والی جنگ آزادی کی مجاہدہ عزیزان کا معاملہ بھی کم قابلِ رشک نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ امراؤ جان ادا کے ساتھ سارنگی محل میں رہتی تھیں۔ جب 4/ جون 1857 کو نانا صاحب نے ہندو اور مسلمانوں کو آزادیِ وطن کی خاطر متحد ہو کر لڑنے کی دعوت دی تو عزیزان نے گھر چھوڑ دیا اور تحریکِ آزادی میں شامل ہو گئیں۔ انہوں نے عورتوں کی ایک باضابطہ بٹالین تشکیل کی۔ وہ امورِ جنگ میں ماہر تھیں اور اپنی بٹالین کی عورتوں کو ہتھیار چلانا سکھاتی تھیں۔ وہ انگریزوں کی خفیہ معلومات جمع کرتیں اور مجاہدین آزادی تک پہنچایا کرتی تھیں۔ آخرکار وہ گرفتار کرکے جنرل ہیولاک کے سامنے پیش کی گئیں۔ ہیولاک نے ان کے سامنے پیش کش رکھی کہ اگر وہ اپنی غلطیوں کا اعتراف کر لیں اور معافی مانگ لیں تو انہیں چھوڑ دیا جائے گا مگر انہوں نے اس پیش کش پر شہادت کو ترجیح دی۔

وے صورتیں الٰہی کس ملک بستیاں ہیں 

اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں

ان کے علاوہ، زبیدہ داؤدی، رضیہ خاتون، ہاجرہ بیگم، صغریٰ خاتون، زاہدہ خاتون شیروانی، آمنہ قریشی، فاطمہ قریشی، بی بی اماتس سلام، ہزارہ بیگم، سعادت بانو کچلو، ارونا آصف علی، بیگم خورشید خواجہ، سرحدی گاندھی خان عبد الغفار خاں کی بیٹی مہر تاج، خدیجہ بیگم، بیگم داؤدی، کنیز ساجدہ بیگم، منیرہ بیگم، عصمت آرا بیگم، امینہ طیب جی، بیگم سکینہ لقمانی، ریحانہ طیب جی، حمیدہ طیب جی، فاطمہ طیب علی، صفیہ سعاد خاں، بی بی شفاعت النساء، کلثوم سیانی، فاطمہ اسماعیل، بیگم سلطانہ حیات انصاری، زہرہ انصاری وغیرہ وغیرہ بطور مشتے نمونہ از خروارے، محض چند ایسی مسلم خواتین کے اسمائے گرامی ہیں جن کی راہِ حریت میں دی گئی قربانیوں کا ہمارا یہ محبوب وطن ہندستان ہمیشہ زیرِ بارِ احسان رہے گا۔ انہیں اور ان جیسی دیگر بے شمار دخترانِ اسلام کو حریت کی راہِ وفا میں آبلہ پائی کرتے ہوئے جان کی بازی ہارنا پڑی، قید و بند کی سزا جھیلنا پڑی، جرمانہ اور مچلکہ بھرنا پڑا اور طرح طرح کی مصیبتیں اٹھانا پڑیں۔ ہمارا فریضہ ہے کہ ہم جنگِ آزادی میں ان عظیم خواتین کی ناقابلِ فراموش حصہ داری کی تاریخ سے اپنی نئی نسلوں کو آشنا کرائیں کہ یہی ہماری طرف سے ان کے لیے بہترین خراجِ عقیدت ہے۔

تبصرے بند ہیں۔