لنچنگ، ریپ اور قتل یعنی ’تمغہ ہائے امتیاز‘

سہیل انجم

ہندوستا میں ادھر بہت تیزی کے ساتھ ایک نادیدہ مگر نئی سماجی و سیاسی لغت ترتیب پا رہی ہے۔ اس لغت میں لنچنگ، ریپ اور قتل جیسے سنگین جرائم کے معنیٰ ’تمغہ ہائے امتیاز‘ اور ’تمغہ ہائے حسن کارکردگی‘ درج ہیں۔ اس کی تشریح یوں کی جا رہی ہے کہ اگر آپ کسی کو وحشیانہ انداز میں قتل کر دیں، کسی خاتون اور وہ بھی حاملہ خاتون کی اجتماعی عصمت دری کریں، اس کی تین سالہ بیٹی کو اس کی آنکھوں کے سامنے مار ڈالیں اور اس کے خاندان کے ایک درجن افراد کو بھی ہلاک کر دیں تو بھی گھبرانے کی کوئی بات نہیں، آپ کچھ دن جیل میں گزار لیں پھر آپ کو رہا کرا لیا جائے گا۔ بشرطیکہ آپ کسی مخصوص سیاسی جماعت سے تعلق یا قربت رکھتے ہوں اور آپ نے کسی ایک خاص مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ مذکورہ سلوک کیا ہو۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اگر آپ برہمن ذات سے تعلق رکھتے ہیں تو آپ کو ’سنسکاری‘ یعنی اچھے اخلاق و کردار اوراقدار کا مالک ہونے کا سرٹی فکٹ بھی دے دیا جائے گا۔ جی ہاں اس لغت کا مطالعہ بلقیس بانو کیس کی روشنی میں کیا جا سکتا ہے۔ اگر ہم تقریباً آٹھ برسوں کے دوران مختلف جرائم سے متعلق واقعات کا تجزیہ کریں تو اس نتیجے پر پہنچنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی کہ اب جرم اور مجرم کا مفہوم بدلتا جا رہا ہے۔ ایسے جرائم میں سزا کا پیمانہ بھی بدل رہا ہے جن کے مرتکبین ایک خاص نظریے کے حامل ہوں اور متاثرین کسی دوسرے مذہب کے پیروکار ہوں۔

یہ کتنی شرم و ندامت کی بات ہے کہ ایسے لوگوں کو ’سنسکاری برہمن‘ کہا جا رہا ہے اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ان کے اہل خانہ بغیر کسی قصور کے ان سے دور رہنے کی سزا بھگت رہے ہیں۔ وہ بھی اس نربھیا واقعہ کے بعد جس کے معاملے پر پوری دنیا میں شدید احتجاج ہوا تھا، خواتین کے خلاف جرائم سے نمٹنے کے قوانین سخت کیے گئے تھے اور حکومت کی جانب سے یہ پالیسی فیصلہ کیا گیا تھا کہ آبروریزی کے سزایافتہ مجرموں کو معافی نہیں دی جائے گی۔ اس فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایسے معاملات میں معافی دینے سے قبل ریاستی حکومت کو مرکزی حکومت سے مشورہ کرنا ہوگا اور اس کی اجازت کے بغیر ایسے لوگوں کو معافی پانے کا اہل نہیں سمجھا جائے گا۔ گجرات حکومت کے اس فیصلے پر احتجاج کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ریاستی حکومت نے مرکزی حکومت سے مشورہ اور اجازت کے بغیر ایسا فیصلہ کیا۔ لیکن یہ بات کیسے کہی جا سکتی ہے۔ ممکن ہے کہ مرکزی حکومت سے مشورہ کیا گیا ہو اور اس فیصلے میں اس کی خاموش اور زبانی رضامندی بھی شامل ہو۔

بعض مبصرین کا خیال ہے کہ مجرموں کو سنسکاری برہمن ہونے کا جو سرٹی فکٹ دیا گیا ہے وہ بلا وجہ نہیں ہے۔ منو اسمرتی میں برہمنوں کو اعلیٰ ترین ذات سے تعبیر کیا گیا ہے۔ دوسری برادریاں ان کے سامنے حقیر ہیں۔ برہمن سے گناہ کے ارتکاب کا تصور نہیں ہے۔ یعنی اگر وہ کوئی جرم یا گناہ کرتا بھی ہے تو اس کی کوئی گرفت نہیں ہوگی۔ لہٰذا اگر گودھرا سے بی جے پی کے رکن اسمبلی اور مجرموں کو معافی دینے کی سفارش کرنے والی کمیٹی کے ایک رکن سی کے راول جی ان کو سنسکاری برہمن ہونے کا سرٹی فکٹ دیتے ہیں تو اس نظریے کے مطابق کچھ غلط نہیں کرتے۔ اب چاہے ہندوستان کے انسانی حقوق کے کارکن چیخ و پکا رمچائیں یا امریکہ کے کمیشن برائے مذہبی آزادی کے افسران اسے انصاف کا مذاق بتائیں۔ سزا سنانے والے جسٹس ڈی یو سالوی اسے غلط نظیر قائم کرنے سے تشبیہ دیں یا پھر دیگر قانونی ماہرین معافی دینے کے قانون کی تشریح کریں، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ گجرات میں اس سال کے اواخر میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اور بی جے پی کو اس سے انتخابی فائدہ پہنچنے والا ہے۔ لہٰذا اس فیصلے کو واپس لینے اور قیدیوں کو دوبارہ جیل میں ڈالنے کے لاکھ مطالبے کیے جائیں اب بظاہر یہ فیصلہ واپس ہونے والا نہیں ہے۔ وزیر اعظم ایسے متنازع معاملات میں پہلے بھی مہر بہ لب رہے ہیں اور آگے بھی مہر بہ لب رہیں گے۔ انھوں نے تو یوم آزادی پر اپنے خطاب میں خواتین کے خلاف نفرت ترک کرنے اور ان کے احترام کی بات کرکے اپنا فرض منصبی ادا کر دیا ہے۔ اب ان سے اس سے زیادہ کی توقع کیوں کی جا رہی ہے۔ حکومت اور حکمراں جماعت بی جے پی کو معلوم ہے کہ اس معاملے پر جتنا شور مچے گا، جتنا ہنگامہ ہوگا، جتنی مخالفت ہوگی ہندوو ¿ں کے ایک طبقے کے ووٹ کے حصول میں اتنی ہی آسانی ہوگی۔

بلقیس بانو او ران کے شوہر یعقوب رسول نے مجرموں کی رہائی کے بعد کہا ہے کہ وہ لوگ انتہائی خوف زدہ ہیں۔ ان کی یہ بات بے بنیاد نہیں ہے۔ اب تو اس گاو ¿ں کے کئی مسلم خاندانوں نے گھر چھوڑ کر کیمپوں میں پناہ لے لی ہے۔ یہ لوگ پہلے بھی گواہوں اور اپنے مخالفین کو دھمکاتے رہے ہیں اور اب تو اس کا اندیشہ اور بڑھ گیا ہے۔ ان کو معافی دینے کی سفارش کرنے والی کمیٹی کی دلیل ہے کہ چونکہ ان لوگوں نے چودھ سال جیل میں گزار لیے ہیں اس لیے عمر قید پوری ہو گئی ہے۔ حالانکہ ایسے سنگین معاملات میں عمر قید کا مطلب تاعمر جیل ہوتا ہے چودہ سال کی جیل نہیں۔ لیکن بہرحال ان لوگوں نے چودھ سال بھی نہیں گزارے ہیں۔ یہ اکثر و بیشتر پے رول پر رہائی کی درخواستیں کرتے رہے ہیں اور انھیں ایک ماہ دو ماہ پے رول پر چھوڑا جاتا رہا ہے۔ انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک قیدی رادھے شیام شاہ نے رواں سال میں 29 نوری سے 30 مارچ کے دوران ساٹھ دن پے رول پر باہر گزارے تھے۔ یہ وہی شاہ ہے جس نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی کہ چونکہ اس نے چودھ سال کی جیل کاٹ لی ہے اس لیے 1992کے ضابطے کے مطابق اسے جیل سے رہا کیا جائے۔ اسی کی درخواست پر کمیٹی بنی اور پھر سب کو رہا کر دیا گیا۔ اس سے قبل 2010 میں اس نے بامبے ہائی کورٹ سے درخواست کی تھی کہ ماں کا گھٹنا بدلوانے کے لیے اسے تین ماہ کی عارضی ضمانت دی جائے۔ لیکن عدالت نے اس بنیاد پر اس کی درخواست مسترد کر دی تھی کہ اسے دسمبر 2010 میں پے رول پر چھوڑا گیا تھا اور دسمبر 2011 میں پھر چھوڑا جانا ہے۔ ایک اور قیدی کیشر اوہانیا نے اگست 2018 سے مارچ 2019 کے درمیان 90دن پے رول پر باہر گزارے تھے۔ اس نے مئی 2019 میں پھر پے رول کی درخواست دی جسے نامنظور کر دیا گیا۔ اس نے اس کے علاوہ بھی کافی دن پے رول پر جیل سے باہر بتائے تھے۔ بلقیس، قیدیوں اور گواہوں کا تعلق ایک ہی گاو ¿ں رندھیک پور سے ہے۔

گواہوں اور مقامی باشندوں نے 2017 سے 2020 کے درمیان ضلع پولیس اور اس وقت کے گجرات کے وزیر مملکت برائے داخلہ پردیپ سنگھ جڈیجہ کے سامنے متعدد بار درخواستیں پیش کیں کہ پے رول پر چھوٹ کر باہر آنے والے ان گیارہ سزا یافتہ قیدیوں کی جانب سے ان لوگوں کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ اسی گاو ¿ں کے ایک گواہ عبد الرزاق منصوری نے فروری 2021 میں اپنی درخواست میں کہا تھا کہ یہ لوگ پے رول پر باہر آکر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں۔ انھوں نے اپنا بزنس شروع کیا۔ اپنے مکانات بنوائے اور گواہوں کو دھمکیاں دیں۔ قیدیوں سے ان لوگوں کو مسلسل خوف لاحق ہے۔ شیلیش بھٹ نامی ایک قیدی نے بی جے پی کے پروگرام میں شرکت کی اور اسے داہود کے بی جے پی کے منتخب نمائندوں کے ساتھ اسٹیج پر بٹھایا گیا۔ لیکن جب جڈیجہ سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے بڑی معصومیت سے کہا کہ انھیں نہیں یاد پڑتا کہ ان کو ایسی کوئی درخواست دی گئی تھی اور انھیں یہ بھی یاد نہیں کہ فلاں قیدی نے بی جے پی کے پروگرام میں شرکت کی تھی۔ فیروز گھانچی عرف پنٹو نے پنچ محل کے آئی جی کو اپنی ایک درخواست میں کہا کہ مجرم جھوٹے بہانوں سے پے رول کی درخواست دیتے ہیں۔ وہ جیل سے زیادہ گاؤں میں رہتے ہیں اور بلقیس بانو کیس کے گواہوں کو مسلسل دھمکیاں دیتے ہیں۔ مجرموں کے خلاف اور بھی شکایات موصول ہوئی ہیں لیکن ان شکایات کو نظرانداز کرکے ایک لولی لنگڑی دلیل کے سہارے ان لوگوں کو جیل سے رہا کر دیا گیا۔ اب انصاف کا خون ہوتا ہے تو ہوتا رہے، سیاسی اور انتخابی فائدہ تو حاصل ہوگا۔ قانون جائے چولہے بھاڑ میں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔