اورنگزیب عالمگیر : سیاسی منافع خوروں کی غذا

شہاب مرزا

ہندوستان کی تاریخ نویسی میں کئی طرح کی غلطیاں کی گئی جسکی وجہ سے بادشاہوں کی شخصیت میں بہت اختلاف ملتے ہیں مثال کے طور پر اگر موریہ سمراٹ اشوک کے بارے میں کہا جائے کہ اس نے جنگ کلنگ میں ایک لاکھ لوگوں کا قتل کیا، گدی حاصل کرنے کے لیے اپنے سو بھائیوں کا قتل کیا، وہ ایک کٹر مذہبی حکمران تھا، اسکی مذہبی پالیسی نے برہمنوں کو کافی دکھ پہنچا، تو کوئی بھی مورخ اس نتیجے پر پہنچے گا کہ سمراٹ اشوک ایک ظالم و جابر حکمران تھا بھارت کی تاریخ میں کوئی حکمران ایسا نہیں ملے گا جس نے اتنے قتلِ کئے، دشمنوں کو قیدی بنایا اور مذہب کی تبلیغ کے لیے سرکاری خزانے کا استعمال کیا لیکن تاریخ میں مختلف حوالوں سے سمراٹ اشوک کی اچھائی بیان کی گئی تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ وہ عظیم شہنشاہ تھے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ تاریخ نے اورنگ زیب عالمگیر کے اہم کاموں کو نظر انداز کر کے ایک کٹر اور ظالم حکمران کی صف میں کھڑا کر دیا۔ ‏

جنوبی ایشیامیں، چارعظیم سلطنتیں رہی ہیں۔سب سےبڑی قبلِ مسیح دورمیں مَوریاخاندان کے بادشاہ، سمراٹ اشوک کی رہی ہے۔اُس کےصدیوں بعد۔۔گُپتاخاندان کے سَمُددر گُپتا کی بہت بڑی سلطنت رہی۔ پھرمغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کی عظیم سلطنت تھی۔جو براعظم ایشیا کے ایک بڑے حصے پر پھیلی ہوئی تھی آخر میں، تاجِ برطانیہ کی وسیع حکومت قائم رہی۔جو عالمگیر کے خوف سے راتوں کو سکون سے سو نہیں سکتے تھے اسی لیے اورنگ زیب عالمگیر کے تعلق سے سب سے زیادہ تعصب انگریزی مورخوں نے اپنایا اور ہندو، مسلم میں معاشرتی، معاشی، سیاسی اختلافات بڑھانے کا کام کیا ماضی میں انگریز دوسری قوموں کے مقابلے کافی چالاک تھے انکی ہمیشہ کوشش رہی کہ پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو!

انگریزوں کی اس پالیسی کا مورخ ایلیٹ اور ڈاوسن کی تحریروں پر کافی اثر پڑا انھوں نے مغلیہ دور حکومت کو خراب ثابت کرنے کے لیے انھوں نے اورنگ زیب عالمگیر کے اچھے کاموں پر دھیان نہیں دیا جھوٹی باتوں کو بنیاد بنا کر تاریخ کے ساتھ اور اورنگزیب عالمگیر کی شخصیت کے ساتھ نا انصافی کی۔

اورنگزیب عالمگیر ایک نام جو صدیوں بعد بھی تعصب پسند سیاسی منافع خوروں کی غذا رہا ہے ایک طبقے کے یہاں اورنگزیب عالمگیر کے خلاف پروپیگنڈا کرنا عبادت کا حصہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ وہ بضد ہیں کہ دنیا یہ پروپیگنڈا قبول کرلے کہ اورنگ زیب عالمگیر وحشی صفت درندے تھے ، جنھوں نے اپنے بھائیوں کا قتل کیا، ہندوؤں کی نسل کشی کی، ہزاروں مندر کو تباہ کیا اور سکھوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے۔

جبکہ تاریخی اوراق اور ہی کہانی بتاتے ہیں، وہاں ایک ایسا حکمران نظر آتا ہے جو تمام تر انسانی کوتاہیوں کے باوجود مغل حکمرانوں میں سب سے بہترین تھا۔ ایک ایسا حکمران جو بھائی کو بغاوت کے بعد بھی موقعہ دیتا ہے کہ عہدہ قبول کر کے جنگ چھوڑ دے۔ وہ جنگ لڑنے والے مراٹھا کو بھی امن کی پیشکش کرتا ہے، سرکاری اداروں میں ہندو شہریوں کو باقی مسلمانوں سے زیادہ جگہ عطا کرتا ہے۔ اور مسلمانوں کو ان کے متعلق ذمہ داری کا احساس بھی دلاتا ہے۔ وہ روز شہریوں کی شکایات اور اختلافات سنے کے لیے دربار لگاتا ہے، فیصلے صادر کرتا ہے اور بار بار یہی دہراتا ہے کہ حکمرانی تو دراصل عدل کا نام ہے۔ اس کے دور میں ٹیکس میں کمی کی جاتی ہے لیکن شہریوں کی سہولیات میں اضافہ ہوتا۔ وہ بجائے محل میں عیاشی کرنے کے حکمرانی کے معاملات پر توجہ دیتا ہے، آخرت کی فکر کرتا ہے دنیا کی عیش و عشرت ہونے کے باوجود پرہیزگاری سے زندگی گزارتا تھا عالمگیر مغل حکومت کی سرحدوں کو وسط بخشتا اور جب خود دفن ہونے کی بات آتی ہے تو عام شہری جیسی قبر کا حکم دیتا ہے، بدقسمتی سے ایک مرتبہ پھر حضرت اورنگزیب عالمگیر کی شخصیت اور ان کے نام کو کچھ مفاد پرست سیاسی لیڈران اکثریتی طبقے میں اپنی ساکھ کو بہتر بنانے اور اپنی کرسی اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے اچھال ر ہے ہیں، ان کی تاریخ کو مسخ کرکے پیش کیا جارہا ہے، ایک ایسے شخص کو جس نے اپنی زندگی میں غیر مسلم اقلیتوں کے لیے بے انتہا مراعات جاری کیں اسی کو تنگ نظر، فرقہ پرست اور شدت پسند ثابت کرنے کی مذموم کوششیں کر رہے ہیں اور اسی کے شہر سے اس کے نام اور یادوں کو مٹاکر خود کو سچے سیکولر ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ کیونکہ اورنگزیب عالمگیر نے اپنے اعمال کی ادائیگی میں اسلام کو ریفرنس پوائنٹ بنایا

مغل بادشاہوں میں صرف اورنگزیب عالمگیر ہی انڈیا کی اکثریتی برادری میں مقبولیت حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ اکثریتی طبقے کے درمیان اورنگزیب کی تصویر ایک سخت گیر مذہبی ذہنیت والے بادشاہ کی ہے جو ہندوؤں سے نفرت کرتا تھا اور جس نے اپنے بڑے بھائی دارا شکوہ کو بھی اپنے سیاسی مفاد کے لیے نہیں بخشا اور بھی کئی پروپیگنڈے کو پھیلایا گیا جبکہ حقیقت اسکے بر عکس ہے حضرت اورنگزیب عالمگیر رحمتہ اللہ علیہ سے نفرت کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اورنگ زیب باہر کے نہیں تھے، وہ ہندوستانی تھے۔

 ان کی سلطنت اکھنڈ بھارت کا نمونہ تھی جس میں نہ صرف ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش بلکہ اورنگ زیب کی سلطنت کا راج موجودہ افغانستان کے آگے بھی تھا۔ اس وقت ہندوستان کا رقبہ (40 لاکھ مربع کلومیٹر) چین کے رقبے سے بڑا تھا۔

سن 1700 میں جب اورنگزیب عالمگیر کی حکومت تھی، ہندوستان کی جی ڈی پی 24۔4 فیصد تھی اورنگزیب عالمگیر نےسن 1658 سے سن 1707 تک 50 سال تک حکومت کی۔

سن 1651 میں، ایک شاہی فرمان کے ذریعے، اورنگزیب عالمگیر نے مدھیہ پردیش کے چترکوٹ میں موجود بالاجی مندر کو عطیہ دیا۔

 اورنگ زیب کے دور حکومت میں اہم عہدوں پر 33 فی صد ہندو تھے جب کہ اکبر کے دربار میں ان کی شرح تمام مغل بادشاہوں سے کم تھی یعنی صرف 16 فی صدی تھی۔

اورنگزیب نے 51 سال تک 15 کروڑ افراد پر حکومت کی۔ ان کے دور میں مغل سلطنت اتنی وسیع ہوئی کہ پہلی بار انھوں نے تقریباً پورے برصغیر کو اپنی سلطنت کا حصہ بنا لیا۔

ٹرسچكی لکھتی ہیں کہ اورنگزیب کو ایک کچی قبر میں مہاراشٹر کے خلدآباد میں دفن کیا گیا جبکہ اس کے برعکس ہمايوں کے لیے دہلی میں لال پتھر کا مقبرہ بنوایا گیا اور شاہ جہاں کو عالیشان تاج محل میں دفنایا گیا۔ان کے مطابق؛ ’یہ ایک غلط فہمی ہے کہ اورنگزیب نے ہزاروں ہندو منادر توڑے۔ ان کے حکم سے براہ راست چند منادر ہی توڑے گئے جس کی وجوہات سیاسی تھی ۔ ان کے دور حکومت میں ایسا کچھ نہیں ہوا جسے ہندوؤں کا قتل عام کہا جا سکے۔ دراصل، اورنگزیب نے اپنی حکومت میں بہت سے اہم عہدوں پر ہندوؤں کو تعینات کیا۔ یہی وجہ تھی کہ ایک امریکی تاریخ داں آڈرے ٹرسچکی نے اپنی تازہ کتاب ‘اورنگزیب، دا مین اینڈ دا متھ’ میں بتایا ہے کہ یہ خیال غلط ہے کہ اورنگزیب نے مندروں کو اس لیے مسمار کروایا کیونکہ وہ ہندوؤں سے نفرت کرتا تھا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔