خالد سیف الدین
۴؍ مارچ ۲۰۱۴کو ملک کے عام انتخابات سے ایک ماہ قبل اس وقت کانگریس کی قیادت والی یوپی اے کی مرکزی حکومت نے اپنا دیر ینہ وعدہ وفا کرتے ہوئے دس اہم اضلاع پر مشتمل تلنگانہ کو ریاست کا درجہ بحال کردیا تھا۔ علحیدہ تلنگانہ تحریک کی موجد ِتلنگانہ راشٹر سمیتی (ٹی آر ایس) کے سربراہ اور اس وقت کانگریس کے نورِ نظر کے چندر شیکھر راؤ ( کے سی آر)کی مسلسل ۱۳ سالہ جد و جہد، کانگریس کی جانبدارانہ تائید اور بی جے پی کی حمایت ہی تلنگانہ کو ریاست کا درجہ بحال کرنے میں معا وین و دستیار ثابت ہوئی۔
۲۰۱۴ میں ملک کے عام انتخابات کے ساتھ ہی تلنگانہ کی جملہ ۱۱۹ اسمبلی سیٹوں کے لیے بھی انتخابات عمل میں آئے۔ ان انتخابات میں اصولاً ٹی آر ایس کو کانگریس سے اتحاد کرنا چاہیے تھالیکن ٹی آر ایس نے کانگریس کو دھوکا دیتے ہوئے تمام ۱۱۹ سیٹوں پر تنہا الیکشن لڑتے ہوئے جملہ ۶۶ سیٹوں پر اپنی جیت درج کروائی اور۱۱۹ نشستوں والی ریاستی اسمبلی میں اکثریت بھی حاصل کرلی جبکہ کانگریس ۲۱، تیلگودیشم پارٹی ۱۵، ایم آئی ایم ۷ (مسلم)اور بی جے پی صرف ۵ سیٹوں پر سمت گئی۔ ۶۶ سیٹیں جیتنے والی ٹی آر ایس صرف ایک ہی مسلم نمائیندہ شکیل احمد کو حلقہ بودھن سے جیت دلواسکی۔ اسطرح نو منتخبہ تلنگانہ اسمبلی میں مسلم ارکانِ اسمبلی کی تعداد کل ۸ سیٹوں تک ہی محدودرہی۔
اب چونکہ ٹی آر ایس تلنگانہ اسمبلی میں اکثریت حاصل کرچکی تھی تو ایک عام گمان کے مطابق کے سی آر کو ہی وزیر اعلی کی کرسی پر فائز ہونا تھا تووہ وزیر اعلی کے عہدے کے لیے منتخب کرلیے گئے اور اسطرح ۲؍ جون ۲۰۱۴کو بطور ملک کی ۲۹ ویں ریاست تلنگانہ کا قیام عمل میں آگیا۔ وزیر اعلی کے سی راؤنے تلنگانہ کی عوام کو اس وقت حیرت زدہ کردیا جب انہوں نے بحیثیت وزیر اعلی حلف بردار ہونے کے فوراً بعد جناب محمد محمود علی کو بطور نائب وزیر اعلی حلف دلوایا۔ ان کے اس عمل سے ریاست بھر کی مسلم عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ وزیر اعلی کے سی راؤ کی شان میں قصیدے پڑھے جانے لگے۔ اْردو اخبارات نے اپنے صفحہ اوّل پر بڑی بڑی سرخیاں لگائیں۔ وزیر اعلی کے سی راؤ کی جانب سے کرکٹ مقابلہ شروع ہوتے ہی پہلے ہی بال پر لگایا ہوا یہ پہلا چھکّہ تھا۔ اب اس کے بعد اقلیتوں، کسانوں، غریبوں، تعلیم حاصل کرنے والوں کے لیے فلاحی اور دیہاتوں و شہروں کے لیے ترقیاتی منصوبے بننے لگے حتیٰ کہ یکہ کے بعد دیگرے بے شمار فلاحی و ترقیاتی اسکیمات کے اعلانات کا سلسلہ شروع ہوگیا اور ان ہی اسکیمات کے اعلانات کے مدِّ نظر شرح ترقی% 21.66 کے ساتھ ملک کی سب سے تیز ترقی یافتہ ریاستوں میں تلنگانہ کا شمار بھی ہونے لگا۔ وزیر اعلی کے سی راؤ کی مقبولیت کا طوطیٰ ہر عام و خاص کے سر چڑھ کر بولنے لگاتھا۔ ملک کی دوسری ریاستوں کو ترغیباً تلنگانہ کی مثالیں پیش کی جانے لگی تھیں کچھ اس مقبولیت کے اثر سے تو کچھ اقتدار کی ہوس نے تلگو دیسم پارٹی سے منتخب شدہ ۱۵ میں سے ۱۲ ارکانِ اسمبلی کو اپنی پارٹی سے بغاوت پر اْکسایا اور مارچ ۲۰۱۶ کو یہ ۱۲ ارکانِ اسمبلی قانونی طور پر ٹی آر ایس کا حصہ بن گئے۔ اب کانگریس کے ارکانِ اسمبلی پر بھی اس کا اثر پڑااور اپریل ۲۰۱۶ کو کانگریس کے جملہ ۷ ارکانِ اسمبلی نے کانگریس پارٹی چھوڑ دی اور ٹی آر ایس میں شامل ہوگئے۔ اسطرح۶۶ سیٹیں رکھنے والی ٹی آر ایس اب ۹۰ارکانِ اسمبلی کے ساتھ ایوان پر حاوی تھی اس تعداد نے جہاں وزیر اعلی کے سی راؤ کو مزید اعتماد و استحکام بخشا وہیں احساس برتری میں بھی مبتلا ء کردیا۔ مارچ۲۰۱۶ تک فلاحی و ترقیاتی اسکیمات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا جنون رکھنے والے عاجزانہ مزاج کے مالک وزیر اعلی کے سی راؤ نے اب عامرانہ روّیہ اختیار کرلیا تھا اس کا راست اثراعلان شدہ اسکیمات پر بھی پڑا۔ نائب وزیر اعلی محمد محمود علی کی حیثیت اب نمائش کی حد تک ہی محدود رہ گئی۔
حکومت کی جانب سے آبپاشی نظام کی ترقی و ترویج کے لیے شروع کی گئیں اسکیمات کے خلاف ۲۰۰ سے زائد مقدمے عدالتوں میں پہنچ گئے۔ ہر گھر کو پینے کا پانی فراہم کرنے وزراعت کے لیے ۲۴ گھنٹے برقی سربراہی اسکیم پر بھی ٹھیک سے عمل ہو نہیں پایا تو دوسری جانب غریبوں کے لیے گھروں کی اسکیم بھی کہیں سست روی کا شکار تو کہیں کھٹائی میں پڑگئی۔ مختصراً یہ کہ وزیر اعلی کے سی راؤ کے اکثر وعدے، اعلانات و اسکیمات پائے تکمیل تک پہنچ نہیں پائے۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب ریاستی بجٹ کا ۴۵ فیصد حصّہ فلاحی و ترقیاتی کاموں پر خرچ کرنے کا دعویٰ کرنے والی کے سی راؤ حکومت اپنے ۴ سالہ دورِ اقتدار میں کچھ اہم اسکیمات کو ترجیح دیتے ہوئے مکمل کیوں نہیں کرپائی ؟ اس راز کا نمایہ اختصار یہ ہے کہ اس وقت تلنگانہ قرض میں ڈوب چکا ہے گذشتہ چار سالہ دور اقتدار میں کے سی راؤ حکومت نے کم و بیش ۱ لاکھ ۳۰ ہزار کروڑ روپیہ قرض حاصل کیا جس وقت تلنگانہ وجود میں آیا تھا اس وقت تلنگانہ پر ۷۰ ہزار کروڑ روپیہ قرض پہلے سے ہی موجود تھا۔ اسطرح آج تلنگانہ تقریباً ۲ لاکھ کروڑ روپیہ قرض میں ڈوبا ہوا ہے جسکا سالانہ سود ۱۱ ہزار کروڑ روپیہ ہوتا ہے۔ غیر منصوبہ بند اسکیمات کی بھرمار غیر ضروری اخراجات اس قرض کی اہم وجہہ بتائی جاتی ہیں۔ اقتصادیات کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تلنگانہ آج Debt Trap کی صورت حال سے گذر رہا ہے یعنی اس ریاست کا بال بال قرض میں ڈوبا ہوا ہے یہاں تک کہ ہر نومولود بچے پر بھی ۴۰ ہزار روپیے کا قرض پہلے سے ہی موجود ہے۔
فطرتاً ناگہانی موقف کے پروردہ و اٹکل پچھو طریقے سے کام کرنے کے عادی وزیر اعلی کے سی راؤ نے سیاسی گلیاروں میں اس وقت ہلچل مچادی جب انہوں نے تلنگانہ اسمبلی کی معیاد جو کہ مئی ۲۰۱۹ کومکمل ہونی تھی اس اسمبلی کو ۹ ماہ قبل ہی تحلیل کردیا۔ ان کے اس فیصلے نے جہاں الیکشن کمشنر آف انڈیا کی مشکلیں بڑھادیں وہیں مرکز میں انکی حمایت کردہ بی جے پی حکومت کو حیرانی میں مبتلاء کردیا۔ بی جے پی صدر امیت شاہ نے کے سی راؤ کے اس فیصلے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایک ملک ایک الیکشن کی تائید کرنے والے، لوک سبھا اور ملک کی تمام ریاستی اسمبلوں کے انتخا بات ایک ساتھ کروائے جانے کی حمایت و وکالت کرنے والے تلنگانہ کے وزیر اعلی کے سی راؤ کی اس حرکت سے اب ایک چھوٹی سی ریاست پر ۲ انتخابات کا بوجھ پڑیگا۔ انہوں نے مزید یہ بھی واضح کردیا کہ بی جے پی آئندہ تلنگانہ راشٹریہ سمیتی سے کسی بھی طرح کا کوئی بھی انتخابی معاہدہ نہیں کرے گی۔ ۔ ؟ بی جے پی اپنے بل بوتے پر تلنگانہ کی تمام ۱۱۹ سیٹوں پر الیکشن لڑے گی۔ انہوں نے کے سی راؤ پر الزام لگایا کہ وہ ایم آئی ایم کی ہدایات پر کام کرتے ہیں۔ تلنگانہ میں مسلم ریزرویشن پر بھی امیت شاہ نے طعن و تشنیع کی یہاں تک کہ ۷۰ سال قبل اختتام پذیر رضاء کار مومنٹ سے بھی نئی نسل کو آگاہ کروادیا۔ انکا منشاء صرف اتنا تھا کہ تلنگانہ کے کمزور بی جے پی ورکرس کو کس طرح ورغلایا جائے، انکے ذہنوں میں حقیقت سے کوسوں دور وسوسوں کو کس طرح جگایا جائے۔ یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ تلنگانہ اسمبلی ۶ ستمبر۲۰۱۸ کو تحلیل کردی جاتی ہے اور امیت شاہ فوراً ۱۵ ستمبر ۲۰۱۸ کو حیدر آباد پہنچ کر مرکز میں انکے ہم نوا کے سی راؤ پر کڑی تنقید کرتے ہیں اورکے سی راؤ کسی بھی قسم کا احتجاج نہیں کرتے اس کا مطلب یہ نکلتاہے کہ قبل از وقت تلنگانہ اسمبلی کوتحلیل کردینا پہلے سے ہی طے شدہ پروگرام کا حصہ تھا۔ ہو سکتا ہے امیت شاہ نے کے سی راؤ کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھایا ہواور انہیں Debt Trap سے باہر نکالنے کا وعدہ کرتے ہوئے Amit Trap میں پھنسا لیا ہواور قبل از وقت اسمبلی کوتحلیل کرنے کی سازش کا حصہ بنا لیا ہو تاکہ دونوں پارٹیاں خفیہ دوست بن کر الگ الگ الیکشن لڑیں، بی جے پی کٹر ہندو ووٹوں کو مسلمانوں اور کے سی راؤ کے خلاف تقریریں کرتے ہوئے لبھائے جبکہ وزیر اعلی کے سی راؤ اپنی مسلم دوستی و مسلم ہمدردی کا واسطہ دے کر مسلم ووٹ بٹوریں اور بعد از الیکشن بی جے پی اور تلنگانہ راشٹریہ سمیتی اپنا گٹھ بندھن بناتے ہوئے مشترکہ طور پر حکومت سازی کا دعویٰ پیش کردیں۔
ان ہی حقائق کی بنیاد پر حیدر آباد کے دانشور حلقوں میں اس با ت کے تذکرے ہیں کہ اس وقت ٹی آر ایس کا ساتھ دینا بی جے پی کومزید مستحکم کرنا ہے۔
ہاتھ آنکھوں پہ رکھ لینے سے خطرہ نہیں جاتا
دیوار سے بھونچال کو روکا نہیں جاتا

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔