عاشقان مصطفیٰ
یاسرعرفات طلبگار
عاشقان مصطفیٰ ہیں مست نعروں میں فقط
جانتے لیکن نہیں ہیں کیا صحیح ہے کیا غلط
…
جب اذاں ہوتی ہے مسجد میں وہاں جاتے نہیں
فیض معبود حقیقی سے کبھی پاتے نہیں
…
ترک کرتے ہیں نمازیں عشق کے یہ مدعی
پھر بھی ان کو ہے نبیؐ سے جان و دل سے عاشقی
…
ہے نمازِ امتی راحت نبیِ کے واسطے
پر نبیۖ سے مختلف ہیں امتی کے راستے
…
سود کا تاجر بھی کہتا ہے "چلے گا کیا یہاں”
خود اڑاتا ہے نظامِ مصطفیٰ کی دھجیاں
…
سر پہ کلمہ باندھ کر دیتا ہے نعرے کو بہ کو
دل شہادت ہی نہیں دیتا زباں کی ہو بہو
…
نعرہ تکبیر پڑھ کر دین کامل ہوگیا
اور جنت کے لئے پروانہ حاصل ہوگیا
…
ہے عجب رسم عقیدت، ہے عجب یہ عاشقی
خود منایا کب نبیۖ نے جشنِ میلاد نبیۖ؟
…
شہرِ طائف میں تھی بن آئی نبیؐ کی جان پر
جشن ہوتے ہیں ہمارے آج دسترخوان پر
…
وہ ہمیشہ دین کی دعوت میں رہتے تھے مگن
اور ہم دعوت اڑاتے ہیں لگا کر جان و تن
…
جسمِ حمزہ کی بنائیں دشمنوں نے بوٹیاں
اور ہم کھاتے ہیں مل کر آج بیٹھے بوٹیاں
…
جان و دل سے سب صحابہ مصطفٰی پر تھے فدا
وہ تھے سب راضی خدا سے اور ان سے ہے خدا
…
وہ چراغِ مصطفیٰ پر تھے فدا پروانہ وار
چاہتے تھے مصطفیٰ کو دل سے وہ دیوانہ وار
…
ہے ابوبکر و عمر عشقِ محمدۖ کی دلیل
ہے اطاعت مصطفیٰ کی کامیابی کی سبیل
…
ہیں فقط یاسر زبانی عشق کے دعوے سبھی
عشق کا قائل ہمارا دل نہ ہو پایا کبھی
تبصرے بند ہیں۔