مبصر: ڈاکٹر امتیاز عبدالقادر
”تین بڑے صوفیاء(امام غزالیؒ، عمر ابن الفارضؒ؛ محی الدین ابن عربیؒ)“ڈاکٹر غلام قادر لون کی تازہ تصنیف ہے۔علم و تحقیق کا میدان ہو یا فلسفہ و تصوف کی پْرپیچ راہ؛ ڈاکٹر غلام قادر لون اس شاہراہ کے شہ سوار ہیں۔پاک و ہند کا علمی طبقہ لون صاحب کے علمی تبحّرکا معترف ہے۔جس موضوع پر خامہ فرسائی کرتے ہیں حق ادا کردیتے ہیں۔تحقیق و تنقید میں وہ ثقہ تصور کیے جاتے ہیں۔
زیر تبصرہ کتابچہ میں تین صوفی بزرگوں پر مشتمل مضامین کو شامل کیا گیا ہے۔پہلا مضمون امام غزالیؒ پر ہے جوکہ طویل مضمون ہے۔دوسری تحریر عمر ابن الفارضؒ پر ہے جوکہ مختصر ہی رقم کیا گیا ہے اور تیسرا مضمون محی الدین ابن عربیؒ پر ہے جوکہ مضمون نہیں بلکہ ان کی فکر پر دو صفحات پر نامکمل خلاصہ لگتا ہے۔
کتابچہ میں مزکورہ تین صوفیاء کے افکار و نظریات کا محاکمہ کیا گیا ہے۔انسان ہر زماں تزکیہ و تطہیر نفس کا متلاشی رہا ہے۔نیکی و بدی کی جنگ؛ مادہ و روح کی کشمکش طبعًا نفسِ انسانی میں پنہاں ہے۔اللہ نے تسویہ نفس؛ تطہیر فکر و قلب کے لئے گاہے گاہے انبیاء بھیجے اور ان کی رہنمائی کے لئے اور مخاطب قوم کی ہدایت کے لئے کتابیں بھی نازل کیں۔بْعد زمانہ نے طرح طرح کے فتنوں کو جنم دیا۔دین و دنیا کی دوئی؛ ہدایت ربی سے لاتعلقی؛ رسول کی سنت کی غلط تعبیر نے گزشتہ و موجودہ "امت مسلمہ” کو ایک ایسی راہ پر لاکھڑا کیا جس نے اْن کے اندر مبالغہ و تشدد نے جنم دیااور المیہ یہ ہے کہ یہ سب دین کے "لبادے” میں ہی پیش کیا گیا اور دین کی اصل کے طور پر متعارف کرایا گیا۔عیسٰی علیہ السلام کی امت میں رہبانیت کے لبادے میں اور رسول اللہ ﷺکی امت میں "تصوف” کے لباس میں۔۔۔
قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ نصاریٰ فلاح آخرت اور رضائے الٰہی کے حصول کے لئے اللہ اور اس کے رسول مسیح علیہ السلام کے سکھائے ہوئے اعمال و عبادات کو ناکافی سمجھ کر ان کی مقدار میں اضافہ اور ادائیگی میں مبالغہ کرکے ہلاک اور گمراہ ہوئے۔بعینہ رسالت مآب صلعم کے صدیوں بعد اس امت کے اکابرین نے بھی تزکیہ نفس و تطہیر قلب و نظر کے لئے ایسا منہج وضع کیا جو قرآن و سنت کے بیّن احکامات سے بالکل متوازی ہے۔ حالانکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مقدس گروہ جب کبھی فلاح آخرت و قربِ الٰہی کے حصول کے جزبے سے سرشار ہوکر کبھی نفلی عبادات کی ادائیگی میں حضور صلعم کی سنت کی اتباع سے انحراف اور اضافے کا وقتی اور عارضی طورپر مرتکب ہوجاتا تھا،تو ایسے موقعوں پر شارع علیہ السلام نے کبھی پیار و محبت سے اور کبھی سختی سے تنبہ کیا اور عبادات کی مقدار میں اضافہ اور سنت کی اتباع سے انحراف کے خطرناک نتائج و عواقب سے نہ صرف خبردار کیا بلکہ حکمًا منع بھی فرمایا۔دورِ نبوت میں ایسی ایک مثال بھی پیش نہیں کی جاسکتی کہ حضور ﷺ نے نفلی عبادات کی ادائیگی میں اپنی سنت پر صحابہ ؓ کے اضافے اور غلو و تشدد کے نئے طریقے کو برداشت کیا ہو اور بروقت ان کو اس سے منع نہ کیا ہو؛ جس پر قرآن و حدیث شاہد ہیں۔
زیر تبصرہ کتابچہ میں اس انحراف و اعمال میں تشدد کی طرف اشارہ ملتا ہے۔کتاب میں مصنف نے نقد و تبصرے سے اجتناب کرتے ہوئے،کوشش کی ہے کہ موضوع کے حوالے سے بنیادی ماخذات سے ہی استدلال پیش کرکے؛ ان بزرگوں کی فکر و نظر کو قاری کے سامنے پیش کیا جائے. ڈاکٹر غلام قادر لون صاحب نظریہ تصوف کے بارے میں لکھتے ہیں:
"یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ مقبولیت کے باوجود تصوف کی حیثیت ہر عہد میں متنازعہ رہی ہے۔علماء اسلام کا ایک طبقہ جہاں تصوف کو اسلام کی روح اور مغز سے تعبیر کرتا ہے؛ وہیں دوسرا اسے غیر اسلامی رہبانیت قرار دے کر مسترد کردیتا ہے.” (مطالعہ تصوف؛قرآن و سنت کی روشنی میں)
امام غزالیؒ جیسی بلند پایہ علمی و فکری شخصیت کے ہاں بھی تسامح پایا جاتا ہے جس کا احاطہ مصنف نے ان کے اقوال و کتابوں کے حوالے سے ضبطِ تحریر لایاہے۔ امام غزالی ؒکی ابتدائی زندگی کے احوال اور و افکار بیان کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
”دمشق میں ان کا قیام دس سال رہا۔ اس دوران انہوں نے ” احیاء العلوم” لکھی۔۔۔۔ ان دس برسوں کے دوران وہ قبرستانوں؛ مسجدوں اور مشہدوں میں گھوم گھوم کر ریاضت و مجاہدہ کے مرحلے طے کررہے تھے۔بغداد لوٹے تو اہل حقیقت کا طرز کلام اپنایا۔احیاء العلوم کی وجہ سے بعض حلقوں میں کھلبلی مچ گئی۔مخالفین کی طرف سے طعن و تشنیع کی بوچھار ہوئی۔“ (ص ۰۱)
امام غزالی کے ہاں جو تصوف کی چنگاری سلگی؛ اس کے متعلق ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ فلسفہ کی کتابوں کے مطالعہ کا خمیازہ ہے کہ جنہوں نے امام موصوف کو فائدہ سے زیادہ نقصان ہی پہنچایا۔ابن رْشد؛ ابن ولید طرطوشی اور ابن قیم نے ان کے افکار و نظریات کو کم مایہ اور سطحی بتایا ہے. (ص ۱۱)
مصنف کے بقول امام غزالی نے فلسفہ؛ منطق؛ فقہ اور اخلاق و تصوف جیسے موضوعات پر قلم اٹھایا ہے البتہ جس علم کو انہوں نے اپنا حاصل زیست سمجھا وہ ‘تصوف’ ہے؛ لکھتے ہیں:
”تصوف کی ترویج و اشاعت سے ان کو خاص دلچسپی تھی۔ اس سے قبل تصوف پر کئی ایک کتابیں لکھی جاچکی تھیں۔۔۔لیکن عوام تو کیا خواص بھی ابھی تک اس علم کو محتاط نگاہوں سے دیکھتے تھے۔علماء شریعت نے تصوف کو دل سے قبول نہیں کیا تھا۔امام موصوف کا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے کہ انہوں نے علماء شریعت اور اہل باطن کے درمیان وسیع خلیج کو پاٹنے کی کوشش کی اور اس میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔“(ص ۲۱)
امام غزالی نے تصوف کو ” علم مکاشفہ” سے تعبیر کیا ہے؛مصنف ان کا حوالہ دیتے ہوئے رقمطراز ہیں:
”اس راہ کے سالک کو مشاہدات و مکاشفات حاصل ہوتے ہیں۔یہاں تک کہ انہیں بیداری کی حالت میں ملائکہ اور انبیاء کی ارواح کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ان سے آوازیں سنتے ہیں اور فائدے حاصل کرتے ہیں۔اس کے بعد صورتوں اور مثالوں کے مشاہدہ سے ترقی کرکے اس مقام تک پہنچ جاتے ہیں جس کے بیان سے زبان قاصر ہے۔“(ص ۳۱)
یہ تصور سراسر مزاج دین کے خلاف ہے۔دنیا امتحان کے اصول پر تخلیق کی گئی۔یہاں کچھ حقائق پر پردہ رکھا گیا جو کہ کل روزقیامت ہی اللہ کے اذن سے چاک ہوگا۔اللہ؛ انبیاء و ملائکہ کا دیدار ہو یا بعد از مرگ کے احوال؛ یہ سب اس دنیا میں انسان کے لئے غیب کے پردہ میں رکھے گئے ہیں اور امتحان کے لئے یہی اصول موزوں بھی ہے۔ان چیزوں کے درپے رہنا اور مزعومہ مکاشفہ کا”اسکول“کھول کے لوگوں کو اس بھول بھلیاں میں دھکیلنا؛ قرآن کے تصور دین سے یکسر مختلف ہے۔
امام غزالی نے علم باطن کو علم ظاہر پر فوقیت دی ہے اور اس کی تحصیل کو فرض عین قرار دیا۔ان کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے ڈاکٹر لون صاحب لکھتے ہیں:
”ترک دنیا؛ زہد و ورع؛ صبر و رضا اور فقر و توکل کے متعلق امام غزالی ؒکی آراء اپنے پیش رو صوفیا سے مختلف نہیں ہیں۔۔۔امام موصوف اپنے زمانہ کی شکایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے زمانے میں عزلت نشینی کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں رہا ہے۔“(ص۴۱)
امام غزالی کے صوفیانہ افکار کو مصنف نے من وعن ان کی کتب سے اخذ کرکے شامل مضمون کیا ہے جیسے کہ:
”امام موصوف نے کسبِ معاش کو اگرچہ توکل کے منافی قرار نہیں دیا ہے تاہم ان کی رائے ہے کہ توکل کا اعلیٰ مقام یہ ہے کہ بندہ اپنی حرکات و سکنات میں اللہ تعالی کے سامنے ایسا ہوجائے جس طرح مردہ انسان غسّال کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔“(ص ۷۱)
ایک تصورِ توکل وہ ہے جس کی تلقین قرآن و سنت میں ملتی ہے اور قرنِ اول کی مقدس ہستیوں رضی اللہ عنہم نے جسے سمجھا اور عملاً برتا؛ دوسرا تصورِ توکل وہ ہے جسے صوفی بزرگوں نے مشروع کیا جس میں قرآن و سنت سے بالکل انحراف پایا جاتا ہے. امام موصوف نے بھی متوکلین کی درجہ بندی کی ہے جس کا ذکر زیر تبصرہ کتابچہ میں موجود ہے۔
وحدت الوجود جس پر کہ ابن عربی کو بعد میں مطعون کیا گیا؛ امام غزالی کے ہاں بھی یہ متنازعہ نظریہ ملتا ہے۔امام موصوف توحید کی چار قسموں کے قائل تھے۔ ان میں سے چوتھی قسم ان کے ہاں اعلیٰ ترین قسم شمار کی جاتی ہے جسے وہ ” فنا فی التوحید "کہتے ہیں۔ اس قسم کی توضیح کرتے ہوئے امام غزالی کہتے ہیں کہ آدمی توحید میں اتنا مستغرق ہوجائے کہ اسے وجود ِواحد کے سوا کچھ نہ دکھائی دے؛ وہ اپنے نفس اور مخلوق دونوں سے غافل ہوجاتا ہے۔(ص ۲۲)
امام غزالیؒ کی تصنیفات میں سب سے زیادہ مقبولیت” احیاء العلوم” کو ملی۔ اس کی متعدد شرحیں لکھی گئیں۔بقول مصنف اسی کتاب کی وجہ سے امام موصوف اپنی وفات سے لے کر آج تک مسلمانوں کے دل و دماغ پر چھائے ہوئے ہیں۔علماء کے ایک گروہ نے اس کتاب کی تعریف میں مبالغہ سے کام لیا حالانکہ اس کتاب میں موضوع احادیث کی بھرمار ہے۔ابن رشد کا حوالہ دیتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں:
”اس امت کے لئے جو بہترین دوا تجویز ہوئی تھی اسے سب سے پہلے خوارج نے؛ اس کے بعدمعتزلہ نے؛ پھر اشعریوں نے؛ اس کے بعد صوفیاء نے بدل دیا۔آخر میں ابو حامد(غزالی) نے تو تابوت میں آخری کیل بھی ٹھونک دیا۔“(ص ۴۲)
امام غزالی کی کتابوں میں احادیث؛ آثار و واقعات؛ قصے کہانیوں کو بے احتیاطی سے رقم کرنے کے نتیجے میں قاضی عیاض کی ایماء پر اسپین میں ۰۰۵ھ میں مریہ کے مقام پر نزر آتش کی گئیں تھیں۔(ص ۵۲)
امام غزالی کے معاصر ناقدین کی اکثریت علماء شریعت تھے جنہوں نے ان کے افکار و نظریات کو آڑے ہاتھوں لیا جس کا مختصر خاکہ زیر تبصرہ کتاب میں موجود ہے؛لکھتے ہیں:
”امام غزالی کا پیش کردہ تصوف اسی رہبانیت پر مبنی ہے؛ جسے ابتدائی دور کے مسلمانوں نے کبھی مستحسن نہیں سمجھا. البتہ ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے تصوف کو شریعت کا لباس پہنایاہے اور اسے اس خوبصورت انداز میں عوام کے سامنے لایے کہ لوگ عش عش کر اٹھے اور حقیقت کی پردہ پوشی کا الزام لگانے کے بجائے انہیں ” حجۃ الاسلام” کا لقب عطا کیا۔ہم عصر علماء نے ان کے اس رویہ پر احتجاج کیا لیکن تصوف کی اثر آفرینی اور پھر امام غزالیؒ کے ساحرانہ انداز نے ان کی آواز دبادی۔“(ص ۰۳)
امام غزالی کے نظریہ تصوف کے منفی اثرات کا تجزیہ کرنے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر لون صاحب نے ان کی کچھ خوبیوں کا کا بھی کتابچہ میں تذکرہ کیا ہے۔
دوسرا مضمون قاہرہ کے صوفی بزرگ عمر ابن الفارضؒ (۶۷۵ھ-۲۳۶ھ) پر ہے۔ابن الفارض نے عربی شاعری کے ذریعے اپنے افکار کو ترویج دی۔عربی ادب میں ان کے پایے کا صوفی شاعر مشکل ہی سے ہی ملتا ہے. متموِّل گھرانے سے تعلق کے باوصف موصوف تعیش پسندانہ زندگی سے اعراض ہی برتتے رہے اور معاشرے سے کنارہ کش ہوکے پہاڑوں؛ کوہستانی سلسلوں میں تنہا وقت گزارتے تھے؛ مصنف ان کے بارے میں لکھتے ہیں:
"وہ سادگی پسند اور قناعت خو تھے۔وہ انسانی آبادی سے کنارہ کش ہوکر والد کی اجازت سے قاہرہ کے مشرق میں واقع کوہ مقطم پر چلے جاتے تھے اور دن رات قیام کرتے تھے۔۔۔اور جب والد کا انتقال ہوا تو ابن الفارض پوری مستعدی کے ساتھ عرفان و آگہی کی راہ پر گامزن ہوئے۔“(ص ۱۴)
ان کی عبادت و ریاضت کا حال بیان کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں:
”وہ چالیس چالیس روز تک روزہ رکھتے اور رات کو شب بیداری کرتے۔ایک مرتبہ انہوں نے پچاس دن تک مسلسل روزہ رکھا۔یہ سب مجاہدات تادیب نفس کے لئے ہوتے تھے۔” (ص ۲۴)
شیخ ابن الفارض ؒکا شاعری کا ایک دیوان ہے۔بقول مصنف صوفیانہ پہلو سے دیوان میں دو قصیدے بعنوان "نظم السلوک” اور” قصیدہ خمریہ” بہت اہم گردانے جاتے ہیں۔قصیدہ سے ماخوذ چند اشعار کو لون صاحب نے کتاب کی زینت بنایا ہے جس سے ابن الفارض کے افکار واضح ہوتے ہیں؛ لکھتے ہیں:
"حبِ الہٰی کے صوفیانہ تصور کے سب سے بڑے ترجمان عربی زبان میں ابن الفارض ہیں۔وہ جب اپنی ذات کو محبوب میں فنا کردیتے ہیں تو دوئی کے تمام پردے ہٹ جاتے ہیں۔یہ وہ مقام ہے جہاں عاشق و معشوق؛ محبّ و محبوب ایک ہوجاتے ہیں۔زمان و مکان کے حدود یکسر ختم ہوجاتے ہیں۔اس وقت عاشق پر یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ وہ جس سے محبت کرتا تھا وہ اس کی اپنی ذات ہے؛ کیونکہ عاشق کی اپنی انفرادیت ختم ہوجاتی ہے۔“(ص ۶۴)
اپنے ان افکار کی وجہ سے ابن الفارض اہل علم طبقے میں موضوع بحث رہے ہیں۔کچھ علماء نے ان پر سخت گرفت کی۔علامہ ابن تیمیہؒ؛ حافظ ابن کثیرؒ؛ حافظ ذہبیؒ؛ علامہ سراج الدین بلقینیؒ جیسے جلیل القدر علماء نے بھی ابن الفارض کو آڑے ہاتھوں لیا ہے جس کی طرف مصنف نے اپنے مضمون میں اشارہ کیا ہے؛لکھتے ہیں:
”ان شواہد کی بنا پر بقاعی کے زمانہ (۵۷۸ھ)تک چالیس چوٹی کے علماء نے ابن الفارض کو زندقہ سے منسوب کیا۔گویا ان کے ناقدوں کے الفاظ میں ان کی تکفیر تواتر سے ثابت ہے۔“(ص ۳۵)
اس کے بعد مصنف نے ان چالیس علماء کی فہرست بھی دی ہے جوکہ مختلف مسالک سے تعلق رکھتے تھے۔
مصنف نے ابن تیمیہ کا یہ قول بھی درج کیا ہے کہ ابن الفارض خود کو خدا سمجھتے تھے البتہ جب فرشتے روح قبض کرنے کے لیے آئے تو ان پر حقیقت کھل گئی اور اپنے خیالات و افکار باطل معلوم ہوئے۔(ص ۵۵)
یہ دعویٰ بعیداز فہم ہے۔آخر ایسا کونسا پیمانہ ہے جس سے اندازہ ہوسکے کہ ایک شخص جوکہ جان کنی کے عالم میں مبتلا ہو؛ روح پرواز کررہی ہو؛عین اس کیفیت میں وہ اپنے افکار و نظریات سے تائب ہوکر صحیح راہ کا انتخاب کررہاہے اوراس رجوع پرعین سکرات موت کے وقت لوگوں کومطلع بھی کررہا ہے؟
کتابچہ میں نہایت ہی مختصر مضمون محی الدین ابن عربی ؒپر بھی ہے۔ابن عربی (۰۶۵ھ-۸۳۶ھ) اندلس میں تولد ہوئے۔ ان کے افکار کی دنیا؛ صوفی بزرگوں میں سب سے زیادہ وسیع ہیں۔”وحدت الوجود“موصوف کے فکر کا اصل محور ہے۔اس نظریہ کے ردعمل میں ہر زماں ابن عربی کے متعلق خوش فہمیاں و غلط فہمیاں پنپتی رہی۔ "وحدت الوجود ” کیا ہے؟ اس بارے میں مصنف ابن عربی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
”خود ابن عربی نے وحدت الوجود کا تعارف اجمالی طور پر ان لفظوں میں بیان کردیا ہے:” سبحانَ مَن اَظہَرَ الاَشیاء وَھْوَ عینھا” (پاک ہے وہ ذات جس نے تمام چیزوں کو پیدا کیا اور جو خود ان کا جوہرِ اصلی ہے)
انہوں نے بار بار اپنی اس فکر کو واضح کردیا ہے کہ وجود اصل میں ایک ہے اور یہ عالم اس وجودِ حقیقی کا ایک ظل ہے۔۔۔بہ الفاظ دیگر یہ کائنات اللہ تعالیٰ کا ظِل ہے لہٰذاجو کچھ ہم دیکھتے ہیں؛ وہ اعیان ممکنات میں وجودِ حق کے سوا کچھ نہیں ہے۔” (ص ۰۶)
یہ سوچ اور فکر کس قدر گمراہ کن ہے؛ اس کا اندازہ قرآن و سنت کا علم رکھنے والے اہل علم خود لگاسکتے ہیں۔ ابن عربی کے اس تخیل کا سیدھا سادھا مطلب یہ ہے کہ خالق و مخلوق ایک دوسرے سے غیر نہیں ہیں بلکہ مخلوق ہی عین خالق ہے۔ان میں کوئی دوئی نہیں۔یہی وجہ ہے کہ بت پرستی یا مظاہر پرستی ان کے ہاں معیوب نہیں ہے بلکہ وہ بھی عین اللہ کی عبادت ہے؛ مصنف ان کی فکر و نظر کا احاطہ یوں کرتے ہیں:
”موسیٰ علیہ السلام کی قوم کی گوسالہ پرستی درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی کی پرستش تھی۔ابن عربی کے نزدیک فرعون کا حضرت موسیٰ سے یہ سوال کرنا” ما رب العالمین ” ان کی جہالت پر مبنی نہ تھا بلکہ وہ اس سے بھی واقف تھا کہ موسیٰ کیا جواب دیں گے۔ابن عربی کے بقول فرعون” انا ربکم الاعلٰی” کا دعویٰ کرنے میں حق بجانب تھا۔اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ اگرچہ شانِ ربوبیت کچھ نہ کچھ ہر ایک میں موجود ہے لیکن مجھے تم پر ظاہری حکومت بھی ملی ہے۔“ (ص ۱۶)
ان افکار کی بنا پر ابن عربی کو ابن تیمیہ؛ ابن قیم اور برہان بقاعی نے بے دین قرار دیا تھا۔
قرآن نے جو دین ہمیں دیا ہے، اْس کے بارے میں یہ بات بھی پوری وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے وہ پایے تکمیل تک پہنچ گیا ہے، اور اْس میں اب کسی اضافے یا کمی کے لیے کوئی گنجایش نہیں رہی۔ پھر یہی نہیں، قرآن نے یہ بھی بتایا ہے کہ اِس اکمال دین کی صورت میں اتمامِ نعمت بھی ہوا ہے، لہٰذا عوام و خواص کے وہ سب مراتب جو دین میں مطلوب ہیں، اْن کے لیے ساری ہدایت اْسی میں ہے، اْس سے باہر کسی کے لیے کوئی ہدایت نہیں ہے۔قرآن کی رُو سے نبوت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو گئی ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ اب نہ کسی کے لیے وحی اور مشاہدۂ غیب کا کوئی امکان ہے اور نہ اِس بنا پر کوئی عصمت و حفاظت اب کسی کو حاصل ہو سکتی ہے۔ ختم نبوت کے یہ معنی خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بالصراحت بیان فرمائے ہیں؛ آپﷺ کا ارشاد ہے:
”نبوت میں سے صرف مبشرات باقی رہ گئے ہیں۔ لوگوں نے پوچھا: یہ مبشرات کیا ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا خواب۔“(بخاری)
ڈاکٹر غلام قادر لون صاحب کی یہ کاوش قابل تعریف ہے۔دین کا صحیح فہم لوگوں تک پہنچانااہل علم پر فرض ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے مضامین کی زیادہ سے زیادہ تشہیر ہو۔کتابچہ میں کئی عربی اشعار و اقوال ترجمہ کے بغیر ہیں؛ عام قاری کے لئے اس کا ترجمہ لازمی تھا۔ امید کہ جب یہ باضابطہ کتاب کی صورت تمام تفصیلات کے ساتھ دوبارہ شائع ہوگی تو اس چیز کا خیال رکھا جائے گا۔مزیدابن عربیؒ کے حوالے سے مذکورہ کتابچہ کادامن تنگ ہے؛تشنگی باقی رہتی ہے۔امیداس کابھی مستقبلِ قریب میں ازالہ ہوگا۔ کتابچہ حوالہ جات سے موثق ہے اور ہر خاص و عام کے لئے سبق آموز۔
القلم پبلکیشنز بارہمولہ نے اسے عمدہ گیٹ اپ میں شائع کیا ہے۔
تبصرے بند ہیں۔