تین طلاق یا تین وشواس گھات
ڈاکٹر سلیم خان
قومی انتخاب کے بعد وزیراعظم نریندر مودی نے پارلیمنٹ کے سنٹرل ہال میں خطاب کے دوران ‘‘سب کا ساتھ سب کا وکاس’’ کے نعرہ میں ‘‘سب کا وشواس‘‘ بڑھا کرکے سب کو چونکا دیا۔ انہوں نے اپنی پارٹی کے نومنتخب ارکان پارلیمنٹ سے کہا کہ وہ محض انہیں ووٹ دینے والوں کیلئے ہی کام کو محدود نہ رکھیں بلکہ تمام افراد کو مستفید کریں۔اس اعلان کو اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کا اعتماد حاصل کرنے اور دل جیتنے کی جانب ایک مثبت اقدام سمجھا گیا کیونکہ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ‘‘اب ملک میں کوئی بھی غیر نہیں، بلکہ سب اپنے ہیں اور سب کا ہمیں دل جیتنا ہے۔ اقلیتوں میں جو خوف و دہشت کا ماحول پیدا کیا گیا ہے اس کو ختم کرنے کی ذمہ داری ہماری ہے۔ ترقی کی دوڑ میں کوئی بھی بھارتی شہری پیچھے نہ رہ جائے اور اس کی فکر ہم سب کوکرنا ہے۔ سب کا ساتھ، سب کا وِکاس اور اب سب کا وشواس جیتنا ہے’’۔ اس اعلان سے ان بھکتوں کو بڑا صدمہ ہوا جنہوں نے مسلمانوں کی دشمنی میں بی جے پی کو کامیاب کیا تھا۔ اس لیے کہ جس طرح حزب اختلاف مسلمانوں کو بی جے پی سے ڈراتا ہے اسی طرح وہ اپنے حامیوں کو مسلمانوں سے ڈراتے ہیں۔ اس تقریر سے بھکتوں کو محسوس ہواکہ مودی جی نے انتخاب جیتنے کے بعدان کے ساتھ وشواس گھات کردیا ہے۔ اپنے بھکتوں کا اعتماد بحال کرنے کی خاطر مودی جی نے پہلے ہی کابینی اجلاس میں طلاق ثلاثہ بل پیش کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اس طرح سے مسلمانوں کا دل توڑ کر بھکتوں کا دل جیت لیا گیا۔ ویسے جو شخص اپنی اہلیہ کی دل شکنی اوراپنے گرو کےاعتماد کو ٹھیس پہنچاچکا ہو وہ مسلمانوں کے ساتھ وشواس گھات نہ کرے یہ کیسے ممکن ہے؟
مودی سرکار کی دوسری اننگز کی ابتداء مسلمان دشمنی سے ہوئی ۔ سترہویں لوک سبھا کے پہلے ہی اجلاس میں تین طلاق قانون پیش کیا گیا۔ ایوانِ زیریں میں وزیر قانون روی شنکر پرساد نے یاد دلایا کہ کچھ ترمیمات کے ساتھ اسے۲۹ دسمبر ۲۰۱۷ کو لوک سبھا میں اسےمنظور کیا جاچکا ہے لیکن ان ترمیمات میں یکمشت تین طلاق دینے کو جرائم کے زمرہ سے نکالا نہیں گیااور ہنوز یہ غیر ضمانتی جرم ہے۔ اس معاملے میں بس اتنی رعایت کی گئی ملزم ضمانت مانگنے کیلئے سماعت سے پہلے بھی مجسٹریٹ سے درخواست کرسکتا ہے تاکہ مجسٹریٹ بیوی کی باتیں سننے کے بعد ضمانت دے سکے۔ قانون کے مطابق معاوضہ کی رقم مجسٹریٹ کے ذریعہ طے کی جائے گی۔ اس قانون کے مطابق مجسٹریٹ اسی وقت ضمانت دے گا جب شوہر بیوی کو معاوضہ دینے پر راضی ہو جائے۔ کسی غیر متعلق کی شکایت پر کیس درج نہیں ہوگا بلکہ متاثرہ بیوی، اس کے قریبی رشتہ دار کی فریاد لازمی ہے ۔ یہ عجیب تماشہ ہے کہ ہندو دھرم میں جہاں طلاق کی سرے سے اجازت ہی نہیں ہے طلاق دینے پر ایک سال کی سزا اور اسلام میں جہاں گنجائش ہے غلط طریقہ سے طلاق دینے پر تین سال کی سزا تجویز کردی گئی۔ لیکن اگر کوئی مودی جی کی مانند طلاق دینے کے بجائے اپنی بیوی کو معلق رکھے تو اس کے لیے کوئی سزا نہیں ہے۔
ان احمقانہ تجاویز پر اعتراض کیا گیا تو وزیر قانون روی شنکر پرساد نے ناراض ہوگئے۔ انہوں نےکہا کہ عوام نے انہیں قانون بنانے کے لیے منتخب کیا ہے اور پارلیمنٹ کا کام قانون بنانا ہےلیکن وہ بھول گئے کہ یہ قانون دستور میں موجود مذہبی آزادی اورپرسنل لا کے خلاف ہے۔ عوام نے انہیں آئین کو پامال کرنے کے لیے منتخب نہیں کیا بلکہ دستور کی پاسداری کا حلف لے کر وہ ایوان میں آئے ہیں۔ روی شنکر پرساد نے کہا کہ تین طلاق بل اس لیے پیش کیا گیا کیونکہ حکومت کو خواتین کے لیے انصاف اور اس کے وقار کا خیال ہے۔ یہ خواتین کی عزت کا سوال ہے۔ خواتین کو مضبوط بنانے کے لیے ہی تین طلاق بل لایا گیا ہے۔ یہ تو مدعی سست اور گواہ چست والا معاملہ ہے۔ جن مسلم خواتین سے ہمدردی جتائی گئی ہے وہ بالعموم اس کو مسترد کرچکی ہیں۔ وزیرقانون کے اس بیان میں ان روشن خیال دانشوروں کےلیے سامان ِعبرت ہے جو ملت کے عائلی مسائل کو باہمی مفاہمت سے حل کرنے کے بجائے حکومت اور عدالت سے رجوع کرتے ہیں۔ اب یہ بات ان کی سمجھ میں آجانی چاہیے کہ یہ رویہ مسائل کو سلجھانے کے بجائے مزید الجھا دیتا ہے۔
بدقسمتی سے وطن عزیز میں بہت سارے ایسے قوانین ہیں جن پر عملدرآمد ناممکن ہے اور ان کی آئے دن مخالفت کے لیے ملک کے عوام مجبور ہیں۔ ایوانِ زیریں میں ۱۸۶ کے مقابلے ۷۴ سے منظور ہونے والا یہ بل اگر ایوان بالا میں بھی منظور ہوجائے تو ان قوانین میں ایک کا اضافہ ہوجائے گا۔ لوک سبھا میں اس بل کی اسدالدین اویسی،اعظم خان اور ششی تھرور نے پرزور مخالفت کی۔ کانگریس نے اس بار اپنے تیز طرار رکن پارلیمان ششی تھرور کو آگے کرنےکا جرأتمندانہ فیصلہ کیا انہوں نے تین طلاق بل کے مسودے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ‘‘میں تین طلاق بل کی حمایت نہیں کرتا کیونکہ یہ بل مسلم خاندانوں کے خلاف ہےاورصرف ایک طبقہ کو دھیان میں رکھ کر لایا جا رہا ہے؟ اس بل سے مسلم خواتین کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔کانگریس کے علاوہ این ڈی اے میں شامل جے ڈی یو پارٹی نے اس بل کی مخالفت کی۔ جے ڈی یو کے رہنما کے سی تیاگی نے کہا کہ جے ڈی یو موجودہ شکل میں تین طلاق بل کی حمایت نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ نازک مسئلہ ہے، لہذا اس میں سبھی فریقوں سے بات کرکے عام اتفاق رائے قائم کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے۔ اتفاق رائے تو دور اس سلسلہ میں این ڈی اے کے اندر بھی کوئی تبادلہ خیال نہیں ہوا۔
طلاق ثلاثہ پرمجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسدالدین اویسی نے بل کی مخالفت میں کہا کہ ’’تین طلاق بل خاتون مخالف ہے’’۔ ان کی اس منطق کا وزیرقانون کے پاس کوئی جواب نہیں ہے کہ اگر سپریم کورٹ کے مطابق تین طلاق سے شادی ختم نہیں ہوتی تو پھر سزا کیونکر دی جائے؟ اویسی اس لڑائی کو بی جے پی کے خیمہ میں لے گئے اور سبری مالا کے تناظر میں سوال کیا کہ مرکزی حکومت کو کیرالا کی بہنوں سے کیوں ہمدردی نہیں ہے؟اس بحث میں سماجوادی پارٹی کےسینئررہنما اعظم خان نے بی جے پی پر حملہ بولتے ہوئے کہا کہ ہمارے یہاں خواتین کومارا یا جلایا نہیں جاتا ہے۔وہ بولے اس معاملے میں سماجوادی پارٹی پرصرف انہیں باتوں کی حمایت کرتی ہے جو قرآن میں درج ہے۔ کسی سیکولر جماعت کا ایسا واضح موقف شاید پہلی بار ایوان میں پیش ہوا ہوگا۔ اعظم خان نے اس مسئلہ کو سیاست سے الگ کرکے پوری طرح مذہبی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے لئے قرآن سے بڑھ کرکچھ بھی نہیں ہے۔ شادی اور طلاق جیسے سبھی معاملات میں قرآن کے واضح احکامات موجود ہیں اورہم ان پرعمل کرتے ہیں۔ لہٰذا کسی کوبھی اس میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔ یہی سب سے مضبوط موقف ہے جس کوعلامہ اقبال اس طرح بیان کیا ہے کہ ؎
تقدیر کے پابند نباتات و جمادا ت
مومن فقط احکام الٰہی کا ہے پابند
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔