شکست فاش کی وجہ کیا ہے؟

وصیل خان

ابھی بہت زیادہ دیر نہیں ہوئی ہے زندہ دل قوموں کیلئے دیر سویر کوئی معنی نہیں رکھتی وہ اپنا راستہ خود بنابھی لیتی ہیں اور منتخب بھی کر لیتی ہیں۔ 2019کا حالیہ پارلیمانی الیکشن چونکادینے والاضرور تھا لیکن اتنا اہم بھی نہیں کہ اس کے بعد کسی متبادل کی تلاش و جستجو بے معنی ہوجائےاور تھک ہار کر بیٹھ رہا جائے خاص طور پر مسلمانوں کیلئے تو اور بھی کوئی مشکل امر نہیں کیونکہ خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی لیکن یہ دیکھنا بہر حال ضروری ہے کہ یہ قوم مخصوص اپنے صحیح منصب و مقصد کی اہل ہے کہ نہیں اس کے اندر اس اختصاص کی اہلیت باقی بھی ہے یا نہیں جواب اگر نہیں میں ہے تو اسے سب سے پہلے اپنے اس اختصاص کو تلاش کرنا ہوگا جسے اس نے ایک عرصہ ہوا  کھو دیا ہے اور ان عوامل کی کھوج نکالنی ہوگی کہ کس طرح وہ اپنی اس گم گشتہ اقدار کو واپس لے آئے جس کی بنیاد پروہ ایک بار پھر دیگر اقوام کے روبرو مستعدی کے ساتھ کھڑی ہوسکے۔سب سے پہلے اسے قرآن سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیئے جہاں اس کے ادنی ٰ و اعلی ٰ ہونے کے فرق کو بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اس تعلق سے قرآن کی متعدد آیا ت رہنمائی کرتی ہیں جن پر عمل کرنے کے بعد صحیح راستے کی نہ صرف تعیین آسان ہوجائے گی بلکہ سربلندی اور سربرآوردگی کے سارے راز اس پر آشکار ہوجائیں گے اس ضمن میں پہلی رہنما آیت یہ ہے وانتم الاعلون ان کنتم مومنین یعنی تمہی سربلند رہوگے اگر تم مومن ہواس کا مطلب بالکل واضح ہے کہ مسلمانوں کی سربلندی ان کے متقی و پرہیز گار ہونےسے مشروط ہے۔تقوی ٰ اور پرہیزگاری جس کا مطالبہ قرآن ہر انسان سےکرتا ہے یہ کوئی سادہ بات نہیں ان دولفظوں میں ساری کائنات مضمر ہے ،مومن وہی ہوسکتا ہے جس کے اندر یہ صفات پوری قوت کے ساتھ موجود ہوں یعنی مومن وہ ہے جو جھوٹ ریاکاری ،بدعنوانی اور جملہ خرافات سے دور ہو،جس پر لوگ اعتماد کریں ،بھروسہ کریں اور اس کے تعلق سے یہ کہہ پڑیں کہ کیسا بھی مرحلہ ہو مومن جھوٹ نہیں بول سکتا ،ریاکاری اور بدعنوانی نہیں کرسکتا ،کارگاہ حیات میں دوسروں کو پرے ڈھکیل کر خود کو آگے نہیں کرسکتا۔ اس کی مثالیں اللہ کے رسول ﷺکے اسوہ حیات میں جگہ جگہ نمونہ بنی ہوئی ہیں۔

تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ غزوہ ٔبد ر کا معرکہ جب پیش آیا تو اللہ کے رسول نے محاذ جنگ پر آگے بڑھنے کیلئے پہلے اپنے گھروالوں کو آگے بڑھایا یعنی جہاں جان کی قربانی دینی ہےخون بہانا ہے وہاں دوسروں کےبجائے حضرت علی ؓسے فرمایا کہ علی آگے بڑھو ،حمزہ ؓ آگے بڑھو ،عبداللہ بن عباسؓ آگے بڑھو، ابوعبیدہ بن جراح پیش قدمی کرو۔لیکن جہاں لینے کی بات آئی خود کو فائدہ اٹھانے کا معاملہ آیا وہاں یہ کہہ کر پیچھے ہٹ گئے کہ سادا ت کیلئے اس طرح کے فائدے اٹھانا جائز نہیں اس طرح آپ ﷺنے اپنا اور اپنے قرابت داروں کو پیچھے کرلیا۔ جب سود کی حرمت پر آیا ت نازل ہوئیں تو سب سے پہلے آپ نے اعلان کیا کہ میں اپنے چچا عباسؓ ابن عبدالمطلب کی  دی گئی رقموں پر جو سود لوگوں پر واجب الادا ہے میں اسے معاف کرتا ہوں ،اور چچا بھی کیسے حضورؐکے اعلان کے بعد وہ خود کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ میرے بھتیجے نےصرف سود معاف کیا ہے میں اصل رقم بھی معاف کرتا ہوں۔ اسی طرح شیخ المشائخ پیران پیر سیدنا عبدالقادر جیلانی ؒ کے انتہائی عبرتناک واقعے سے تو کم و بیش سبھی لوگ واقف ہوں گے جب کم عمری میں حصول علم کی خاطر انہوں نے دوردراز کا سفر کیا تو ان کی والدہ محترمہ نے کچھ زادسفر کے ساتھ چالیس اشرفیاں ان کے کپڑے کے اندرونی حصے میں اس طرح سل دی تھیں کہ کوئی ان کا پتہ نہ لگاسکےتاکہ وہ محفوظ رہیںاور وقت ضرورت ان کے کام آسکیں ،چلتے چلتے یہ تاکید بھی کردی  کہ بیٹا کچھ بھی ہوجائے جھوٹ ہرگز نہ بولنا خواہ جان ہی پر کیوںنہ بن جائے،ان ہدایات کے بعد انہیں قافلے کے سپرد کردیا۔ راستے میں ان کے قافلے کو ڈاکوؤ ں نے گھیر لیاقافلے کے سارے مال و اسباب لوٹ لئے گئےایک ایک کی تلاشی لی جانے لگی سید جیلانی ؒکی باری آئی تو انہوں نے ڈاکوؤں کے سردار سے صاف صاف بتادیا کہ میرے پاس چالیس اشرفیاں ہیں جو میرے کپڑے کے اندر موجود ہیں ،سردار کے استفسار پر کہ تم نے آخر ان کا پتہ کیوں بتادیا جن کا سراغ نہیں لگایا جاسکتا تھا آپ نے فرمایا کہ میری والدہ کی ہدایت تھی کہ خواہ کیسا بھی وقت آئے جھوٹ نہیں بولنا، اس موثر جملےسے سردار پر رقت طاری ہوگئی ،وہ اس قدر متاثرہوا کہ اس نے اپنے پیشے سے ہمیشہ ہمیش کیلئے توبہ کرلی اور بقیہ زندگی انتہائی پاکیزگی کے ساتھ شرعی احکام کی تابعداری میں گزاردی۔

 ظاہر ہے کسی اور راستے سے اس سربلندی کو تلاش کرنا سرے سے ہی ایک طول امل اور بے فائدہ کام ہے جو کبھی بھی سربلندی یا ارتقا کی جانب لےجانے والانہیںاور آج مسلمان اسی بے فائدہ اور بے مقصد جدوجہد میں مصروف ہیںجس کا کوئی فائدہ فی الحال ممکن نہیں نہ ماضی قریب میں نہ ماضی بعید میں جس کا مشاہدہ موجودہ صورتحال سے بہ آسانی لگایا جاسکتا ہے۔ دوسری رہنما آیت یہ ہے ان مع العسر یسرا یعنی اللہ نے تمام تنگیوں کے ساتھ ہی آسانیاں فراہم کردی ہیں بشرطیکہ تمہاری آنکھیں ان آسانیوں کو دیکھ سکیں عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ کوئی بھی انسان پریشانیوں اور کلفتوں کے آزار سے اس قدرستم رسیدہ اور بدحال ہوجاتا ہے کہ اسے کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا اور اس کیفیت مسلسل کا اثر یہ ہوتا ہے کہ اسے کوئی آسان راہ نظر ہی نہیں آتی اور وہ بار بار انہی پریشانیوں کے گہرے غار میں گرتا رہتا ہے۔جس کا نتیجہ اس صورت میں برآمد ہوتا ہے کہ وہ برسہا برس افتاں و خیزاں اسی کیفیت کا شکار رہتا ہے۔

آج مسلمانوں کی حالت زار کچھ ان ہی کیفیات سے دوچار ہے۔جسے کوئی بھی انسان جسے دیدہ بینا حاصل ہے آسانی سے مشاہدہ کرسکتا ہے۔ حالیہ الیکشن میں بی جے پی کی نمایاں کامیابی آر ایس ایس اور اورخودبی جے پی کی مسلسل محنت اور حکمت عملی کا کھلا ہوا نتیجہ ہے ،وی ایم مشینوں کی گڑبڑی ثانوی چیز ہےبالفرض اسے اگر تسلیم بھی کرلیا جائے تب بھی یہ بات قابل غور ہے کہ ان دھاندلیوںکے مرتکبین دوسروں کو کیوں نہیں دستیاب ہوسکے۔ شکست و فتح تو ہوتی ہی رہتی ہے اس انتخابی دنگل میں شکست فاش کی وجہ جاننااور اس کے لئے خوب سوچ سمجھ کر اور انتہائی سنجیدگی کے ساتھ تدارکی اقدامات اٹھانا وقت کی اولین ضرورت ہے۔ حزب اختلاف کومایوس ہونے کے بجائے ایک عظیم متحدہ محاذ کے قیام کی کوشش کرنی چاہیئے۔ ظلم و ستم کی سیاہ رات زیادہ دیر نہیں ٹک سکتی بالآخر اسے بھی غروب ہونا ہےبشرطیکہ عزم واستقلال اور بھرپور حکمت عملی کا مظاہرہ کیا جائے اس کے لئے احتساب غیر سے زیادہ احتساب خویش کی روش ضروری ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔