جشن اور صحافتی کتب کا سال رہا 2022
ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
اُردو صحافت کا صدی سال ختم ہوا چاہتا ہے۔ سال رواں میں محبان اُردو نے ملک بھر میں صحافت کا جشن منایا۔ اس کے درخشان پہلوؤں پر گفتگو ہوئی اور نئے گوشے سامنے آئے۔ اس سلسلہ میں بنگال اُردو اکیڈمی اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد نے قابل ذکر کام کیا۔ اکیڈمی نے ریاست میں ضلعی سطح کے سیمینار، مشاعرہ اور کانفرنس کے ذریعہ عام لوگوں کو جشن میں شامل کیا۔ اس کی اختتامی تقریب کلکتہ میں منعقد کی گئی۔ جی ہاں اسی کلکتہ میں جسے اردو کے پہلے اخبار ‘جام جہاں نما’ کے اجراء کا شرف حاصل ہے۔ اردو صحافت کے دو سو سالہ جشن کی اس کانفرنس میں ملک بھر سے اُردو کے معمر و نوجوان صحافیوں، صحافی سے بنے سیاستدانوں، صحافت پڑھانے والے اساتذہ اور صحافت میں دلچسپی رکھنے والے افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
وہیں حیدرآباد کی کانفرنس "کاروانِ اُردو صحافت” اس لحاظ سے تاریخی رہی کہ اس میں اُردو، ہندی، انگریزی، الیکٹرانک، سوشل اور ورناکولر میڈیا کے علاوہ فلم انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے افراد ایک ساتھ ایک اسٹیج پر جمع ہوئے۔ انہوں نے اُردو زبان وادب، صحافت کو درپیش چیلنجز پر نہ صرف سیر حاصل گفتگو کی بلکہ قابل عمل حل بھی پیش کئے۔ اتنا ہی نہیں کانفرنس میں مین اسٹریم میڈیا کے رویہ، فکری تبدیلی کے سبب سماج پر مرتب ہوئے اثرات کا جائزہ لیا گیا۔ یہ بات بھی واضح طور پر سامنے آئی کہ میڈیا حکومت کے ترجمان کی طرح کام کر رہا ہے۔ وہ برسراقتدار جماعت کی منشاء کے مطابق اقلیت و کمزور طبقات کے خلاف ایجنڈے کا پیروکار بن گیا ہے۔ اس کی وجہ سے ملک میں جمہوریت کمزور ہو رہی ہے اور ملک کا امن وامان خطرہ میں پڑ رہا ہے۔ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ وترسیل عامہ نے اردو صحافت کے جشن کی تیاری کانفرنس کے لوگو ڈیزائن مقابلہ سے کی تھی۔ کاروان اُردو صحافت کی مناسبت سے ملک و بیرون ممالک کے دو سو صحافیوں کے ویڈیو پیغام جمع کئے گئے۔ اردو ادیبوں و صحافیوں کی زندگی اور ان کے کارہائے نمایاں پر مونو لوگ اور شورٹ فلمیں تیار کی گئیں۔ کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں اُردو صحافت اور صحافیوں کے ذریعہ لکھی گئی کتب کا اجراء بھی عمل میں آیا۔
بات جب کتابوں کی آ ہی گئی ہے تو یہ بھی جان لیجئے کہ صحافت پر اس سال سب سے زیادہ کتابیں منظر عام پر آئی ہیں۔ مشہور صحافی، کالم نگار اور وائس آف امریکہ کے بھارت میں نمائندے سہیل انجم صاحب کی چار اہم کتابیں جدید اُردو صحافت کا معمار قومی آواز، مقالات ابن احمد نقوی، جی ڈی چندن کی صحافت اور دینی مدارس کی صحافتی خدمات شائع ہوئی ہیں۔ ویسے سہیل انجم صاحب کی صحافت پر دو درجن سے زیادہ کتابیں اہل علم سے داد و تحسین حاصل کر چکی ہیں۔ سہیل انجم نے "جدید اُردو صحافت کا معمار قومی آواز” کتاب میں لکھنو سے جاری ہونے والے اخبار روزنامہ قومی آواز کی تاریخ مرتب کی ہے۔ قومی آواز جواہر لال نہرو نے دسمبر 1945 میں کانگریس پارٹی کے ترجمان کے طور پر جاری کیا تھا اور حیات اللہ انصاری اس کے بانی ایڈیٹر مقرر ہوئے تھے۔ بعد میں دہلی، پٹنہ، ممبئی اور سرینگر سے بھی اس کے ایڈیشن شائع ہوئے۔ سہیل انجم نے اس کتاب میں سبھی کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔ چونکہ وہ دہلی ایڈیشن کے شعبہ ادارت سے تیرہ سال وابستہ رہے ہیں لہٰذا انھوں نے پہلے باب کے تحت قومی آواز دہلی ایڈیشن کی یادوں کو تفصیل سے قلمبند کیا ہے۔ دوسرا باب لکھنؤ ایڈیشن پر مشتمل ہے۔ تیسرے میں ممبئی، پٹنہ اور سرینگر کا ذکر کیا گیا ہے۔ چوتھا باب قومی آواز کے مدیر و صحافیوں کے لئے وقف ہے۔ کتاب ایسے دلچسپ پیرائے میں لکھی گئی ہے کہ ایک مرتبہ شروع کرنے کے بعد بیچ میں چھوڑنے کو دل نہیں چاہتا۔ اسے پڑھ کر نصف صدی کے دوران صحافت میں ہوئے تجربات اور زبان میں آئی تبدیلیوں کو سمجھا جا سکتا ہے۔ ساتھ ہی روزنامہ قومی آواز کی تاریخ سے آشنائی ہوتی ہے۔
سہیل انجم کی دوسری کتاب مقالات ابن احمد نقوی اپنے عہد کے ایک ممتاز قلمکار، مصنف اور شاعر ابن احمد نقوی کے مضامین کا انتخاب ہے۔ یہ مضامین 80 اور 90 کی دہائی میں مرکز ابوالکلام آزاد اسلامک اویکننگ سینٹر جوگا بائی نئی دہلی سے شائع ہونے والے موقر رسالے ”التوعیہ“ میں اور کچھ مضامین دوسرے رسائل میں شائع ہوئے تھے۔ سہیل انجم نے ماہنامہ آجکل سائز کے تقریباً ایک ہزار صفحات پر مشتمل مضامین میں سے ایسے مضامین کا انتخاب کیا ہے جو آج بھی اہم ہیں۔ ان مضامین سے آزادی کے بعد سے آج تک کے بھارتی مسلمانوں، ملکی سیاست اور غیر ملکی حالات و واقعات سے آگاہی ہوتی ہے۔ تیسری جی ڈی چندن کی صحافت اور چوتھی کتاب دینی رسائل کی صحافتی خدمات کا دوسرا ایڈیشن ہے۔ اس میں موصوف نے ہندوستان کے دینی مدارس اور مسلم تنظیموں سے شائع ہونے والے مسلکی و مذہبی رسائل کی صحافت کا جائزہ لیا ہے۔ اردو میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی اور اکیلی کتاب ہے۔ اس میں ملک بھر سے شائع ہونے والے اردو کے مذہبی رسائل و جرائد کا تحقیقی مطالعہ کیا گیا ہے اور یہ جاننے کی کوشش کی گئی ہے کہ اردو صحافت کے فروغ میں ان رسائل کی خدمات کیا ہیں۔ اس میں ملک کے چاروں بڑے مسالک دیوبندی، اہلحدیث، بریلوی اور شیعہ کے مجلات کا معروضی انداز میں مطالعہ کیا گیا ہے۔ انتہائی غیر جانبداری کے ساتھ ان کے محاسن اور معائب بیان کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ہندوستان میں مذہبی صحافت کی تاریخ پر بھی نظر ڈالنے کی کوشش گئی ہے۔ ساتھ ہی مذہبی و مسلکی صحافت کے آغاز اور اس کے اسباب کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔
اس سال کی ایک اور اہم کتاب "مغربی بنگال میں اُردو صحافت” ہے۔ جسے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ماس کمیونیکیشن میں پروفیسر ڈاکٹر محمد شکیل اختر نے کئی سال کی تحقیق و جستجو اور محنت کے بعد تیار کیا ہے۔ یہ کتاب بنگال اردو اکیڈمی سے شائع ہوئی ہے۔ اخبار ورسائل کو ان کی نوعیت کے لحاظ سے آٹھ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہ کچھ اس طرح ہیں سیاسی اخبارات، ادبی رسائل، مذہبی رسائل و اخبارات، بچوں کے رسائل، طبی رسائل، سماجی اصلاحی ترقیاتی رسائل، صنعتی وکاروباری رسائل، اسپورٹ اور فلمی رسائل۔ بیس صفحات پر مشتمل مقدمہ میں موصوف نے بنگال کی اُردو صحافت کا مختصر جائزہ پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر شکیل اختر نے ہر اخبار اور رسالہ تک براہ راست رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ کتاب میں یہ بھی درج کر دیا ہے کہ اس اخبار یا رسالے کی فائل کہاں دستیاب ہے۔ اگر کوئی اخبار یا رسالہ ان کی دسترس سے دور رہا تو اس کی تفصیلات کہاں سے لی گئی ہیں اس کا حوالہ دیا گیا ہے۔ یقیناً بنگال کی صحافت پر یہ ایک لاجواب کام ہے۔
روزنامہ انقلاب کے پریزیڈنٹ ایڈیٹر ڈاکٹر محمد یامین انصاری نے بھی اپنی صدائے دل اسی سال سنائی ہے۔ ان کی صدائے دل سننے والے کا دل فرحت و انبساط سے معمور ہوجاتا ہے۔ دراصل یامین انصاری کے ذریعہ مختلف موضوعات پر لکھے گئے مضامین کے انتخاب پر مشتمل کتاب کا نام ہی "صدائے دل” ہے۔ ان مضامین کو پانچ زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ انہوں نے صرف صحافت پر اظہار خیال نہیں کیا بلکہ میڈیا کی موجودہ روش کو بھی اپنی تحریر کے دائرے میں رکھا ہے۔ اگر آپ ان کے مضامین پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے امتیازی پہلو، میڈیا کی غیر جانبداری اور اس کی معتبریت، چینلوں نے تو صحافت کی کنٹرول لائن ہی اڑا دی، سوشل میڈیا پر ہم کتنے سوشل ہیں اور جمہوریت کے چوتھے ستون میں درار کا مطالعہ کریں تو دو باتیں واضح طور پر نظر آئیں گی ایک یہ کہ یامین انصاری کی نظر جتنی پرنٹ میڈیا پر ہے اتنی ہی گہری الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر بھی ہے۔ جو مضامین تہذیبی و ثقافتی زمرے میں رکھے گئے ہیں وہ واقعی اس کا حق ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے شاہین باغ میں چلنے والے سی اے اے مخالف دھرنے کے تعلق سے جو مضامین لکھے وہ پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک مضمون کا عنوان تو انتہائی شاندار ہے۔ ‘علامہ اقبال کے شاہین سے تاریخی شاہین باغ بننے کی کہانی’ ان کی کتاب میں عالمی وبا کرونا پر بات ہوئی ہے تو تعلیم اور ادب جیسے موضوعات پر بھی اظہار خیال کیا گیا ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے سے نہ صرف یامین انصاری کی صحافتی صلاحیت اپنا لوہا منواتی ہے بلکہ صحافت میں آ رہی تبدیلیاں بھی کھل کر سامنے آتی ہیں۔ یہ کتاب صحافت کے نقطہ نظر سے اہم سرمایہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
"ماس میڈیا اور صحافت” کتاب روزنامہ انقلاب نارتھ انڈیا کے سابق ایڈیٹر شکیل حسن شمسی نے لکھی ہے۔ جسے ریختہ بکس نے شائع کیا ہے۔ اس میں پرنٹ، نیوز ریل، ریڈیو، ٹی وی اور سوشل میڈیا پر ہونے والی صحافت کی تاریخ اور تعریف بیان کی گئی ہے۔ کتاب میں یہ بھی تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ مختلف ذرائع ابلاغ کے درمیان کیا کیا فرق ہے۔ اخباروں اور چینلوں میں کون کون سے شعبہ ہوتے ہیں۔ جو نوجوان کسی میڈیا سے جڑنا چاہتے ہیں ان کو کس کس بات کا خیال رکھنا چاہئے۔ صحافت کا مستقبل کیا ہے اور کس قسم کی صحافت میں ترقی کے زیادہ مواقع ہیں اس پر بھی بات کی گئی ہے۔ اس سلسلے کی آخری کتاب نام کتاب "کارپوریٹ میڈیا- ایک جائزہ” ہے۔ یہ اشرف علی بستوی کے ذریعہ سہ روزہ دعوت میں لکھے گئے مضامین کا مجموعہ ہے۔ یہ کتاب پچھلی ایک دہائی کے قومی و بین الاقوامی میڈیا کے غیر دیانت دارانہ رویہ کا دستاویزہے۔ اس میں اطلاعاتی حسرت اورابلاغی غربت کا شکار ملت اسلامیہ ہند کو میڈیا کی اہمیت وافادیت کا حقیقی ادراک کرانے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔ گزشتہ ایک دہائی میں میڈیا کی زیادتیوں پرمعاشرے کا رویہ کیا رہا خصوصا مسلم معاشرے کا کتاب میں اس پہلو کو بھی سامنے لایا گیا ہے۔ دینی حلقوں میں میڈیا کے پیشے کو مکمل اعتبار حاصل نہ ہوپانے کو نشان زد کرنے کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر کارپوریٹ میڈیا کی ریشہ دوانیاں کس کس شکل میں جاری ہیں من و عن رپورٹ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کارپورٹ میڈیا کے مضر اثرات انسانی معاشرے پرکس کس طرح پڑ رہے ہیں اسے بھی بتایا گیا ہے۔ میڈیا کی اسی طاقت کو بتاتےہوئے ’جم موریسن‘ کہتا ہے کہ ’’جومیڈیا کو کنٹرول کرتاہے ذہنوں پر اسی کا راج ہوتا ہے۔”
مختصر یہ کہ اُردو صحافت کے دو سو سال مکمل ہونے پر جہاں صحافت کا جشن منایا گیا وہیں صحافت پر ایسی کتب بھی منظر عام پر آئیں جو اُردو صحافت کے ماضی، حال اور مستقبل کی کہانی بیان کرتی ہیں۔ یہ ادب و صحافت کی تاریخ میں اہم اضافہ ہیں۔ صحافت کے مستقبل کو اور تابناک بنانے کے لئے کل کی ضرورت کا خیال آج اور نئے امکانات کی تلاش کو جاری رکھنا ہوگا۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔