جموں میں بے قابو حالات
الطاف حسین جنجوعہ
14فروری2019بروز جمعرات جموں سرینگر قومی شاہراہ پر وادی کشمیر کے لیتہ پورہ پلوامہ کے مقام پر ہوئے خود کش کار بم دھماکہ، جس میں اب تک 49سے زائد سی آر پی ایف اہلکارمارے گئے، کا واقعہ انتہائی افسوس ناک اور انسانیت سوز ہے۔ سی آر پی ایف کی مختلف یونٹوں سے وابستہ 2500سے زائد اہلکار وں کا یہ کانوائے سرینگر جاتے وقت جب لیتہ پورہ اونتی پورہ میں فوڈ کارپوریشن آف انڈیا کے گودام کے نزدیک پہنچا تو اچانک دو گاڑیاں خود کش حملے کی زد میں آگئیں۔ سہ پہر3بجکر20منٹ پر پیش آئے اس دلدوز واقعہ کی خبر آناًفاناًجنگل کی آگ کی طرح ریاست کے ساتھ ملک بھر میں پھیلی۔ ریاست میں بلالحاظ مذہب وملت، رنگ ونسل، ذات پات جس نے بھی یہ خبر سنی، وہ غمگین ہوا اور اس پر اظہارافسوس کیا۔ سوشل میڈیا کے ذریعہ سبھی نے اس پر اپنے غم وغصہ کے ساتھ ساتھ مذمت کی۔ پلوامہ فدائین حملہ کے خلاف جموں چیمبر اور جموں وکشمیر ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن نے 15فروری یعنی جمعہ کے روز جموں بند کی کال دی جس کی سبھی سیاسی، سماجی، مذہبی، تجارتی تنظیموں نے حمایت کا اعلان کیا لیکن اس دن جس طرح بلوائیوں نے مسلمان بستیوں کو نشانہ بنایا، ان کی املاک کو نقصان پہنچایا وہ حیران کن اورلمحہ فکریہ ہے۔
کسی کو بھی اس طرح کے واقعات کی توقع نہ تھی۔ سی آر پی ایف اہلکاروں کی ہلاکت کسی مخصوص طبقہ کا نقصان نہیں بلکہ بلکہ یہاں پر ہردل اس سے رنجیدہ ہوا ہے، کوئی نہیں چاہتا کہ خون خراب ہو، امن وقانون کی صورتحال بنے اور وہ معمولات زندگی متاثر ہو۔ سرمائی راجدھانی جموں کے ساتھ ساتھ صوبہ بھر کی بیشتر جامع مساجد میں علماء کرام نے پلوامہ حملہ کی نہ صرف مذمت کی بلکہ وضاحت کی کہ دین اسلام اس طرح کی متشدد کارروائیوں کی ہرگزاجازت نہیں دیتا۔ ایسے افراد کا اسلام سے کچھ لینا دینا نہیں، دہشت گردوں کا کوئی بھی مذہب نہیں ہوتا۔ پہلے احتجاجی مظاہرے یا دھرنے پریس کلب کے باہر ہوا کرتے تھے لیکن 15فروری کی صبح جیول چوک میں افراد کا جمع ہونا اور وہاں سے ڈوگرہ چوک، گمٹ، پریم نگر اور گوجر نگر کی طرف احتجاجی جلوس نکالنا، نعرہ بازی کرنا اور متشدد کارروائیاں کئی سوالات کو جنم دے رہی ہیں۔ عوامی حلقوں کا خیال ہے کہ یہ سب منصوبہ بند اور منظم طریقہ سے کیاگیا۔ سول اور پولیس انتظامیہ کی لاپرواہی سے بلوائیوں نے چن چن مخصوص طبقہ کی گاڑیوں اور املاک کو نقصان پہنچایا اور مسلسل چا ر گھنٹوں تک لاقانونیت کا ننگا ناچ برپا کیا۔ متعدد مسلم اکثریتی علاقوں میں ہڑتال کال کی حمایت کے باوجود جموں کے گوجر نگر، پریم نگر، جوگی گیٹ، وزارت روڈ، شہیدی چوک، گمٹ، بس اسٹینڈ، نروال، جانی پور و دیگر مقامات پر ایک مخصوص طبقہ کو نشانہ بناتے ہوئے لگ بھگ 90گاڑیوں، مکانات، ہوٹلوں اور دیگر املاک پر بھی شدید پتھرائو کرکے انہیں نقصان پہنچایاگیا۔
عینی شاہدین کے مطابق پولیس کی خاموشی کی وجہ سے بلند حوصلے سے گوجر نگر، پریم نگر میں تباہی کرنے کے بعدمشتعل ہجوم وزارت روڈ پر پہنچا جہاں پاکستان مخالف نعرے بازی کرتے ہوئے پانچ سے زائد گاڑیوں کو آگ لگادی گئی۔ یہاں سے ہوتے ہوئے یہ ہجوم گمٹ اور جیول چوک پہنچا جس نے راستے میں دکانوں کے شیشے بھی توڑے جبکہ کئی گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچایا لیکن پولیس خاموشی سے نظارہ دیکھتی رہی جس پر طرح طرح کے سوالات کھڑے ہوتے ہیں اوریہی وجہ ہے کہ سنجیدہ فکر حلقوں میں انتظامیہ اور پولیس کی نیت کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھاجانے لگا ہے۔ انتظامیہ اور پولیس کی طرف سے اتنے بڑے پیمانے پر تباہی مچانے کے بعد بھی اس قدر لاپرواہی کا مظاہرہ کیاگیا کہ کرفیو لگانے کے احکامات جاری کرتے کرتے دن کے ڈھائی بجادیئے اور پھر کرفیو کے بعد بھی بلوائیوں کی کارروائیاں بغیر کسی خوف و خطر کے تب تک جاری رہیں جب تک کہ فوج نے فلیگ مارچ نہ کیا۔ دنگوں کوتین سے چار گھنٹے کی کھلی چھوٹ دی گئی تھی۔ جب صورتحال بے قابو ہوگئی اور پورے شہر کی فضا گاڑیوں میں لگی آگ کے دھوئیں سے بھر گئی تو پولیس نے تب جاکر پرتشدد ہجوم پر لاٹھی چارج کیا اور آگ بجھانے کیلئے فائر سروس کی گاڑیوں کی خدمات حاصل کی گئیں لیکن اس دوران بھی ٹیرگیس شلنگ مخصوص طبقہ کی طرف کی گئی۔ ایک سنیئرپولیس افسر نے رازداری کی شرط پر بتایاکہ اگر چہ جموں میں تعینات سیکورٹی فورسز اہلکاروں کو ہجوم کو روکنے یا ان پر لاٹھی چارج کے احکامات نہیں تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ آرمی اور پولیس افسران حساس علاقوں میں تعینات تھے لیکن ان کے ہاتھ بندھے تھے کیونکہ انہیں حالات کو کنٹرول کرنے کے لئے اوپر سے آرڈر نہیں تھے۔ اس سنیئر افسر کا کہناتھا’’پولیس یا فوج اپنے آپ کچھ نہیں کرسکتی، انہیں اعلیٰ حکام سے کوئی ہدایات نہیں ملی تھیں، جوکہ تاخیر سے انتظامیہ نے جاری کیں۔ سول سوسائٹی کے سنیئرممبر اور سابقہ ایڈیشل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس ڈاکٹر مسعود احمد چوہدری نے کہاکہ 14فروری کو پلوامہ جوحادثہ ہوا پورا ملک سوگوار ہے، ہم محسوس کرتے ہیں، درد ناک واقع ہوا، مذمت کرتے ہیں لیکن اس کے رد عمل میں جمو ں کے اندر جوہوا، جومظاہرہ سڑکوں پر کیاگیا، جس قسم کی ہلڑبازی اور لاقانونیت ہوئی جموں کے لوگ اس کے حق میں نہیں اور انہیں ایسی توقع تھی، چند افراد جوحالات کو خراب کرنا چاہتے ہیں کی طرف سے مخصوص گاڑیاں، مخصوص محلہ جات اور مخصوص گھروں کو نشانہ بناناجموں کے مفاد میں نہیں ‘‘۔
ان کے مطابق ایسے حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں، ایسی صورتحال پہلے بھی پیدا ہوئی لیکن پولیس کی طرف سے ہاتھوں میں چوڑیاں ڈال کھڑارہنا اور حالات کو نہ روکناافسوس کن ہے، ایسے افراد کو جمع ہونے دینا، قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے کی چھوٹ دیناسوالات کو جنم دیتا ہے۔ ٹرانسپورٹ نگرنروال میں تمام دکانیں جن پر اُردو یا عربی میں کچھ لکھاتھا، کی توڑپھوڑکی گئی۔ شام کے وقت جانی پور اور نیو پلاٹ میں پتھرائو بھی کیاگیا۔ پریم نگر سے گوجر نگر تک کے علاقے میں گاڑیوں کو تباہ کردیاگیا اور پورا دن پٹرول ڈال کر ان کو آگ لگائی گئی۔ جانی پور میں سیول سیکریٹریٹ ملازمین کے رہائشی کوارٹروں پر پتھرائو کیاگیا رہائشی کوارٹروں اور گاڑیوں کے شیشے توڑ دیئے۔ اسی طرح سے مٹھی میں بھی ملازمین کے کوارٹروں کے باہر احتجاج اور دھرنے دیئے گئے۔ شہر کے تالاب کھٹیکاں علاقے میں دوطبقوں کے درمیان آپسی تصادم ہوتے ہوئے ٹل گیا۔ سینکڑوں افراد پر مشتمل ایک ہجوم راجندر بازار اور سٹی چوک میں جمع ہوااورتالاب کھٹیکاں کی طرف جانے کی کوشش کی۔ اگر دونوں طبقوں کے معززین کی طرف سے بیچ بچائو نہ کیاجاتا توپھر صورتحال خطرناک ثابت ہوسکتی تھی۔ عینی شاہدین کے مطابق پولیس کی آنکھوں کے سامنے ہجوم نہ نے صرف مخصوص طبقہ کی بستیوں پر یلغار کی بلکہ وادی کشمیر، خطہ چناب (ڈوڈہ، کشتواڑ، رام بن اضلاع) اور پیرپنچال (راجوری، پونچھ اضلاع) سے مخصوص نمبرات کی گاڑیوں کو نذر آتش کیا اور نقصان پہنچایا۔ سال 2008کو امرناتھ لینڈ ایجی ٹیشن کے دوران بھی قریب دو ماہ تک جموں شہر میں امن وقانون کی صورتحال رہی، اس دوران گر چہ بڑی تعداد میں مسلم بستیوں میں بھی’بم بم بولے‘کے فلک شگاف نعرؤں کے بیچ جلوس نکالے گئے لیکن ایسی صورتحال دیکھنے کو نہیں ملی۔
حالات کی سنگینی کو سمجھا جاسکتا ہے کہ مسلم سول سوسائٹی کو ہنگامی پریس کانفرنس بلانی پڑی لیکن افسوس کا مقام ہے کہ اس پریس کانفرنس کو بھی ماسوائے اردو اور چندایک انگریزی روزنامہ کے جموں سے شائع ہونے والے بیشتراخبارات نے جگہ نہ دی۔ روزنامہ کشمیر ٹائمز کے مدیر اعلیٰ پرمود ھ جموال کہتے ہیں ’’ہمارا تجربہ رہا ہے، 80کی دہائی کے بعدجب پنجاب میں ملی ٹینسی ہوئی، جموں میں ایسے حالات ہوتے رہے ہیں لیکن انتظامیہ کی طرف سے اس طرح شرارتی عناصر کو کھلی چھوٹ کبھی نہیں دی گئی۔ سول سوسائٹی پہلے بھی نکلتی رہی، اب کی بار بھی نکلی جنہوں نے حالات کو کنٹرول کیا، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ انتظامیہ کی مکمل ناکامی رہی۔ ملک کے اندر کسی کے مال وجان کو نقصان پہنچانے کی وہ مذمت کرتے ہیں ‘‘۔ جموں مسلم فرنٹ چیئر مین شجاظفر نے کہاکہ لاقانونیت کی انتہادیکھی گئی، وہ کہتے ہیں کہ متشدد ہجوم میں جو لوگ شامل تھے، ان میں اکثریت بیرون ریاست کی تھی جنہوں نے پولیس کی آنکھوں کے سامنے گوجر نگر، ریزیڈنسی روڈ، پریم نگر میں گاڑیوں کو نشانہ بنایا۔ وہ کہتے ہیں کہ’’ عرصہ دراز سے ہم مانگ کرتے آئے ہیں کہ پولیس اور سول انتظامیہ میں توازن برقر ار رکھاجائے اگر ڈپٹی کمشنر ہندؤ ہے تو ایس ایس پی مسلم تعینات کیاجائے تاکہ ایسے حالات کے وقت انتظامی سطح پر غیر جانبدارانہ رویہ اختیار کیاجائے لیکن ایسا نہیں کیاجارہا جس سے انتظامیہ بھی یکطرفہ رویہ اختیار کرتی ہے۔ 15فروری کو جموں میں شرپسند عناصر کی کارروائیوں سے مقامی اور غیر مقامی مسلم آبادی خوفزدہ ہے۔ وادی کشمیر، لداخ اور صوبہ جموں کے چناب اور پیر پنچال علاقہ سے تعلق رکھنے والے افراد جوسرمائی ایام یہاں گذارنے آئے تھے، نے وقت سے قبل ہی آبائی گھروں کی طرف جانا شروع کر دیاہے۔
سول سیکریٹریٹ اور سالانہ دربار موؤ سے منسلک ملازمین جن کی تعداد کم وبیش 11ہزار ہے، نے ڈیوٹیوں پر آنے سے انکار کردیا ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ وہ تب تک کام پر نہیں لوٹیں گے جب تک کہ ہر ایک ملازم کے اہل خانہ کو 7روز کے اندر اندر وادی واپس بھیجا جائے۔ ان کا کہنا ہے وہ اپنے اہل خانہ کو خطرہ میں ڈال کر نوکریوں پر نہیں جاسکتے۔ ادھر ملک کے مختلف حصوں سے کشمیری طلبا اور کاروبار کے سلسلہ میں گئے کشمیریوں کی ریاست واپسی کا سلسلہ تیز ہے جس سے غیر یقینی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ عوامی حلقے اس ساری صورتحال کے لئے انتظامیہ کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے اگر 15فروری کو صبح ہی، سخت کرفیو نافذ کردیاجاتا، حساس علاقوں میں بھاری نفری کی تعیناتی عمل میں لائی جاتی تو ایسی صورتحال نہیں پیدا ہوتی۔ پلوامہ فدائین حملہ سے پیداشدہ صورتحال سے نپٹنے کے لئے متحدہوکر مقابلہ کرنے کی بجائے جموں میں امن وقانون کی صورتحال پیدا کی گئی جس سے کشمیر میں حالات کو قابو کرنا بھی مشکل ہوسکتا ہے۔ عوامی حلقوں کا ماننا ہے کہ جموں صوبہ سے تعلق رکھنے والے ہزاروں سول اور پولیس اور سیکورٹی فورسز ملازمین کشمیر کے اندر تعینات ہیں، اگرجموں میں ان کے اہل خانہ محفوظ نہیں، تو ان کے لئے فرائض کی انجام دہی میں مشکلات پیدا ہوسکتی ہے۔ اہل خانہ کے عدم تحفظ کی وجہ سے وہ بھی ذہنی تناؤ کا شکار رہیں گے۔ ایسی صورتحال پیدا کرنے سے کس کو فائیدہ ہوگا، کس کے مفادات کی تکمیل ہوئی، اس بارے میں عام آدمی کچھ نہیں جانتا لیکن اس کا ریاست کی مجموعی سیاسی واقتصادی صورتحال پر منفی اثر پڑا ہے ساتھ ہی جموں کے تجارتی اور کاروباری حلقہ کو بھی کافی قیمت چکانی پڑی ہے جن کا سرمائی ایام کے دوران اچھا خاصا کاروبار ہوتا تھا۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔