جموں و کشمیر میں اسمبلی و پارلیمانی نشستوں کی حد بندی
حدود میں بڑے پیمانے پر ردوبدل،29حلقوں کے نام تبدیل
الطاف حسین جنجوعہ
5اگست2019تنظیم نو جس میں جموں وکشمیر ریاست کو دو مرکزی زیر ِ انتظام علاقوں(لداخ یوٹی اور جموں وکشمیر یونین ٹیراٹری)میں تقسیم کیاگیاتھا، کے بعد مرکزی زیر انتظام جموں وکشمیر میں اسمبلی انتخابات کرانے کے لئے پارلیمانی واسمبلی حلقوں کی حدبندی لازمی تھی کیونکہ جمون وکشمیر تنظیم نو قانون کے مطابق اسمبلی نشستوں میں7کا اضافہ کر کے ، یہ تعداداب90کی گئی ہے۔ اسی مقصد کے لئے 6مارچ2020کو عدالت عظمیٰ کی سابق جج ریٹائرڈرنجناپرکا ش دیسائی کی سربراہی میں حد بندی کمیشن قائم کیاگیا جس کو ایک سال کے اندر رپورٹ پیش کرنی تھی لیکن ایسا نہ ہوا اور 6مارچ2021 کو ایک سال کی مزید توسیع دی گئی۔ اب اگر یہ عمل 6مارچ2022سے پہلے مکمل نہیں ہوتا تومزید مدت میں توسیع کا امکان ہے۔ گذشتہ دنوں کمیشن نے پانچ ایسو سی ایٹ ممبران (اراکین پارلیمان )کو عبوری رپورٹ کا دوسرا مسودہ پیش کیا جس میں بڑے پیمانے پر پارلیمانی واسمبلی حلقوں کی حدود میں رد وبدل کے ساتھ ساتھ 29اسمبلی حلقوں کے نام تبدیل کئے گئے ہیں جس میں کئی مقامات پر لوگوں میں تشویش پائی جارہی ہے، بعض حلقوں کو مغرب سے مشرق کے ساتھ جوڑا گیاہے۔جموں وکشمیر کے پانچ پارلیمانی حلقوںہیں اور ہر ایک لوک سبھا حلقہ میں18/18اسمبلی نشستیںرکھی گئی ہیں اور یکساں تقسیم کے فارمولہ کے تحت راجوری اورپونچھ اضلاع جوکہ صوبہ جموں میں جموں پونچھ لوک سبھا کا حصہ تھے، کو اب صوبہ کشمیر کے جنوبی کشمیر کے تین اضلاع شوپیان، اننت ناگ اور کولگام کے ساتھ ملایاگیا ہے اور اب نئے لوک سبھا حلقہ کا نام اننت ناگ راجوری رکھاگیاہے۔جونئے ساتھ حلقے بنائے گئے ہیں، اِن میں چھ صوبہ جموں کے اندر ایک اور کشمیر میں ہے۔ کشمیر صوبہ میں ضلع کپواڑ ہ کے اندر ’ترہگام‘نام سے ایک نشست بنائی گئی ہے۔
بنیادی طور کمیشن کا کام 7نئے حلقے قائم کرناتھا لیکن اِس عمل کے دوران کم وپیش ہر حلقہ میں جوڑ توڑ ہوا ہے۔متعدد اضلاع ایسے ہیں جن میں چند اسمبلی نشستیں ایک لوک سبھا اور چند نشستیں دوسرے لوک سبھا حلقہ کے ساتھ لگائی گئی ہیں۔29اسمبلی نشستیں ایسی ہیں جن کے نئے نام رکھے گئے ہیں، اِن نئے حلقوں میں شری ماتاویشنو دیوی، رام گڑھ، کٹھوعہ جنوب، کٹھوعہ شمال ، جموں شمالی، باہو، بھلوال نگروٹہ، جموں جنوب، کھوڑ، کالاکوٹ سندربنی، مغل میدان، پاڈر، ڈوڈہ مغرب، اودھم پور مغرب ، اودھم پور مشرق، زینہ پورہ، لارنو، اننت ناگ مغرب، اننت ناگ مشرق، نوشہرہ، تھنہ منڈی، ترہگام، روہامہ ۔ رفیع آباد، کنزر، جنوبی سرینگر، چھنہ پورہ، زونی میر اور سینٹرل شالٹینگ شامل ہیں۔19حلقے ایسے ہیں جن کے نام ختم کر دیئے گئے ہیں، اِن میں کالاکوٹ، چھمب، رائے پور دومانہ، سچیت گڑھ، گاندھی نگر، نگروٹہ، گول ارناس، گلاب گڑھ، اندروال، شانگس، کوکرناگ، ہوم شالی بگ، نور آباد، وچی، بٹہ مالو، حضرت بل، زیڈیبل ، گلمرگ اور سنگرامہ شامل ہیں۔جن 19حلقوں کے نام خارج کئے گئے ہیں، اُن کو سال 194-95کی حد بندی میں بنایاگیاتھا۔ ضلع ریاسی میں شری ماتاویشنو دیوی حلقہ سب سے کم ہے جس میں 73648ووٹرز ہیں۔ ضلع ریاسی میں تین ہی حلقے رکھے گئے ہیں البتہ نام تبدیل کئے گئے ہیں۔ جموں ضلع میں بھی 11حلقے ہی برقرار رکھے گئے ہیں البتہ نام تبدیلی کی گئی ہے۔کٹھوعہ ضلع میں پہلے پانچ حلقے تھے، اب چھ بنائے گئے ہیں جس میں کٹھوعہ نارتھ اور کٹھوعہ ساو ¿تھ نام رکھے گئے ہیں۔ضلع سانبہ جوکہ رقبہ کے حساب سے سب سے چھوٹا ہے، میں رام گڑھ حلقہ نیابنایاگیاہے ، جس سے یہ تعداد3 تین ہوگئی ہے۔ اودھم پور ضلع میں اب چار اسمبلی حلقے ہیں ، ایک کا اضافہ کیاگیاہے۔ راجوری ضلع میں تھنہ منڈی نام سے نیا حلقہ بنایاگیاہے اور کل تعداد5ہوگئی ہے۔پونچھ ضلع میں تین اسمبلی حلقے ہی برقرار رکھے گئے ہیں لیکن سرنکوٹ میں متعدد پٹوار حلقے مینڈھر اسمبلی کے شامل کئے گئے ہیں، سرنکوٹ سب سے بڑا حلقہ بن گیا ہے۔ مینڈھر اور پونچھ حویلی اُس سے چھوٹے ہیں، لیکن سبھی میں جوڑ توڑ کی گئی ہے۔ڈوڈہ میں بھی ایک نیا حلقہ ڈوڈہ مغرب کے نام سے بنایاگیاہے۔ضلع رام بن میں بہت زیادہ ردو بدل کیاگیاہے مگر حلقے دو ہی برقرار ہیں۔کشتواڑ میں بھی اسمبلی حلقوں کی حدود میں بھاری تبدیلی کی گئی ، اندروال حلقہ کانام خارج کر دیاگیاہے۔ وادی کے اندر جنوبی کشمیر میں ہوم شالی بگ اسمبلی حلقہ کو ختم کیا گیا ہے۔شانگس اسمبلی حلقہ کو اننت ناگ(ایسٹ) اور نئے حلقہ لارنو میں شامل کیا گیا ہے۔امیراکدل، حبہ کدل اور جڈی بل حلقوں کو ختم کر کے دیگر تمام حقوں کو دوبارہ ترتیب دیا گیا ہے ۔نئی اسمبلی نشستوں میں چھانہ پورہ اور سرینگر جنوبی کے ساتھ ضم کر دیا گیا ۔ضلع بڈگام، جس کی5 اسمبلی نشستیں تھیں، کو دوبارہ ترتیب دیا گیا اور اسے بارہمولہ پارلیمانی حلقہ میں ضم کرنے کے علاوہ کچھ علاقوں کو تقسیم کرنے اور شمالی کشمیر میں کنزر جیسی نئی اسمبلی نشست تشکیل دی گئی ہے۔ شمالی کشمیر میں سنگرامہ نشست کو ختم کر کے دیگر اسمبلی سیٹوں کے ساتھ ملا یا گیا ہے۔ کرناہ کے ساتھ کرالپورہ کا کچھ علاقہ جوڑنے پر لوگوں نے سخت اعتراض ظاہر کیاہے۔ اسی طرح گول ، ، پوگل پرستان کے علاوقوں کی رام بن وبانہال میں تقسم پر بھی لوگوں میں غم وغصہ کی لہر ہے۔
ایس سی/ایس ٹی ریزرویشن
درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کے لئے16مخصوص نشستوں میں سے13جموں صوبہ میں ہوئی ہیں۔ایس سے کے لئے جموں ضلع سے چار نشستیں بشناہ، آر ایس پورہ، مڑھ اور اکھنور ، سانبہ سے رام گڑھ، کٹھوعہ ضلع سے کٹھوعہ جنوب، اودھم پور سے رام نگرکو ریزرو کیاگیاہے۔ آر ایس پورہ کوسال1996میں ریزرو کیاگیاتھا، تب سے آج تک اِس کو ڈی ریزرون نہ کیاگیا۔ اس سے پہلے چھمب، دومانہ، سانبہ، ہیرا نگر، چنینی اور رام نگر حلقے ریزرو تھے۔درج فہرست قبائل(ST)کے لئے نو نشستیں ریزرو کی گئی ہیں، اِن میں ضلع پونچھ کی سبھی تین، راجوری سے دو(تھنہ منڈی، درہال)، ریاسی سے مہور، اننت ناگ سے لارنو، بانڈی پورہ سے گریز اور گاندربل سے کنگن شامل ہیں۔
کس حلقہ میں کون سی نشستیں
راجوری۔ اننت ناگ
جموں صوبہ کے دو اضلاع پونچھ راجوری جوکہ پہلے جموں لوک سبھا حلقہ کا حصہ تھے، کو اب کشمیر کے تین اضلاع اننت ناگ، کولگام اور شوپیان کے ساتھ جوڑ کر اس حلقہ کا نام ’راجوری ۔اننت ناگ‘رکھاگیاہے۔ ایس ٹی آبادی کے لحاظ سے جموں وکشمیر میں یہ حلقہ سب سے بڑا اور مجموعی آبادی کے لحاظ سے سب سے زیادہ ہے۔ پونچھ، راجوری، اننت ناگ، کولگام اور شوپیان اضلاع کی مجموعی آبادی 2620539لاکھ ہے جس میں ایس ٹی کی آبادی515180لاکھ یعنی19.6فیصد ہے۔ اس میں زین پورہ، دمہال ہانجی پورہ، کولگام، دیوسر، ڈورو، لارنو، اننت ناگ مغرب، اننت ناگ، پہلگام، نوشہرہ، راجوری، درہال، تھنہ منڈی، سرنکوٹ ،پونچھ اور مینڈھر شامل ہیں۔
جموں
جموں لوک سبھا حلقہ اب جموں، سانبہ، ریاسی اور راجوری ضلع کے (سندربنی۔ کالاکوٹ)حلقہ پر مشتمل ہوگا۔ اس میں مہور، ریاسی، شری ماتا ویشنو دیوی ، رام گڑھ، سانبہ، وجے پور، بشناہ، آر ایس پورہ، جموں جنوب، جموں شمال، بھلوال نگروٹہ، جموں مغرب، جموں شمال ، مڑھ، اکھنور، کھوڑ اور کالاکوٹ سندر بنی شامل ہیں۔ اس کی آبادی 2283876لاکھ ہے جس میں ایس سی کی آبادی22فیصد اور ایس ٹی کی آبادی9.2فیصد ہے۔
اودھم پور حلقہ
اودھم پور لوک سبھا حلقہ پانچ اضلاع پر مشتمل ہوگا جوکہ پہلے چھ اضلاع پر تھا ، آبادی کے لحاظ سے یہ پانچ حلقوں میں سب سے کم ہے جس کی آبادی سال2011کی مردم شماری کے مطابق2098613ہے۔اس حلقہ میں جو 18اسمبلی نشستیں شامل ہیں، میں مغل میدان، کشتواڑ، پاڈر(ضلع کشتواڑ)، بھدرواہ، ڈوڈہ، ڈوڈہ مغرب(ڈوڈہ ضلع)، رام بن ، بانہال (رام بن ضلع)، اودھم پور مغرب، اودھم پور مشرق، چنینی، رام نگر (اودھم پور ضلع)، بنی، بلاور، بسوہلی، کٹھوعہ شمال، کٹھوعہ جنوب اور ہیرا نگر (کٹھوعہ ضلع)شامل ہیں۔
سرینگر
سرینگر لوک سبھا پانچ اضلاع پر مشتمل ہے جوکہ پہلے تین اضلاع پر تھی۔ آبادی کے لحاظ سے یہ سب سے بڑا حلقہ بن گیا ہے جس کی آبادی 2677448لاکھ ہوگئی ہے۔ اس میں گاندربل ضلع سے دو اسمبلی حلقے، سرینگر ضلع کے آٹھ، بڈگام کے تین ، پلوامہ کے چار اور شوپیان کا ایک ضلع شامل ہے۔ اسمبلی حلقوں میں کنگن، گاندربل (گاندربل ضلع)، حضرت بل، خانیار، جنوبی سرینگر، سونہ وار، چھان پورہ، زونی مار، عید گاہ، سینٹرل شالٹنگ (سرینگر ضلع)، خانصاحب، چرار شریف، چاڈورہ (بڈگام ضلع)، پامپور، ترال، پلوامہ، راجپورہ (پلوامہ ضلع)اور شوپیان (ضلع شوپیان)شامل ہیں۔سرینگر لوک سبھا حلقہ میں ایس ٹی کی آبادی138186لاکھ یعنی کہ 5.16فیصد ہے۔
بارہمولہ
جنوبی کشمیر کے بارہمولہ لوک سبھا حلقہ چار اضلاع پر مشتمل ہوگا جس میں درج فہرست قبائل کی آبادی 7.1فیصد ہے اور مجموعی آبادی2586537لاکھ ہے۔ اس میں جو اسمبلی حلقے شامل کئے گئے ہیں اِن میں کرناہ، کپواڑہ، ترہگام، لولاب، ہندواڑہ، لنگیٹ (کپواڑہ ضلع)، سوپور، روہامہ ۔ رفیع آباد، اُڑی ، بارہمولہ، ٹنگمرگ ، کنزیر، پٹن(بارہمولہ ضلع)، سونہ واری، بانڈی پورہ، گریز(بانڈی پورہ ضلع)، بڈگام اور بیرواہ (بڈگام ضلع)شامل ہیں۔
رد عمل
ایسو سی ایٹ ممبران سے کہا گیا ہے کہ وہ 14 فروری تک اپنے تاثرات پیش کریں جس کے بعد رپورٹ عوامی سطح پر پیش کی جائے گی لیکن پہلی عبوری رپورٹ پرنیشنل کانفرنس نے جو اعتراضات ظاہر کئے تھے کو نظر انداز کیا گیا ۔لوگوں میں سخت تشویش پائی جارہی ہے کہ موجودہ اسمبلی حلقوں کے ساتھ بہت زیادہ چھیڑچھاڑ کی گئی ہے اور بہت زیادہ توازن بگاڑ دیاگیاہے۔نیشنل کانفرنس صدر اور رکن پارلیمان ڈاکٹر فاروق عبداللہ کا کا کہنا ہے کہ کمیشن کی رپورٹ ’کسی بھی طرح کی منطق کی نفی کرتا ہے“ اور کوئی سیاسی، سماجی و انتظامی وجہ سفارشات کا جواز پیش نہیں کرتی۔ وہیں وزیراعظم دفتر میں مرکزی وزیر مملکت ڈاکٹر جتیندر سنگھ جوکہ کٹھوعہ ڈوڈہ پارلیمانی حلقہ سے لوک سبھا ممبر بھی ہیںنے کہا ہے کہ جو پارٹیاں حد بندی کمیشن کی رپورٹ پر سوال اُٹھا رہی ہیں ان کے کچھ اور مقاصد ہوں گے ۔اُن کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی حد بندی کمیشن کی قانونی حیثیت پر بھروسہ کرتی ہے جسے ہندوستان کے الیکشن کمیشن نے تشکیل دیا ہے۔ کمیشن کچھ اصولوں اور پیرامیٹرز کی پیروی کرتا ہے جو بہت اچھی طرح سے طے شدہ ہیں اور کمیشن کی رپورٹ میں کوئی انحراف نہیں کیا جا سکتا۔ کمیشن کی اِس رپورٹ سے تصویر صاف ہوگئی ہے اور اِس میں تبدیلی کے امکانات کم دکھائی دے رہے ہیں۔جو طریقہ کار اپنایاگیاہے اِس میں سب سے زیادہ نقصان جموںوکشمیر کے اندر کسی طبقہ کو ہونے والا ہے تو وہ پہاڑی قبیلہ ہے جس کی 18لاکھ آبادی ہے اور اِس میں80فیصد آبادی کو اپنا نمائندہ چننے کا حق حاصل نہیں ہوگا، اگر انہیں اسمبلی انتخابات سے قبل شیڈیول ٹرائب کا درجہ نہ دیاگیا۔پہاڑی قبیلہ کی آبادی زیادہ تک اننت ناگ ۔ راجوری اور بارہمولہ لوک سبھا حلقوں میں ہے۔اننت ناگ۔ راجوری میں اکثریت جبکہ بارہمولہ لوک سبھا حلقہ میں فیصلہ کن تعداد ہے۔
آخری حد بندی
جموں وکشمیر میں اس سے پہلے اسمبلی حلقوں کی حد بندی 1963، سال1973ور1995کو ہوئی ہے۔آخری مرتبہ صدر راج کے دوران جسٹس ریٹائرڈ کے کے گپتا کی قیادت میں کمیشن نے سال 1981کی مردم شماری کے اسمبلی حلقوں کی حد بندی ہوئی تھی اور اِس کی بنیاد پر سال1996کے الیکشن ہوئے، سال1991میں مردم شماری نہیں ہوئی اور کوئی حدبند ی کمیشن بھی نہ بنایاگیا۔ بعد ازاں جموں وکشمیر حکومت نے سال 2026تک نشستوں کی حد بندی پر روک لگادی تھی جس کو عدالت عظمیٰ نے بھی برقرار رکھاتھا۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔