الطاف حسین جنجوعہ
جموں و کشمیر ریاست میں سیاسی جوڑ توڑ کی کوششوں سے لوگ سخت تذبذب کا شکار ہیں۔ 19جون2018کو پی ڈی پی۔ بی جے پی کے غیر مقدس رشتہ ازدواج ٹوٹنے کے بعد سے ایک عجیب سی سیاسی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے سرکردہ لیڈران کی بیان بازیوں سے غیر یقینی سا ماحول ہے۔ عام آدمی یہ فیصلہ کرنے میں ناکام ہے کہ وہ کس بیان پر یقین کرے اور کس پر نہیں۔ حیرانگی کا عالم یہ ہے کہ ایک ہی پارٹی سے وابستہ سنیئرلیڈران کے الگ الگ بیانات آرہے ہیں۔ کوئی کچھ کہہ رہا ہے تو کوئی کچھ۔ کبھی خبرآتی ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی، پی ڈی پی اور دیگر سیاسی جماعتوں سے وابستہ ممبران اسمبلی کی حمایت حاصل کر کے حکومت بنانا چاہتی ہے۔
اس سلسلہ میں جموں۔ سرینگر سے لیکرنئی دہلی تک کئی دنوں تک سرگرمیاں جاری رہیں اور ابھی بھی درپردہ یہ عمل جاری بتایاجاتاہے۔ اس دوران بی جے پی قومی جنرل سیکریٹری رام مادھو جوکہ پی ڈی پی۔ بی جے پی الائنس کے معمار تھے، نے سرینگر کا دورہ کیا، جہاں بھاجپا سے وابستہ سبھی اراکین قانون سازیہ کے ساتھ ساتھ پیپلز کانفرنس کے سجاد غنی لون سے اہم ملاقات کی۔ اس پر خبریں یہ آئیں کہ بی جے پی سیاسی جوڑ توڑ کر کے حکومت بنانے جارہی ہے لیکن رام مادھو نے، اپنے دورہ کو امرناتھ یاترا سے منسوب کر کے معاملہ ٹھنڈا کر دیا۔ چند روز سے پی ڈی پی اور کانگریس مخلوط حکومت بننے کی باتیں سیاسی، عوامی حلقوں میں موضوع بحث بنی ہیں۔
اگر چہ کانگریس لیڈر غلام نبی آزاد، امبیکا سونی اور غلام احمد میر نے ایسی خبروں کی تردید کی لیکن نئی دہلی میں جموں وکشمیر کی سیاسی صورتحال سے متعلق کانگریس پالیسی ساز کور گروپ کی اہم نشست اور سرینگر میں 3جولائی 2018کو منعقدہ کانگریس اراکین قانون سازیہ اور سنیئرلیڈران کے اجلاس کو حکومت سازی کے ساتھ جوڑا جارہاہے۔ سابقہ رکن پارلیمان طارق حمید قرہ جنہوں نے برہان وانی کی ہلاکت کے بعد بطور رکن پارلیمان عہدہ سے استعفیٰ دے دیاتھا اور کانگریس میں شمولیت اختیار کی تھی، نے دھمکی بھرے بیان میں کہاکہ اگر پی ڈی پی۔ کانگریس کی حکومت بنی تو وہ بغاوت کریں گے۔ نیشنل کانفرنس۔ کانگریس اور پی ڈی پی گرینڈ الائنس کی بھی چرچہ میں رہا تاہم این سی کارگذار صدر عمر عبداللہ نے بیان میں واضح کر دیاکہ وہ حکومت سازی کی کوششوں کاحصہ نہیں لیکن پچھلے چند ہفتوں سے حکومت سازی اور جوڑ توڑ کے حوالہ سے بی جے پی، پی ڈی پی۔ نیشنل کانفرنس اور کانگریس لیڈران کے بیانات، سرگرمیوں سے سخت عوامی حلقوں میں کافی بے چینی ہے جوکہ ہوسِ اقتدار کی خاطر خرید وفروخت کے عمل پر متعجب ہیں۔
اراکین قانون سازیہ کی خریدوفروخت کے عمل میں جمع کئے جارہے اعدادوشمار میں جب سیاسی پنڈتوں نے سی پی آئی (ایم )رکن اسمبلی کوبھی شامل کیاتو محمد یوسف تاریگامی نے فوری بیان دیتے ہوئے واضح کیاکہ وہ کسی بھی نئے اتحاد کی حمایت نہیں کریں گے۔ اس سارے سیاسی منظر نامہ کے بیچ پی ڈی پی جس کو Group of Individualsکہاجاتاہے، کابکھرا پن بھی نظر آیا ہے۔ طاقتور شیعہ رہنما اور سابق وزیر عمران انصاری اور ان کے بھائی عابد انصاری نے پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی پر نشانہ سادھتے ہوئے ان پر اقرباپروری پھیلانے کا الزام لگایا۔ انہوں نے کھلے عام کہاکہ محبوبہ مفتی نے پی ڈی پی کو نہ صرف پارٹی کی شکل میں ناکام کیا، بلکہ اپنے مرحوم والد مفتی محمد سعید کے ان خوابوں کو توڑ دیا جو انہوں نے دیکھے تھے۔ عمران انصاری نے اپنے بیان میں ہاکہ انہوں نے سیاست میں نئے اترے تصدق مفتی کو اس سال کابینہ وزیر بنانے اور محبوبہ کے رشتہ دار سرتاج مدنی کو پارٹی میں اہم عہدے دینے کے حوالہ سے کہا، ‘یہ ایک خاندان کا شو بن گیا تھا جسے بھائیوں، چچاوں اور دیگر رشتہ داروں کے ذریعہ چلایا جا رہا تھا۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی ‘فیملی ڈیموکریٹک پارٹی’ بن گئی ہے۔
عابدانصاری اور عمران انصاری کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے ایم ایل اے گلمرگ عباس وانی نے بھی پارٹی کے تئیں بغاوتی تیور دکھائے اور پارٹی سے اعلیحدہ ہونے کا باقاعدہ اعلان کر دیا۔ ایک سنیئر کالم نگار، دانشور اور تبصرہ نگار نے پی ڈی پی پر طنزکرتے ہوئے کہاکہ کیامحبوبہ مفتی، سرتاج مدنی، تصدق مفتی، فاروق اندرابی، نعیم اختر، سجاد مفتی، یہ سب مفتی محمد سعید کا خواب تھا…؟۔ نئی دہلی سے سرینگر تک کے سیاسی گلیاروں میں کانگریس، پی ڈی پی الائنس کی چہ مہ گوئیوں پر بھاجپا ریاستی صدر راویندر رینہ نے الزام عائد کیا ہے کہ کانگریس پارٹی پردے کے پیچھے جموں وکشمیر میں حکومت بنانے کی سازش کررہی ہے۔ ان کا کہناہے کہ جموں وکشمیر میں 2014 میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں کانگریس پارٹی کو جموں کی عوام نے مسترد کر دیا۔ کانگریس پردے کے پیچھے سازش کرکے جموں وکشمیر کے ساتھ بہت بڑا دھوکہ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
خبریں آرہی ہیں کہ دہلی میں ایک ایسی سازش رچی جارہی ہے۔ بی جے پی سے وابستہ سنیئرلیڈر، سابقہ نائب وزیر اعلیٰ اور اسمبلی اسپیکر کاویندر گپتا نے بی جے پی حکومت بننے کا عندیہ دیتے ہوئے کہاکہ بہت سے غیر مطمئن ممبر اسمبلی آنے والے دنوں میں بی جے پی کا دامن تھام سکتے ہیں۔ آنے والے دنوں میں نہ صرف پیپلز ڈیموکریٹک فرنٹ (پی ڈی پی) کے ممبران اسمبلی بلکہ کانگریس اور نیشنل کانفرنس کے غیر مطمئن ممبر ان اسمبلی حکومت کی تشکیل کے لئے ایک نئے محاذ میں شامل ہو سکتے ہیں۔ کاویندر گپتا نے گذشتہ روز دیئے گئے اپنے ایک بیان میں یہ بھی کہاتھاکہ بی جے پی جموں کشمیر میں حکومت بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے اور امرناتھ یاترا ختم ہونے کے بعد اس کا اعلان کیا جا سکتا ہے۔ آنے والے دنوں میں اونٹ کس کروٹ بدلے گا لیکن گھٹ جوڑ اور سیاسی خرید وفروخت کے عمل میں عام لوگ سخت پریشان ہیں اور انہیں حدشہ ہے کہ یہ عمل ریاست کی وحدانیت کے لئے خطرناک ثابت نہ ہو۔ شام دیر گئے کاویندرگپتا نے بیان پلٹتے ہوئے یہ کہاکہ ان حکومت نہیں بنے گی۔
ذرائع کی مانیں تو بھارتیہ جنتا پارٹی سراپا اس عمل میں مصروف ہے کہ سبھی جماعتوں کے ناراض اراکین قانون سازیہ سے لین دین کر کے انہیں خوش کر کے اقتدار میں واپسی کی جائے اور یہ واپسی دفعہ370اور دفعہ35-Aجنہیں بھاجپا اپنی راہ کا کانٹا مانتی ہے، کو ہٹانے کے لئے ایک منظم ومنصوبہ بند کوشش بتائی جارہی ہے۔ یاد رہے کہ جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی میں کل 87نشستیں ہیں۔ حکومت بنانے کے لئے کم سے کم44نشستیں درکار ہیں۔ پی ڈی پی کے پاس28 سیٹیں ہیں جبکہ بھاجپا ایم ایل اے کی تعداد 25، نیشنل کانفرنس کی15، کانگریس کی12، آزادامیدوار3، پیپلز کانفرنس کی2، سی پی آئی ایم 1، پی ڈی پی 1، نامزد 2 شامل ہیں۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔