جناب حاجی عبد الوہابؒ

محمد عرفا ن ندیم

اس کام کا آغاز 1927میں ہوااور اس کی بنیاد مولانا الیاس ؒ نے رکھی۔ مولنا الیاس ؒ 1303ھ میں پیدا ہوئے، والدین نے الیاس نام رکھا، ابتدائی تعلیم و تربیت کا اہتمام گھر میں ہی کیا گیا، گھر کی تمام خواتین صاحب نسبت تھیں۔ ہر طرف نماز روزہ اور تلاوت قرآن کی محفلیں ہوا کرتے تھیں۔ والد کا نام مولوی اسماعیل تھا اور انہوں نے اپنے علاقے میں ایک چھوٹا سا مدرسہ قائم کیا ہوا تھا جہاں محلے کے بچے پڑھنے کے لیے آتے تھے۔ مولوی اسماعیل صاحب کی وفات کے بعد ان کے بڑے بیٹے مولوی محمد نے اس مدرسے کی ذمہ داری سنبھالی، 1336ھ میں ان کی بھی وفات ہو گئی، چھوٹا بیٹا مولانامحمد الیاس ان دنوں مظاہر العلوم سہارنپور میں مدرس تھے، بھائی کی وفات ہوئی تو انہیں سہارنپور چھوڑ کر بستی نظام الدین آنا پڑا اور یہاں سے ان کی زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔

بستی نظام الدین صوبہ ہریانہ کے شہر میوات کے دہانے پر واقع تھی، میوات قوم کی حالت کچھ اچھی نہیں تھی، یہ لوگ حضر ت نظام الدین اولیاء کی کوششوں سے مسلمان تو ہو گئے تھے لیکن یہ صرف نام کے مسلمان تھے۔ یہ ہندوؤں اور سکھوں کی طرح نام رکھتے تھے، ان کے سروں پر چوٹیاں بھی ہوتی تھیں اور یہ اپنے گھروں میں مورتیاں بھی سجاتے تھے، یہ ہندوؤں کی طرح ہولی اور دیوالی بھی مناتے تھے اور یہ بابا گرونانک کے بھی پجاری تھے۔ کلمہ، نماز اور روزے کا تو انہیں پتا ہی نہیں تھا۔ 1921میں صورتحا ل اس وقت مزید بگڑ گئی جب ہندوؤں نے آریہ سماج کی تحریک شروع کی اور لوگوں کو ہندو بنانا شرو ع کر دیا، میوات کے علاقے سے ہندوؤں کی کامیابی کی خبریں آنا شروع ہو گئیں۔

مولانا الیاسؒ کے لیے یہ صورتحال بہت تکلیف دہ تھی، انہوں نے میوات کے علاقے میں مدارس اور مکاتب قائم کرنے شروع کیئے لیکن میواتی اپنے بچوں کو ان مدرسوں میں بھیجنے کے لیے تیار نہیں تھے لیکن اس سب کے باوجود مولاناالیاس اپنی محنت میں لگے رہے۔ بہت جلد مولانا کو احساس ہوگیا کہ جب تک ان میواتیوں کو ان کے ماحول سے نہیں نکالا جاتا تب تک محنت رائیگاں جائے گی۔ اس کے بعد مولانا نے میواتیوں کو جماعت کی صورت میں ان کے ماحول سے نکالااور انہیں مساجد، مدارس اور خانقاہوں میں ٹھہرانا شروع کیا، یہیں سے تبلیغی کا م کا آغاز ہوا، ابتداء میں یہ کام بہت مشکل تھا لیکن مسلسل محنت سے راستے بنتے گئے۔

مولانا الیاسؒ ہر لمحہ امت کی فکر میں لگے رہتے تھے، ان کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ جب میری شادی ہوئی تو میں نے دیکھا کہ مولانا راتوں کو بہت کم سوتے ہیں، ان کی ساری رات بستر پر آہیں بھرتے اور کروٹیں بدلتے ہی گزر جاتی تھی، ایک دفعہ میں نے پوچھا آپ کو رات کو نیند کیوں نہیں آتی تو فرمایا اگر وہ بات تمہیں معلوم ہو جائے تو جاگنے والے دو ہو جائیں۔ تبلیغ کے لیے کئی کئی دن تک کھانا نہیں کھاتے تھے، میلوں پیدل سفر کرتے اور جب دیکھتے کہ جماعت کے ساتھی تھک گئی ہیں تو کہتے ’’جبل جہد کی دوسری طرف خدا ہے جس کا جی چاہے مل لے۔ ‘‘ایک صاحب نے خیریت طلب کی تو فرمایا ’’ خیریت تو تب ہے کہ جس کام میں لگے ہو وہ پورا ہو جائے۔ ‘‘ایک صاحب نے خط لکھ کر خیریت طلب کی تو جواب لکھا ’’ طبیعت میں سوائے تبلیغی درد کے اور خیریت ہے۔ ‘‘ جب آپ دیکھتے کہ تبلیغ کے کام میں جڑنے والے اکثر لوگ ان پڑھ اور سادہ قسم کے دیہاتی ہیں تو بڑے افسوس سے کہتے ’’ کاش علماء اس کام کو سنبھال لیتے اور پھر ہم چلے جاتے۔ ‘‘ایک مرتبہ لکھنو کے تبلیغی جلسے میں لوگوں کو تبلیغ میں نکلنے کے لیے تیار کر رہے تھے، تبلیغ کے ایک ساتھی حاجی ولی محمد کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا :’’تم کیوں نہیں جاتے ‘‘ انہوں نے کہا’’ حضرت میری طبیعت خراب ہے میں تو مر رہا ہوں ‘‘ فرمایا :’’ مرنا ہی ہے تو تبلیغ میں جا کر مرو۔ ‘‘ یہ مولانا الیاس کی محنت کا ہی نتیجہ تھا کہ وہ میوات جو آدھا ہندو ہو چکا تھا 1941میں جب وہاں پہلا تبلیغی اجتماع ہوا تو اس میں پچیس ہزار لوگ شریک ہوئے جو کئی کئی میل سے پیدل سفر کر کے وہاں پہنچے تھے۔حاجی عبدالوھاب ؒ بھی اسی قافلے کے ایک فرد تھے، وہ یکم جنوری1923 کو ہندوستان کے ضلع کرنال میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق راجپوتوں کی ذیلی شاخ راؤ (رنگڑ) سے تھا۔ اسلامیہ کالج لاہور سے گریجوایشن کیا جس کے بعد تحصیلدار بھرتی ہوگئے۔ تقسیم ہند کے بعد بورے والا کے قریب ایک گاؤں میں آباد ہوئے۔ یہاں آکر نوکری چھوڑی اور تبلیغی جماعت میں شامل ہوگئے۔ وہ مولانا الیاس کاندھلویؒ کے ان پہلے پانچ ساتھیوں میں شامل تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی اللہ کے دین کیلئے وقف کرنے کااعلان کیا تھا۔ مولانا الیاس کاندھلویؒ نے 1927 میں تبلیغی جماعت کی بنیاد رکھی اور اپنے انتقال 1944 تک جماعت کے امیر رہے۔ ان کے بعد مولانا یوسف کاندھلویؒ 1965 تک امیر رہے، پھر مولانا انعام الحسن کاندھلوی 1995 تک امیر رہے۔

 مولانا انعام الحسن کاندھلوی کے انتقال کے تقریباً 2 ماہ بعد حاجی عبدالوہاب صاحب کو 10 جون 1995 کو تبلیغی جماعت کاعالمی امیر مقرر کیا گیا اور وہ اپنی وفات18 نومبر 2018تک جماعت کے امیر رہے۔ پاکستان میں تبلیغی جماعت کے سب سے پہلے امیر محمد شفیع قریشی تھے جن کا 1971 میں انتقال ہوا اور ان کے بعد حاجی محمد بشیر دوسرے امیر مقرر ہوئے۔ 1992 میں حاجی محمد بشیر کے انتقال کے بعد حاجی عبدالوہاب صاحب کو تبلیغی جماعت پاکستان کا امیر مقرر کیا گیا۔ وہ گزشتہ چند سالوں سے دنیا کے پانچ سو بااثر مسلمانوں کی فہرست میں شامل رہے اور ان کا نام ابتدائی دس ناموں میں شامل ہوتا تھا۔ وہ آخر وقت تک تبلیغ کی محنت میں لگے رہے اور ان کی آخری وصیت بھی یہ تھی جو لوگ مجھ سے محبت کرتے ہیں وہ اپنا وقت اور صلاحیتیں اللہ کے دین کے لیے وقف کر دیں۔ تبلیغی جماعت نے نہ صرف برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کا رشتہ اللہ کے دین سے جوڑا بلکہ عالمی سطح پر بھی تبلیغ کی محنت کو جاری رکھا۔ ہزاروں نہیں لاکھوں مسلمان ایسے ہیں جو تبلیغ کی محنت سے اللہ کے دین کی طرف واپس آئے اور ان کی زندگیاں بدل گئیں۔ آج غیر مسلموں کو مسلمان بنانے کی بجائے مسلمان کو مسلمان بنانے کی ضرورت ہے اور یہی کام تبلیغی جماعت کر رہی ہے۔ آج مسلمان تو بہت ہیں لیکن ایمان والے بہت کم ہیں، ہم من حیث الامہ ہر شعبہ زندگی میں زوال کا شکار ہیں، ایک عالم دین سے لے کر ایک عام مسلمان تک سب کو اپنے اللہ سے از سر نو تعلق جوڑنے کی ضرورت ہے اور یہی تعلق مع اللہ ہمارے  مسائل کا حل ہے۔

 مولانا الیاس ؒ سے شروع ہونے والی تبلیغ کی یہ محنت آج دنیا کے کونے کونے میں پھیل چکی ہے۔ حاجی عبدالوھاب ؒ صاحب اپنی زندگی اسی تبلیغ کی محنت میں لگا کر چلے گئے۔ جو لوگ اپنی زندگی، اپنا وقت اور اپنی صلاحیتیں اللہ کے دین کے لیے وقف کر دیتے ہیں اللہ دنیا میں ہی انہیں کامیابی سے سرخرو کر دیتا ہے۔

یہ بہت بڑی سعادت ہے کہ کسی کی زندگی، وقت اور صلاحیتیں اللہ کے دین کے لیے قبول ہو جائیں ورنہ ہماری حقیقت تو یہ ہے کہ ہم چھوٹے چھوٹے مفادات کے لیے اپنی زندگیاں ضائع کر دیتے ہیں۔ حاجی عبد الوھاب ؒ صاحب چلے گئے لیکن ہمیں یہ سبق دے گئے کہ اصل کامیابی اللہ کے دین میں ہے، جس نے اللہ کو راضی کر لیا وہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہو گیا اورحاجی عبد الوھاب صاحبؒ کا جنازہ اس کامیابی کی کھلی دلیل تھی۔

تبصرے بند ہیں۔