جہاد اور روح جہاد
مطلب مرزا
مولانا عنایت اللہ سبحانی صاحب کی "جہاد اور روح جہاد” کے عنوان سے ایک کتاب منظر عام پر آئی ہے۔ سب سے پہلے تو مولانا محترم کو مبارکباد کہ اس اہم موضوع پر آپ نے قلم اٹھایا اور بہت خوب اٹھایا۔
موجودہ دور میں لفظ "جہاد” کو لے کر کئی طرح کی غلط فہمیاں نہ صرف غیر مسلم بلکہ خود مسلمانوں کے حلقوں میں بھی پائی جاتی ہیں۔ ایک طرف اسلام مخالف قوتوں نے جہاد کو دہشت گردی کے مترادف قرار دے دیا ہے تو دوسری طرف مسلمانوں نے کچھ نام نہاد مسلم تنظیموں کی نادانیوں اور تخریبی کاروائیوں کو جہاد کہنا شروع کر دیا۔ اس ماحول میں اس بات کی اشد ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ جہاد کے "قرآنی تصور” کو واضح کیا جائے اور جو غلط فہمیاں شعوری یا غیر شعوری طور پر پھیلائی جا رہی ہیں ان کا مدلل جواب دیا جائے۔
جہاد کیا ہے ؟
جہاد کی ضرورت کیا ہے ؟
کیا غیر مسلموں کا قتل اور ان سے جنگ کرنا جہاد ہے ؟
جہاد کا مقصد خوں ریزی ہے یا قیام عدل و امن ؟
یہ اور اس طرح کے بہت سے سوالوں کے مولانا محترم نے اپنی مذکورہ کتاب میں کافی تفصیل اور مضبوط دلائل کے ساتھ تشفی بخش جواب دیئے ہیں۔
نائن الیون کے سانحہ کے بعد عالمی سطح پر منصوبہ بند طریقے سے اسلام کی شبیہ بگاڑنے کی کوشش ہوئی اور اسلام کا تعارف پوری دنیا میں دہشت گردی کو فروغ دینے والے مذہب کے طور پرکرایا گیا، اور پھر اس "دہشت گردی” کے خاتمہ کے لیے "امن کے سفیر” کھڑے ہوئے جس کے نتیجہ میں کئی مسلم ممالک تباہ ہوئے اور یہ تباہی کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اس پورے ماحول کے نتیجے میں ایک طرف تو مسلمان اس قدر مایوس ہوئے کہ انہیں بھی لفظ "جہاد” خطرناک بم لگنے لگا، اور دوسری طرف تشدد اور انتہاپسندی کی راہ کا انتخاب کر لیا گیا، یہ دونوں رویے ان سازشوں کو تقویت پہنچانے والے ہیں جو اسلام مخالف قوتیں اسلام کے خلاف کر رہی ہیں اور ساتھ ہی ان کے مقاصد کو غیر شعوری طور پر کامیاب بنانے میں مدد پہنچانے والے ہیں۔
مولانا محترم نے اپنی مذکورہ کتاب میں ان سب حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے صحیح راہ کا انتخاب اور مناسب لائحہ عمل کا خاکہ پیش کیا ہے۔ سب سے پہلے اس بات کو واضح کیا کہ جہاد ہوتا کیا ہے اور اس وقت کس چیز کو جہاد سمجھ لیا گیا ہے۔ مولانا لکھتے ہیں: "جہاد فی سبیل اللہ لوگوں کو زبردستی مسلمان بنانے کا نام نہیں ہے۔ غیر مسلم قوموں پر حملہ کرکے ان سے جزیہ وصول کرنے کا بھی نام نہیں ہے۔ نئے نئے ملکوں کو فتح کر کے نام نہاد مسلم سلطنت کو وسیع کرنے کا بھی نام نہیں ہے۔ جہاد نام ہے ستائے ہوئے اور کچلے ہوئے مظلوموں کے آنسو پوچھنے اور ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کا…انہیں عزت اور آزادی دلانے کا۔۔۔ چاہے وہ کسی مذہب اور رنگ و نسل سے تعلق رکھتے ہوں۔جہاد اس مقدس فریضہ کا نام ہے، لیکن آج اپنوں کی نادانیوں اور غیروں کی سازشوں نے اسے ایک بھیانک اور خوف ناک شے بنا دیا ہے۔”
مولانا ایک اور جگہ لکھتے ہیں: "ْجہاد کی روح ہے ساری انسانیت کی خیر خواہی اور بہی خواہی۔”
یہ جہاد کا قرآنی تصور ہے۔ ایسے میں کسی دہشت گردانہ کاروائی کو جہاد کی طرف منسوب کرنا کس قدر مکروہ عمل ہے، جہاد کے مقاصد پر گفتگو کرتے ہوئے مولانا محترم رقمطراز ہیں:
"تمام انسانوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اسلام جس جہاد کا حکم دیتا ہے۔ وہ کوئی ڈرنے اور گھبرانے کی چیز نہیں ہے۔ اس کی روح ہے انسانوں سے محبت اور مظلوموں سے ہمدردی و غم خواری۔ اس کی روح ہے ظلم واستبداد کا خاتمہ اور ظالموں سے نجات ! جہادِ اسلامی کا مقصد دفع فساد اور قیام امن کے علاوہ کچھ نہیں۔”
جہاد کے وسیع مفہوم کو سمجھاتے ہوئے مولانا محترم لکھتے ہیں: "کسی کو نرمی و محبت سے اچھی بات سمجھانا۔ اسے حکمت سے راہ راست پر لانے کی کوشش کرنا۔ کسی بھٹکے ہوئے ذہن کو دلائل سے صحیح بات پر مطمئن کرنا۔ نیکی کو پھیلانے اور بدی کو مٹانے کی سعی کرنا۔ مظلوموں کی مدد کرنا، ان کے آنسو پوچھنا، ان کے جائز حقوق دلوانے کی جد و جہد کرنا۔ یہ تمام کام، اور یہ ساری کوششیں چاہے انفرادی حیثیت میں ہوں یا اجتماعی شکل میں،یہ سب جہاد ہیں۔ خود اپنی اصلاح و تربیت کرنا اور کمزوریوں پر قابو پانے کی کوشش کرنا بھی جہاد ہے۔”
مولانا نے عالم اسلام اسلام کی صورت حال پر بھی تبصرہ کیا ہے۔ ان کی زبوں حالی اور پستی کی وجوہات اور ان حالات سے نکلنے کی تجاویز بھی مولانا محترم نے پیش کی ہیں۔
ایک لمبی مدت کے بعد "جہاد” کو موضوع بحث بنا کر اتنی تفصیلات اور باریک بینی کے ساتھ کوئی کتاب منظر عام پر آئی ہے، جس میں موضوع پر اصولی بحث کے ساتھ ساتھ بہت سی ضروری جزویات کو بھی بیان کر دیا گیا ہے۔ یہ ایک بہت مبارک کاوش ہے اور امت مسلمہ پر مولانا کا زبردست احسان ہے۔
خدا کرے کہ جس مبارک مقصد کے تحت یہ کتاب لکھی گئی ہے اس میں کامیابی حاصل ہو۔ اللہ اس کتاب کو شرف قبولیت بخشے، دردمند اور حق کے متلاشی قلوب کے لیے ذریعہ تسکین بنے اور جہاد کی اصل روح کو سمجھنے میں معاون ہو۔ اللہ مولانا محترم کو بھی صحت و تندرستی عطا کرے تاکہ یہ آبشار علم تا دیر بنی نوع انسانی کو سیراب کرتا رہے۔
تبصرے بند ہیں۔