حدیث حسن و حکایت روزگارکی بیدارمغز شاعرہ صاحبہؔ شہریار

ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی

آگہی کا درد، شاخِ لرزاں اور برگِ چنارسے ادبی دنیا میں اپنی شناخت کو استوار کرنے والی وادیٔ کشمیر کی نسائی لب و لہجے کی منفرد اور بیدار مغز شاعرہ صاحبہؔ شہریارکی شخصیت حلقۂ ارباب ذوق میں محتاجِ تعارف نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے والد کے شعری مجموعے ’’کرب زار‘‘ کی ترتیب و تدوین میں بھی اپنی ادب و ادیب نوازی،سخن فہمی اور ذوق سلیم کے جوہر دکھائے ہیں۔ ان کا زیر نظر شعری مجموعہ ’’صریر خامہ‘‘ بھی ان کی شعری کائنات میں ایک خوشگوار اضافہ ہے۔

صاحبہ شہریار کے شعری مجموعوں کے عناوین نہ صرف حدیث حُسن بلکہ حکایت روزگار اور عصری کرب کے بھی آئینہ دار ہیں۔ان کے اشعار نرم لب و لہجے میں زندگی کے تلخ حقائق، کرب ذات اور سوز دروں کی صدائے بازگشت ہیں۔ اُن کا شعور فکر و فن، ندرتِ زبان و بیان، مضمون آفرینی، بلند پروازیٔ خیال و عصری حسیت کا مظہر ہے۔اُن کے سینے میں ایک دردمند دل دھڑکتا ہے جو ایک شعری پیکر کی صورت میں اُن کے متعدد اشعار میں نمایاں ہے۔

ہر اک سے محبت سے پیش آؤ زمانے میں

جینے کا مرے دل نے اک رستہ دکھایا ہے

صاحبہؔ درد کی دولت یہ کہاں ملتی ہے

درد کی دنیا سے میں ہنس کے گذر جاؤں گی

اُنہوں نے متعدد اشعار میں اتحاد باہمی اور رواداری کو بھی موضوعِ سخن بنایا ہے جس کا ایک نمونہ حسب ذیل ہے۔

جہاں میں صا حبہؔ سب لوگ مِل کے ساتھ رہیں

جہاں میں جینے کے وہ راستے نکالوں گی

اجتماعی زندگی کی شکست و ریخت و فرض ناشناسی جو عہدِ حاضر کی ایک تلخ حقیقت ہے صاحبہؔ شہریار کے اس شعر سے نمایاں ہے۔

عجیب بات ہے بھائی کو بھی نہیں معلوم

جہاں میں فرض جو ہوتا ہے ایک بھائی کا

صاحبہ شہریار کا رنگِ تغزل قدیم و جدید اسالیبِ سخن کا ایک خوشنما امتزاج ہے۔ اُنہوں نے اپنی شاعری میں قدیم و کلاسیکی شعری روایت کی پاسداری کے ساتھ ساتھ جدید عصری میلانات و رجحانات کو بھی بروئے کار لاتے ہوئے اپنی انفرادیت برقرار رکھتے ہوئے اپنی غزلیہ شاعری میں حدیث دلبری کے ساتھ ساتھ تفسیرِ کائنات کو بھی موضوعِ سخن بنایا ہے جو ایک اچھی اور سچی شاعری کا طرۂ امتیاز ہے۔

تبصرے بند ہیں۔