حجابی لڑکیوں پر کالج کے دروازے بند

اڈپی کےبعد کندا پورا کالج میں بھی ہندوتوا تعصب کا شرمناک منظر

سمیع اللہ خان

کرناٹک کے کندا پورا گورنمنٹ کالج میں بھی آج مسلمان بچیوں کو داخل ہونے سے روک دیا گیا کیونکہ وہ باحجاب تھیں، یہ بچیاں کالج کے پرنسپل اور منتظمین کے سامنے روتی اور فریاد کرتی رہیں کہ امتحانات میں محض ۲ مہینے باقی ہیں عین امتحانات سے قبل اس طرح انہیں کالج سے باہر کرکے ان کی زندگی برباد نہ کی جائے، لیکن کالج انتظامیہ نے ایک نہیں سنی اور حجاب کےساتھ بچیوں کو کالج میں داخلے کی اجازت نہیں دی، انہیں صدر دروازے سے باہر کر گیٹ بند کردیا گیا۔

اس سے قبل سخت گیر ہندو تنظيموں سے منسلک کچھ ہندو طلباء کالج میں بھگوا چادریں پہنے ہوئے آئے اور مسلم لڑکیوں کے حجاب زیب تن کرنے کےخلاف احتجاج کرنے لگے، جس کے بعد انتظامیہ نے مسلم بچیوں کو حجاب کےساتھ کالج میں داخل ہونے سے روک دیا ہے۔

ابھی کرناٹک کے اڈپی کالج میں مسلم بچیوں کے حجاب پہننے کا معاملہ حل نہیں ہوپایا تھا کہ کرناٹک ہی میں ایک اور کالج نے مسلم بچیوں کے حجاب پر پابندی لگا دی ہے

یہ منظر دیکھ دل پر سخت چوٹ پہنچی ہے، آج نام نہاد آزادی کے ستر سال بعد بھارت کا مسلمان کہاں کھڑا ہے؟ ماب لنچنگ اور حجاب پر پابندیوں کے دور سے شروع ہونے والے نئے بھارت میں مسلمانوں کا مستقبل کیا ہوگا؟

حجاب آئینی آزادی سے پہلے بنیادی انسانی حق بھی ہے، کون کیا پہنے گا یہ کسی بھی انتظامیہ کے کنٹرول میں نہیں ہے، تعلیم گاہوں کے یونیفارم میں مسلم۔بچیوں کا حجاب ہو یا سِکھوں کا تربن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اس پر اب تک کی تاریخ شاہد ہے کبھی کسی کو حجاب سے مسئلہ نہ ہوا، اب اچانک درمیان سال میں اڈپی اور کندا پورا میں مسلم بچیوں کے حجاب کو غیرقانونی قرار دےکر انہیں حجاب اتارنے پر مجبور کرنا علاوہ ازیں پورا سال برباد کرتے ہوئے کالج سے برخاست کرنے کی دھمکی دینا یہ نہ صرف غیرقانونی ہے بلکہ یہ ہندوتوا غنڈہ گردی کی بےشرم مثال ہے، یہ غنڈہ گردی برہمنی ہندوﺅں کی بدنما تاریخ بننے جارہی ہے۔

دراصل جب اڈپی میں ہماری بچیوں کو حجاب کی وجہ سے تعلیم سے روکا گیا تھا تب سیاسی، ملی و سماجی لیڈران کو جس شدت کےساتھ میدانی احتجاج کےساتھ لڑائی لڑنی چاہیے تھی وہ نہیں لڑی گئی، لوگوں نے کہا کہ مقامی سطح پر حل ہونے دو زیادہ بڑا ایشو نہ بناؤ، اور بعض سیکولر مسلمانوں نے اس ایشو کو دبانے اور غیر مؤثر کرنے کی کوششیں بھی کیں جوکہ خود کو مثبت اور حد سے زیادہ progressive دکھلانے کی کوشش میں ہمیشہ لگے رہتےہیں انہیں چاہیے کہ کنداپورا میں مسلم بچیوں کےساتھ ہونے والے اس متعصبانہ ظلم کو دیکھیں اور ہوش کے ناخن لیں، بھارت میں بڑھتے اسلاموفوبیا کی وجہ سے جو حضرات گھبرانے اور بوکھلا کر ہڑبڑانے لگتے ہیں، مسلمانوں کےخلاف آئے دن ظلم و زیادتی اور تعصب کی خبروں سے ہڑبڑا کر جو حضرات ان زیادتیوں کی تاویل میں لگ جاتے ہیں انہیں چاہیے کہ اس قدر چھوئی موئی نفسیات کےساتھ وہ عملی سوسائٹی میں نہ رہیں بلکہ ہنگاموں کے موجودہ دور میں کہیں گوشہ نشین ہوجائیں، خبروں سے دور رہیں، کیونکہ جو لوگ شترمرغ کی طرح ریت میں سر ڈال رہےہیں اور اس کی تلقین بھی کررہےہیں وہ ظلم کے سیلاب کو راستہ دے رہےہیں ۔

اڈپی والے مسئلے میں پارلیمانی سیکولر اپوزیشن کو جو کردار ادا، کرنا چاہیے تھا وہ بھی نہیں کیا گیا کیونکہ سیکولر اور لبرل مخلوق گرچہ پہناوے میں پسند کی آزادی کا نعرہ لگاتی ہے لیکن درحقیقت وہ بھی مسلمانوں کے باعزت اور باحجاب پہناوے کو ناپسند کرتے ہیں کیونکہ پہناوے میں ننگاپن ان کی نظریاتی بنیاد ہے

ایسے میں اب بہت ضروری ہے کہ مسلمانوں کے ذمہ داران حجاب کے خلاف ہندوتوا تعصب کے معاملے کو مؤثر طورپر بلند کریں، ریاستی سطح پر اس ہندوتوا تشدد کے گھناﺅنے چہرے کو انٹرنیشنل میڈیا کے مذاکرات میں لائیں، اس سے پہلے کہ حجاب کے خلاف زہر ہر تعلیمی ادارے اور انسٹیٹیوٹ کی اندرونی پالیسی کا حصہ بن جائے اور مسلم بچیاں بغیر مزاحمت کے اسے اندرونی طورپر خاموشی سے قبول کرنے لگیں اس سے پہلے مسلم لیڈرشپ کو حرکت میں آنا ہوگا، خواہ آج کرناٹک کے یہ ادارے حجاب پر پابندی کو واپس لے لیں پھر بھی ان کی اس حرکت سے پھیلے ہوئے زہر کےخلاف سخت احتجاج کیا جانا چاہیے تاکہ آئندہ کوئی بھی ادارہ ہندوتوا غرور میں ایسے زہر کو اپنی پالیسی کا حصہ بنانے کی ہمت نہ کرسکے ۔

ریاستِ کرناٹک کو آر ایس ایس کے منظم منصوبے کے تحت ہندوتوا کی لیباریٹری بنانے کا کام ہورہاہے، افسوس کہ کرناٹک کے سلسلے میں سامنے کے یہ خطرناک حقائق نظرانداز کیے جارہےہیں ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔