اویسی: یوپی میں آزمائش کی کسوٹی پر

ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز

تلنگانہ کے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے یکم فروری2022ء کو ایک پریس کانفرنس کے دوران بیرسٹر اسدالدین اویسی کو تلنگانہ کا بیٹا قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ ہمارے بھائی ہیں۔ ان پر ہمیں ناز ہے۔ ریاست تلنگانہ کی جماعت اگر قومی سطح پر چمک رہی ہے تو چمکنے دو، کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ وہ خود کو ہندوستانی مسلمانوں کا چہرہ بنانا چاہتے ہیں جس میں وہ کسی حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔ کے سی آر اپنی بے باکانہ اظہار خیال کے لئے مشہور ہیں۔ ایک طرف انہوں نے بی جے پی کو ”منحوس“ قرار دیا تو دوسری طرف مجلس کے قائد کی ستائش کی۔ یہ سچ ہے کہ مجلس، ٹی آر ایس کی حلیف جماعت ہے۔ اس کے باوجود کے سی آر کی جگہ کوئی سیاست دان ہوتا تو وہ یاتو اسد اویسی سے متعلق سوال کا جواب دینے سے گریز کرتا یا کسی قسم کا تبصرہ نہیں کرتا۔ تعریف کبھی بھی نہیں کرتا، کیوں کہ جس طرح کی سیاست ہورہی ہے اس میں مجلس یا اسد اویسی کی تعریف کرنے کا مطلب کٹر ہندو ووٹرس سے ناراضگی مول لینا ہے۔ ان کٹر پنتھیوں کی وجہ سے ہی راہول گاندھی بھی زعفرانی شال اوڑھ کر پھر رہے ہیں۔

جہاں تک اسد اویسی کا تعلق ہے کوئی بھی اب انکار نہیں کرسکتا کہ وہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر ہندوستانی مسلمانوں کے سیاسی رہنماء ہیں، چاہے کوئی مانے یا نہ مانے۔ کچھ دن پہلے جب میں نے ایک مضمون ”اسد اویسی سے خوف اور ان کی مخالفت کیوں“ لکھا تھاجو نہ صرف ہندوستان کی کئی  اخبارات میں شائع ہوا بلکہ شمالی ہند میں اس مضمون کا ہندی ترجمہ کرکے واٹس اَیپ گروپ میں وائرل کیا گیا۔ ملک کے گوشے گوشے سے حتیٰ کہ نیپال کے سرحد سے تک لوگوں نے فون پر اسداویسی سے متعلق معلومات حاصل کیں۔ ان کا فون نمبر طلب کیا۔ بعض نے شکریہ بھی ادا کیا کہ اس مضمون کی وجہ سے بہت سی غلط فہمیاں مجلس اور اویسی سے متعلق دور ہوئی ہیں۔ فیس بک پر بعض حضرات نے تنقید بھی کی اور بعض نے یہ تک لکھا کہ گواہ آخر کب سے خوشامد پسند بن گیا ہے۔ اسد اویسی نے کتنی رقم دی ہے۔ اور بھی کئی تبصرے کئے گئے۔ جس کا قارئین کو مکمل اختیار کیا۔ اگرچہ کہ یہ وضاحت ضروری نہیں، پھر بھی حدیث شریف ہے کہ بدگمانی کو دور کیا کرو، اس سلسلہ میں ایک واقعہ بھی سیرت کی کتابوں میں ملتا ہے کہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زوجہ مطہرہ سے بات چیت کررہے تھے کہ ایک شخص غور سے دیکھتا ہوا وہاں سے گزرا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے آواز دے کر بلایا اور کہا اے شخص یہ میری بیوی ہے۔ اس شخص نے کہا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ پر بھی کوئی شک کرسکتا ہے، آپ صلی ا للہ علیہ وسلم نے فرمایا شیطان بدگمانی پیدا کرتا ہے اسے دور کرلینا چاہئے۔ اسی حدیث کی روشنی میں، یہ حلفیہ طور پر کہہ سکتا ہوں کہ 25-30 برس پہلے مجلس کے خلاف لکھنے پر بھی نہ کچھ ملا اور نہ ہی آج مجلس یا اویسی کی تائید میں کسی آس میں لکھا جارہا ہے۔ بلکہ حالات حاضرہ کی روشنی میں جب ہر منبر سے ہر پلیٹ فارم سے دیوان خانوں کے اجتماعات سے ملی اتحاد…. کی بات کی جاتی ہے تو میری یہ قلمی کاوش اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ مخالفت، تنقید کا میں خندہ پیشانی سے خیر مقدم کرتا ہوں۔ یقینا تنقید سے ہی ہم جیسے اناڑی قلم کاروں کی اصلاح ہوسکتی ہے۔ اور اسی تنقید کے آئینہ میں ہم اپنے آپ کو سدھار، سنوار سکتے ہیں۔ اسدالدین اویسی کو چاہے آپ کچھ بھی کہہ لیں، آج وہ ایک طاقت بن چکے ہیں، ایک ایسا نام جو ان کے چاہنے والوں سے زیادہ ان کے مخالفین کی زبان پر ہوتا ہے۔ ہندوتوا طاقتیں اپنے ووٹرس کو اسد اویسی کا نام لے کر ایسی ہی ڈراتی ہیں جیسے فلم شعلے کا ڈائیلاگ ہے کہ ”یہاں سے پچاس پچاس کوس دور گاؤں تک جب رات کو بچے روتے ہیں تو مائیں کہتی ہیں بیٹا سوجا نہیں تو گبر آجائے گا“ اسی طرح ہندوتوا طاقتیں، فرقہ پرست جماعتیں اب اسد اویسی کے نام سے ڈراتی ہیں کہ اگر بی جے پی نہیں آئی تو اویسی آجائیگا۔ دوسری طرف بی جے پی اور ہندوتوا طاقتوں سے بیزار اور ناراض لوگ یقینی طور پر اپنے بچوں کو یہ ضرور کہہ رہونگے کہ بیٹا مودی کے اچھے دن تو نہیں آئے، ہاں! اویسی جیسے لیڈر ضرور آگئے جو آنے والے برسوں میں کوئی نہ کوئی انقلاب ضرور لائیں گے۔

اُترپردیش میں جو اہمیت اسد اویسی کو مل رہی ہے، جس طرح سے مجلس اتحادالمسلمین سے وابستگی اختیار کی جارہی ہے، اس سے وہاں کی سیاست میں کافی فرق آئے گا۔ دیوبند سے مولانا اسد مدنی کے بھتیجے عمیر مدنی کو ٹکٹ دیئے جانے کے بعد جمعےۃ العلماء اور مجلس کے تعلقات یقینی طور پر بہتر ہوئے ہیں۔ اکھلیش یادو نے مجلس کی اس کوشش کو ناکام بنانے کے لئے معاویہ علی کو ٹکٹ دیا۔ حالانکہ انہوں نے انہیں نظر انداز کرکے کسی اور کو ٹکٹ دے دیا تھا۔ جب دیکھا کہ دیوبند سے صرف ایک ہی مسلم امیدوار ہے جو ہندو ووٹوں کی تقسیم سے فائدہ اٹھاکر کامیاب ہوسکتا ہے تو انہوں نے معاویہ علی کو دوبارہ میدان میں اُتارا۔ اب یہ سماج وادی پارٹی اور معاویہ علی کی بدقسمتی سے پرچہ نامزدگی مسترد ہوگیا۔ اعظم خان اور عبداللہ اعظم جیلوں میں سڑتے رہے، تڑپتے بلکتے رہے، سماج وادی پارٹی نے خاموشی اختیار کی۔ مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی پر قبضہ کرلیا گیا۔ اس کے در و دیوار کو تہہ و تاراج کردیا گیا۔ اس کے ساز و سامان کو لوٹ لیا گیا۔ سماج وادی پارٹی خاموش رہی۔ پارٹی کے سب سے سینئر وفادار لیڈر اعظم خاں جس نے چچا شیوپال یادو کی بغاوت سے پیدا شدہ بحران کے دوران ایک سرپرست کی حیثیت سے اکھیلیش یادو کے لئے ڈھال بن گئے تھے، اسی اعظم خان ان کا اہلیہ اور بیٹے کو جتنا چاہا بی جے پی نے رسوا کیا۔ ایک ہی آواز اٹھی تھی اعظم خان کے لئے وہ تھی مجلس کے قائد اسد اویسی کی۔ اب یہ عبداللہ اعظم کی مجبوری رہی ہوگی کہ انہوں نے پارٹی کی ٹکٹ ملتے ہی مجلس اور اویسی کے خلاف بیان جاری کیا۔ اس کے باوجود ایک بار پھر اسداویسی نے ان باپ بیٹے کے حق میں بیان دیا۔آسام کے مسلم رہنما آل انڈیا یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے بانی صدر مولانا بدرالدین اجمل نے اسد اویسی کو ایک باصلاحیت بے لوث سیاسی رہنمائے قرار دیتے ہوئے ان کے ساتھ یگانگت کا اظہار کیا ہے۔ یوپی کی پیس پارٹی کے ڈاکٹر ایوب اور جمعےۃ العلماء کونسل نے بھی مجلسی قائد کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ یقینی ہے کہ بہت سے قائدین اندرونی طور پر حمایت کررہے ہونگے۔ کسی مجبوری کے تحت کھل کر اظہار نہیں کرپاتے۔

پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کو الیکشن 2024ء سے پہلے کا پری فائنل کہا جارہا ہے۔ بی جے پی کو مسلسل نقصان ہوتا جارہا ہے۔ مودی اور شاہ کی ریالیوں کے باوجودعوام میں بی جے پی کے لئے جوش و خروش کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوتوا تنظیمیں فرقہ وارانہ فسادات، عبادتگاہوں پر حملے اور اشتعال انگیز نعروں کے ذریعہ ماحول کو زہرآلود کرنے کے درپے ہیں چوں کہ مسلمان کسی حد تک جاگ گیا ہے۔ اس لئے ان فرقہ پرستوں کی کارستانیوں پر کسی شدید ردعمل کا اظہار نہ ہونے کی وجہ سے بھی ان کی سازشیں اور بھی ناکام ہورہی ہیں۔اس طرح ان کا ہندوتوا کارڈ بھی ناکام ہورہا ہے۔ ان حالات میں جبکہ ایک مسلم جماعت قومی سطح پر ابھرکر آئی ہے اور اُترپردیش میں اپنے وجود کا احساس دلاچکی ہے۔ اسد اویسی کو ذہن اور دل سے عوام کی ا کثریت اپنا رہنما تسلیم کرچکی ہے۔ صرف عملی اقدام کی ضرورت ہے۔ یہی وقت ہے کہ اس ایک الیکشن میں مجلس اور اسد اویسی کا بھرپور ساتھ دیا جائے۔ کسی بھی نام نہاد سیکولر جماعت میں شامل مسلم قائدین نے کبھی بھی مسلمانوں کے حساس ترین مسائل پر بھی آواز اٹھانے میں پس و پیش کیا ہے۔ کیوں کہ وہ پارٹی کی پالیسی کے پابند ہیں۔ اور کوئی بھی سیکولر پارٹی نہیں چاہتی کہ مسلم مسائل حل کئے جائیں۔ اگر مسائل حل ہوجائیں گے تو پھر انہیں کون پوچھے گا۔ کانگریس خود کو سیکولرقرار دیتی ہے۔ اب وہ لفظ سیکورزم کے استعمال سے پرہیز کرتی ہے۔ ویسے بھی آزادی سے لے کر بی جے پی حکومت آنے تک کانگریس نے اپنے دورِ اقتدار میں مسلمانوں کے لئے کیا کیا۔ ان کا سب سے بڑا کار نامہ سچر کمیٹی کی رپورٹ کی اشاعت ہے۔جس میں یہ کڑوا سچ ظاہر کردیا گیا کہ مسلمان تعلیمی اور معاشی اعتبار سے سب سے زیادہ پسماندہ قوم ہے میرے اپنے خیال میں سچر کمیٹی کی رپورٹ کی اشاعت سے زیادہ بڑا کارنامہ کانگریس کا یہی ہے کہ اس نے ایک حاکم قوم کو ہندوستان کی سب سے زیادہ پسماندہ قوم بنادیا۔ آج بہت سے الزامات ہندوتوا جماعتوں پر لگائے جاتے ہیں، مگر جب سے ہم نے ہوش سنبھالا تب سے ہی ملک میں یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی بات سنتے رہے ہیں۔ مسلمانوں کی مذہبی تشخص کو مٹانے کی کوشش بھی اسی کے دور سے شروع ہوئی۔ بنیاد کانگریس نے رکھی کام کو پائے تکمیل تک پہنچایا بی جے پی نے۔

سماج وادی پارٹی ہو یالالو پرشاد کی راشٹریہ جنتادل، یا کوئی اور جماعت، سبھی نے مسلمانوں کو مٹانے کے لئے اپنا اپنا رول ادا کیا۔ وی پی سنگھ کو مسلمانوں نے اپنی دوست سمجھا اور وی پی سنگھ کی پالیسی کی وجہ سے بی جے پی مضبوط ہوئی۔ وی پی سنگھ ہی کی ہدایت پر لالوپرساد نے رام رتھ یاترا کو بہار کے سمستی پور میں روکا اور اڈوانی کو گرفتار کیا تھا۔یہی وہ لمحہ تھا جب اڈوانی ہندوؤں کا ناقابل تسخیر لیڈر بن گیا تھا۔ اگر لالو، اڈوانی کو گرفتار نہ کرتے تو نہ اڈوانی طاقتور ہوتا اور نہ اس کی تحریک کو تقویت ملتی۔ کس کس کا ذکر کیا جائے، ماضی کی ہر ایک یاد زخموں کو تازہ کرتی ہے۔ کانگریس، سماج وادی پارٹی ہو یا کشمیر کی کوئی بھی سیاسی جماعت ان سے وابستہ قائدین نے ہمیشہ اپنے ذاتی مفاد کو اپنے اقتدار کو ترجیح دی۔ کانگریس میں ہیوی ویٹ مسلم لیڈرس کی کمی نہیں رہی مگر کسی نے کبھی بھی نہ تو ایوان پارلیمنٹ میں نہ ہی اپنے پارٹی کے اہم اجلاس میں اپنی قوم کی نمائندگی کی کوشش کی۔ ایوان پارلیمنٹ میں اگر کبھی مسلمانوں کیلئے آواز اٹھائی تھی تو غلام محمود بنات والا، ابراہیم سلیمان سیٹھ، سلطان صلاح الدین اویسی اور آج اسدالدین اویسی نے۔ فاروق عبداللہ، غلام نبی آزاد، سلمان خورشید اور بھی کئی اہم مسلم قائدین کو مسلمان کے مسائل اس وقت یاد آئے جب اپوزیشن کے صفوں میں آگئے۔ابھی حال ہی میں ایک طویل عرصہ قید یا نظربند رہنے کے بعد جب نریندر مودی نے ملاقات کا موقع دیا تو یہی کشمیری لیڈرس ہاتھ جوڑ کر ان کے ساتھ تصویر لیتے نظرآئے۔ غلام نبی آزاد نے سونے گاندھی کے نام 23ارکان کے ساتھ کھلاخط لکھا۔ ایک طرح سے شکایت کی۔ بی جے پی حکومت نے پدم بھومشن سے نوازا۔اس سے زیادہ اور کیا بے غیرتی کی بات ہوسکتی ہے۔

خیر اترپردیش ہو یا بہار، راجستھان ہو یا گجرات، مجلس اتحادالمسلمین نے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے جس پر کڑی تنقید کی جارہی ہے۔ پورے اترپردیش میں یہ پروپگنڈہ کیا جارہا ہے کہ مجلس کی شبیہہ متاثر ہورہی ہے۔ کیوں کہ ٹکٹ دینے کے معاملے میں بہت ساری شکایتیں ہیں۔ بعض قدیم کارکن ناراض ہیں۔ مسلمانوں کی ایک طاقتور برادری کے بہوجن سماج میں شمولیت کے بعد مجلس کی کامیابی کے امکانات 50-50 ہوگئے ہیں۔ مجلس کے یوپی کے صدر کے متعلق بھی سرگوشیوں میں پروپگنڈہ کیا جارہا ہے۔ سنی سنائی باتوں پر یقین نہیں کیا جانا چاہئے۔ بلاشبہ اُترپردیش میں بی جے پی، بی ایس پی اور ایس پی کی پروپگنڈہ مشنری بہت متحرک ہے۔ جو الیکشن میں سب سے بڑا ہتھیار ہوتا ہے۔ آثار تو بتارہے ہیں کہ مجلس کے خلاف پروپگنڈہ اثر کرجائے گا۔ اس کے لئے اویسی صاحب کو زمینی حقائق کا جائزہ لینا ہوگا، جو شکایات ہیں، انہیں دور کرنی ہوگی۔ دوسری طرف رائے دہندوں کو افواہوں پر یقین نہ کرتے ہوئے اپنے شعور کا امتحان دینا ہوگا۔ آج کے حالات میں مجلس کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ نظریاتی اختلافات ختم کرکے اسدالدین اویسی کو اپنا سیاسی قائد تسلیم کرلیا جانا چاہئے۔ ہمارے مخالفین صدیوں سے سماجی امتیازات، ناانصافی کے باوجود آج پولنگ کے ایک دن ایک ہوکر انہیں منتخب کررہے ہیں۔ حالانکہ نوٹ بندی نے عام آدمی کو بھکاری بنادیا۔ جی ایس ٹی صنعتی اور تجارتی اداروں کی کمر توڑ دی۔ چند ہزار روپوں کے قرض کی خاطر سینکڑوں کسان خودکشی کرتے ہیں اور مہاراج اپنے قریبی ساتھیوں کی ہزاروں کروڑ روپئے کے قرض معاف کردیتے ہیں۔ ہندوستان کی ایک ایک چیز کو یا تو گروی رکھا جارہا ہے یا فروخت کردیا جارہا ہے۔ ہندوستان کو کنگال بنادینے والے کو بھی محض اس لئے اقتدار کی کرسی پر بٹھایا جارہا ہے کہ وہ آپ کی طاقت کو کمزور کرنے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اور آپ ہم ابھی تک تنقید، طعنوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ جس کا خمیازہ آنے والے دنوں میں ہمیں بھگتنا پڑے گا۔ ایک مرتبہ انہیں آزمالو اگر آپ کی آزمائش کی کسوٹی پر یہ کھرا نہ اتریں تو اگلی بار انہیں مسترد کردینے کا آپ کو اختیار ہے۔ آزمائے بغیر مخالفت ناانصافی ہے۔ یہ وقت صرف ملک کی سیاسی مستقبل کے لئے نہیں بلکہ ہمارے اپنے مستقبل کے لئے بھی اہم ہے۔ ایک مسلم قیادت کا قومی سطح پر ابھرنا ضروری ہے۔ ورنہ یہ سیکولر چہرے تو آپ کی پہچان بھی ختم کردے گی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔