حجاب پر سیاست
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
مسلم لڑکیوں کے لیے حجاب کا استعمال اور پردہ ان کی تہذیب وثقافت ہی نہیں، دینی تقاضے کا حصہ ہے، حجاب اور اسکاف استعمال کرنے والی عورتیں سماج میں با وقار سمجھی جاتی ہیں، لیکن فرقہ پرست طاقتوں کو مسلم لڑکیوں کا حجاب میں آنا گوارہ نہیں ہے، وہ چاہتے ہیں کہ جس طرح وہ اپنی گھر کی عورتوں کو نیم عریاں رکھنا اور دیکھنا پسند کرتے ہیں ویسے ہی مسلم لڑکیوں کے دیدار سے بھی وہ اپنی آنکھیں سینکیں، یہ ایک نفسیاتی برائی ہے، جو انسان کوجسمانی تلذذ اور عیاشی کا خوگر بنا دیتا ہے۔
اسی لیے شریعت نے عورتوں کو پردہ کا حکم دیا ، تاکہ وہ غیرمردوں کی ہوس بھری نگاہوں سے محفوظ رہیں، کرناٹک اور ملک کی کئی ریاستوں میں حجاب پر سیاست شروع ہو گئی ہے، کرناٹک میں حجاب پہن کر کئی اسکول اور کالج میں داخلہ ممنوع قرار دے دیا گیا ہے، مسلم لڑکیاں احتجاج کر رہی ہیں، بھگوا بریگیڈ ان کے ساتھ بد تمیزی سے پیش آ رہا ہے، معاملہ عدالت میں ابھی زیر غور ہے، لیکن حجاب پر اس پابندی کی وجہ سے کرناٹک میں ہند ومسلم منافرت زوروں پر ہے، اب یہ تحریک پورے کرناٹک میں پھیل گئی ہے، حالات اس قدر خطرناک ہو گیے ہیں کہ حکومت نے تین دنوں کے لیے تمام تعلیمی ادارے بندکر دیئے ہیں۔
عدالت میں سماعت چل رہی ہے، ابھی فیصلہ نہیں آیا ہے، لیکن عدالت نے اپنے تبصرے میں اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ حجاب مسلم لڑکیوں کا حق ہے اور ہم قرآن کو نہیں بدل سکتے ہیں، یہ سب اسکول یونیفارم کے لزوم کے نام پر کیا جا رہا ہے، لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ جب سکھ لڑکے پگڑی باندھ کر کلاس کر سکتے ہیں، تو مسلم لڑکیوں کا حجاب کیوں یونیفارم کے خلاف سمجھ میں آ رہا ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔