محمد اشفاق عالم ندوی
اللہ تعالی ہر زمانہ میں انسانوں کی ہدایت اور ان کی رہنمائی کا سامان فراہم کرتا رہا ہے۔ ابتداء میں اس نے یہ کام انبیاء علہیم السلام سے لیااور بالآخر حضرت محمد ﷺ پر اس سلسلے کو روکتے ہوئے دین کی تکمیل فرمادی۔ لیکن اس کے بعد جب بھی شریعت میں دین کے نام پر غلط افکار و خیالات اور بدعات و خرافات داخل ہوتی جس سے شریعت اسلامیہ کی شناخت اور اس کے اصل چہرے کے ماند پڑ جانے کاخدشہ ہوتا تو قانون الہی کے مطابق ہر دور اور ہر صدی کے ابتداء میں ایک مجدد اور دیدہ ورپیدا ہوتاجو بلا خوف وخطر دین کو از سر نو زندہ و تابندہ کرتا رہاہے۔ انہی مجددین و مصلحین میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی بھی ہیں ۔ یہ وہ زمانہ تھا جبکہ بابر کی قائم کردہ وہ عظیم الشان مغلیہ سلطنت رو بہ زوال ہوکر پارہ پارہ ہو رہی تھی جس کو دیکھ کراہل دل خون کے آنسو رو رہے تھے۔ سکھوں ، مرہٹوں ، جاٹوں اور نادر شاہ کے سنگ دلانہ حملوں جیسے واقعات و حادثات نے دہلی کی عظمت پارینہ کے حسن کو تاراج کردیا تھا۔ اس کے امن پسند باشندوں کے لئے اپنی عزت وناموس کی حفاظت کرنا دشوار ہوگیا تھا۔ پورا معاشرہ زوال آمادگی کا شکار تھا۔ اخلاقی اقدار کو زنگ لگ رہا تھا اور مرکز کی چولیں ہل رہی تھیں ۔ شاہان وقت عیش و عشرت میں غرق تھے۔ انہیں نہ حکومت کی فکر تھی اور سلطنت کا خیال۔
بقول ظفر احمد نظامی مسلم معاشرہ پر دنیا پرستی غالب آچکی تھی، روحانی عظمتیں مادیت کی پستی میں جا سوئی تھیں ۔ ان کے اندر نہ عزم باقی تھا نہ حمیت، نہ راست گوئی تھی، نہ مذہبی رجحان، مذہبی گمراہی نے ان کے وجود کو منتشر کردیا تھا جس کے سبب کتاب و سنت سے بے اعتنائی امت مسلمہ کا خاصہ بن گئی تھی۔ علمائے سو نے دین کو اپنا جاگیر سمجھ کر دنیا داری کو اپنا وطیرہ بنا لیا تھا۔ قرآن و حدیث کو طاقوں میں سجا کر علم و عمل کو نذر نسیاں کردیا گیا تھا‘‘۔
ان اسباب کی بنیاد پرالحاد اور دہریت بڑی تیزی کے ساتھ مسلم معاشرہ کا حصہ بنتا جا رہا تھا۔ لوگ دینی تعلیمات سے بالکل نا واقف اور اخلاقی مفاسد کے شکار تھے۔ علماء و مشائخ اپنے مدرسوں اور خانقاہوں میں گوشہ نشیں تھے۔ جمو د، بے حسی و تنگ نظری سے معمور تھے۔ کورانہ تقلید نے ان کے فکری و ذہنی صلاحیتوں کو سلب کرلیا تھا۔ بدعات و خرافات اور اوہام پرستی کی گرم بازاری تھی۔
مولانا سید سلیمان ندوی مقالات سلیمانی میں لکھتے ہیں کہ’’ مسلمانوں میں رسوم و بدعات کا زور تھا۔ جھوٹے فقراء اور نام نہاد مشائخ اپنے بزرگوں کی خانقاہوں میں مسند بچھائے اور اپنے بزرگوں کے مزاروں پر چراغ جلائے بیٹھے تھے۔ مدرسوں کا گوشہ منطق و حکمت کے ہنگاموں سے پر شور تھا۔ فقہ و فتوی کی لفظی پرستش ہر مفتی کے پیش نظر تھی، مسائل فقہ کی تحقیق و تدقیق مذہب کا سب سے بڑا جرم تھا عوام تو عوام خواص تک قرآن پاک کے معانی و مطالب اور احادیث کے احکام و ارشادات اور فقہ دین کے اسرار و مصالح سے بے خبر تھیــ‘‘
ان حالات سے نبرد آزما ہونے کے لئے کسی بھی طبقہ سے کوئی شخص آگے نہیں بڑھ رہاتھا۔ کیونکہ اس قدر چلیجز کا مقابلہ کرنا در حقیقت کسی مسلح فوج کے مقابلہ میں تنہالڑنے کے مترادف تھا۔ لیکن حضرت شاہ ولی اللہ ؒ نے حالات کا گہری نظر سے مطالعہ کیا اور اپنے اصلاحی پروگرام کو مختلف سطحوں میں شروع کیا۔ اس وقت امت مسلمہ افتراق و انتشار کا شکار تھی۔ فقہاء امت تقلید اور عدم تقلید، ائمہ فقہ کی آرا میں اختلاف کی بحثوں میں باہم دست و گریباں تھے۔ اور جس قوم کی سیاسی قیادت کے ساتھ ساتھ مذہبی قیادت میں بھی گھن لگ جائے تو وہ قوم خود بخود اپنی موت مر جا تی ہے۔ اس ماحول میں شاہ صاحب نے تفہیم دین کے ایک سنجیدہ عالمانہ اور دانشوارانہ اسلوب کا آغازکیا۔
دوسری طرف وہ امت کے مختلف فرقوں میں اختلاف عقائد کے اسباب و علل کا سراغ لگانے کی طرف مائل ہوئے۔ فقہ، کلام اور تصوف میں ان کا خاندان خود ایک مکتب فکر کا نمائند ہ تھا مگر شاہ صاحب نے تحقیق مسائل میں جانبداری یا عصبیت کو اثر انداز نہیں ہونے دیا اور اپنے عقائد کی تائید و توثیق سے زیادہ اس بات سے سروکار رکھا کہ وجوہ اشتراک تلاش کی جائیں اور اختلاف میں تطبیق کی راہ نکالی جائے۔
حضرت شاہ صاحب کے پیش نظر اس وقت امت مسلمہ کی شیرازہ بندی تھی۔ اس لئے انہوں نے راہ اعتدال اختیار کرتے ہوئے شیعہ امامیہ کوبھی مسلمان قرار دیا جنہیں علمائے امت بے تکلف کافر کہتے تھے۔ جس کی وجہ سے علماء کی ایک جماعت حضرت شاہ صاحب سے متنفر ہوگئی اور شاہ صاحب تک کو بھی شیعہ کہنے میں دریغ نہ کیا۔
ان سب کے ساتھ ساتھ انہوں نے ایک مضبوط نظام تعلیم پر خصوصی توجہ دی۔ شاہ صاحب سے پہلے ہندوستاں کے اندر ایک روایتی نظام تعلیم کا دور دورہ تھا۔جو گروہی عصبیت اور طرح طرح کے خرافات سے پر تھی۔ اس کے لئے انہوں نے اپنے والد کے انتقال کے بعد بارہ سال تک مسند درس پر بیٹھ کر اپنے ذی استعداد جانشیوں کی ایک ایسی جماعت تیار کردی جس نے شاہ صاحب کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے تفسیر، حدیث، فقہ اور کلام کی تعلیم و تدریس کو جاری رکھا۔ اور علم حدیث و تفسیر کے صحیح علم سے لوگوں کو روشناس کرایا۔ شاہ صاحب نے دین کے اسرار و رموز کو سمجھ کر حجۃ اللہ البالغہ جیسی ایک عدیم المثال کتا ب تصنیف کی۔
ایک طرف شاہ صاحب امت مسلمہ کی شیرازہ بندی میں لگے ہوئے تھے اور دوسری طرف علماء سو کا ایک طبقہ جو دین کی حکمت اور دقائق سے ناواقف تھا،وہ ہمیشہ یہ چا ہتا تھا کہ جن مسائل پر اتفاق ہو سکتا ہے ان پربھی اتفاق نہ ہونے پائے خواہ امت مسلمہ کا شیرازہ کتنا ہی کیوں نہ بکھر جائے لیکن شاہ صاحب نے ان کی مخالفت کے باوجود ایک رسالہ’’ اصل الشیعۃ و اصولہا ‘‘کے نام سے تحریر فرمایا۔اورامت مسلمہ کی بکھرتی، ٹوٹتی دیوارکو سنبھالا دینے کی کوشش کی۔
شاہ صاحب کے یہ وہ کارنامے ہیں جس نے بڑے بڑے علمائے متاخرین کو متاثر کیا اور شبلی جیسا مفکر بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگیا کہ ابن تیمیہ اور ابن رشد کے بعد بلکہ انہیں کے زمانے میں مسلمانوں میں جو عقلی تنزلی شروع ہوا تھا اس کے لحاظ سے یہ امید نہ تھی کہ پھر کوئی صاحب دل و دماغ پیدا ہوگا لیکن قدرت کو اپنی نیرنگیوں کا تماشا دکھا نا تھا کہ اخیر زمانے میں شاہ ولی اللہ جیسا شخص پیدا ہوا جسکی نکتہ سنجیوں کے آگے غزالی، رازی اور ابن رشد کے کارنامے ماند پڑ گئے ‘‘
نوب صدیق حسن خاں نے اتحاف النبلاء میں لکھا ہے کہ اگر شاہ صاحب کا وجود گزشتہ زمانے کے صدر اول میں ہوتا تو امام الائمۃ اور تاج المجتہدین شمار ہوتے۔ ‘‘
بہر حال شاہ صاحب کی زندگی کا ایک ایک لمحہ متاثرکن اور سحر انگیز ہے۔شاہ صاحب نے اکیلے منزل کی طرف چلنا شروع کیا تھا لیکن ان کے تجدیدی کارناموں سے متاثر ہوکرراہ رو آتے گئے اور کارواں بنتا چلا گیا۔ آج ایک بار پھر شاہ ولی اللہ ثانی کی ضرورت ہے جو مسلم سماج میں بڑھتی بدعات و خرافات پر لگام لگاسکے۔ آج پھر سے اسی طرح کے حالات پیدا ہوتے جارہے ہیں اور امت مسلمہ کاشیرازہ منتشر ہوتا جارہا ہے۔ اور اس زبوں حالی سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔اور عالم اسلام کی سو و زیاں تو کسی سے بھی پنہاں نہیں بقول علامہ اقبال ’’ہوگیا مانند آب ارزاں مسلماں کا لہو‘‘لیکن پھر بھی یہ قوم اپنی نیند سے بیدار ہونے کو تیار نہیں ۔ کیا ہوگا اس امت مرحومہ کا ؟؟؟؟اب بس علامہ اقبال کی زبان میں یہی کہہ سکتے ہیں کہ
عام حریت کا جو دیکھا تھا خواب اسلام نے
اے مسلماں آج تو اس خواب کی تعبیر دیکھ
کھول کے آنکھیں میرے آئینہ گفتار میں
آنے والے دور کی اک دھندلی سی تصویر دیکھ
میرے خیال میں شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ ایک ہمہ جہتی شخصیت تھی۔ مجدد اور مجتہد بھی شمار کیے جا سکتے ہیں اور محدث بھی اور وقت کے سیاسی مدبر بھی۔ تصوف کی راہ پر بھی درجہ امامت پر سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے تنے سے دو الگ ڈال نکلے ایک سلفی اور وہابی قرار دیا گیا اور دوسرا حنفی و صوفی یعنی دیوبندی۔ بنیادی بات جو کسی صورت میں نظر انداز نہیں ہونی چاہیے وہ یہ ہے کہ اس گھرانے نے رجوع الی القران کی گویا ایک تحریک اٹھا دی تھی۔ ان کی اگلی نسل خدمت قرآن میں مصروف تھی کہ ایران سے اودھ میں داخل ہونے والی شیعیت کی لہریں دلی سے گزر کر پنجاب اور سندھ میں داخل ہو رہی تھیں۔ ان کے آگے بھی اسی خانوادے نے بند باندھنے کی کوشش کی۔ یوں اس خانوادے کو ایک اکائی سمجھ کر ان کی دینی خدمات کا جائزہ لینا ہی انسب ہے۔