ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
یہ پہلا موقع ہے جب بی جے پی نے اپنی حکومت کا ساتواں جشن نہیں منایا۔ ویسے گزشتہ سات سالوں میں بہت کچھ ایسا ہے جو پہلی بار ہوا ہے۔ 2014 کے بھارت اور اس کے بعد آئی تبدیلیوں کا جائزہ لینے سے اس کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ دنیا میں بھارت کویونٹی ان ڈائیورسٹی (انیکتا میں ایکتا)، سب سے بڑی جمہوریت، تیزی سے آگے بڑھتی معیشت، اظہار رائے کی آزادی اور فلاحی اسٹیٹ کے طور پر جانا جاتا تھا۔ ملک گلوبل ہنگر انڈیکس میں 55 ویں پائیدان پر تھا تو دنیا کی رینکنگ میں اسے ساتواں مقام حاصل تھا۔ فوڈ سیکورٹی بل لا کر حکومت فاقہ کشی پر قابو پانے کی کوشش کر رہی تھی۔ حیدرآباد اور بنگلور آٹی ہب بن چکے تھے۔ دہلی، نوئیڈا، گڑ گاؤں، ممبئی، احمدآباد وغیرہ بڑے شہروں میں بنے بی پی او میں لاکھوں نوجوان کام کر رہے تھے۔ دنیا کے بیشتر ممالک کے ساتھ بھارت کاروبار کر رہا تھا اور چین، فرانس، انگلینڈ، امریکہ جیسے ممالک کی معیشت کو ٹکر دے رہا تھا۔ نوجوانوں کو لگنے لگا تھا کہ ملک خود دنیا کی بڑی طاقت بن رہا ہے۔ اب ملک سے باہر جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ جو ملک سے باہر جا چکے تھے وہ بھی واپس آ کر یہاں نئے اسٹارٹ اپ شروع کر رہے تھے۔
یو پی اے حکومت پر اس کی دوسری میقات کا آخری ڈیڑھ سال بھاری پڑ رہا تھا۔ سی اے جی کی رپورٹ جس میں حکومت کی کمیوں کی طرف متوجہ کیا گیا تھا اور آر ٹی آئی قانون نے یو پی اے حکومت کےلئے مشکل کھڑی کر دی تھی۔ روز بد عنوانی اور گھوٹالے کی خبریں آ رہی تھیں۔ کئی وزراءکو استعفیٰ دے کر جیل جانا پڑا، یہ الگ بات ہے کہ کوئی ایک بھی معاملہ ثابت نہیں ہو سکا۔ بین الاقوامی سطح پر آئی مندی کا ملک نے بڑی خوبی سے مقابلہ کیا لیکن اس کی وجہ سے کچھ چیزیں مہنگی ہو گئیں۔ اس مہنگائی کو بھی حکومت کی ناکامی سے تعبیر کیا گیا۔ پالیسی پیرالائسس نے سرکار کو جکڑ لیا۔ عام آدمی اور میڈیا نے اسے گھیر لیا۔ اس وقت عام آدمی سرکار اور اس کا نظام چلانے والوں کو کھل کر کوس اور گالی بک سکتا تھا۔ لہٰذا میڈیا جو ترقی یافتہ، وائبرینٹ اینڈ شائننگ مانا جاتا تھا، اس نے ان خبروں کو بڑھ چڑھ کر دکھایا۔ میڈیا سے لے کر سوشل میڈیا تک سابق وزیراعظم من موہن سنگھ اور راہل گاندھی کی شبہ کو چور چور کیا گیا۔
پارلیمانی انتخاب 2014 تو ہونا ہی تھا ،اس صورتحال کا فائدہ اٹھا کر بی جے پی نے آر ایس ایس کے ساتھ مل کر دو سطح پر انتخابی مہم کی منصوبہ بندی کی۔ ایک ترقی کا نعرہ، کرپشن سے آزادی، اچھے دن کا خواب، کسانوں کی دوگنی آمدنی، خواتین کی حفاظت، دوکروڑ روزگار، کالے دھن کی واپسی، مہنگائی سے نجات، گوڈ گورننس اور ہر ایک کو پندرہ لاکھ دینے کا وعدہ۔ دوسری بین السطورجو مہم زیادہ وسیع پیمانے پر چلائی گئی، وہ تھی’ ہندو خطرے میں ہے‘، رام مندر وہیں بنانا ہے، مسلمانوں کو سبق سکھانا ہے، بنگلہ دیشیوں، روہنگیوں اور گھس پیٹھیوں کو بھگانا ہے، کشمیر سے دفعہ 370 کو ختم کرنا ہے، پی او کے ہمارا ہے، پاکستان کو اس کی حد میں رکھنا ہے اور اکھنڈ بھارت بنانا ہے۔ بتایاگیاکہ یہ وعدے صرف ایک ہی شخص پورے کر سکتا ہے۔ اسی کو وزیراعظم کا امیدوار بنایا گیا۔ پورے ملک میں وزیراعظم کو جتانے کی مہم چلائی گئی۔ عوام نے مقامی نمائندوں کے بجائے وزیراعظم کو منتخب کرنے کےلئے ووٹ کیا۔ اس کی وجہ سے ایسے ایسے لوگ ممبر پارلیمنٹ بن گئے جو میونسپلٹی کا چناؤ بھی نہیں جیت سکتے۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ مرکز سے لے کر ریاست تک ملک کی سیاست ایک شخص کے ارد گرد سمٹ گئی۔ یہ کیفیت جمہوری نظام کے لئے موزوں نہیں ہے۔
انتخابی مہم میں ترقی کا وعدہ لوگوں کو پسند آیا، انہوں نے بی جے پی کو تاریخی کامیابی سے ہمکنار کیا۔ بین السطور کئے گئے وعدے پورے ہو رہے ہیں۔ سماج بنٹ گیا ہے، قومی یکجہتی’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ کے نعرے میں بدل گئی ہے۔ اعتماد کی جو کڑی ایک دوسرے سے جڑی تھی، اس کو ختم کرنے کےلئے اس نعرے میں ’سب کا وشواس اور جوڑ دیا گیا۔ موب لنچنگ آپ کو یاد ہو یا نہ ہو انڈیا اسپینڈ کی رپورٹ کے مطابق جنوری 2017 سے جولائی 2018 تک ہجومی تشدد میں 69 لوگ مارے جا چکے ہیں۔ 33 واقعات اس دور میں بھی ہو چکے ہیں۔ یعنی جن کو سبق سکھانا تھا، سکھایا جا رہا ہے۔ کپڑوں، ناموں اور کاغذوں سے انہیں پہچانا جا رہا ہے۔ مندر وہیں بن رہا ہے، باوجود اس کے کہ عدلیہ نے مسجد میں مورتیاں رکھنے، مسجد کو شہید کئے جانے کو غیر قانونی مانا ہے، مسجد کے نیچے مندر کے آثار نہ ملنے کی بھی تصدیق کی ہے۔ غیر ملکیوں کو پہچاننے کےلئے سی اے اے اور این آر سی موجود ہے۔ کشمیر اور پاکستان کے معاملہ میں ملک کے تمام عوام ہمیشہ حکومت کے ساتھ رہے ہیں لیکن پھر بھی بار بار اسے پبلک ڈومین میں لا کر سماج میں تفریق پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اب مسلم اکثریتی علاقے لکشدیپ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
رہا انتخابی وعدوں کا سوال تو نہ کسانوں کی آمدنی دوگنی ہوئی نہ معیشت ڈبل۔ البتہ پچھلے ہی سال ملک کے غریب ڈبل ہوگئے۔ مڈل کلاس کی تعداد میں بھی تین کروڑ کی کمی آئی ہے۔ ملک سے کرپشن ختم نہیں ہوا نہ کالا دھن واپس آیا۔ نوجوانوں کو روزگار ملنا تو دور سال 20-2021 میں ڈیڑھ کروڑ اور اس سال 1.19 کروڑ نوکریاں جا چکی ہیں۔ سینئر صحافی پونیہ پرسون باجپئی کے مطابق سات سال کے دوران مرکزی حکومت نے صرف 887335 نوکریاں دی ہیں۔ اگر ریاستوں کے ذریعہ دی گئی نوکریوں کو بھی ملا دیں تب بھی یہ آنکڑا چالیس لاکھ کو پار نہیں کرتا۔ مہنگائی اپنے عروج پر ہے۔ خواتین کی حفاظت اور گورننس کا کیا حال ہے ،یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ پندرہ لاکھ کے بارے میں تو کہہ ہی دیا گیا کہ یہ تو محض چناوی جملہ تھا۔ معیشت نے 41 سال کی سب سے نچلی سطح پر ہے۔ مالی سال 20-2021 میں جی ڈی پی گروتھ نفی میں 7.3 فیصد رہی۔ جبکہ 2014 میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے وقت یہ 7.4 فیصد تھی۔ جس بنگلہ دیش کے لوگوں کو ہم ٹرمائٹ کہتے تھے، آج ہماری فی شخص آمدنی اس سے بھی کم ہے۔ فاقہ کشی میں بھی ہم اس سے نیچے ہیں۔ گلوبل ہنگر انڈیکس 2019 میں 117 ممالک میں بھارت 102 ویں مقام پر تھا۔ بھارت جو قومی اتحاد کی علامت مانا جاتا تھا، اب بری طرح بٹا ہوا ہے۔ سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر پہچان رکھنے والے ملک کو جزوی یا کم جمہوری ملک کہا جا رہا ہے۔ اظہار رائے کی آزادی پر طرح طرح کی پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔ میڈیا کی آزادی کے معاملہ میں بھارت 142 پائیدان پر ہے۔ عدلیہ اور آئینی ادارے جو آزادی کے ساتھ کام کرنے کےلئے مشہور تھے، آج وہ حکومت کی منشاء کے مطابق کام کر رہے ہیں۔
غور کرنے کی بات ہے کہ چند برسوں میں ہم یہاں تک کیسے پہنچ گئے۔ ہمیں بھکتی کی لت کیسے لگ گئی، ہم نے اپنا راستہ کیسے بدل دیا۔ کیا ہمیں گمراہ کیا گیا ہے یا پھر جان بوجھ کر ترقی کا ہائی وے چھوڑ کر جھوٹ، نفرت اور گھٹیا سوچ کی پگڈنڈی پر چل پڑے۔ مصنوعی راشٹرواد، مذہبی شناخت، اقلیتوں سے نفرت اور فرقہ واریت کے نشہ کی جو لت لگائی گئی، وہ اب ہماری زندگی پر مہنگی پڑ رہی ہے۔ نوٹ بندی جس نے ملک کی معیشت کو برباد کر دیا، پہلے 32 دن میں 104 لوگوں کی لائن میں کھڑے کھڑے جان چلی گئی۔ راشٹرواد کی افیم کے نشہ میں چور لوگوں نے حکومت سے نہیں پوچھا کہ نوٹ بندی کی ضرورت کیا ہے۔ اس کی لوجک کیا ہے، اس کا فائدہ کیا ہے۔ آج جبکہ یہ فلاپ ہو چکی ہے ،تب بھی کوئی سوال کرنے والا نہیں ہے۔ آدھی رات کو پارلیمنٹ چلا کر جی ایس ٹی لایا گیا۔ جس سے چھوٹے اور متوسط کاروبار یوں کا دیوالیہ پٹ گیا۔ مگر بھکتی میں اندھے لوگ سوال کرنے کے بجائے تالی بجا رہے تھے۔ جی ایس ٹی اب بھی لاگو ہے کیونکہ قانون بن چکا ہے۔
سی اے اے، این آر سی کے خلاف پورے ملک میں پر امن احتجاج ہو رہے تھے، لیکن نشے میں مست لوگ خوش تھے۔ اس کے بعد آیا لاک ڈاؤن، چار گھنٹہ میں بھارت جیسے وسیع ملک کو بند کر دیاگیا۔ یعنی نوٹ بندی پارٹ ٹووالی کیفیت۔ بیماری سے بچنے کےلئے مان لیاکہ یہ قدم ضروری تھا لیکن بغیر سوچے سمجھے، بغیر کسی منصوبہ بندی کے۔ آدمی جائے کہاں اور کھائے کیا۔ اس کی وجہ سے لاکھوں مزدور سڑکوں پر نکل پڑے۔ جس بیماری سے بچنے کےلئے لاک ڈاؤن کیا گیا تھا، وہ پورے ملک میں پھیل گئی۔ اسی بحران کے دوران پارلیمنٹ میں زرعی بل لاکر پونجی پتیوں کےلئے زراعت میں داخل ہونے کا راستہ صاف کر دیا۔ اس کے خلاف کسانوں کو احتجاج کرتے ہوئے چھ ماہ سے زیادہ کا وقت ہو چکا ہے۔ سب سے بڑا دھوکہ اس وقت ہوا جب کورونا کی دوسری لہر آئی۔ تباہی مچ گئی ،اس دکھ کی گھڑی میں حکومت بالکل لاپتہ رہی۔ لوگوں کو جان بچانے کےلئے آتم نربھر چھوڑ دیا گیا۔ لوگ اسپتال، آکسیجن، بیڈ خود ڈھونڈ رہے تھے۔ آکسیجن، بیڈ کی گوہار حکومت کے بجائے ٹیوٹر پر لگ رہی تھی۔ گنگا کے کنارے ہزاروں لاشیں مل رہی ہیں لیکن عوام اب بھی خاموش ہیں۔ کچھ نہیں کر رہے۔ گھر میں بیٹھ کر جسمانی دوری بنا رہے ہیں۔ حکومت کو مغرور اور ڈھیٹ عوام نے ہی بنایا ہے، اس نے حکمران جماعت کی کٹر سوچ اور توہم پرستی کو نظر انداز کیا۔ آج یہی سوچ پورے ملک کو ڈسنے کو تیار ہے۔ بی جے پی مطمئن ہے کہ ٹھیک ہے کورونا کی دوسری لہر میں عوام کو تکلیف ہوئی لیکن تین سال بعد جائیں گے کہاں، ہمارے پاس ہی آئیں گے۔ سوال کیا جائے گا مودی نہیں تو پھر کون؟ اس مشکل گھڑی میں صرف عوام ہی ملک کو بچا سکتے ہیں۔ سوال کرکے، نفرت کا وائرس پھیلانے والوں کو لتاڑ کر، جھوٹے پروپیگنڈہ کو ٹھکرا کر اور عدلیہ سے مفاد عامہ کے مقدمات کو سننے کی گوہار لگا کر کیوں کہ صرف سپریم کورٹ ہی عام آدمی کے حقوق کو پامال ہونے اور جمہوریت کا گلا گھونٹنے سے بچا سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام اس کے لئے آگے آتے ہیں یا اب بھی بھکتی کے نشے میں مست رہتے ہیں۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔