ہماری تنزلی کی ایک علامت

ڈاکٹرظفرالاسلام خان

۲۵؍ مئی ۲۰۲۱ کو تقریباً ۱۱؍بجے رات ایک صحافی کا فون آیا کہ اس کے ایک رشتہ دار کی الشفا اسپتال میں کورونا سے موت  ہو گئی ہے۔ وہ لوگ بہت غریب ہیں، اسپتال کو ۔۔۔ روپئے کے قریب دے چکے ہیں اور اب بھی ان سے۔۔۔ہزار روپئے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، لیکن ان کے پاس یہ رقم نہیں ہے، کہیں سے انتظام کرا دیجئے یا اسپتال سے کہئے کہ معاف کر دے، ورنہ وہ لاش نہیں لے جانے دیں گے۔ میں نے کہا دیکھتا ہوں۔

فوراً  میں نے اپنے بیٹےسے کہا کہ دیکھو اسپتال کے کسی ذمے دار سے بات کرو کہ ان کو لاش لے جانے دیں اور ہم کل صبح پیسے جمع کرا دیں گے۔ بیٹے نے بات کی اور ایک ذمہ دار نے اسپتال کے عملہ سے کہہ  دیا کہ ان کو  لاش لے جانے دیں۔ کچھ دیر بعد پھران صاحب کا  فون آیا کہ اسپتال والے ان کو ایمبولنس نہیں دے رہے ہیں حالانکہ باہر ایمبولنس کی تین گاڑیاں کھڑی ہیں۔ میں نے پھر اپنے بیٹے سے کہا کہ دیکھو کیا بات ہے۔ تو معلوم ہوا کہ یہ لوگ شہر میں کسی جگہ  نہیں بلکہ بلندشہر لے جانے بات کر رہے ہیں۔ کچھ دیر میں مذکورہ صحافی کا پھر فون آیا کہ ان لوگوں سے ایمبولنس والے بلندشہر جانے کے لئے ۔۔۔ روپئے کا مطالبہ کر رہے ہیں جو ان کے پاس نہیں ہیں، اس کا کہیں سے انتظام کرا دیں۔ پھر میں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ اس رقم کا انتظام کر دو۔ بیٹے نے کہا کہ ایمبولنس والے کو الکٹرانک ٹرانسفر موبائل کے ذریعے کر دیتا ہوں۔ لیکن بات کرنے پر ایمبولنس والے نے بتایا کہ اس کے پاس یہ سہولت نہیں ہے۔ اس پر مذکورہ صحافی سے کہا گیا کہ یہ پیسے ہمارے یہاں آ کر لے لیں کیوں کہ ہم لوگوں کا گھر الشفا اسپتال کے بہت پاس ہے۔ پہلے تو وہ چاہتے تھے کہ کوئی اسپتال آ کر دے جائے، لیکن پھر خود آ کر لے گئے۔ اس وقت تک تقریباً ساڑھے بارہ بجے نصف شب ہو چکے تھے۔ بہرحال دیر رات وہ لوگ اپنی میت کو لے گئے اور یوں یہ مسئلہ ختم ہوا اور اگلے دن الشفا میں ان کی بقیہ رقم ادا کر دی گئی۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس کے بعد ان صحافی حضرت کی طرف سے شکریہ کا ایک فون  یا وہاٹسیپ پیغام تک نہیں آیا!

یہ ہے ہماری قوم کی حالت! اور یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا ہے۔بار بار دیکھنے میں آتا ہے کہ جب ضرورت ہوتی ہے تو  لوگ بار بار تنگ کرتے ہیں اور جب کام ہو جاتا ہے تو پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے ہیں۔ کتنے لوگوں کو ان کی شدید ضرورت کے وقت قرضے سے مدد کی گئی، لیکن  برسوں بعد بھی ان  کی اکثریت کو قرضے ادا کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔  جن لوگوں کو قرضے کے علاوہ امداد دی گئی وہ اس کے علاوہ ہیں۔

ابھی ہفتہ دس دن کی بات ہے کہ جنوبی ہند کے ایک پرچے سے بار بار فون اور ایمیل آیا کہ ان کا پرچہ ایک اہم شخصیت کی وفات پر خصوصی نمبر نکالنے جا رہا ہے، براہِ کرم ان پر ایک مضمون لکھ دیں۔ پہلے تو میں نے کہا کہ بھئی! میں ان کو اتنی اچھی طرح سے نہیں جانتا تھا کہ ان کے بارے میں مضمون لکھ سکوں۔ لیکن ان کا اصرار تھا کہ کچھ بھی ہو، مختصر ہی سہی، ایک مضمون لکھ دیجئے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے اور ایک مناسب مضمون لکھ کر ایمیل سے بھیج دیا اور  احتیاطاً وہاٹس ایپ سے بھی روانہ کر دیا۔ لیکن مجھے اس کی کوئی رسید نہیں ملی! چند دن کے بعد میں نے وہاٹسیپ  کے ذریعے پوچھا کہ بھائی! مضمون مل گیا؟  تو جواب آیا کہ معذرت ہے، رسید بھیجنا بھول گیا! اس سے پہلے بھی کئی افراد اور تنظیموں نے اصرار کر کے ان سے وابستہ شخصیات کے بارے میں مضمون لکھوائے، لیکن پھر برسوں سے خاموشی ہے۔ معلوم نہیں کہ وہ  مضامین چھپے بھی یا نہیں!

یہ ہے ہماری اخلاقی حالت! ایسے میں اگر لوگ ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے ہیں تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ ناشکری اور ناسپاسی کی یہ عادت ہماری تنزلی کا ایک اہم سبب اور ایک علامت ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. محمد یسین پٹیل فلاحی کہتے ہیں

    ڈاکٹر صاحب کا یہ مضمون جہاں ایک عمومی مرض کی طرف اشارہ کرتا ہے جو من لم یشکر الناس لم یشکر اللہ کی الہامی و نبوی تعلیم کے خلاف ہے، وہیں یہ دوسری انتہا کی بھی نشاندہی کرتا ہے جس کے بالمقابل قرآن مجید نے یہ مجلہ و مصفی تصویر پیش کی ہے۔ انما ن علم لوجہ اللہ لا نرید منکم جزاء و لا شکورا۔ جس پہلو کی نشاندہی کی ہے اسے ذاتی مثالوں سے الگ کر کے پیش کیا جانا بہتر ہوتا۔

تبصرے بند ہیں۔