حکیم محمد عبد الرزاق: حیات و خدمات

حکیم شمیم ارشاد اعظمی

حکیم محمد عبد الرزاق کا شمار طب یونانی کے ان عظیم شخصیات میں ہو تا ہے جنھوں نے نہ صرف ہندوستان میں طب کی ترقی اور اس کی نشر واشا عت میں اہم رول ادا کیا ہے بلکہ ہندوستان سے باہر بھی طب یونانی کا پرچم بلند کیا ہے۔ سنٹرل کونسل فار ریسرچ ان یو نانی میڈیسن کا قیام اور پورے ملک میں اس کے مراکز قائم کر نا نیز طب یو نانی کے اندر ریسرچ و تحقیق کی فضا ہموار کرنا حکیم محمد عبد الرزاق صاحب کے اہم اور قابل رشک کارنامے ہیں۔

آپ کا آبائی وطن باباپور، ضلع نظام آباد حیدرآباد ہے لیکن آپ کے والد محمد عبد الرحمان بسلسلہ ملازمت منماڈ (مہاراشٹر)میں مقیم تھے۔ اور نظام ریلوے اسٹیٹ اسکول میں ہیڈ ماسٹر تھے۔ یہیں پر حکیم محمد عبد الرزاق 2؍فروری 1931کو پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم حیدر آباد میں اپنی ہمشیرہ کے گھر پر رہ کر آل سینٹ ہائی اسکول سے دسویں کلاس تک حاصل کی۔ انٹر میڈیٹ کی تعلیم کے لیے سٹی کالج میں داخلہ لیا لیکن والد صاحب کی خواہش پر ریلوے میں اپرنٹس شپ کے لیے جوائن کیا۔ یہاں زیادہ دن ٹہر نہیں سکے اور طب کی تعلیم حاصل کر نے کے لیے دہلی آگئے۔ 1951 سے 1954تک طبیہ کالج قرول باغ میں رہ کر طب کی تعلیم مکمل کی اور ڈی آئی ایم ایس کی ڈگری حاصل کی۔ دہلی کے زمانے سے ہی لکھنے پڑھنے اور تحریکی مشاغل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ طبیہ کالج قرول باغ میں 1951-1952 میں اجمل میگزین جو کہ برسوں سے بند پڑی تھی اپنی کوششوں سے دو بارہ نکالااور 1953۔ 1954میں اجمل میگزین کے انگلش سیکشن کے ایڈیٹر بنے۔ 1955-1954 میں ہاؤش فیزیشین بنائے گئے۔ مزید تعلیم حاصل کر نے کے لیے ستمبر 1964کو امریکن یونیورسٹی آف بیروت چلے گئے لیکن مالی تعاون(Financial Support) نہ ملنے کے باعث واپس لوٹ آئے۔

حکیم محمد عبد الرزاق کاطالب علمی کے زمانہ ہی سے ہمدرد دواخانہ، دہلی سے جزوقتی تعلق رہا۔ تکمیل تعلیم کے بعد ہمدرد دواخانہ میں مستقل ملازم ہوئے اور حکیم عبدالحمید کے طبیب پیشی کے طور پر کام شروع کیا۔ جنوری 1958 کوہمدرد کلینک میں میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ ہمدرد نرسنگ ہوم کے منصوبہ اور اس کے قیام کے سلسلہ میں آپ کی کوششوں کو دخل رہا، اسی طرح حکیم عبد الحمید صاحب کے منصوبے ادارہ تاریخ و تحقیق طب کا لائحہ عمل تیار کر نے میں بھی آپ ساتھ ساتھ تھے۔

1964 میں مرکزی وزارت صحت میں یونانی فارماکوپیا کمیٹی کی تشکیل کی گئی اور حکیم عبدالرزاق کا سینئر ریسرچ آفیسر کی حیثیت سے تقرر عمل میں آیا۔ وزارت صحت میں اس وقت تک یونانی کا کوئی عہدہ قائم نہیں ہوا تھا۔ حکیم عبدالرزاق اس عہدہ کے لیے ہر طرح موزوں ثابت ہوئے۔ انھوں نے اپنی اہلیت اور لیاقت سے وزارت صحت میں وہ مرتبہ حاصل کیا، جوآپ کے ہم منصب دوسرے عہدہ داروں کو حاصل نہیں تھا۔

1975میں آپ مرکزی وزارت صحت میں یونانی کے ڈپٹی ایڈوائزرمقرر ہوئے۔ طب یونانی کی ترقی اور فروغ کے لیے آپ نے ہر ممکن کوشش کی۔ 1969میں انڈین سسٹم آف میڈیسن کومزید فعّال بنانے، ریسرچ و تحقیق کے میدان میں آگے بڑھنے اور اسے ترقی دینے کے لیے سنٹرل کونسل فار ریسرچ ان انڈین میڈیسن اینڈ ہومیوپیتھی قائم کی گئی تھی۔ 1978میں اس کونسل کو مختلف طبوں کے لحاظ سے تقسیم کر دیا گیا اور آیورویدک و سدھا، یونانی، یوگا و نیچر کیور اور ہومیوپیتھی کی چار علاحدہ علاحدہ کونسلیں قائم ہوئیں۔ اس طرح 1979میں سنٹرل کونسل فار ریسرچ ان یو نانی میڈیسن کا قیام عمل میں آیا۔ حکیم عبدالرزاق ڈپٹی ایڈوائزر رہتے ہوئے اس خودمختار یونانی کونسل کے پہلے ڈائرکٹر بنے۔ یونانی کونسل کی ترقی حکیم عبدالرزاق کی انتھک کوششوں کی رہین منت ہے۔ آج ہندوستان کے مختلف شہروں میں کونسل کی جو یو نٹیں اور علاقائی تحقیقی مرا کز قائم ہیں، حکیم عبد الرزاق صاحب کی شبانہ روز کاوشوں کا نتیجہ ہیں۔

حکیم عبدالرزاق نے نہ صرف ملکی سطح پر طب یونانی کے لیے قابل ستائش کام انجام دیئے، بلکہ بین الاقوامی سطح پر طب یونانی کی اہمیت و افادیت تسلیم کرانے کی بھر پور کوشش کی ہیں۔ 1987 میں آپ نے دہلی کے ہوٹل تاج پیلیس میں سہ روزہ عالمی یونانی سمینار منعقد کرایا۔ اس میں پچیس ممالک کے مندوبین نے حصہ لیا۔ اس سمینار نے نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرونی ملکوں میں طب یونانی کے وقار میں اضافہ کیا۔ یہ سمینار عالمی ادارہ صحت کے تعاون سے کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ عالمی ادارہ صحت(WHO )کے نمائندہ کی حیثیت سے آپ نے کوریا، سری لنکا، جنیوا، سعودی عرب اور امریکہ کا دورہ کیا۔ حکومت بنگلہ دیش کی دعوت پر وہ متعدد بار بنگلہ دیش گئے۔ انھوں نے ایران اور کویت کے سفر کیے اور وہاں کی حکومتوں کو یونانی طب کی طرف توجہ دلانے کے لیے ایک جامع منصوبہ پیش کیا۔ کویت سے واپسی کے بعد آپ نے ایک رپوٹ پیش کی جسے 1977 میں Report on Arab Medicine and The Satate of Kuwait کے نام سے شائع کرایا۔ کویت میں آپ ہی کی مساعی سے یو نانی انسٹی ٹیوٹ قائم ہوا، اس کے پہلے ڈائریکٹر کے طور پرحکیم عبد الوہاب ظہوری کا تقرر عمل میں آیا تھا۔

حکیم عبدالرزاق 1985میں سنٹرل کونسل آف انڈین میڈیسن کے ممبر نامزد کیے گئے۔ وہ یونانی کمیٹی کے چیرمین اور کونسل کے وائس پریسیڈنٹ منتخب ہوئے۔ 1986میں آپ صدر جمہوریہ کے معالج مقرر کیے گئے۔ صوبہ جموں و کشمیر کی یونانی ترقیاتی کمیٹی، اسی طرح بنگال اور کرناٹک کی یونانی ترقیاتی کونسلوں کے چیر مین رہے۔ آپ کی کوششوں سے ان ریاستوں میں یونانی طب کی ترقی کے لیے اقدامات کیے گئے۔ 1960میں ملکوٹے کمیٹی آئی ایس ایم آندھرا پردیش کے یو نانی اکسپرٹ بھی رہے۔

حکیم محمد عبد الرزاق نے طبی سیاست میں بھی قدم رکھا اور بہت ایمانداری، لگن اور خلوص کے ساتھ کام کرتے رہے۔ آپ آل انڈیا یونانی طبی کانفرنس کے جوائنٹ سکریٹری رہے اور تا حیات اس کانفرنس سے وابستہ رہ کر تنظیم کو فعّال بنایا۔ کونسل کی کانفرنس کے اجلاس کو کامیاب بنانے میں آپ کا کافی تعاون رہتا تھا، اجلاس کہیں بھی اور کسی بھی موسم میں ہو، حالات سازگار ہو ں یا نا موافق اجلاس میں حاضری ضرور ہوتی تھی۔

آپ کے اہم کارناموں میں معالجاتی تحقیق، ادویہ کی معیار بندی پر تحقیق،ادویاتی پودوں کے سروے کے ساتھ علمی تحقیق بھی قابل ذکر ہے۔معالجاتی تحقیق میں بہت سی نئی اور مزمن بیماریوں پر تحقیقی کام شروع کرایا۔برص،نزلہ مزمن،ضیق النفس،وجع المفاصل،حمیٰ آجامیہ، داء الفیل،التہاب کبد،ذو سنطاریہ معوی، قرح معدہ و اثنا عشری،ذیابطیس شکری، جرب و حکہ،اسہال اطفال، نارفارسی، سیلان الرحم،کالازار وغیرہ معالجاتی تحقیق کی روشن مثالیں ہیں۔ برص(Vitiligo)، نار فارسی(Eczema) اور داء الصدف (Psoriasis)جیسے مزمن امراض پر تحقیق مکمل ہوئی اور A Success Story کے نام سے ان پر علاحدہ علاحدہ مونو گراف شائع ہو چکے ہیں۔

ادویہ کی معیار بندی(مرکبات ادویہ) پر طب یو نانی کی تاریخ میں پہلی بارمیں حکیم محمد عبد الرزاق ؒ کی نگرانی اور منصوبے کے مطابق اہم کام شروع کیا گیا۔نیشنل فار مولری آف یو نانی میڈیسن میں چار سو چالیس(440)مرکب دواؤں کے معیارات پر کام کیا گیا اور تین سو(300)فار مولیشن کے معیارات کو تین جلدوں میں فزیو کیمیکل اسٹنڈرڈس آف یو نانی فار مولیشن کے نام سے شائع کیا گیا۔مفرد دواؤں کے معیار پر دو جلدیں اسٹنڈرڈس آف سنگل یو نانی ڈرگس کے نام سے شائع ہو چکی ہیں۔
ادویاتی پودوں کی کاشت اور سر وے کے تحت ہندوستان کے مختلف جنگلات میں کام کا آغاز کرایا۔میڈیسنل فلورا پر کئی ریاستوں میں کام ہوا انہیں بعد میں کتابی شکل میں شائع کیا گیا۔جیسے علیگڈھ فلورا، گولیار فلورا وغیرہ۔دواؤں کی شناخت، کاشت اور ان کے کلیکشن کا کام بھی شروع کرایا۔بعض دواؤں کی تجرباتی کاشت کی گئی مثلاً اطریلال، گلنار فارسی اور اصل السوس وغیرہ اس سلسلہ کی اہم کڑیاں ہیں۔

علمی تحقیق کے تحت طب یو نانی کی قدیم اور نادر و نایاب کتابوں اور مخطوطات کے ذخیرہ اور تدوین، تحقیق و ترجمہ پر بیت الحکمت کی طرز کا عظیم منصوبہ بنایا۔اس منصوبہ کے تحت اہم اور مفید طبی کتب و مخطوطات کے اردو زبان میں تراجم کیے گئے۔ابن رشد کی کتاب الکلیات، ابن بیطار کی الجامع لمفردات الادویہ و الاغذیہ (دو جلد)، ابن القف کی کتاب العمدہ فی الجراحت(دو جلد)، ابو عبید جر جانی کی آئینہ سرگزشت، ابن زہر کی کتاب التیسیرفی المداوۃ والتدبیر، محمد بن زکریا رازی کی کتاب الحاوی فی الطب اور کتاب المنصوری، ابن ابی اصیبیعہ کی عیون الانباء فی طبقات الاطباء(دو جلد) شائع ہوچکی ہیں۔ کتاب الحاوی فی الطب، معالجات بقراطیہ اور الجامع لمفردات کی تمام جلدیں شائع ہوچکی ہیں۔

تصانیف

طب کی اہم اور نادرکتب ومخطوطات کے تراجم و اشاعت کے ساتھ آپ کو تصنیف و تالیف کا بھی ذوق تھا۔ طب کے مختلف مو ضوعات پرمضامین و مقالات،خطبات تحریر کر نے کے علاوہ چند کتا بیں بھی تالیف فر مائی ہیں۔ جیسے

1۔ حکیم شکیل احمد شمسی حیات و خدمات

ٍٍ 2-Hakim Ajmal Khan the Versatile Genius

3.Report on Arab Medicine and The Satate of Kuwait

4- Unani System of Medicine in India- A Profile

4۔ طب یو نانی میں مانع حمل ادویہ

5۔ طب یونانی میں مستعمل گھریلو ادویہ

تبصرے بند ہیں۔