خواتین کی شخصیت و قدر شناسی

8؍مارچ عالمی یوم خواتین کے موقع سے ۔

علی شاہد دلکش

خالق کائنات کی شاہکار تخلیق انسان ہے مگر کائنات کا حقیقی حسن خاتون(عورت) ہے۔ کائنات میں رنگ و نور خاتون کے وجود سے ہے۔ وسیع کینوس میں خواتین، انسانی تہذیب کی بانی ہیں۔ واضح ہو کہ تہذیب کی ترقی میں خواتین کا رول انتہائی اہم ہے کہ ان کے ہی دم سے معاشرے میں خوبصورتی اور نفاست کا عنصر ِ احساس جا بجا ملتا ہے۔ معروف شاعر ارشد محمود راشد نے اس لطیف نکتے کو یوں شعری لبادہ عطا کیا ہے:

بنایا ہے مصور نے حسیں شہکار عورت کو

الگ پہچان دیتا ہے کہانی کار عورت کو

مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مرد کی پسلی سے عورت کا وجود مُتَعامِل ہے۔ حدیث شریف(مشکاۃ، ص: 280) کے مطابق رحمت اللعالمین کی وصیت ہے کہ عورت تمہاری اوپر کی پسلی سے پیدا کی گئی ہے۔ ان کے ساتھ نرمی اور بھلائی کا معاملہ اختیار کریں۔ غالباً اسی خاطر خواتین کو صنفِ نازک بھی گردانا جاتا ہے۔ چشم بینائی سے کام لیں تو آفاق کی اس کارہ گری میں صنف ِ نازک کا کردار ناگزیر اور ناقابل ِ فراموش ہے۔ خلوت سے جلوت تک کی ساری رونقیں حسنِ زن کے دم سے ہی ہیں۔ ازل سے ہی پوری کائنات میں خوشنمائی کی ابتدا و بقاء  نسوانی رنگ پر مبنی ہے۔ بقول معروف شاعر منیر نیازی:

 شہر کا تبدیل ہونا شاد رہنا اور اداس 

رونقیں جتنی یہاں ہیں عورتوں کے دم سے ہیں

شعوری طور پر عورت عزت ہی عزت ہے۔ یہ والدین کے لیے باعث ِ فخر ہے، بھائیوں کے لیے باعث ِ عزت، شوہر کے لیے دنیا کا قیمتی سرمایہ ہے تو اولاد کے لیے عمدہ نمونہ۔ لہذا ہر رنگ میں خواتین تحسین ہیئات ہیں۔  عورت کے وجود کے بغیر ایک گھر کیا! پوری کائنات کا رنگ پھیکا پھیکا سا ہے۔  تب ہی تو شاعر مشرق علامہ اقبال نے (ضرب کلیم، ص:92) زیر نظر شعر کہا:

وجودِ زن سے ہے تصویر ِ کائنات میں رنگ 

اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں

عورتوں کا تذکرۂِ احترام و عزت کبھی ماں کی شکل میں، کبھی محبوبہ کی شکل میں تو کبھی عورت کی جفاکشی اور دلبری پہ داد و تحسین کی رو سے مزید ان کی شجاعت و بہادری کا عکس کی رسائی کے لیے ہم علامہ اقبال کے شعر سے یوں محظوظ ہو سکتے ہیں:

 مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن

 اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطون

  عورت کی شناخت مرد سے نہیں ہوتی، عورت کا وجود اس کا اپنا ہے۔ خاتون مرد ہی کی جنس سے ہے۔ صنف نازک بیٹی کی شکل میں ہو تو رحمت، ماں کی شکل میں ہو تو برکت اور بشکل بیوی ہمت ہے۔ بلاشبہ لفظ عورت اپنے اندر قدرت کی تمام تر رعنائی، دلکشی اور نزاکت لیے ہوئے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو خصائص ِ نرم و نازک عطا کر نرم گفتار اور معصوم بنایا ہے۔ جب مالک ِ دو جہاں نے عورت کی خلقت کو ٹھانی تو فرشتوں نے پیار و ایثار کی مٹی میں خلد کے وفاؤں کے پانی سے خمیر تیار کیا۔ مزید اس میں صبر و تحمل اور برداشتہ پیمانے سے ملایا تب جا کر نرم و گداز اور نزاکت سے پرُ پیکر ِ عورت کی ساخت تشکیل ہوئی۔ پھر اللہ نے اس کی روح میں معصومیت اور حساسیت بھر دی۔ اس طرح عورت کا وجود دنیا میں آیا۔ ساتھ ہی اللہ نے عورت کو ماں بنایا اور اس کے قدموں تلے جنت بھی رکھ دی۔ بہن بنایا اور بھائیوں کی عزت و آبرو کی چادر اوڑھائی۔ بیوی بنا کر شوہر کی غم گسار اور شریک حیات بنایا۔ بیٹی بنا کر باپ کا فخر و مان بنایا۔ اس پیرائے میں معروف شاعر شکیل جمالی کا پیش نظر شعر یاد آ رہا ہے:

وہ ماں ہو، بہن، بیوی یا کہ بیٹی ہو سنو لوگو

ہر اک کردار میں رکھا گیا غم خوار عورت کو

عورت ہر روپ میں محبت ہی محبت ہے۔ پیار ہی پیار ہے، ماں ہے تو پیار بھری گود، ممتا کا احساس، بہن ہے تو الفت بھری نوک جھوک، بیوی ہے تو محبت بھرا ساتھ اور بیٹی ہے تو التفات سے بھرا احساس۔ متذکرہ باتوں کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ خدا نے سارے عالم کو خلق کرنے کے بعد اس کی آرائش و  زیبائش کے لیے خاتون کی ذات کو بنایا۔ بقول معروف شاعر عبدالحمید عدم:

خدا نے گڑھ تو دیا عالم وجود مگر

سجاوٹوں کی بنا عورتوں کی ذات ہوئی

خاتون کی مرہونِ منت دیگر کئی انکشافات و دریافت ہیں۔ دلیل کے طور پر آثارِ قدیمہ کے ماہرین نے نشاندہی کی ہے کہ زراعت کی دریافت عورت ہی کی ہے۔ اس نے لکڑی کے ذریعے زمین کھود کر ان میں بیج ڈالے جو پودوں کی شکل میں سامنے آئے۔ خاتون، خدا کا بہترین تحفہ ہے۔ مذہب اسلام نے اسے تحت الثریٰ سے نکالنے کے بعد اعلی مقام عطا کر جنت کا ضامن بنا دیا۔ جبکہ اسلام سے قبل عورت کی حالتِ زار نا قابلِ بیاں تھی۔ غیر اسلامی تہذیبوں میں خاتون کی بے حد حق تلفی ہوئی۔ رومیوں نے خواتین کو جانور کا مقام دیا۔ یہودی اسے انسان نما حیوان سمجھتے رہے۔ 582ء میں کلیسا نے یہ فتویٰ دیا کہ عورتیں روح نہیں رکھتیں۔ زمانۂِ جاہلیت میں اہل عرب صنف نازک کو زندہ درگور کرتے رہے۔ غیر حسِ تہذیب میں بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی جلا بھی دیا جاتا تھا تو کبھی بیوہ عورتوں کو ‘ستی’ کے رواج میں آگ میں پھینکا جاتا تھا۔ اسی تناظر میں معروف شاعر حبیب جالب نے کیا خوب کہا:

تو آگ میں اے عورت زندہ بھی جلی برسوں

سانچے میں ہر اک غم کے چپ چاپ ڈھلی برسوں

ایک زمانے تک ملک عرب برائیوں کی آماجگاہ تھا۔ اسی لیے رب العالمین نے وہاں اپنے حبیب رسولِ اکرم کو بشکل رحمت اللعالمین بناکر بھیجا۔ عرب معاشرے میں متعدد برائیوں میں ایک سطحی برائی عورتوں کے خلاف شدید منافرت بھی تھی۔ گھر میں عورت کے وجود کو مرد اپنی توہین سمجھتا تھا۔ لیکن جب عرب کی سر زمین پر اسلام دھرم کا سورج طلوع ہوا تو اس سے عورت کی تاریک زندگی میں بھی روشنی کی بارش ہونے لگی۔ اسلام نے عورت کو وہ حقوق دیئے جن کا زمانۂ جاہلیت میں تصور بھی ناممکن تھا۔ اسلام نے جنسِ اناث کی ولادت سے لے کر آخر عمر تک اسے محترم قرار دیا ہے۔ عورت کا فطری تقدس اور اس کی نسوانی حرمت صرف اسلام کے قلعہ میں محفوظ ہے۔ اسلام نے خاتون کو آبگینہ قرار دیا ہے اور اس آبگینہ کی حفاظت کا ہر ممکن معقول ترین انتظام کر رکھا ہے۔ اسلام نے عورت کی حیا اور پاکدامنی کا خیال کرتے ہوئے بیت اللہ میں طواف اور سعی کے درمیان انہیں دوڑنے سے  بعید رکھا ہے۔ دین اسلام نے خواتین کی فطرت و نزاکت کا خیال کرتے ہوئے باآواز بلند آذان واقامت مزید آمین بالجبر کہنے سے روک رکھا ہے۔ مذہب اسلام نے عورت کو حقِ وراثت عطا فرمایا تاکہ عورت معاشی ضروریات کی تکمیل کے لیے کسی کی دستِ نگر نہ ہو۔ اس کے علاوہ اسلام نے بہن، بیٹی، خالہ،دادی اور نانی کی حیثیت سے بھی عورت کو حقوق سے نوازا۔ اسلام وہ واحد مذہب ہے جس نے عورت کو ہر حقوق عطا کیا۔ اسلام نے عورت کو ذلت و پستی سے نکال کر شرف ِ انسانیت بخشا۔ زیستِ خواتین میں ماں ہونا اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ ماں کی عظمت و حرمت اور اسکی ممتا کی تقدیس کے پس منظر میں برصغیر کے معروف و مشہور شاعر منور رانا کے زیر نظر شعر سے محظوظ ہوں:

چلتی پھرتی ہوئی آنکھوں سے اذاں دیکھی ہے 

میں نے جنت تو نہیں دیکھی ہے ماں دیکھی ہے

حسنِ زن، اس کی نازک صنفی خصائص اور اس کے تئیں اختیار کیے جانے والے مرد اساس سماج کے رویوں مزید دیگر پہلوؤں کا احاطہ کرنے پر نیز اس کتھا کے مختلف رنگوں کو قرطاسِ زندگی پہ عملی طریق سے بکھیرنے کے بعد ماں کی عظمت کے حوالے سے عورت کی قدر شناسی احسن طریقے سے ہو سکتی ہے۔ نپولین بنا پارٹ نے کہا تھا:

"تم لوگ مجھے بہترین مائیں دو، میں تمہیں بہترین قوم دونگا۔”

بظاہر جملہ تو بہت سادہ سا ہے مگر بہت گہری بات کہی۔ اس میں ایک بہترین قوم کا لائحہ عمل بتایا گیا ہے۔ اچھی قوم اچھی ماں سے ہی ممکن ہے۔ جو سماج کی تشکیل میں کلیدی رول ادا کرتی ہے۔ کیونکہ اچھا خاندان ملک کے لیے ایک اثاثہ ہوتا ہے۔ لہذا عورت نسلِ نوکی معمار ہے۔ ماں کی بے مثال اختصاص، ایثار اور فداکاری کو معروف شاعر عباس تابشؔ کے زیر نظر بین السطور دو مصرعوں میں کیا خوب شعری پیرہن عطا کیا ہے:

 ایک مدت سے مری ماں نہیں سوئی تابشؔ

میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے

چونکہ اللہ تعالی بہترین منصف ہے اور وہ اپنے بندوں کے عمل نیز ان کے کرب کی نوعیت کو بھی جانتا ہے۔ لہذا نو ماہ کی کرب و صعوبتوں کو صبر و تحمل سے برداشت کرنے والی اپنی نازک مخلوق کے پیروں تلے جنت سا انمول تحفہ رکھ دیا۔ اس وجہ کر عورت کے رتبے اور تقدس میں لا تمثیل اضافہ ہوا مزید قدرے درجات بلند ہوئے۔ عورت کو رب العزت نے یہ مخصوص مقام دے کر ان کی تکریم میں اضافہ کیا۔ آزاد کشمیر کے معروف شاعر نسیم چغتائی کا یہ شعر بھی قابلِ قدر ہے:

 اس کے جیسا تو جہاں میں کچھ نہیں 

ماں کے جیسی تو کوئی نعمت بھی نہیں

خواتین کی ذات میں ماں حوا، بی بی ہاجرہ، حضرت خدیجہ، سیدہ فاطمہ اور سیدہ زینب سلام اللہ علیہما کی روشن ضمیری نیز اسلامی ادب میں رابعہ بصری سے جُڑی بے شمار روحانی کرامات کے آئینے میں شکیل جمالی کا یہ شعر دیکھیں:

ابھی روشن ہوا جاتا ہے رستہ 

وہ دیکھو ایک عورت آ رہی ہے

خواتین کی شخصیت، اہمیت اور ان کی قدر شناسی کے تئیں ”عالمی یوم خواتین’‘ بین الاقوامی طور پر ہر سال 8/ مارچ کو منایا جاتا ہے۔ اس کا مقصد خواتین کی قدر و اہمیت کو آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں میں خواتین پر تشدد کی روک تھام کے لیے اقدامات کرنے کے لیے ترغیب دینا بھی ہے۔ واضح ہو کہ دنیا بھر میں عورتوں پر ہو رہے ظلم و تشدد کو عالمی جرم قرار دیتے ہوئے اقوام عالم کی تنظیم کے تحت خواتین پر تشدد کے خلاف آواز بلند کرنے کا عالمی دن ”یوم عدم تشدد” ہر سال 25/ نومبر کو منایا جاتا ہے، جو یقیناً دیگر ایام کی طرح محض خالی خولی اخباری بیانات اور تصویری اشتہارات تک ہی محدود ہوتا ہے اور سوائے نمود و نمائش کے عملاً کچھ بھی نہیں۔ ورنہ آئے دن بچیوں کی عصمت دری، خواتین پر ہجومی تشدد، گینگ ریپ، عبادت گاہوں میں پیشواؤں کے ذریعے خواتین کی عزت و عصمت کی پامالی اور تعلیم گاہوں میں اسکارف، برقع و حجاب پر پُرتشدد ہنگامہ آرائی کے معاملات نہیں ہوتے۔ انسانیت کو شرمسار کر دینے والے ایسے ایشوز پہ عالمی تنظیم، دنیا کے ممالک پر نظر رکھتے ہوئے کوئی سخت فیصلہ ضرور لیتی۔

نظامِ کائنات کو فاطرِ کائنات نے اس اصول پر بنایا ہے کہ اس کے تمام اجزاء و عناصر ایک دوسرے کے لئے محتاج اور محتاج الیہ بن گئے۔ ٹھیک اسی اصول پر عورت اور مرد، دونوں مساوی ہیں لیکن دونوں کے اعمال اور  حدود الگ الگ ہیں۔ معاشرے کا حفظ و بقاء اور حسنِ نظام اسی میں مضمر ہے کہ دونوں کو یکساں عزت و احترام کا مستحق سمجھا جائے۔ یہ بات طشت از بام ہے کہ جدید دور میں خواتین مردوں کے شانہ بہ شانہ چل رہی ہیں۔ آج صنف نازک محض استانی، نرس اور ڈاکٹر ہی نہیں بلکہ اسپورٹس پرسن، پائلیٹ، سپاہی، پروفیسرز، انتظامی اعلی کار، آئی ایس، آئی پی ایس جیسے اعلیٰ آفیسرز اور وزیر مملکت کی اہم ذمہ داریاں بھی خوب نبھا رہی ہیں۔

مندرجہ بالا مقصود الذکر باتوں اور دلائل کی روشنی میں یہ امر ہمیں باور کراتا ہے کہ مذکورہ بالا نکتے خاتون کی شخصیت، ان کی قدر شناسی اور تہذیبی عمل کا حصہ ہیں اور عورتوں کے اس پہلو کو تاریخ میں قاعدے سے لانے کی ضرورت ہے۔ ورنہ عورت کے کئی روپ ہیں۔ کہیں خواتین رضیہ سلطانہ اور جھانسی کی رانی بن کر ابھر سکتی ہیں تو کہیں درگا اور کالی کی روپ اختیار کر سکتی ہیں مزید جب ضرورت آن پڑے تب موجودہ کرناٹک، بنگلور کی دلیر اور جانباز ‘مسکان’ کی شکل میں نمودار بھی ہو سکتی ہیں۔ اول الذکر اور ثانی الذکر پورے تناظر میں معروف شاعر فرحت زاہد کے زیر نظر شعر پر اپنا قلم روک رہا ہوں:

عورت ہوں مگر صورت کہسار کھڑی ہوں 

ایک سچ کے تحفظ کے لیے سب سے لڑی ہوں

تبصرے بند ہیں۔