دفعہ 497 کو ختم کرنے کے خطرناک نتائج
محمد ریاض منچریال
یا رب مجھے محفوظ رکھ اس بت کے ستم سے
میں اس کی عنایت کا طلب گار نہیں ہوں
حال ہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے دیپک شرما کی صدارت میں جو فیصلہ سنایا ہے وہ کچھ اس طرح ہے کہ بیوی شوہر کے تابع نہیں ہے اور نہ ہی شوہر پر بیوی کا کوئی حق ہے, اگر کوئی شوہر غیر عورت کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرے تو بیوی کو روکنے کا حق ہی نہیں بلکہ ایسی صورت میں شوہر بیوی پر کیس بھی کر سکتا ہے اسی طرح بیوی اگر کسی غیر مرد کے ساتھ جنسی تعلقات قائم رکھے تو شوہر نہ ہی اس کو روک سکتا ہے بلکہ باز پرسی کرنے پر بیوی اس کو جیل کے سلاخوں کے پیچھے بھیج بھی سکتی ہے یہ تھا "نئے قانون” کا خلاصہ۔
حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی
خدا کرے کہ جوانی تری رہے بے داغ
اب ہم ذرا اس معاشرے کی طرف بھی نظر ڈالتے چلیں جس معاشرے سے اس دفعہ کو ہٹایا گیا ہے, یہ معاشرہ اگر چہ اخلاقی اعتبار سے کتنا ہی گرا ہوا کیوں نہ ہو مگر شوہر اور بیوی میں سے ہر ایک کو دوسرے پر مکمل یقین اور اعتماد حاصل ہے,ہر ایک کو دوسرے کے ضروریات کا خیال ہمیشہ سنوار رہتا ہے, اب اس معاشرے پر اس کا کیا اثر پڑے گا اس کو بھی ذرا ملاحظہ کرتے ہوئے چلتے ہیں, یہ بات کہتے ہوئے ذرا بھی جھجک محسوس نہیں ہوتی کہ اس قانون سے ان بدمعاش اور درندہ صفت حیوانوں کی خوشی میں اضافہ ہی ہوا ہوگا جو یہ کام در پردہ کرتے ہیں, لیکن ان عصمت پسند خواتین و حضرات کے لئے یہ قانون کسی قیامت صغری سے ہرگز کم نہیں ہے, کیوں کہ یہ وہ لوگ ہیں جو کسی کو بھی اس طرح ملوث دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے ہیں تو اب جب ان کے سامنے انہیں کے خاندان میں انہیں کے گھر میں یہ ہوتے ہوئے دیکھ کر وہ کیسے برداشت کر سکتے ہیں؟ اور ایسے لوگوں کی تعداد ہندوستان میں بہت بڑی ہے, اب وہ ان کو قانونی طور سے نہیں روک سکیں گے تو وہ خود قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر ان کو اس حرکت سے باز رکھنے کی کوشش کریں گے, اگر خدا نہ خواستہ یہ صورتحال ان کے قریبی لوگوں میں ہوگا تو وہ عزت و شہرت کے خاطر ہر دو کو موت کے گھاٹ اتار دیں گے, اور اگر یہ حرکت شوہر یا بیوی میں سے کسی نے کیا ہے تو ہر دو کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جائیں گے, اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک یا کسی ایک کا خاندان بڑا اور پورفل ہوگا تو دوسرے کو موت کے دہانے پر پہنچا کر ہی دم لیں گے, یا کم از کم یہ ہو گا کہ جو کمزور ہوگا وہ خودکشی کرکے اپنے آپ کو اس گندے قانون والی تہذیب سے ہمیشہ کے لئے محفوظ کرلے گا۔
یہ تو تھیں وہ خرابیاں جس کا معاشرے پر اثر پڑیگا, اگر ہم ذرا اس کی قانونی حیثیت پر بھی نگاہ ڈالیں تو اس میں بے حساب جھول نظر آئیں گے مثلا وہ یہ ہے کہ حکومت مغربی ممالک سے صرف انہیں قوانین کو کیوں اخذ کر رہی ہے جس میں معاشرے کی خرابی ہے, ان قوانین کو کیوں نہیں لے رہی ہے جس میں قوم و ملت کا فائدہ ہوگا جیسے مغربی ممالک میں تعلیم کا انتظام ہے یا معمر حضرات کے لئے وظیفہ, یا گرین کارڈ والوں کے لئے جو سہولیات دی جاتی ہیں وغیرہ وغیرہ, ان کو یہاں کیوں نہیں لایا جاتا؟
اس سلسلہ میں سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ لگتا ایسے ہے جیسے حکومت اپنی عدالتوں کو کیسوں سے فل رکھناچاہتی ہے کیونکہ اس نئے قانون سے کیسوں میں ہزار گنا اضافہ ہو گا جس سے حکومت کو مالی منافع ہوگا۔
ان قانون بنانے والوں کے ذہن میں یہ رہنا چاہئے تھا کہ معاشرہ میں عورت مرد کے تابعدار تھی نہ کہ ملکیت اور عورت کو مصنوعی آزادی دلانے کے نام پر شہوانی غلام بنایا جارہا ہے,اگرچہ ہندوستان میں لوگوں کے مذاہب مختلف ہیں مگر تہذیب پاک اور صاف ہے , کسی کے نزدیک بھی یہ قانون ہرگز قابلِ برداشت نہیں ہے, ابھی بھی وقت ہے کہ حکومت اس پر نظر ثانی کرے,اور اس کی ترمیم و تجدید کرے۔
اب ہم ذرا مذہب اسلام کو بھی دیکھتے چلتےہیں کہ جس نے ہر موڑ پر انسانیت کی رہنمائی کی ہے,ہم قرآن سے پوچھتے ہیں کہ تو ہی بتا کہ ہم اس معاشرہ میں زندگی کیسے گزاریں تو قرآن کہتا ہے:
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا(سورۃ الاحزاب ٥۹)
ترجمہ :اے نبی اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے مونہوں پر نقاب ڈالا کریں، یہ اس سے زیادہ قریب ہے کہ پہچانی جائیں پھر نہ ستائی جائیں، اور اللہ بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔
اس آیت کے نزول کا مقصد ہی یہ ہے کہ کے جو اسبابِ بے حیائی ہیں ان کو کلی طور پر ختم کر دیا جائے جیساکہ خوبصورت الفاظ, لطیف اندازِ مسکراہٹ, نشیلی آنکھیں, جسم و جلد کا رنگ, بال بنانے کا نرالا انداز, چشم و ابرو کی اشارہ بازی, جسم و جان کی کنایہ سازی, چست اور فٹ لباس, بھڑک دار خوشبو اور پر تکلف اندازِ تکلم وغیرہ وغیرہ,یہی وہ چیزیں ہیں جن سے پیار و محبت, دلچسپی اور لگاؤ کے آغاز کا باعث بنتے ہیں, اسلام نے مکمل پردے کا حکم نازل فرما کر ان ساری چیزوں کو جڑ سے ہی ختم کردیا, یہ اسلام کا عورتوں کے ساتھ ناانصافی نہیں ہے بلکہ یہ پردہ تو عورت کی حفاظت کا ضامن ہوتا ہے,گندی اور شہوانی نظروں سے حفاظت کا ذریعہ ہوتا ہے, یہی تو وجہ ہے کہ موجودہ زمانے میں غیر مسلم عورتیں بھی بازاروں میں نکلنے سے پہلے کم از کم چہرہ کو ڈھانپ لیتی ہیں مگر کچھ لوگ ایسے ہیں کہ عورتوں کو نسوانی آزادی کے نام پر شہوانی اور عریانی غلام بنانے کی مسلسل کوشش و جد وجہد میں لگے ہوئے ہیں۔
اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئ احادیث مبارکہ میں حیا اور پاک دامنی کا حکم فرمایا :الحیاء من الایمان والایمان فی الجنۃ والبذاء من الجفاء والجفاء فی النار۔ ( ترمذی :1928) حیا ایمان میں سے ہے اور ایمان( یعنی اہل ایمان ) جنت میں ہیں ۔ اور بے حیائی بد ی میں سے ہے اور بدی ( والے ) جہنمی ہیں ۔ آپ ﷺ کا ایک ارشاد ہے کہ:ماکان الفحش فی شئی الا شانہ وماکان الحیاء فی شئی الا زانہ۔( ترمذی:1893)بے حیائی جب کسی میں ہوتی ہے تو اسے عیب دار بنائے گی۔ اور حیا جب بھی کسی چیز میں ہو گی تو اسے مزین اور خوبصورت ہی کرے گی۔اور ایک اہم ترین ارشاد کہ : الحیا شعبۃ من الایمان۔ حیا ایمان کا ( اہم ترین ) شعبہ ہے۔ (بخاری:9)آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا:اذالم تستحی فاصنع ماشئت۔( بخاری:3248) جب تم میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کرو۔ان ارشادات میں بڑی تاکید کے ساتھ آپ ﷺ نے حیا کی تعلیم دی اور حیا کے ساتھ مزین ہونے کا حکم دیا۔اور جولوگ بے حیائی کو فروغ دینے کی کوشش کرتے ہیں ان کے بارے میں قرآن کریم میں سخت وعید بیان فرمائی, ارشاد ربانی ہے :
اِنَّ الّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ فِیْ الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْم ٌ فِیْ الدُّنْیَا وَ الْآخِرَۃِ وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ (سورۃ النور : 19)
بے شک جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیلے، ان کے لئے دنیا اور آخرت میں درد ناک عذاب ہے۔
اور خد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہترین حیا اور پاک دامنی کا ماحول قائم کیا تھا اور صحابہ نے اس کی حفاظت کی اور بعد کے لوگوں نے بھی اس قلعہ کی حفاظت کی ہے, اب ہماری باری ہے کہ اب ہم معاشرے میں پاکدامنی کو فروغ دیں اور اس معاشرے کی برائیوں کو جڑ سے ختم کریں۔
کرنے کے اہم کام :
اب ہمارے معاشرے کی سدھار کے لئے چند تدابیر پر عمل کرنا از حد ضروری ہے:
(1) مخلوط تعلیم سے قوم کی بچیوں کی حفاظت کی جائے اور غیر مخلوط تعلیمی نظام کو لانے کی بھرپور کوشش کریں۔
(2) جو لڑکیاں اسکولوں اور کالجوں میں زیرِ تعلیم ہیں,انہیں پڑھنے کے لیے بہترین اسلامی کتابیں فراہم کی جائیں۔
(3) ہر قسم کی دوستیوں سے اجتناب کیا جائے,خاص طور سے غیر مسلم لڑکوں اور لڑکیوں سے مکمل قطع تعلق کریں۔
یہ تو قوم کی نوجوان بچیوں کے لئے کچھ ہدایات تھیں, لیکن ان ساری چیزوں سے بڑھ کر کچھ اور چیزوں کو بجا لانا از حد ضروری ہے ورنہ چراغ تلے اندھیرا کے مثل ہوگا:
(1) گھروں میں والدین بچوں اور بچیوں کو دین کی باتیں بتلائیں ,اور زندگی کے ہر موڑ پر میں پند و نصائح سے اولاد کو آراستہ و پیراستہ کریں,صرف لاڈوپیار کر کے اولاد کے مستقبل کو تاریک نہ کریں,ان کے اندر حیا و پاکدامنی کا جذبہ پیدا کریں,ہر روز گھر میں کوئی مسلم دینی کتاب پڑھ کر سب کو سنائیں۔
(2) عورتیں گھروں میں دینی ماحول پیدا کریں,نماز,روزہ وغیرہ کو پابندی سے ادا کریں, اور چغل خوریوں اور غلط بیانیوں سے اپنے آپ کی مکمل حفاظت کریں۔
(3) خاص طور سے بچیوں کی ضروریات کا زیادہ خیال رکھیں, اور انہیں حد سے زیادہ یقین دلائیں کہ سرپرست اور والدین ان کی ہر جائز ضرورت کو مکمل کرنے کے لیے تیار ہیں۔
اللہ سے دعا بگو ہوں کہ اللہ تعالی قوم کی حفاظت کرے اور مسلم معاشرہ سے خرابیوں کو دور کرے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔